سید شہاب الدین شاہ
قارئینِ گرامی! آج کے گلوبل ویلج کے اظہاری اور ابلاغی دور میں جہاں چھوٹی سی خبر چند لمحوں میں پوری دنیا کے مین اسٹریم میڈیا کی بریکنگ نیوز بن سکتی ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ خبروں کا شوروغل میڈیا مالکان کے مفاد میں ہو تو چٹخارے دار نیوز بنتی ہے ورنہ فلسطین،شام ،کشمیر برما اور دیگر ایسے ممالک جہاں تاریخ انسانی کی بد ترین ستم گریاں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں،چونکہ اس میں عالمی سرمایہ داری کا کچھ مفاد نہیں اور میڈیا ٹائیکونز کو اس میں مسالہ دار کشش نہیں دکھتی لہٰذا میڈیا اسے کسی خاطر میں نہیں لاتا۔آج میں ایک ایسی بستی کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جہاں بظاہر انسان بستے ہیں لیکن دہائیوں سے چھائی محرومی، بھوک اور ظلم و تشدد نے سیکڑوں ہزاروں انسانوں کی زندگیوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔یہ میانمار (برما) کے وہ مسلمان ہیں جو روہنگیا نسل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ صدیوں سے یہ مسلمان صوبہ ارکان (ریاست راکھین) میں آزادانہ حیثیت سے زندگی گزارتے آئے لیکن کم و بیش پون صدی بیشتربرما کے ڈکٹیٹر حکمرانوں نے ان مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی ریاست پر غاصبانہ قبضہ جما لیا،یہ وہ دور تھا جب تحریک پاکستان عین شباب پر تھی۔پاکستان کے ساتھ متعدد مسلم ریاستوں کے الحاق کی خبروں کے سبب اہلِ ارکان نے بھی اس تحریک میں شامل ہونے کی کوشش کی۔لیکن حالات نے روہنگیا مسلمانوں کے مقدروں پر سیاہ چادر تان دی ،یوں نہ ختم ہونیوالے جبر و استبداد کا دہانہ کھل گیا جو نسلوں کو تاراج کرتا ہوا آج ستر سال تک پھیل چکا ہے۔
آج روہنگیا مسلمانوں کے مہاجر کیمپس میں چلتے پھرتے لاش نما نحیف اجسام دیکھنے کو ملتے ہیں۔جہاں پروان چڑھنے والی نسلیں تاریک مستقبل کی راہوں میں بھٹکتی نظر آ رہی ہیں۔پینے کا صاف پانی ملنا تو درکنار میتوں کو غسل دینے کیلئے پانی دستیاب نہیں۔گزشتہ برس نئی ہجرتوں کے سبب روہنگیا مہاجرین کی 6لاکھ آمد کی وجہ سے کیمپس میں ٹھونسا گیا۔35سے 37کلو میٹر مہاجر کیمپ میں باقی ماندہ مہاجرین پہاڑوں پہ جنگلات میں رہنے پر مجبور ہو گئے۔جو آئے روز جنگلی درندوں کا نشانہ بننے کی وجہ سے اموات کا شکار ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں برما کی فوج کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی جنگی حکمت عملی مستقل طور پر سیکورٹی خدشات سے غیر متناسب حد تک بڑھ کر جارحانہ تھی۔اس رپورٹ میں فوج کے سربراہ مِن آنگ لینگ سمیت پانچ افسران کے نام دئیے گئے ہیں جنکے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان پر مقدمہ چلنا چاہیے۔اس رپورٹ میں امن کا نوبل انعام جیتنے والی برما کی رہنما آنگ سان سوچی پر بھی سخت تنقید کی گئی تھی اور کہا گیا کہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے میں ناکام رہیں۔اس رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ یہ معاملہ انٹر نیشنل کرمنل کورٹ میں بھیجا جائے ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انکی تفتیش کے مطابق جو جرائم ہوئے ہیں وہ اس لیے اتنے حیران کن ہیں کہ ان کی بڑے پیمانے پر نفی کی جاتی رہی ہے۔فوجی کاروائیاں چاہے وہ کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہوں ،ایسا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کہ اندھا دھند لوگوں کو قتل کیا جائے۔خواتین کے گینگ ریپ کئے جائیں،بچوں پر حملے کئے جائیں یا گاؤں جلا دئیے جائیں۔
واضح ہے کہ صرف اقوام متحدہ نے ہی برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم پر تفتیش نہیں کی بلکہ امریکہ کی وزارت خارجہ نے بھی اس حوالے سے جداگانہ تفتیش کی امریکی سفیر نکی ہیلی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے بھی اپنی رپورٹ کیلئے ایک ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کے انٹرویو کئے،جن سے گزشتہ سال کے واقعات کی ہولناک تصاویر سامنے آئی ہیں۔امریکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کی تصدیق کر رہا ہے کہ روہنگیا مسلم کشی کی ذمہ داری میانمار(برما) حکومت کی فوج کا سربراہ اور پانج دیگر فوجی افسران ہیں ۔امریکہ نے یہ بیان دفتر خارجہ سے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں دیا۔اقوام متحدہ کی اس سلامتی کونسل کے سامنے جہاں عالمی قوتیں اپنے مفادات کی خاطر لاکھوں انسانوں کو امن کے نام پر قتل کرا دیتی ہیں۔امن کے قیام کے نام پر مسلم ممالک پر قابض و جارحیت کرتی ہیں۔مسلم ممالک کے مظلوم نہتے عوام پر ہولناک بمباریاں کر کے مسلم دنیا کو خانہ جنگلی میں مصروف رکھنے کیلئے اپنے اپنے مفادات کی خاطر کھربوں ڈالر خرچ کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتیں ۔اقوام متحدہ کا مشن باقاعدہ تصدیق کر رہا ہے کہ برما میں منصوبہ بندی کے تحت مسلم نسل کشی کی گئی۔امریکہ بھی اقرار کر رہا ہے اس کی وزارتِ خارجہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ اقوام متحدہ مشن کی رپورٹ درست ہے۔تو پھر اس کے بعد کیا جواز رہ جاتا ہے کہ روہنگیا مسلم کشی کے خلاف برما حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سخت اقدامات کرے اور وہی اصول روا رکھے جو عالمی قوتیں اپنے مفادات کیلئے دیگر جنگ زدہ ممالک میں اپنائے ہوئے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق نکی ہیلی نے کونسل کو بتایا کہ جن افراد کے انٹرویوز کیے گئے ان میں سے 82فی صد نے اپنی آنکھوں سے کسی کو قتل ہوتے دیکھا، نصف سے زائد افراد کے سامنے خواتین کی آبرو ریزی کی گئی جب کہ لگ بھگ 250افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 100سے زائد افراد کو ایک ساتھ قتل یا زخمی ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے بیشتر مظالم میں برما کی فوج اور دیگر سیکورٹی ادارے براہِ راست ملوث تھے۔امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ دنیا اب مزید اس مشکل سچ سے آنکھیں نہیں چرا سکتی کہ راکھین میں کیا ہوا تھا۔نکی ہیلی کے بیان سے امریکی محکمہ خارجہ کی روہنگیا بحران سے متعلق رپورٹ کے مندرجات پہلی بار منظرِ عام پر آئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق محکمہ خارجہ کے ماہرین نے یہ رپورٹ رواں سال اپریل کے اختتام پر مکمل کی تھی جس کیلئے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم 1024روہنگیا مہاجرین کے انٹرویوز کیے گئے۔عالمی ابلاغ کے مطابق تا حال یہ واضح نہیں کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو آیا یہ رپورٹ ذرائع ابلاغ کو جاری کریں گے یا نہیں۔قبل ازیں اس رپورٹ کو اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے اجراء سے ایک روز قبل ،جاری کیا جانا تھا لیکن امریکی محکمہ خارجہ نے رپورٹ پر مزید غور کیلئے اس کا اجراء روک دیا تھا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ میانمار (برما)میں مسلم نسل کشی بارے کئی برسوں سے مختلف ذرائع و ابلاغ نمایاں شائع کرتے رہے ہیں لیکن عالمی قوتوں و مسلم اکثریتی ممالک نے میانمار میں روہنگیا مسلم نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی برقرار رکھی۔جنوری 2018ء میں میانمار کی فوج نے پہلی بار تسلیم کیا تھا کہ ریاست رکھائن میں حالیہ کشیدگی کے دوران اس کے فوجی روہنگیا مسلمانوں کے قتل میں ملوث تھے ۔میانمار کی فوج کے مطابق تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فوج کے چار اہلکاروں نے انڈن گاؤں میں دس لوگوں کو ہلاک کیا۔لیکن جب عالمی اداروں کی جانب سے ہولناک مظالم کی رپورٹس تواتر سے آنے لگیں تو میانمار حکومت اپنے بیان سے مکر گئی اور فوج کے مسلم روہنگیا نسل کشی کے الزام کو رد کر دیا۔ اسی طرح نے ہلاکتوں،بچوں کے ساتھ زیادتیوں اور خواتین کی عصمت دری کے واقعات سے بھی انکار کر دیا۔حالانکہ عالمی طبی امدادی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے گزشتہ برس ایک ہولناک رپورٹ جاری کی تھی کہ میانمار میں اگست(2017) کے مہینے کے دوران کم از کم6700روہنگیا افراد کو قتل کیا گیا۔ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ یہ وسیع پیمانے پر پھیلنے والے تشدد کی واضح ترین نشانی ہے ۔طبی تنظیم کے سروے کے مطابق25اگست سے ستمبر 2017کے درمیان9ہزار روہنگیا میانمار میں مارے گئے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق محتاط ترین اندازوں کے تحت کم از کم6700ہلاکتیں پر تشدد واقعات میں ہوئیں جن میں پانچ سال سے کم عمر کے کم از کم 730بچے شامل ہیں۔ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے میڈیکل ڈائریکٹر سڈنی وونگ کا کہنا ہے جو کچھ ہم سامنے لے کر آئے وہ حیرا ن کن ہے۔ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق69فیصد پرتشدد واقعات میں گولی لگنے سے شہید ہوئے تھے۔نو فیصد کی موت گھروں کو جلانے سے ہوئی۔ پانچ فیصد کو مار مار کر شہید کیا گیا۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق شہید ہونے والے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں59کو مبینہ طور پر گولی ماری گئی،15فیصد کو جلایا گیا،سات فیصد کو مار مار کے شہید کیا اور دو فیصد بارودی سرنگ سے شہید ہوئے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے اب میانمار حکومت کے حوالے سے مسلم روہنگیا نسل کشی کے نا قابل تردید شواہد سامنے آ چکے ہیں مگر اس کے مطابق عملی اقدامات کے وجود میں آنے کا کچھ امکان نہیں نظر آ رہا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گو تیرس نے کہا کہ عالمی ادارے ماہرین کی رپورٹ سنجیدہ غور کی متقاضی ہے اور میانمار (برما) کے مختلف نسلی گروہوں کے درمیان حقیقی مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ مظالم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔سات لاکھ سے زائد جو کہ اب کل ملا کرتیرہ سے چودہ لاکھ کے درمیان ہو چکے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی تھی جہاں وہ تا حال عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں اور وہاں روہنگیامسلمانوں کو تکالیف کا سامنا ہے۔کم سن لڑکیوں اور خواتین کو روز گار دلانے کے بہانے بنگلہ دیشی قحبہ گر جسم فروشی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انہیں وہاں فروخت کر کے قحبہ خانوں میں ہوس کے درندوں کے آگے پھینک دیا جاتا ہے۔بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کو کام کرنے اور کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ جس کے نتیجے میں روہنگیا مسلم مہاجرین کی خیمہ بستیوں میں ایک نیا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔عالمی ادارے مہاجرین کی بنیادی سہولیات و مناسب غذا علاج پہنچانے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہیں۔ عالمی قوتیں جنگوں کے نام پر کھربوں ڈالرز تو بارود میں اڑا دیتے ہیں لیکن لاکھوں مہاجرین کی حالت زار اور انہیں صحت و خوراک کی مناسب سہولت پہنچانے کیلئے ان کے خزانے خالی ہوتے ہیں۔
مسلم روہنگیا نسل کشی میں سوشل میڈیا نے بڑا مکروہ کردار ادا کیا ۔اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے بعد فیس بک انتظامیہ نے میانمار کے فوجی افسران کے کئی اکاؤنٹس بند کر دیئے ہیں۔سوشل میڈیا میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جس قدر نفرت انگیز کردار ادا کیا اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے فیس بک کو ایک خونخوار جانور قرار دیا تھا۔پہلی مرتبہ فیس بک انتظامیہ کی جانب سے میانمار کے کئی اعلیٰ فوجی اہلکاروں کے،جن میں فوج کے سپاہ سالار بھی شامل ہیں کے صفحات کو بلاک کیا گیا۔ عالمی ابلاغ کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے کہ فیس بک نے کسی فوجی یا سیاسی رہنما پر پابندی لگائی ہے۔ فیس بک نے میانمار سے وابستہ18 اکاؤنٹ اور52 فیس بک صفحات بند کیے ہیں۔انسٹا گرام پر بھی،جسے اب فیس بک نے خرید لیا ہے،ایک اکاؤنٹ بند کر دیا گیاہے۔ ان سب کے کل ملا کر تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ فالورزہیں۔میانمارمیں فیس بک سوشل میڈیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے اور ایک کروڑ آٹھ لاکھ سے زائد لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں زیادہ تر افراد کے لیے فیس بک انٹرنیٹ ہے۔ لیکن یہ ان افراد کے لیے ایک مفید آلہ بن گیا جو نفرت پھیلانے چاہتے ہیں۔ اقوام متحد ہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کئی برسوں سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف حکومتی و فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں پیدائش سے لے کر موت تک جبر کو ایک شدید اور منظم نظام کا حصہ بنایا گیا ۔ریاستی اخبار ان کے متعلق لکھتے ہوئے انہیں’پسو‘یعنی خون چوسنے والے کیڑے کہتے رہے ہیں۔بدھ قوم پرستوں نے بھی اس خیال کو تقویت دی گزشتہ برس شائع ہونے والے خبر رسان ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق فیس بک پر ایسی 1000 پوسٹس،تبصرے اور تصاویر تھیں جن میں روہنگیا مسلمانوں پرحملے کیے گئے تھے۔ تبصروں میں روہنگیا کو کتے،کیڑے اور یپسٹ کہا گیا تھا کئی ایک میں کھلے عام مذہب اسلام کی مذمت کی گئی تھی اور ایک فیس بک صفحے میں تو سب مسلمانوں کی نسل کشی کا کہا گیا تھا۔میانمار کے فوجی سربراہ من آنگ لیئنگ کے دو فیس بک اکاؤنٹ ہیں ۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک اکاؤنٹ کے13لاکھ جبکہ دوسرے کے 28لاکھ فالوورز ہیں۔فیس بک انتظامیہ نے اعتراف کیا ہے کہ اس صفحے اور اس جیسے دیگر صفحات نے جن پر پابندی ہے،نسلی اور مذہبی تناؤ کو آگ دکھائی ہے۔ 2014 میں بھی ماہرین نے اس بات کی طرف نشاندہی کروائی تھی کہ فیس بک میانمار میں منافرت پھیلا رہی ہے۔مارچ میں اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ فیس بک ملک میں ایک خونخوارجانور بن گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز مواد سے نمٹنے میں فیس بک آہستہ اور بے اثر رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر فل رابسٹن کی حالیہ ان رپورٹس پر تبصرہ کرتے بتایا ،جس کے مطابق غیر ملکی صحافیوں کی بلا جواز گرفتاری ہوئی اور ان صحافیوں تک ان کے اہل خانہ اور متعلقہ حکام کی رسائی نہیں دی جا رہی۔لہٰذا متذکرہ این جی او کے نمائندے نے آنگ سانگ سوچی کی صحافیوں کے معاملے کو لے کر غیر ذمہ دارانہ بیان دینے پر کڑی تنقید کی ہے۔دوسری طرف ریفیو جز کیمپس کی حالت زار پر عالمی برادری اور میڈیاکی مجرمانہ غفلت و خاموشی بدیانتی کا کھلا ثبوت پیش کر رہی ہے۔جس تناظر میں کچھ روز قبل بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے عالمی برادری کو روہنگیا مسلمانوں کی بحفاظت واپسی کیلئے کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔
لہٰذا بحثیت مسلمان ہمیں ان مظلوم روہنگیا مہاجر مسلمانوں کی اخلاقی او ر مالی داد رسی کیلئے ہر فورم آوازاٹھانے کی ہر دردِ دل رکھنے والے مسلمان کیلئے ضروری ہے۔اس ضمن میں قارئین کی اطلاع کیلئے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اکابرعلماء مشائخ اور سماجی نمائندوں کی مشترکہ اور تعمیری سوچ اور کوشش نے مستقل اور فوری حل اسی میں سمجھا کہ روہنگیامسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ آنیوالی نسلوں کی دینی اصلاح کیساتھ دیگر امدادی کاموں کو بہتر اور مؤ ثر اندازیں کرنے کے حوالے سے ایک اسلامی نظریاتی پس منظر رکھنے والے فلاحی ٹرسٹ کی بنیاد رکھی جائے۔چنانچہ کم و بیش 36سال قبل میانمار (برما) ہی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان عالم دین مولاناعبدالقدوس برمی(0336-7048341) کی زیرادارت ’’ جمعیتہ خالد ؓبن ولید الخیریہ(ارکان برما)‘‘کا وجود عمل میں لایا گیا، اب تک جس کے بینر تلے گز شتہ تین عشروں سے ہزاروں خاندانوں کو ہر ممکن امداد فراہم کی گئی بلکہ ان کے بچوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام بھی کیا گیا۔ جہاں سینکڑوں مسلم بچے،بچیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے بعد آگے علم کی روشنی پھیلانے میں کوشاں ہیں۔
یہاں یہ بات بھی عرض کردوں کہ اگست2017ء میں ہجرت کر کے آنیوالے لاکھوں مہاجرین جو جنگلی پہاڑوں پر آباد ہونے پر مجبور ہوئے وہ میدانی حصے میں بسنے والے مہاجرین کی بہ نسبت زیادہ مشکلات سے دو چار ہیں۔ ایک طرف جنگلی جانوروں کے حملے کا ہر وقت دھڑکا تو دوسری طرف خوراک کی شدید قلت اور پھرپانی کا سنگین بحران در پیش ہے۔جہاں پانی مہیاکرنے کیلئے پہاڑوں کے نیچے بہتی نہرسے کیمپ تک بذریعہ پیٹر انجن تقریباً پانچ سے چھ لاکھ روپے تخمینہ لگایا گیاہے۔اور ان پیٹر انجنوں کی کم از کم تین سے پانچ تک فوری ضرورت ہے۔چند روز قبل ایک ملاقات موقع پر مولانا عبدالقدوس برمی نے بتایا کہ روز مرہ پینے کے پانی کی قلت سے لے کر واش رومز کی صفائی کرنے تک کے لیے پانی کی عدم دستیابی کا سامناہے ، جس کا ایک حل عالمی این جی اوز بھی پیش کر رہی ہیں مگر ان کی شرائط اور امداد کے گڑ میں چھپے ہوئے کفریہ نظریات کے زہر سے برمی مسلمان خوفزدہ بھی ہیں۔ امت مسلمہ کو بذاتِ خود اس المیہ کا حل مہیا کرنا ہوگا، یہ قومی و ملی ذمہ داری بھی ہے اور ایمانی و اخلاقی کیفیات کا بنیادی تقاضا بھی۔