قسط: ۲
تحریر: عکرمہ نجمی/ ترجمہ: صبیح ہمدانی
اوپر مرزا صاحب کی جو تکفیری عبارت منقول ہوئی اور جس طرح جماعت احمدیہ نے اس کو تحریف اور جعل سازی کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی اس کے ایک مزید ثبوت کے طور پر ’’تذکرہ‘‘ کے انگریزی ایڈیشن سے بھی شواہد دستیاب ہوئے۔ یعنی عربی تذکرہ کی صفحہ ۶۶۲ کی عبارت ’’لقد کشف اﷲ علیَّ أن کلَّ من بلغتہ دعوتی ولم یصدِّقنی فلیس بمسلم، وہو مؤاخذ عند اﷲ تعالی‘‘ یعنی اﷲ نے مجھ پر کھول دیا ہے کہ جس شخص تک میری دعوت پہنچی اور اس نے میری تصدیق نہیں کی وہ مسلمان نہیں ہے اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں مأخوذ ہے۔ ’’تذکرہ ‘‘ کے انگریزی ایڈیشن کو اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں سے بھی تحریف کرتے ہو ئے یہ عبارت حذف کر دی گئی ہے: https://www.alislam.org/library/books/Tadhkirah.pdf اس لنک سے کتاب کو ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس ’’وحی‘‘ سے پچھلی وحی بھی موجود ہے اور اس سے اگلی وحی کو بھی درج کیا گیا ہے مگر اس تکفیری عبارت کو سرے سے ہی حذف کر دیا گیا ہے!۔ کیا کوئی شخص اس تحریف و جعل سازی کی کوئی توجیہ پیش کر سکتا ہے؟
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جماعتِ احمدیہ مرزا صاحب کی وہ صورت دکھانا چاہتی ہے جو اصل نہیں ہے۔ (شاید مرزا صاحب کی اصل صورت غیر متأثر کن ہے۔ـت) نیز یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جماعت احمدیہ یا تو تحریف و تکفیر کی جماعت ہے یا پھر منافقت اور تحریف کی جماعت۔
جماعتِ احمدیہ اور وصیت کا نظام:
ان کے خلیفہ ثانی محمود بن مرزا کا کہنا ہے:
’’مسیح موعود نے فرمایا : جو وصیت نہیں کرتا وہ منافق ہے‘‘ (منہاج الطالبین، انوار العلوم، ج:۹، ص:۱۶۶)
جماعت میں وصیت کے نظام کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اس نظام سے منسلک ہوگا وہ اپنی کل آمدن اور جمیع ملکیت کا دس فیصد جماعت کے حوالے کرنے کا پابند ہو جائے گا۔ بعض صورتوں میں یہ تناسب تیس فیصد تک جا پہنچتا ہے۔ (اگر وصیت میں شریک ہونے والے شخص کا گھر یا غیر منقولہ جائیداد بھی ہو تو اس کے ذمے ہوتا ہے کہ اس کا دسواں حصہ جماعت کے نام باقاعدہ رجسٹری کرائے، عام طور جماعت احمدیہ ترغیب اور تشویق دیتی ہے کہ وصیت کرنے والا شخص اپنی زندگی میں ہی غیر منقولہ جائیداد کی قیمت لگوا کر اس کا دسواں حصہ نقدی کی شکل میں جماعت کے حوالے کر دے، خواہ ماہانہ قسطوں میں خواہ یکمشت، اور اس معاملے کو وارثوں پر نہ چھوڑے، اس لیے کہ عام طور پر ورثا جماعت کی پرواہ نہیں کرتے اور قسطیں با قاعدگی سے ادا نہیں کرتے)
بہر حال ترجمہ کرنے والے ……منصف…… صاحب نے اس کا ترجمہ ایسے کیا: ’’من لا یشترک فی نظام الوصیۃ ففیہ نفاق‘‘ (منہاج الطالبین: ص:۲۵)یعنی ’’جو شخص نظامِ وصیت میں شرکت نہیں کرتا اس میں نفاق پایا جاتا ہے‘‘۔ قارئینِ گرامی! ’’وہ منافق ہے‘‘ اور ’’اس میں نفاق پایا جاتا ہے‘‘ ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہ تحریف کی ایک واضح مثال ہے، اس لیے جماعت کے شائع کردہ ترجموں کو دقت نظر سے ملاحظہ کر کے ایسی تحریفات کی نشاندہی کرنا ضروری ہے۔
ان کے خلیفۂ ثانی نے مزید کہا: ’’ انھوں نے (مرزا قادیانی نے ) وصیت کی مقدار کو بھی متعین طور پر دس فیصد ٹھہرایا، اور یہ مقدار اس یومیہ صدقات و چندوں کے علاوہ ہے جو گاہے بگاہے دیے جاتے ہیں‘‘۔ (منہاج الطالبین، ص: ۲۵)
مطلب ہوا کہ ہر وہ احمدی جو اپنی آمدنی کے دس فیصد سے زیادہ مقدار کو چندے کے طور پر نہیں دیتا وہ منافق ہے۔ اب احمدی دوستوں سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ان کے چندے آمدنی کے دس فیصد سے زیادہ ہوتے ہیں یا نہیں؟
واضح رہے کہ یہ دس فیصد بچت میں سے یا ضرورت سے زائد مال میں سے نہیں نکالا جائے گا، نہ اس مال پر ایک سال گزرنا ضروری ہے، بلکہ مجموعی آمدن کا دس فیصد دینا مطلوب ہے۔ یعنی جس شخص کی تنخواہ مثلا ایک ہزار ڈالر ہے اس کے ذمے میں ہے کہ دسواں حصہ سب سے پہلے نکال کر جماعتِ احمدیہ کے حوالے کرے۔ اس کے بعد گھر کا کرایہ ، پانی بجلی کا بل اور بلدیہ کے ٹیکس وغیرہ کی باری آئے گی۔ یعنی پہلے وہ ایک سو ڈالر جماعت کو دے، باقی بچے نو سو ڈالر، ان میں سے اگر پانچ سو گھر کا کرایہ ہے تو وہ نکال کر باقی چار سو ڈالر اس کے ہیں۔ اس کو ہر گز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی ضروریات سے بچت کیے گئے مال کا دس فیصد چندہ میں دے، مثلاً قادیانی شریعت میں یہ نا جائز ہو گا کہ پہلے وہ پانچ سو ڈالر گھر کا کرایہ نکالے، پھر سو ڈالر یوٹیلٹی بلز میں ادا کرے اور باقی بچنے والے چار سو ڈالر کا دس فیصد جماعت کو بطور چندہ جمع کرائے، کیونکہ اس صورت میں جماعت کو صرف چالیس ڈالر ملیں گے۔ اور اس صورت حال کو بانیٔ سلسلہ اور ان کے بعد ان کی جماعت بالکل برداشت نہیں کر سکتے۔ اب جو شخص ایسے نہیں کرتا وہ منافق ہے، اور جو اس گناہ اور اس منافقت پر خاموش رہتا ہے وہ جماعت کا خیر خواہ اور امانت دار نہیں ہو سکتا۔
شاید یہاں پر ذکر کرنا مناسب ہو کہ کبابیر (مصنف کے آبائی شہر۔ـت) کی جماعت کے ناظم مالیات نے ایک بار مجھ سے کہا کہ پورے کبابیر شہر میں وہ لوگ جو اپنی آمدن سے صحیح تناسب کے ساتھ چندہ ادا کرتے ہیں ان کی تعداد دس افراد سے زائد نہیں ہے۔ ان صاحب نے نام بنام ایسے کئی احمدی افراد کا ذکر کیا جن کی مالداری اور پر عیش طرزِ زندگی مشہور و معروف ہے اور بتایا کہ انھوں نے کبھی ۱۵۰ شیکل (اسرائیلی سکہ، تقریباً چالیس امریکی ڈالر کے برابر)سے زائد چندہ نہیں دیا۔ درانحالیکہ ان کے پاس جما جمایا کارو بار ہے ، ان کے کئی مکانات ہیں جنھیں وہ مہنگے داموں کرائے پر چڑھاتے ہیں اور ان کے گھروں میں نئے ماڈل کی گاڑیوں کی قطاریں جھمجھماتی ہیں۔اسی طرح ان ناظم صاحب نے ایسے بھی کئی افراد کا ذکر کیا جو ایک سے زائد جگہ ملازمت کرتے ہیں یا ملازمت کے ساتھ ساتھ کار و بار بھی چلاتے ہیں اور وہ دونوں آمدنیوں میں سے کمتر آمدنی کے حساب سے جماعت کو چندہ دیتے ہیں۔ تا کہ ان کو کم چندہ دینا پڑے اور تا کہ جماعت کو ان کے دوسرے ذریعۂ آمدن کے بارے میں پتہ نہ چل سکے۔
یہاں پر برطانیہ میں مقیم احمدیوں کا حال بھی ملاحظہ کیجیے، برطانوی حکومت کم آمدنی والے اور بے روزگار افراد کو ان کے ذاتی اور عیال کے احوال کے مطابق ہر ماہ گزارہ الاؤنس دیتی ہے۔ جس کی حقیقت صدقہ اور چیرٹی ہی ہے تا کہ غریب اور بے وسیلہ لوگوں کی مدد ہو سکے اور وہ زندگی کی گاڑی کو دھکیل سکیں۔ اب جماعت احمدیہ کیا کرتی ہے؟ جماعت اپنے بے روز گار اراکین کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس گزارہ الاؤنس کے صدقے میں سے بھی دس فیصد جماعت کو لازمی طور پر ادا کریں۔ اگر کوئی احمدی شخص جماعت سے کوئی دستاویز لینا چاہے، مثلا نکاح وغیرہ کے لیے، تو جماعت دست تعاون واپس کھینچ لیتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے ذمے تمام چندے ادا کردے ۔ جاری ہے