حبیب الرحمن بٹالویؔ
آج کے نظام تعلیم کا تعلق مغربی تہذیب سے ہے جو انسان کو انسان نہیں بناتی صرف اس کا طرز زندگی بدلتی ہے۔ اچھے سے اچھا جاب، اچھے سے اچھا گریڈ، اچھے سے اچھی کالونی میں رہائش جو طرز زندگی میں تبدیلی لاسکے، زندگی کو پرتعیش بناسکے۔ مگر یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بچے کی پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے کا حصول، جو معاشرہ نہیں کرنا چاہتا وہ پیسے کے زور پر کرایا جاسکے۔ یہی نظریہ ہمارے نظام تعلیم کی دین ہے اور یہی بات ہمارے طالب علم کو اپنی زندگی کے مقصد سے دور لے جارہی ہے کہ آپ اپنے بچے کو اس نظام تعلیم کی روشنی میں تیار کریں۔ ہر طرح کی سہولیات اسے مہیا ہوں، بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس، واپڈا ٹاؤن میں کنالوں میں اس کی کوٹھی ہو، چاہے اس کے ماں باپ اس سے ناراض ہوں۔ کیونکہ اسے یہ تعلیم ہی نہیں دی گئی، اسے بتایا ہی نہیں گیا کہ ماں باپ کی تکریم کتنی ضروری ہے، ان کا ادب لحاظ کتنی اہمیت رکھتا ہے، تو وہ ایک ناکام طالب علم ہے ۔ بقول اکبر الٰہ آبادی اس پر تعجب بھی فضول ہے کہ
طفل سے بُو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی
اور نتیجتاً
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
قارئین! یہاں ایک ایسے ڈاکٹر کی مثال پیش کی جاتی ہے جو کہتا ہے کہ میں نے میٹرک کے بعد طے کر لیا تھا کہ میں نے ڈاکٹر بننا ہے اور ایک عظیم ڈاکٹر بننا ہے۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے، وہ مزید تعلیم کے لیے ملک سے باہر گیا، پیچھے ایک دن باپ شدید بیماری میں مبتلا ہوگیا، مرنے کے قریب تھا۔ رشتے داروں نے اطلاع دی کہ تمہارے والد قریب المرگ ہیں تمہیں یاد کرتے ہیں جلدی آؤ۔ اس نے جواب دیا میں اس وقت اپنے کیرئیر کی ایسی سطح پر ہوں کہ آنا محال ہے۔ باپ فوت ہوگیا، اطلاع دی گئی کہ آپ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہیں ضرور آئیں۔ جواب آیا میں اپنا مستقبل تباہ نہیں کرسکتا۔ کفن دفن کے لیے پیسے بھجوا رہا ہوں دفنا دیں۔ اس کے چھے ماہ بعد ماں مرگئی، لوگوں نے اطلاع دی ڈاکٹر نہیں آیا کہا میرا کورس ختم ہونے کے قریب ہے میں نہیں آسکتا والدہ کی تجہیز وتکفین کردیں اور میرے گھر کو تالا لگا دیں۔
قارئین! کیا یہ سب ایک کامیاب طرز زندگی کا روپ ہے؟ یا کبھی ہو سکتا ہے؟ ہم سب آج کل کے استاد، طلباء کو یہی کچھ سکھا رہے ہیں۔ بطور استاد ہم ایک انسٹرکٹر ہیں جو صرف یہ بتاتے ہیں کہ ان راہوں پر چل کر انجینئر بناجاسکتا ہے۔ ڈاکٹر بناجاسکتا ہے یا اس طرح اچھے نمبر لیے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ مغربی تہذیب نے ہمیں یہی کچھ سکھایا ہے۔ مغربی تہذیب کیا ہے؟ روشن خیالی۔ یعنی رہبری اپنی عقل سے حاصل کرو۔ سر سید نے بھی یہی کہا تھا کہ ’’اسلام عقل کے اصولوں پر مبنی ہے۔‘‘ ہاں! علامہ محمد اقبال نے اسی باطل نظا م تعلیم کے تار پود بکھیرتے ہوئے لکھا
اک لُردِ فرنگی نے کہا اپنے پسر سے منظر وہ طلب کر کہ تیری آنکھ نہ ہو سیر
بے چارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم بَرّے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر
سِینے میں رہے رازِ ملُوکانہ تو بہتر کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے، اسے پھیر
تاثیر میں اِکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب سونے کا ہمالہ ہو تو مٹّی کا ہے اک ڈھیر!
اکبر الٰہ آبادی نے اپنے انداز میں یہی بات کی ہے :
یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ہندوستان میں انگریزوں کے دور حکومت میں لارڈ ولز نے لکھا کہ ’’ہم ہندوستان کے مسلمانو ں کو عیسائی تو نہ بنا سکے مگر اُنہیں مسلمان بھی نہیں رہنے دیا۔
عزیزان گرامی! ایسے نظام تعلیم کے مقابلے میں وحی انسان کی صحیح رہبری کرتی ہے۔ وحی اس نئی روشنی کی دشمن ہے۔ ہر بچہ فطرت پہ پیدا ہوتا ہے اُسے بتانا نہیں پڑتا کہ روؤ گے تو دودھ ملے گا۔ وہ کہیں سے سیکھ کر نہیں آتا اور
یہ الگ بات کہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوں
ورنہ ہر ذہن میں کچھ تاج محل ہوتے ہیں
اور یہ ایک اچھا استاد ہے جو ان تاج محلوں کو تراشتا او راجالتا ہے۔ ایک اچھا استاد علم کا شہسوار اور فراست کی تلوار ہوتا ہے۔ وہ ایسا درخت ہے جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر اکتساب علم کرنے والے حال او رمستقبل کے گزرگاہوں کو روشن کرتے ہیں۔ جس کے فیض کا پانی کبھی گدلا نہیں ہوتا اور اس کے شاگرد تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔ اچھا استاد طالب علم کو اچھا مشورہ دیتا ہے، اچھی بات شیئر کرتا ہے، صرف سلیبس تک نہیں رہتا بلکہ بچے کی زندگی کے دوسرے مسائل کو بھی دیکھتا ہے مثلاً کلاس کے پچاس ساٹھ بچوں میں سے پانچ بچے ایسے ہیں جو پڑھ نہیں رہے۔ ایک اچھا استاد اُن سے پوچھتا ہے کیا مسئلہ ہے؟ اور پھر ہوسکے تو مسئلہ حل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اگر طلبا کو سرزنش کرتا ہے تو اچھی کارکردگی پر انعام سے بھی نوازتا ہے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ استاد بچے کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ کلاس میں ٹیسٹ کے دوران استاد نہ بھی کھڑا ہو تو اُسے یقین ہو کہ اﷲ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ ایسا خوف پیدا کرتا ہے جو صرف پڑھائی میں نہیں، زندگی کے ہر شعبے میں رہبری کرسکے۔ بچے کے سامنے دوسرا عنصر لالچ ہوتا ہے کہ کارکردگی بہتر ہوگی تو انعام ملے گا، ٹرافی ملے گی، میڈل ملے گا، گریڈ ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل بچہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ہرجائز وناجائز حربہ استعمال کرتا ہے کہ کسی طرح وہ اپنے گول تک پہنچ سکے۔ مگر یہ مقصد آخرت کی زندگی سے خالی۔ ہمیں اس سے اوپر جانا ہے۔ استاد بچے کے لیے ایک مربی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کو زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا استاد ضرور ملا ہوگا کہ جس سے آپ زندگی کے ہر معاملے پر بات کرسکتے ہیں۔ رب اتھارٹی ہے، استاد مربی ہے۔ مربی رب سے ملاتا ہے، اتھارٹی سے ملاتا ہے۔ گویا استاد رب سے ملانے کا ذریعہ۔ ایک ماں کے سات بیٹے ہیں، سب والدہ کی عزت کرتے ہیں اُن میں سے دو بیٹے سرکاری ملازم ہیں دونوں کو اطلاع ملی کہ اُن کی دوسرے شہر میں ٹرانسفر ہوگئی ہے اگر وہ وہاں جائیں گے تو انکی تنحواہ ڈبل ہوجائے گی۔ دوسری سہولیات میں بھی اضافہ کردیا جائے گا۔ ایک بیٹا تو فوراً یہ پیشکش قبول کر کے دوسرے شہر میں چلا جاتا ہے مگر دوسرا بیٹا کہتا ہے کہ میں والدہ کی اجاز ت کے بغیر نہیں جاسکتا۔ پہلا بھی والدہ کا احترام کرتا ہے مگر والدہ کو اتھارٹی نہیں مانتا۔ دوسرا والدہ کو اتھارٹی تسلیم کرتا ہے۔ دونوں کی طرز زندگی میں بہت فرق ہے۔
قارئین! رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے استاد بنا کر بھیجا گیا ہے، یعنی یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس کا رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے براہ راست تعلق ہے۔ چنانچہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے بطور معلم ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ طالب علم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیا جائے۔ ورنہ تعلیم تو غزوۂ بدر کے کفار قیدی بھی دیتے رہے۔ مگر وہ محض انسٹرکٹر تھے کونسلر نہیں تھے۔ اچھا استاد کونسلر (مسائل کو حل بتانے والا، رہبری کرنے والا) ہوتا ہے۔ بچے کی نفسیات کو سمجھتا ہے اس کی کردار سازی کرتا ہے۔ اس کی ذہنی سطح پر اُتر کر اس سے بات کرتا ہے۔ مشفق ومہربان ہوتا ہے ماں کی طرح نالائق سے نالائق شاگرد سے بھی مایوس نہیں ہوتا۔ اور یہ سچ ہے کہ استاد معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو قوم کے افراد کو لافانی قندیلیں بنا دیتا ہے۔ اس کے بکھرے ہوئے پر خلوص موتیوں کے سامنے بادشاہوں کے لٹائے ہوئے خزانے بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ خاک کو اکسیر، تانبے کو کندن، ذرّے کو خورشید، حیوان کو انسان بنا دیتا ہے اور
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے خدا تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے
دکھا کر موت کے آئینے میں تجھے رُخ دولت زندگی اور بھی تیرے لیے دشوار کرے