مولانا زاہد الراشدی
گزشتہ ہفتہ کے دوران مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں سے ملاقات اور ملکی صورتحال پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ اتوار کے روز قاری محمد عثمان رمضان اور حافظ شاہد الرحمان میر کے ہمراہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات ہوئی اور دیگر امور کے علاوہ حضرت مولانا سمیع الحقؒ کی شہادت کے بعد کی صورتحال پر باہمی مشاورت ہوئی، نیز جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) اور دفاع پاکستان کونسل کی سرگرمیوں اور عزائم سے آگاہی حاصل کی۔ میری اس گزارش سے انہوں نے اتفاق کیا کہ تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالتؐ کے محاذ پر تحریکی ماحول میں مسلکی حوالہ سے جو تفریق پیدا کر دی گئی ہے اور جسے دن بدن مزید اجاگر کیا جا رہا ہے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے اور دینی و قومی مسائل کے بارے میں تحریکی جدوجہد میں وحدت اور ہم آہنگی کا سابقہ ماحول بحال کرنے کے لیے قومی سطح پر اقدامات ضروری ہیں، جبکہ اس سلسلہ میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے احیا اور حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ جیسی غیر متنازعہ بزرگ شخصیت کو آگے لانے کی کوشش کی جانی چاہیے جس کے لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہی اساسی کردار ادا کر سکتی ہے۔
۳۱ دسمبر جمعرات کو مجھے جامعہ نعمانیہ کمالیہ کی سیرت کانفرنس میں شریک ہونا تھا جو ہمارے پرانے بزرگ ساتھی اور جماعتی و مسلکی رفیق کار مولانا محمد اخترؒ کی یادگار ہے اور ان کے فرزندان مولانا عمر فاروق اور مولانا محمد عثمان اس تعلیمی جدوجہد میں پیشرفت کے لیے مسلسل محنت کر رہے ہیں۔ ہم نے کمالیہ جانے کے لیے چیچہ وطنی کا راستہ اختیار کیا جہاں مجلس احرار اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل حاجی عبد اللطیف خالد چیمہ کے ساتھ ملاقات کا موقع مل گیا۔ مذکورہ بالا معاملہ میں انہیں بھی بہت فکرمند پایا اور انہوں نے ہماری رائے سے اتفاق کیا۔اس موقع پر یہ خبر وہاں موجود احباب میں زیر بحث آگئی کہ حکومت ملک بھر میں مساجد کے خطباء کو سرکاری طور پر لکھے ہوئے خطبات جمعہ فراہم کرنے کی تجویز پر غور کر رہی ہے اور یہ پابندی عائد کی جا رہی ہے کہ خطباء اس سے ہٹ کر جمعۃ المبارک کے اجتماع میں کوئی بات نہیں کہہ سکیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی قابل عمل ہے۔ اس سے قبل بھی مختلف ادوار میں یہ تجویز سامنے آچکی ہے اور کامیاب نہیں ہوئی، حتٰی کہ محکمہ اوقاف کے زیر انتظام مساجد میں بھی یہ تجربہ ناکام رہا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہماری روایات کے خلاف ہے، خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مساجد کے ائمہ اور خطباء کو اس بات کا پابند کیا گیا ہو کہ وہ جمعۃ المبارک کے خطابات اور عمومی دینی بیانات میں سرکاری طور پر لکھی گئی تقاریر پڑھ کر سنائیں اور اپنی طرف سے کوئی بات نہ کریں۔ ہمارے ہاں برصغیر میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی پوری تاریخ علماء کرام کے آزادانہ دینی کردار سے عبارت ہے حتٰی کہ اکبر بادشاہ کے دور میں جبکہ خود اس نے الحاد کا راستہ اختیار کیا تھا تب بھی انہیں پابند نہیں کیا جا سکا تھا۔جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں ہمارے حکومتی نظام کا دینی اعتماد بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے کہ گزشتہ ستر سال سے ہمارا حکومتی نظام، اسٹیبلشمنٹ اور رولنگ کلاس اسلامی نظام سے گریزاں ہے اور دستور پاکستان میں حکومت کو جن باتوں کا پابند کیا گیا ہے اس کے لیے یہ لوگ تیار نہیں ہیں۔ مثلاً دستور انہیں پابند بناتا ہے کہ ملک سے سودی نظام ختم کریں جسے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید بھی حاصل ہے لیکن یہ مختلف حیلے بہانے اور جوڑ توڑ کر کے اس سے جان چھڑائے ہوئے ہیں۔ ملک کا دستور انہیں پابند بناتا ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام میں قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کی تعلیم کا اہتمام کریں لیکن یہ اس سے دامن چھڑائے ہوئے ہیں۔ دستور انہیں پابند بناتا ہے کہ عربی زبان، جو کہ ہماری مذہبی زبان ہے، اس کی ترویج کا اہتمام کریں مگر یہ اس سے مسلسل چشم پوشی کر رہے ہیں۔ دستور انہیں پابند بناتا ہے کہ ملک میں اسلامی معاشرہ اور تہذیب و ثقافت کے فروغ کی کوشش کریں لیکن یہ اس کے مقابلے میں مغربی تہذیب و ثقافت اور عریانی و فحاشی کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ دستور انہیں پابند بناتا ہے کہ حرام چیزوں پر پابندی لگائیں لیکن یہ تو شراب پر پابندی لگانے تک کے لیے آمادہ نہیں ہیں حتٰی کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ ہم شراب پر پابندی لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ملک کا دستور اسلامی ہے اور پاکستان دستوری طور پر ایک اسلامی ریاست ہے لیکن قیام پاکستان کے تقاضوں کو پامال کرنے اور دستوری فیصلوں سے انحراف کی وجہ سے ہمارا حکومتی نظام اسلامی نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہمارا حکومتی نظام خود تو اسلامی تعلیمات کا پابند ہونے کے لیے تیار نہیں ہے اور دستور پاکستان کے فیصلے ماننے سے انکاری ہے لیکن ملک کے ائمہ و خطباء کو اس بات کا پابند کرنا چاہتا ہے کہ دین کے معاملے میں ان لوگوں کی پابندی قبول کریں۔ ہماری حکومتوں نے ابھی تک دستور کا یہ حکم بھی تسلیم نہیں کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں لا کر ملک کے مروجہ قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے، لیکن ائمہ و خطباء سے کہا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کے فراہم کردہ خطبات پڑھ کر عوام کو سنائیں، یہ انصاف کی بات نہیں ہے اور حکمرانوں کو اس سلسلہ میں اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ بلکہ ہمارے حکمرانوں کو ان لوگوں سے بات کرنی چاہیے جو باہر سے اپنا ایجنڈا بھیجتے ہیں کہ ہماری قوم کا مذہب، ہمارے ملک کا دستور اور ہماری رائے عامہ اس کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے خوامخواہ اسلامی تعلیمات، ہمارے تاریخی تسلسل اور قومی روایات کے خلاف ہم پر دباؤ نہ ڈالا جائے۔
اس سلسلہ میں سعودی عرب کی یہ مثال تو دی جاتی ہے کہ وہاں خطبات جمعہ سرکاری طور پر تحریر شدہ آتے ہیں جنہیں ائمہ و خطباء پڑھتے ہیں، مگر یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ سعودی عرب کی عدالتوں میں شرعی قوانین کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں، تعلیمی نظام میں شہریوں کو انٹرمیڈیٹ تک قرآن و حدیث، فقہ اسلامی اور ملی تاریخ کی لازمی تعلیم دی جاتی ہے، معاشرہ میں عریانی و فحاشی اور منکرات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کا محکمہ سرکاری طور پر کام کر رہا ہے، اور خاص طور پر یہ صورتحال قابل توجہ ہے کہ وہاں تعلیمی، عدالتی اور دینی معاملات کا نظام علماء کرام اور الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ کے خاندان ’’آل الشیخ‘‘ کے سپرد ہے اور وہی اس کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس لیے اس پورے پیکج میں سے صرف ’’سرکاری خطبہ‘‘ کو لے لینا اور باقی پورے ماحول اور سسٹم کو نظر انداز کر دینا بالکل غیر منطقی بلکہ مضحکہ خیز بات ہوگی۔
چیچہ وطنی سے کمالیہ روانہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ اہل السنۃ والجماعۃ کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی اپنے گھر میں موجود ہیں اس لیے پہلے ان سے ملاقات کی بلکہ شام کا کھانا ان کے ہاں کھایا اور مختلف دینی و ملکی امور پر باہمی گفتگو کی نشست رہی۔ مولانا موصوف جس تدبر اور حوصلہ کے ساتھ اپنے تحریکی معاملات کو سنبھالے ہوئے ہیں میں ہمیشہ اس کا معترف رہا ہوں اور اس سلسلہ میں ان سے رابطہ بھی رہتا ہے۔ اس موقع پر دفاع پاکستان کونسل کی جدوجہد اور پروگرام پر بھی بات چیت ہوئی اور میں نے گزارش کی کہ یہ نہ صرف مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی عظیم جدوجہد کی یادگار ہے بلکہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے کہ سیاسی کشمکش اور انتخابی جھمیلوں سے الگ رہتے ہوئے بھی ملکی و قومی مسائل پر مختلف مکاتب فکر اور جماعتوں و حلقوں کی مشترکہ محنت کو آگے بڑھایا جائے۔
جامعہ نعمانیہ کمالیہ کی سیرت کانفرنس میں جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالہ سے گفتگو کے لیے میں نے ’’ریاست مدینہ‘‘ کا انتخاب کیا اور یہ بات واضح کی کہ ریاست مدینہ کی بنیاد قرآن و سنت اور عوامی مشاورت و اعتماد پر تھی اور آج بھی قرآن کریم، سنت رسولؐ اور عوامی مشاورت کو بنیاد بنا کر ریاست مدینہ کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے، مگر اس کے لیے خلافت راشدہ کے نظام اور خلفائے راشدینؓ کے اسوہ حسنہ سے راہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔