وجیہ احمد صدیقی
’’امت‘‘کو دستیاب اطلاعات کے مطابق امریکہ کی ڈپٹی سیکریٹری خارجہ ایلس ویلز کی پاکستان آمد کے مقاصد میں یہ مطالبات بھی شامل تھے کہ پاکستان آسیہ مسیح کی رہائی کے بعد اس کے تحفظ کو یقینی بنائے اور یہ کہ توہین رسالت کے جرم میں قید مزید40 مجرموں سمیت قرآن پاک کی مرزائی تفسیر چھاپنے اور فروخت کرنے والے چناب نگر کے قادیانی عبدالشکور کو بھی فوری طور پر رہا کرے ۔ وزارت خارجہ کے معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایلس ویلز کی جانب سے آسیہ بی بی کا ذکر چھیڑنے پر حکومت پاکستان نے عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھایا، لیکن اس پر کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ اگرچہ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ ایلس ویلز کے ساتھ صرف افغانستان کے معاملے پر بات ہوئی ہے ، لیکن ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایلس ویلز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم سے ملاقات کا ایجنڈا لے کر آئی تھیں اور ان کے سامنے امریکی مطالبے کو رکھتیں اور پھر میڈیا میں اس کی تشہیر کرتیں، جس سے عالمی سطح پر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوتیں۔
واضح رہے کہ امریکی ادارے ’’کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘‘ نے اپنی حکومت سے یہ مطالبہ کر رکھا ہے کہ پاکستان میں ’’مذہبی آزادی‘‘ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے افراد کو امریکہ کا ویزا نہ دیا جائے اور ان کے اثاثوں کو بھی منجمد کر دیا جائے ۔ ان مطالبات کا تجزیہ کرتے ہوئے دفتر خارجہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق افسر کا کہنا تھا کہ امریکہ اور مغربی ممالک پاکستان کے قانون توہین رسالت کو بنیاد بنا کر وطن عزیز کے لیے نئی مشکلات کھڑی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان افسر کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک کے دباؤ پر پی ٹی آئی حکومت نے آسیہ مسیح کو ملتان جیل سے رہا کیا، لیکن یہ فیصلہ حکومت کے لیے وہ نوالہ بن گیا ہے ، جسے اُگلنا بھی مشکل ہے اور نگلنا بھی مشکل۔ مغربی ممالک کو اپنے ’’حکم‘‘ پر اس حد تک یقین تھا کہ بی بی سی جیسے معتبر خبر رساں ادارے نے بھی آسیہ مسیح کی پاکستان سے روانگی کی خبر جاری کر دی تھی۔ اب بھی یورپی یونین اور مغربی ممالک کا پاکستان پر سخت دباؤ ہے کہ وہ آسیہ مسیح کو فوری طور پر ملک سے باہر بھیجنے کا انتظام کرے ۔ یورپین پارلیمنٹ کے صدر انتونیو تجانی نے تو اپنے ٹویٹ میں یہاں تک کہا ہے کہ آسیہ مسیح کی رہائی کے بعد اسے اور اس کے خاندان کا وہ یورپین پارلیمنٹ میں استقبال کریں گے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آسیہ ملعونہ کی رہائی میں یورپین یونین کی کامیابی کو دیکھ کر قادیانی اور سیکولر عناصر سرگرم ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں ایمنسٹی انٹر نیشنل کے نمائندے عمر وڑائچ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’عمران خان سے انہیں بہت سی توقعات تھیں، لیکن وہ ساری توقعات پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی اکنامک ایڈوائزری کونسل میں ایک احمدی کو مقرر کیا، لیکن دباؤ میں آکر یہ فیصلہ واپس لے لیا۔‘‘
دوسری جانب یورپی یونین نے پہلے سے ہی اپنی مارکیٹ تک رسائی کو آسیہ مسیح کی رہائی سے مشروط کر رکھا ہے ۔ پاکستان کی اقتصادی کمزوری سے یورپی ممالک کی یہ تنظیم فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں مجرموں کی سب سے بڑی سزا، سزائے موت کو ختم کر دیا جائے ۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو، توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت نہ دی جائے ۔ یورپی یونین کی جانب سے اب یہ مطالبہ بھی سامنے آئے گا کہ یورپی منڈیوں تک رسائی دینے سے پہلے پاکستان کو انسانی حقوق کے 27 کنونشنز کی توثیق کرنا ہوگی۔ جن میں ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے کا کنونشن بھی شامل ہے ۔ تاہم فی الوقت وقت ان ممالک کی پوری توجہ اس پر ہے کہ پاکستان سے کسی بھی صورت توہین شان رسالت کے انسداد کے قانون کو ختم کیا جائے ۔ دوسری جانب امریکہ کی جانب سے بھی پاکستان کو دہشت گردی میں مالی مدد کرنے کے شبہے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے گرے لسٹ میں ڈالا گیا اور اگر پاکستان نے ان کی مرضی کے مطابق اقدامات نہ کیے تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے پاکستان کو خوف زدہ کرکے اس کی اسلامی شناخت کو ختم اور مسخ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسی مقصد کو پورا کرنے کیلئے پاکستان میں تعینات یورپی یونین کے سفیر جین فرانکوئز کاٹن نے تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالتے ہی اپنے جال میں پھنسا کر کہا تھا کہ یورپی یونین فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے پاکستان کی مدد کو تیار ہے ۔ جین فرانکوئز کاٹن نے انتخابی نتائج کے سامنے آتے ہی عمران خان سے بنی گالا میں ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں جین فرانکوئز کاٹن نے کہا کہ یورپی یونین تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کام کرنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے اور سیکورٹی، معیشت، جی پی ایس، تعلیم اور دیہی ترقی کے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ اشتراک کے لیے تیار ہے ۔ اور یہ کہ یورپی یونین کے رکن ممالک سے پاکستان کے لیے سرمایہ کاری حاصل کرنے میں بھی نو منتخب حکومت کی معاونت کی جائے گی۔ گرے لسٹ سے بھی پاکستان کا نام نکال دیا جائے گا، بشرطیکہ پاکستان ان تحفظات کو دُور کرے جو یورپی یونین کو ہیں۔ ذرائع کے مطابق وہ تحفظات یہی تھے کہ آسیہ مسیح کو رہا کیا جائے ، قانون توہین رسالت کو ختم کیا جائے اور قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کیا جائے ۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ پاکستان میں کیا چاہتے ہیں اس کا اظہار توہین شان رسالت کے مقدمے میں رہا کی جانے والی آسیہ مسیح کے وکیل سیف الملوک کے اس بیان سے بھی ہو جاتا ہے، جس میں اس نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اسے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا۔ واضح رہے کہ میڈیا سے گفتگو میں سیف الملوک ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’میری پاکستان چھوڑنے کی خواہش نہیں تھی۔ اس کے برعکس مجھے ملک چھوڑنے کا کہا گیا۔ ملک چھوڑنے سے قبل اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے نمائندوں نے مجھے پہلے تین دن تک اپنے پاس رکھا۔‘‘
ذرائع کے بقول یورپی یونین اوراقوام متحدہ چاہتی تھیں کہ کسی طرح آسیہ مسیح بھی ان کے پاس پناہ لینے کے لیے آجائے ، جس کے بعد وہ اسے ملک سے باہر لے جائیں اور پھر ساری دنیا میں مذہبی آزادی کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کیا جائے ۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ آسیہ مسیح کے کیس کو پاکستان کے مسیحیوں نے اتنا اجاگر نہیں کیا ،جتنا کہ یورپ میں موجود قادیانیوں نے کیا ہے ۔ اقلیتوں پر مظالم کا رونا رونے والے قادیانی، عیسائی اقلیت کی آڑ لیتے ہیں،جنہیں پاکستان میں مکمل آزادی حاصل ہے۔ قادیانیوں کی لابی یورپ کے مختلف ممالک میں پاکستان کے خلاف جھوٹی رپورٹیں پیش کرتی ہے ۔ جن کا جواب تک پاکستان کی وزارت انسانی حقوق کی جانب سے نہیں دیا جاتا۔ قادیانی ان ممالک کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تجارت پر پابندی لگاؤ اور پاکستان کے سامنے اپنی شرائط رکھو۔ (روزنامہ ’’امت‘‘،راولپنڈی۔10؍نومبر2018ء)