آغا شورش کاشمیری کی دو تحریروں سے اقتباس
اب قادیانی امت کی استعماری تیکنیک (Strategy)یہ ہے کہ وہ استعمار کے حسبِ منشا پاکستان کی ضرب تقسیم میں حصہ لے کر سکھوں کے ساتھ پنجاب کو علیحدہ قادیانی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ اس غرض سے عالمی استعمار اس کی پشت پناہی کررہا ہے، اور وہ اس کے لیے مختلف ملکوں میں جاسوسی کے فرائض انجام دے رہی ہے۔ اس کی جاسوسی کا جال وسیع ہوگیا ہے۔ اس غرض سے اس نے اسرائیل کے گردو پیش حجاز و اردن میں فضائیہ وغیرہ کی تربیت کے لیے نہ صرف قادیانی پائلٹ بھجوائے ہیں بلکہ ان ملکوں میں استعماری کاروبار جاری رکھنے کے لیے ہر سال ڈاکٹروں، انجینئروں اور نرسوں کی ایک بڑی کھیپ بھیجی جا رہی ہے۔ پاکستان میں کوشش کرکے اُن بڑے ہسپتالوں میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ قادیانی لگوائے جارہے ہیں جہاں ہر سال لڑکیاں بھرتی کی جاتی ہیں، چنانچہ لاہور کے میو ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ جی این جنجوعہ قادیانی مقرر ہوا ہے۔ واضح رہے کہ میو ہسپتال لاہور پشاور سے لے کر حیدرآباد تک نرسوں کا سب سے بڑا تربیتی مرکز ہے۔ اس پس منظر میں جنجوعہ کے لیے پوری قادیانی مشینری نے زور دے کر یہ جگہ حاصل کی ہے۔
اُدھر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مرزائی پاکستان بننے پر خوش نہ تھے اور نہ پاکستان بننے کے حق میں تھے۔ مرزا محمود نے پاکستان بننے سے تین ماہ پہلے خطبہ دیا تھا، ملاحظہ ہو: ’’ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم رضامند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے، اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح پھر متحد ہوجائے۔‘‘(الفضل 16مئی 1947ء)
5 اگست 1947ء کے الفضل میں خلیفہ ثانی کی ایک دوسری تقریر درج ہے، فرماتے ہیں کہ: ’’بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں باہم شیر و شکر ہوکر رہیں۔‘‘
مرزا صاحب نے قادیان میں رہنے کے بہتیرے جتن کیے۔ کوشش کی کہ پاپائے روم کے مقدس شہر ویٹی کن کا مقام قادیان کو مل جائے، لیکن جب کوئی بیل منڈھے نہ چڑھی تو ایک انگریز کرنل کی رپورٹ پر حواس باختہ ہوکر کیپٹن عطاء اﷲ کی معیت میں بھاگ کر لاہور آگئے۔ میجر جنرل نذیر احمد آپ کے ہم زلف تھے، ان کے ساتھ جیپ میں سوار ہوکر نکلنے کا پروگرام تھا، لیکن سکھوں کی مار دھاڑ کے خوف سے قبل از وقت نکل آئے اور چوری چھپے جان بچائی۔ یہاں پہنچ کر مرزا صاحب نے قادیان میں مراجعت کے رویاء اور خواب بیان کرنا شروع کیے اور پروگرام بنایا کہ:
۱……تقسیم کی مخالف قوموں سے گٹھ جوڑ کرکے قادیان کسی نہ کسی طرح حاصل کیا جائے۔۲…… کشمیر کے کسی حصے پر اقتدار حاصل کیا جائے۔۳…… پاکستان کے کسی علاقے کو قادیانی صوبے میں تبدیل کیا جائے۔
بظاہر یہ تین مختلف اور شاید ایک نازک حد تک متخالف ’’محاذ‘‘ تھے لیکن اصلاًحصولِ اقتدار کا مربوط سلسلہ تھا جو مرزا محمود احمد کے نہاں خانۂ دماغ میں پرورش پا رہا تھا۔
جسٹس منیر نے 1953ء کے واقعات سے متعلق مسلمانوں سے مرزائیوں کی نزاع پر جو رپورٹ لکھی ہے اس کے صفحہ 196 پر درج ہے کہ: ’’1944ء سے لے کر 1947ء کے آغاز تک احمدیوں کی بعض تحریروں سے منکشف ہوتا ہے کہ وہ برطانیہ کا جانشین بننے کے خواب دیکھ رہے تھے، وہ نہ تو ایک ہندو دنیاوی حکومت یعنی ہندوستان کو اپنے لیے پسند کرتے تھے اور نہ پاکستان کو منتخب کرسکتے تھے۔‘‘ (’’عجمی اسرائیل‘‘ آغا شورش کاشمیری)
قادیانیت کی عالمی استعماریت کا منصوبہ
ظفراﷲ خاں، ایم ایم احمد اور عبدالسلام تینوں ہی پاکستان سے باہر لندن کی جلوہ گاہ میں رہتے اور واشنگٹن کے اشارۂ ابرو پر رقص کرتے ہیں۔ قادیانی ہائی کمانڈ نے1971ء کے انتخابات میں پاکستان کے اسلامی ذہن کو اسرائیل کے روپے کی طاقت پر سبوتاژ کیا، اور اس کے بعد سے ملک کے غیر اسلامی ذہن کی معرفت، پاکستان کی معاشی و عسکری زندگی پر قابض ہورہے ہیں۔ یورپ کی نظریاتی و استعماری طاقتیں نہ تو اسلام کو بطور طاقت زندہ رکھنے کے حق میں ہیں اور نہ اس کی نشاۃ ثانیہ چاہتی ہیں۔ ہندوستان کی خوشنودی کے لیے پاکستان اُن کی بندر بانٹ کے منصوبے میں ہے۔ وہ اس کو بلقان اور عرب ریاستوں کی طرح چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے سامنے مغربی پاکستان کا بٹوارہ ہے۔ وہ پختونستان، بلوچستان، سندھو دیش اور پنجاب کو الگ الگ ریاستیں بنانا چاہتی ہیں۔ ان کے ذہن میں بعض سیاسی روایتوں کے مطابق کراچی کا مستقبل سنگاپور اور ہانگ کانگ کی طرح ایک خودمختار ریاست کا ہے۔ خدانخواستہ اس طرح تقسیم ہوگئی تو پنجاب ایک محصور (Sandwitch) صوبہ ہوجائے گا۔ جس طرح مشرقی پاکستان کا غصہ مغربی پاکستان میں صرف پنجاب کے خلاف تھا، اسی طرح پختونستان، بلوچستان اور سندھودیش کو بھی پنجاب سے ناراضی ہوگی، پنجاب تنہا رہ جائے گا تو عالمی طاقتیں سکھوں کو بھڑکا کر مطالبہ کرا دیں گی کہ مغربی پنجاب ان کے گوروؤں کا مولد، مسکن اور مرگھٹ ہے، لہٰذا ان کا اس علاقے پر وہی حق ہے جو یہودیوں کا فلسطین (اسرائیل) پر تھا اور انہیں وطن مل گیا۔ عالمی طاقتوں کے اشارے پر سکھ حملہ آور ہوں گے۔ اس کا نام شاید پولیس ایکشن ہو۔ جانبین میں لڑائی ہوگی لیکن عالمی طاقتیں پلان کے مطابق مداخلت کرکے اس طرح لڑائی بند کرا دیں گی کہ پاکستانی پنجاب، بھارتی پنجاب سے پیوست ہوکر سکھ احمدی ریاست بن جائے گا، جس کا نقشہ اس طرح ہوگا کہ صوبے کا صدر سکھ ہوگا تو وزیراعلیٰ قادیانی۔ اگر وزیراعلیٰ سکھ ہوگا تو صدر قادیانی! اسی غرض سے استعماری طاقتیں قادیانی امت کی کھلم کھلا سرپرستی کررہی ہیں۔ بعض مستند خبروں کے مطابق سر ظفر اﷲ خاں لندن میں بھارتی نمائندوں سے پخت وپُز کرچکے ہیں۔ قادیانی اس طرح اپنے نبی کا مدینہ (قادیان) حاصل کرپائیں گے جو ان کا شروع دن سے مطمح نظر ہے، اور سکھ اپنے بانی گرونانک کے مولد میں آجائیں گے۔ یہی دونوں کے اشتراک کا باعث ہوگا۔ قادیانی عالمی استعمار سے اپنی ریاست کا وعدہ لے چکے ہیں، اور اس کے عوض عالمی استعمار کے گماشتے کی حیثیت سے اسرائیل کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے وہ مسلمانوں کی صف میں رہ کر عرب ریاستوں کی بیخ کنی اور مخبری کے لیے افریقہ کی بعض ریاستوں میں مشن رچا کے بیٹھے ہیں۔ اور حیفا (اسرائیل) میں حکومتِ یہود کے مشیر برائے اسلامی ممالک ہیں۔ وہ پاکستان میں حکمران جماعت کے ہاتھوں سرحد و بلوچستان کی نمائندہ جماعت کو پٹواکر پنجاب و سندھ میں اسلامی ذہن کے قتلِ عمد سے موعودہ استعماری صوبے کی آبیاری کررہے ہیں۔ اور اس وقت طاقتوں کی معرفت اسرائیل اور ہندوستان کے آلۂ کار ہیں، اور یہ ہے ان کا سیاسی چہرہ، جس سے ان کا داخلی وجود ظاہر ہوتا ہے۔
(آغا شورش کاشمیریؒ مرحوم کی ایک تاریخی تحریر)