شاہ عالم گورکھپوری
اب سے تقریباً دو سو سال قبل ہندوستان میں انگریزوں اور عیسائی پادریوں نے عیسائی حکمرانوں کے تعاون سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر خفیہ سازشوں کا ایک جال بچھایا اور اپنی خفیہ تدبیروں میں کامیابی کے زعم میں انھیں یقین ہوگیا تھا اب مسلمانوں کو نصرانی بنانے میں کوئی دقت نہیں پیش آسکتی ۔ ایسے وقت میں خدائے عزیز و حکیم نے اسلام اورمسلمانوں کی دستگیری کے لیے جن خوش بخت شخصیات ؒ کو کھڑا کیا تھا؛ان میں سے ایک کا نام جواد ساباطی ؒہے جن کی عیسائیوں کے خطرناک منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے تالیف کی گئی شاندار کتاب کا نام ’’ البراہین الساباطیہ ‘‘ ہے ۔
جواد ساباطیؒ کی ولادت،بمقام ماریہ ۱۷۷۴ء میں ہوئی ۔ جوادؒکے والد محترم ابراہیم ساباطی ،عثمانی سلطنت کے وزیر عبد اﷲ پاشا ترکی کی وزارت کے زمانے میں ماریہ شہر( قدیم زمانے کے اس شہر کا جدید نام تا ہنوز دریافت نہیں میرے علم میں نہیں آیا) کے حاکم تھے لیکن جواد کی ولادت کے پانچ سال کے بعد وہ ایک معرکہ میں شہید ہوگئے ۔ابراہیم ساباطی کے ایک قدرداں مسلمان نے معمولی سا وظیفہ ابراہیم کے اہل خانہ یعنی جواد اور ان کی والدہ کے لیے مقرر کیا تھا ؛اسی سے روٹی کا ٹکڑا اور بدن کا کپڑا میسر آتا تھا۔جواد کی والدہ نے بڑی تنگی و عسرت کی زندگی بسر کرکے اپنے لخت جگر کی بھرپور اسلامی تربیت کی اور اس کو لائق و فائق اور ذی علم انسان بنایا ۔ علم و فضل سے آراستہ جواد نے ابھی جوانی میں قدم رکھا ہی تھا کہ۲۱ برس کی عمر میں والدہ ’’شہر بانو ‘‘کا بھی سایہ ٔ عاطفت سر سے اٹھ گیا جس کے بعد جواد نے سیر وسیاحت کواپنا مشغلہ بنالیا ۔اُس زمانے میں سیر و سیاحت بھی حصول علم کا ایک معقول ذریعہ ہوا کرتا تھا ۔اسی دوران جواد نے ہندوستان کا بھی سفر کیا اور اس سفر میں اسلام کی ایسی بے لوث خدمت انجام دی کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے اب تک قاصر ہے۔
ہندوستان میں اسلامی تاریخ کا یہ وہ عظیم سپوت ہے جس نے تن تنہا ،نہ صرف یہ کہ عیسائیت و نصرانیت کی کمر توڑ کر رکھ دی بلکہ مفسد اور مادیت پرست عیسائی حکومت اور حکمرانوں کے اسلام مخالف خفیہ منصوبہ بندیوں کو بھی خاک میں ملا دینے کی عجیب وغریب اور عبرت آموزتاریخ رقم کی ہے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی ؒ نے ماہنامہ معارف اعظم گڑھ جلد ۲۱ شمارہ نمبر ۴ ؍اپریل ۱۹۲۸ء میں’’ ہندوستان میں تیرہویں صدی ہجری میں عیسائی مشن کا ایک عرب حریف ‘‘ کے عنوان سے جواد ساباطی ؒکے تاریخی کارناموں کا نقشہ کھینچتے ہوئے جو کچھ رقم فرمایا ہے ، اہل علم اور علماء کو چاہیے کہ اس کو بغور پڑھیں اور اس باب میں اپنے خلوص وعمل کا جائزہ لیں۔اس مضمون کو جناب مولانا عتیق احمد قاسمی بستوی مدظلہ نے ’’ ازالۃ الشکوک ‘‘ کے تازہ ایڈیشن میں بھی شامل کیا ہے۔ اس طویل مضمون کا خلاصہ راقم سطوراپنے انداز میں ہدیۂ ناظرین کرتا ہے، اس امید میں کہ ممکن ہے کہ پھر کوئی جواد ساباطی پیدا ہواورتاریخ ایک بارپھر اپنے آپ کو دہرائے ۔ بلاشبہ اس بہادر فرزند اسلام نے جو خدمت انجام دی ہے وہ وقت کی سب سے بڑی خدمت تھی لیکن ا س سے پہلے یہ بتا دینا مناسب ہوگا کہ وہ کون سے اسباب تھے جن کی بنا پر اس خاص خدمت کا انتخاب کیاگیا اور اس کی انجام دہی کا خیال جواد کے دل میں پیدا ہوا ۔ جواد نے اس کو خود اپنے الفاظ میں ذکر کیا ہے ۔
جوادؒ نے لکھا ہے کہ اپنے اسفارِ سیر وسیاحت میں مجھے نظر آیا کہ پادریوں نے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے جو رخنے مسلمانوں کے دین میں ڈالے اور مذہب پر جو رکیک حملے کیے ہیں،ان کا توڑ دریافت کرنے کی کسی کو فکر نہیں ہے۔نجد، حرمین، جزیرہ، عجم ، مصر یمن وغیرہ ہر جگہ اہل اسلام اور علماء میں ایک جمود و تعطل ما حول ہے ۔میں اپنی سیاحت کے دوران ہندستان پہنچا، وہاں کثیر التعداد علماء کا بھی یہی حال پایا ۔کم لوگ ایسے ملے جو نقصان کی تلافی کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔اِدھر یہ حال ہے کہ ہندوستان کی عنان حکومت عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے۔مسیحی پرچارکوں نے حکومت کے تعاون سے بڑے وسیع پیمانے پر ایک جمعیت قائم کر رکھی ہے جس کا نام ’’ برٹش اینڈ فارنر بائیبل سوسائٹی‘‘ ہے اس کی زیرنگرانی ، عالم اسلام میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً انصاف و اعتدال کے سارے حدود توڑکرمسیحیت کا پرچار بڑے زور وشور سے ہورہا ہے ، مالابار، مدراس ،بنگالہ کے ایک لاکھ غیر مسلم حلقہ بگوش مسیحیت ہوچکے ہیں لیکن ان کے مذہبی رہنماؤں کو کوئی فکر نہیں۔ اسی طرح دس ہزار فرزندان اسلام بھی آغوش اسلام سے بچھڑ کر عیسائیت کے دام فریب میں جاچکے ہیں۔ان حالات کے مطالعہ سے میرے دل میں اسلام کا درد پیدا ہوا ، میں نے سوچاکہ اگر میں نے مسلمانوں کو اس حالت پر چھوڑ دیا تو معلوم نہیں کیسی بد سے بدتر حالت ہوجائے گی ۔( البراہین الساباطیہ ص ۳)
جواد کو یہ بات مناسب معلوم ہوئی کہ جس گھر کو آگ لگانی ہے اس میں اگر اسی کے چراغ سے آگ لگے تو بہتر۔ چنانچہ انھوں نے کسی بڑے انگریز کے ہاں ملازمت کرلی۔ جواد کی خدمت سے انگریز آفیسرکچھ اس طرح خوش ہوا کہ اس نے سفارش کرکے اسحاق پٹن نامی ایک مقام کے قاضی کا عہدہ ان کودلوادیا۔ جواد ساباطی کو اب کسی قدرمعاش اور ماحول کا اطمینان حاصل ہوگیا تو کوشش کرکے انگریزی زبان سیکھنی شروع کردی ۔ پھر انھوں نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ ملت اسلامیہ سے انحراف ظاہر کرکے ۱۲۱۵ھ مطابق ۱۸۰۱ء میں مدراس پہنچ گئے اور انجیل کا عربی ترجمہ کرنے کی خدمت اپنے ذمہ لے لی تاکہ عرب بھی انجیل مقدس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ اس کام میں وہ دس سال تک لگے رہے اور ترجمہ انجیل کے بہانے سے مسیحیوں کے مکرو فریب کا پردہ چاک کرنے کی تیاری کرتے رہے ۔ ان کی طرف سے جو اعتراضات و الزامات گھڑے جاتے اُن کے بے تکے پن کی جانچ کے لیے عیسائی پادریوں سے بحث و مباحثہ کرکے حقیقت حال تک پہنچتے بھی رہے ۔
اسی دوران ایک مسلمان کو اپنے کام میں معاون بناناچاہا بلکہ اس شوق میں خودہی اس کو سرکاری نوکری دلوائی لیکن وہ دین فروش نکلا اور اس نے مخبری کردی اب جواد کو جان کا خطرہ محسوس ہونے لگا ۔ اس خطرہ سے نمٹنے کے لیے بارہ سال کے بعد وطن واپسی کے لیے جہاز میں سوار ہوگئے لیکن رفیق سفر سے ناراضگی کے سبب درمیان میں ہی جہاز لنگر انداز ہونے پر اتر کر کسی دوسرے جہاز کا انتظار کرنے لگے ۔ ایک رات یونہی پڑے پڑے اپنی روانگی سے متعلق سوچ رہے تھے کہ یکا یک کسی نے آواز دی ؛ جواد ساباط ! ’’ حاضر ہوا‘‘ کہہ کر یہ اٹھے ،دروازہ کھولا تو مبہوت رہ گئے کہ یہاں تو کوئی آدمی نہیں ۔ دفعۃً پھر آواز آئی ؛ جواد ساباط ! وطن جانے کا خیال محال چھوڑ دو ، جس کام کو شروع کیا ہے جب تک اس کی تکمیل نہ کرلوگے گھر پہنچنا ممکن نہیں ‘‘ آواز تو آتی لیکن بولنے والے کا نشان جب نہیں ملا تو جواد نے سمجھا کہ یہ صدائے غیب ہے ۔چنانچہ پھر بنگال واپس ہوئے اور سابقہ عمل سے جڑ کر اپنے کام کو بڑی جانفشانی سے پایہ تکمیل پہونچایا ۔
چونکہ عیسائیوں کو پہلے ہی شک ہوچکا تھا ، لہذا ان سے مدد لینا خارج از امکان تھا۔ دو تین مسلمانوں کے علاوہ کسی سے ایسا تعلق بھی نہیں تھا لہذا ایک محدود حلقۂ احباب کے سوا کوئی ساتھ دینے والا بھی نہ تھا ، لیکن مواد جب تک شائع نہ ہو تو اس کا فائدہ ہی کیا؟ ، اس کے لیے انھوں نے یہ نظم کیا کہ اپنی تنخواہ سے ایک معقول رقم جمع کرکے خود ہی اپنا ایک ذاتی پریس قائم کیا اور گھر میں چھپ چھپ کر اس کتاب کو چھاپنا شروع کیا ۔ اس دوران بھی ان کو کئی آزمائشیں پیش آئیں ، بعض نمک حراموں نے مخبری شروع کردی ، بعض ملازموں نے ساتھ چھوڑدیا مگر جواد ؛ ہمت نہیں ہارے ۔سنگ سازی پلیٹ سازی سے لے کر کتاب کی جلد سازی تک خود ہی ساراکام کرتے اور متعلقہ تمام اخراجات اپنی جیب سے پوری کرتے رہے یہاں تک کہ ۱۸۱۲ء میں چھ سو نسخے کتاب کے تیار کردیے اور ان تمام نسخوں کو یہ لکھ کر مفت تقسیم کرادیاکہ یہ کتاب خدا واسطے وقف ہے نہ بیچا جائے اورنہ اس کو مطالعہ کرنے والے اور نقل کرنے والے کو روکا جائے ۔ تقسیم کتاب کی تفصیل کتاب میں اس طرح درج ہے ۔ ۱۰۰ نسخے حرمین شریفین ، نجد و حجاز میں ۔ ۱۰۰ نسخے ایران و ماوراء النہر میں ۔ ۵۰ نسخے یمن میں ۔ ۱۵۰ نسخے بصرہ بغداد دجلہ اور جزیرہ کے مقامات میں ۔ ۵۰ نسخے استنبول میں ۱۰۰ نسخے ہندوستان میں ۔
غور کرنے کی بات ہے کہ ماں باپ کا سر پر سایہ نہیں ؛ غریب الوطنی میں جبکہ کوئی مددگار نہ ہو اور دشمنوں کے نرغے میں آدمی گھرا ہوا ہو ، ان حالات میں خدمت دین کا ایسا صادق جذبہ بیدار ہونا ، اڑھائی سو صفحات کی کتاب تیار کرنا، اس کی اشاعت کے لیے اس زمانے میں اپنی پوری آمدنی خرچ کردینا جب کہ طباعت کا کام نیا نیا تھا اشاعتی اخراجات بہت زیادہ تھے اور تن تنہا چھ سو نسخے تیار کراکے مفت تقسیم کرانا…… بلکہ ضرورت کی جگہوں پر خود بھیجوانے کا نظم کرنا اور اس طرح کہ دشمنوں کو بھنک بھی نہ لگے ۔ اﷲ اکبر! اس مرد مجاہد نے کتنی راتیں قربان کی ہوں گی ؛ کرب و الم کے کتنے دن کاٹے ہوں گے ؛ جان ہتھیلی پر رکھ کر کن کن دقتوں اور پریشانیوں سے گذرنا پڑا ہوگا ! ذراکوئی صاحب دل ان حالات کا تصور تو کرے!!۔
کام مکمل ہونے کے بعد جوادؒ نے دشمنوں کے نرغے سے نکل جانا مناسب سمجھا اور ہندوستان چھوڑنے کافیصلہ کرلیا ۔ روانگی سے قبل ’’ البراہین الساباطیہ فیما تستقیم بہ دعائم الملۃ المحمد یہ ‘‘ کا ایک نسخہ اور اس کے ساتھ ایک خط لکھ کرسب سے بڑے ہیڈ پادری مسٹر ٹامس کے نام روانہ کیا جس میں یہ لکھا کہ جب میں نے تم لوگوں کی مفسدانہ کاروائیوں کو دیکھا اورتمھارے وہ بے تکے اور بے جااعتراضات بھی پڑھے جو تم لوگوں نے قرآن مجید پر کررکھے ہیں اورتمھارے مذموم مقاصد خوب اچھی طرح معلوم کر لیے تو میں ہمہ تن تمھاری طرف متوجہ ہوا اور جب میرا کام پورا ہوگیا تو میں تم سے علیحدہ ہوگیا ۔ براہین کا ایک نسخہ روانہ کرتا ہوں میں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ اس کی تصنیف و تہذیب میں اس امید میں خرچ کیا ہے کہ اگربنظر انصاف اور تعصب کی پٹی اتار کر اس کا بغور مطالعہ کروگے تو ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ آپ کو سیدھی راہ چلنے کی توفیق دے اور آپ کو بھی نبی عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام لیوا بنائے ۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ ۔
ہمارے قارئین کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ۱۸۵۲ء میں حضرت مولانا رحمت اﷲ کیرانوی علیہ الرحمۃ نے اکبر آباد(آگرہ) میں پادری فنڈر (Founder) کو جو شکست فاش دی تھی اس میں بہت بڑی مددحضرت مولانا کو اسی کتاب سے ملی تھی۔جابجا حضرت مولانا نے اس کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے ۔
آمدم برسر مطلب ! اس زمانے میں باطل طاقتوں نے جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے دین و ایمان پر یلغار مچارکھا ہے؛ خدا کرے ایک بار پھر ہمارے درمیان کوئی جواد ساباطی پیدا ہوجائے یا کچھ ایسے مخلصین ہی پیدا ہوجائیں جو قوم کے نوجوانوں میں جواد ساباطی کی روح ہی پیدا کرسکیں۔لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس عظیم انسان کی زندگی بھر کی قربانیوں کا نچوڑ ’’ براہین ساباطیہ‘‘ آج ہمارے درمیان کہاں ہے ؟ٹھیک ہے کہ جواد ایک انسان تھا؛ اپنی عمر پوری کرکے اپنے خدا کے حضور جاپہنچا ، لیکن کتاب تو اس کے ساتھ جانے والی نہیں تھی؛ اس نے ہندوستان والوں کواپنی امانت سونپی تھی اور اس کو خدائے حی لایموت کی غیبی تائید حاصل تھی آخر اس کے خون و پسینے سے تیار شدہ کتاب ’’براہین ساباطیہ ‘‘ کہاں کھوگئی؟ اس کے نسخے ہندوستانیوں کے پاس ایک دو نہیں بلکہ پورے ایک سو تھے؛ آخر ان نسخوں کو ضائع کرنے کا ذمہ دار کون ہے ؟اور کس طرح وہ نسخے ضائع ہوئے ؟۔کیا لوگوں کو جوادؒ کی ان قربانیوں کا علم نہیں تھا ؟ یا زمانے کی ستم ظریفی کا شکار ہونے کے لیے ہی ہاتف غیبی نے اُسے صدا لگائی تھی؟ ۔جواد کا خلوص اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کی قربانیاں رائیگاں ہونے والی نہیں اور نہ اس کی کتاب معدوم ہونے والی ہے لیکن جواد ساباطی کی قربانیوں کو بھلا دینے کا جو ظلم روا رکھا گیا ہے ؛ مدتِ مدید کے بعد اب اس پر واویلا مچانے سے تو شاید کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں اورہم اِس بحث میں بھی نہیں اُلجھتے کہ قوم کے ذمہ داروں کو اپنی اپنی حیثیت کے اعتبار سے کل قیامت میں جوابدہ ہونا پڑے گا یا نہیں؟ ’’ ترکت الحساب لیوم الحساب ‘‘ لیکن ایک دوسرا سوال ذہن میں گردش ضرور کرتا رہے گا کہ کیا آج جواد ساباطی کی قربانیوں کا کوئی قدرداں بھی زندہ ہے ؟ یا علم دوست احباب کی دنیا اس سوال پر بھی خاموش ہی رہے گی ؟۔دیدہ باید !
کسی انسان کی حقیقی موت وہ نہیں ہوتی جس کے سبب وہ لحد میں اتارا جاتا ہے بلکہ جس دن اس کی قربانیوں اور قابل فخر کارناموں کو بھلادیاجاتا ہے وہ دن اس کی حقیقی موت کا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی بھلا دینے والی قوموں کا بھی شمار مردوں میں ہونے لگتا ہے ۔قوموں کی موت و زیست کا اگر یہ فلسفہ اپنے اندر صداقت رکھتا ہے تو ہمیں ایک بار جواد کے کارناموں کو زندگی و تابندگی دینے کے لیے میدان عمل میں آنا ہوگا تاکہ قومی اعتبار سے ہماری زندگی کا ثبوت ملے ۔