پروفیسر خالد شبیر احمد
مسندِ حکمرانی پہ براجمان ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی عمران خان یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ وہ پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنا دیں گے۔ یہ تو پاکستان بنانے والوں نے بھی کہا تھا کہ ہم ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں، جس میں خلفائے راشدین کے دور کے نظارے پیشِ نظر رہیں گے۔ لیکن افسوس صد افسوس ایسا نہ ہوا سکا اور یہ سب جھوٹ ثابت ہوا۔ عمران خان کے تو منہ پہ یہ بات سجتی ہی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ یا پھر پنجابی کی ایک کہاوت ہے ’’پلّے نئیں دھیلہ تے کر دی اے میلہ میلہ‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان یہاں کے مسلمانوں کی نظریاتی اور دینی آرزؤں کی جنت ہے، جس کے پس منظرمیں پاکستان کا مطلب کیا؟ لا اِلٰہ الا اﷲ کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ پھر لہو کے دریاؤں سے گزر کر بھارت سے مسلمان یہاں پاکستان آئے، جو ایک المناک کہانی ہے، جس پر جتنے بھی آنسو بہائے جائیں کم ہوں گے۔ اس کہانی کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے آنکھوں سے خون کے آنسو ٹپکتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ دراصل مسئلہ قابل غور ہے، جس پر نہ جانے کتنی بار لکھا جا چکا ہے کہ یہ فقط ایک نعرہ تھا، جس کا پاکستان کے حکمرانوں کی نیت کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہے اور یہ نعرہ کہ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنا دیا جائے گا بھی ایک نعرہ ہے۔ جس کا عمران خان کی نیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ بات بھی کہتے ہیں کہ میں پاکستان کو برطانیہ جیسی فلاحی ریاست بنا دوں گا۔ اگر وہ پاکستان کو برطانیہ جیسی ریاست بنا بھی لیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا پاکستان مدینے جیسی ریاست بن جائے گی۔ اگر برطانیہ آج فلاحی ریاست ہے تو کیا ہم اُسے مدینے جیسی ریاست کہہ سکتے ہیں، نہیں، ہرگز نہیں۔ برطانیہ میں آزادیٔ رائے کے نام پر مادر پدر آزادی، عورتوں کی بے پردگی، لڑکیوں کو بوائے فرینڈز بنانے کی کھلی اجازت، طلاق کے مقدموں کی بھرمار، بے پردگی، شراب نوشی کی اجازت اور اس کے علاوہ نہ جانے کتنی قباحتیں، کیا یہ سب کچھ مدینے کی ریاست میں بھی تھا(نعوذ باﷲ)۔ عمران خان صاحب صرف ایک بات کا جواب دیں کہ جس طرح اُن کی یہ تیسری بیوی پردہ کرتی ہے، پاکستان کی تمام عورتوں کو اس طرح کا پردہ کروا سکتے ہیں؟
’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘
آپ کی قومی اسمبلی ، آپ کا سینٹ، آپ کی وزارتیں آپ کی صدارتیں اور اس کے علاوہ پاکستان کا کون سا ادارہ ہے جس میں سرکاری کاموں میں عورتوں کی مداخلت نہیں ہوتی جب کہ مدینے کی ریاست میں تو عورتیں پردے میں رہتی تھیں اور یہ اسی پر دہ کا نتیجہ تھا کہ پورا معاشرہ نیک، صالح، دینی اقدار کا پابند، عبادت، سیادت کی تمام خوبیوں سے مالا مال تھا اور یہ اس لیے تھا کہ دین کا تقاضا بھی یہی تھا۔ جب کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے :
’’جب تک آپ کے ہاں عدل ہوتا رہے گا، آپ کے مخیر حضرات غریب پروری سے کام لیتے رہیں گے اور آپ کے معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوتے رہیں گے اس وقت آپ کے لیے زمین کے پیٹ سے زمین کی پیٹھ آپ کی مقدر رہے گی اور جب آپ کے ہاں عدل نہیں رہے گا۔ مخیر حضرات بخیل ہوجائیں گے غریب پروری ختم ہوجائے گی اور آپ کے معاملات عورتوں کی مشاورت سے طے ہونے شروع ہوجائیں گے تو پھر آپ کے لیے زمین کی پیٹھ کے بجائے زمین کا پیٹ مقدر ہوگا۔‘‘
فرمائیے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بارے میں عمران خان اور ملک کے دوسرے سیاست دان کیا فرماتے ہیں۔ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ آپ کے معاملات اور خصوصی طور پر وہ معاملات جو نظم مملکت سے متعلق ہیں ان سے عورتوں کی مشاورت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہے تو پھر پاکستان کیسے مدینے جیسی ریاست بن جائے گی۔
پھر مدینہ میں تو کوئی سودی کاروبار نہیں ہوتا تھا۔ جب کہ پاکستان میں پاکستان کی شریعت کورٹ کا سود کی ممانعت کا فیصلہ فیڈرل حکومت کی طرف سے اپیل کے بعد سپریم کورٹ میں ابھی تک کسی کونے کھدرے میں پڑا ہوا ہے۔ جس کا فیصلہ نہ اس وقت ہوا نہ کبھی ہوسکے گا۔ اگر پاکستان میں یہی سودی نظام چلتارہے تو کیا پھر بھی پاکستان مدینہ جیسی ریاست بن پائے گی۔
پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مدینے کی ریاست میں کہیں ایسے لوگ بھی تھے جو عقیدہ ختم نبوت کے باغی ہوں۔ جو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعدکسی اور کو نبی مانتے ہوں، خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے تو مسیلمہ کذاب کے خلاف قتال کا حکم دیا۔ جو کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی نبی تسلیم کرتا تھا اور اپنی نبوت کا بھی دعویٰ کرتا تھا بالکل اسی طرح جس طرح یہاں کے قادیانی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبی مانتے ہوئے مرزا قادیانی کوبھی نبی مانتے ہیں جنگ یمامہ میں اسے جہنم رسید کر کے قیامت تک کے لیے عقیدہ ختم نبوت کے اہمیت کو واضح کردیا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے کسی کی نبوت کا کوئی جواز نہیں۔
عمران خان صاحب سپریم کورٹ سے رابطہ کر کے پاکستان کے اندر منکرین ختم نبوت کو از خودنوٹس دلوا سکتے ہیں؟ جو مرزا قادیانی کو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبی مانتے ہیں اور جن کے خلاف قومی اسمبلی کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ وہ دائرہ اسلا م سے خارج ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کا کھاتے ہیں اور زندگی کی تمام مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن آئین کوتسلیم نہیں کرتے ان کے پاکستان میں رہتے ہوئے کیا عمران خان پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنا پائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے ہماری ان سے گذارش ہے کہ کوئی اور خوش کن اور دلفریب نعرہ لگائیں جیسے یہ کہ ایک کروڑ نوکری اور پچاس لاکھ مکان۔ ان نعروں سے ان کی وزارت عظمی کا دورآسانی سے گزر جائے گا بالکل اسی طرح جس طرح پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا اور مکان والا نعرہ تھا جو اب تک نعرہ ہی ہے۔
آخرمیں قرآن پاک کی ایک آیت کے آخری حصہ کا ترجمہ کہ ’’وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔‘‘ کم از کم اس پر ہی عمل کر لیں مدینہ کے تقدس کو مجروح کرنے سے کیا فائدہ ؟