ابو واسع (دوسری قسط)
مظہر احمد بظاہر سادہ سا انسان دکھائی دے رہا تھا، لیکن اس کی باتیں بہت گہری تھی، اس کا کہنا تھا کہ ’’یہ بات ٹھیک تھی کہ ابھی میرا نکاح رجسٹرڈ نہیں ہوا تھا، چنانچہ میں ایک مینار والی مسجد کے خطیب مولانا غلام مصطفی کے کہنے پر دوبارہ یعنی تیسری بار نکاح کے لیے تیار ہوگیا، پہلے قادیانی نکاح ہوا، پھر بہاولپور میں مسلمان مولانا نے دوبارہ نکاح پڑھایا، اور اب تیسری بار نکاح ہورہا تھا، یعنی میری گھر والی کے ساتھ میرا تین بار نکاح پڑھایا گیا۔ مولانا نے میرا پانچ سو روپے حق مہر طے کیا، نکاح کا فارم بھرا گیا، اور پھر اسے رجسٹرڈکرلیا گیا، میرا مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی بنا لیا گیا،اس کے بعد میں نے اعلانیہ مسلمان ہونے کا اعتراف کرلیا، میں گھر میں سب سے بڑا بھائی ہوں، باقی سب مجھ سے چھوٹے ہیں ۔وہ مجھ سے بدتمیزی کرنے لگے ، ظاہر ہے چھوٹے جب بدتمیزی کرتے تو مجھے غصہ آتا، لیکن میں پی جاتا، یہ بہت مشکل وقت تھا، اب میں سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ میں ان مشکلات سے کیسے نکلا ہوں،دوسری جانب میرے والد کا اسائلم کیس پاس نہ ہوسکا۔ وہ جرمنی سے بیلجئم چلے گئے اور وہاں سے واپس آگئے، انہیں جب معلوم ہوا تو انہوں نے مجھے کہا کہ جس زمین پرتم نے جم بنا رکھا ہے یہ زمین میری ہے اور اس کام کے شروع کرنے کوپیسے بھی میں نے تمہیں دئیے تھے، اس لیے احمدیت چھوڑنے پر میں تمہیں گھر، زمین اور جم سے بیدخل کرتاہوں۔میں نے خاموشی سے اپنی بیوی کو ساتھ لیا، اور جو تھوڑا بہت سامان تھا وہ راتوں رات ٹرالی پر لاد کر اٹھایا اور گھر سے نکل کھڑاہوا۔’چھنی قریشیاں‘ میں عاصم بھائی نے مجھے پناہ دی اور اپنے گھر میں ایک کمرہ خالی کردیا، ہم دونوں میاں بیوی کا سامان ہی کتنا تھا، چند برتن اور دو چارپائیاں، وہاں میں ایک ماہ رہا۔یہ 2007ء کا واقعہ ہے اس وقت تازہ تازہ لال مسجد کا واقعہ ہواتھا۔جس کمرے میں ہم رہ رہے تھے ،وہاں گیس نہیں تھی اور میری بیوی جرمنی سے آئی ہوئی تھی۔ اس نے کبھی کھانا وغیرہ نہیں پکایا تھا،کیوں کہ جرمنی میں وہ جاب کرتی تھی۔اسی دوران مجھے حیدر بھائی ملے جو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے مجھے کہا کہ چینوٹ آجاؤ۔ میں وہاں کرائے کے مکان کا بندوبست کردیتا ہوں، ویسے بھی چناب نگر میں رہنا مشکل ہورہا تھا، میں ایک طرف بیوی کا کھانا پکانے میں ہاتھ بٹاتااور دوسری جانب کام کاج کی کھوج لگاتا، ذریعہ آمدن نہ تھا کہ گزارہ ہوتا، کیوں کی جم مجھ سے چھین لیا گیاتھا۔ اس پر مستزاد ایک ہزار کرائے پر جاٹھہرے ، چینوٹ میں ہم لوگ سات برس رہے ، وہاں میں نے پہلے دو برس تو سبزی منڈی میں مزدوری وغیرہ کرکے گھر کا نظام چلانا شروع کیا تو دوسری طرف میری بیوی کے پاس جو بچت تھی، وہ اس نے کاروبار میں لگادی ، چنانچہ وہاں سے بھی منافع آجاتا اور جو کچھ میں کماتا ، وہ بھی میں گھر میں دے دیتا۔ یوں زندگی کی گاڑی چلنا شروع ہوگئی،لیکن معلوم نہیں تھا کہ یہ بظاہر آرام سے گزرنے والی زندگی آگے کن طوفانوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی، پھر وہ طوفان شروع ہوئے ۔جن کے ہچکولے آج تک محسوس ہورہے ہیں۔‘‘
اس موقع پر مولانا محمود الحسن جو کہ جامع مسجداحرار چناب نگر میں نماز پڑھاتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ ’’قادیانی بھی یہی چاہتے تھے کہ مظہر احمد چناب نگر سے نکل جائے، تاکہ ان میاں بیوی کو دیکھ کر اور لوگ قادیانیت نہ چھوڑیں، جماعت احمدیہ نے چناب نگر پر خصوصی توجہ رکھی ہوئی ہے، چناب نگر میں آنے والے ہر شخص کی خفیہ کیمرے سے نگرانی کی جاتی ہے ، آپ کی گاڑی جیسے ہی چناب نگر میں داخل ہوئی ہوگی،اُسی وقت جماعت احمدیہ کے خدام نے رجسٹرپر اُس کا نمبر نوٹ کرلیا ہوگا، (ہم نے اس بات کا خود مشاہد ہ کیا تھاکہ جیسے ہی ہماری گاڑی بازار میں داخل ہوئی، اُسی وقت بیرئیر کے پاس کھڑے شخص نے رجسٹرپراس کا نمبر نوٹ کیا تھا) چناب نگر میں کسی کو تصویر لینے کی اجازت نہیں ہے، چاہے وہ موبائل کیمرہ ہی سے کیوں نہ ہو۔ جیسے ہی تصویر لیں گے فوراً خدام شیطان کی طرح نازل ہو جائیں گے اور آپ سے کیمرہ لے کر وہ تصویر ڈیلیٹ کردیں گے،یہ ریاست کے اندرریاست کی وہ مثال ہے، جس کی جانب حکومت توجہ نہیں دے رہی اور یہاں سے قادیانیت پھوٹ کر پورے ملک کو متاثر کررہی ہے(ہم نے جس قدر تصاویر لیں، وہ چلتی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے خفیہ طریقے سے موبائل فون کے کیمرہ سے لیں)۔یہ تو اﷲ کا خاص کرم ہوا کہ یہاں جامع مسجد احرار کی تعمیر ہوئی ،اور اب کم وبیش چھوٹی بڑی دس مساجد ہیں جو چناب نگر اور اس کے گرد ونواح میں موجود ہیں۔
جب حضرت سیدیوسف بنوریؒ نے مولانا سید ابو ذر بخاری ؒسے خواب سنا تو اُن کا کہنا تھا کہ آپ سے اﷲ پاک کوئی بڑا کام لے گا، اور پھر وہ کام لیا گیا، چنانچہ اس خواب کی تعبیر سید عطاء المحسن بخاریؒ جو کہ امیر شریعت کے دوسرے صاحب زادے تھے، ان کے ہاتھ سے ہوئی۔انہوں نے ربوہ میں مسلمانوں کی مسجد کے لیے جگہ خریدنے کی کوشش شروع کردی۔ اُس وقت چناب نگر میں جتنے مسلمان تھے ۔وہ دین سے دُوراور قادیانیوں کے زیر اثر تھے ، وہ قادیانیوں سے بہت ڈرتے تھے، شاہ صاحبؒ نے ہمت نہ ہاری اور آخر کار قریشی خاندان چناب نگر سے متصل جگہ دینے پر تیار ہوگیا، لیکن یہ زمین بہت مہنگی خریدی گئی۔ اس وقت اس جگہ پر سور وپے کنال ریٹ چل رہا تھا لیکن انہوں نے پانچ ہزار روپے فی کنال مانگے۔چنانچہ شاہ صاحب نے کہا ٹھیک ہے ،دوکنال زمین لوں گا اور وہ والی زمین لوں گا جو بالکل باؤنڈری لائن کے پاس ہے یعنی چناب نگر کی باؤنڈری پر ہے۔اب مسئلہ دس ہزار
روپے کا تھا، سیدعطاء المحسن بخاری نے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا، لیکن فنڈ دستیاب نہ ہوسکے، اس وقت دس ہزارروپے بڑی رقم تھی۔اسی پریشانی میں شاہ صاحب فیصل آباد چلے گئے وہاں ایک صوفی امین نام کا شخص تھا جو صوفی مینا کے نام سے شہرت رکھتا تھا، اس کے والد امیر شریعت حضرت عطا ء اﷲ شاہ بخاریؒ کے چاہنے والے تھے، اب وفات پاچکے تھے۔ صوفی میناکا اُس وقت فیصل آباد بھر میں بہت دبدبہ تھا۔(بعد میں معلوم ہوا کہ صوفی امین پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن تھے، جنہوں نے جہانگیر بدر کے ساتھ ضیاء دور میں جیل بھی کاٹی تھی۔)شاہ صاحب جب امین کے پاس پہنچے تو وہ حیران ہوگیا کہ میرے جیسے شخص کے پاس آج یہ عالم دین کیسے آگئے، ظاہر ہے والد کے دور سے وہ شاہ صاحب سے واقف تھا۔ شاہ صاحب نے اسے کہا کہ امین جنت کمانے کا موقع ہے، آج میں ایک نیک کام کے سلسلے میں تمہارے پاس آیا ہوں،شاہ صاحب نے اس کو تمام تفصیل بتائی ، تو صوفی امین اﷲ اس کی قبر روشن رکھے ،وہ شاہ صاحب کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، اوروہ شاہ صاحب کو ساتھ لے کر ان لوگوں کے پاس جھولی پھیلا کر چاپہنچا جواُس کے رعب سے تھرتھر کانپاکرتے تھے، وہ لوگ حیران تھے کہ یہ شخص آج جھولی پھیلا کر بھیک مانگنے آیا ہے، ضرور کوئی اہم بات ہے۔اس نے سب کو بتایا کہ میں ایک نیک کام کے لیے نکلا ہوں ربوہ میں مسجد کی تعمیر کرنی ہے اور دس ہزار روپے چاہئیں۔معاونت کریں لیکن اپنی حق حلال کی کمائی سے پیسے دیں، ورنہ تو دس ہزار میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے،چنانچہ لوگوں نے دل کھول کر اعانت کی اور دوگھنٹے میں دس ہزار روپے فیصل آباد کے لوگوں نے صوفی امین کی جھولی میں بخوشی ڈال دئیے۔ چنانچہ شاہ صاحب واپس آگئے اور پیسے دے کر دوکنال زمین رجسٹرڈکرالی گئی ۔ قادیانی اتنی آسانی سے رجسٹریشن کہاں کرانے دیتے تھے، شاہ صاحب جب زمین کی رجسٹری کرانے تحصیل دار کے دفتر گئے تو اُس نے اٹھ کر اُن کا استقبال کیا، شاہ صاحب حیران ہوگئے کہ کافروں کے درمیان یہ کون مسلمان ہے جو مجھے گلے لگا رہا ہے ، اس نے اپنا تعارف کرایا کہ آپ نے مجھے نہیں پہچانا میں لڑکپن اور نوجوانی میں آپ کے ساتھ والی بال کھیلتا رہا ہوں۔ یوں زمین کی رجسٹری کا فریضہ بھی اس کے توسط سے ادا ہوگیا۔
27؍فروری 1976ء میں مسجد احرارکے سنگ بنیاد کا اعلان ہوا، اور امیر شریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے چاروں بیٹے ربوہ آگئے ،مولانا غلام غوث ہزارویؒ اُس وقت ایم این اے تھے وہ بھی آگئے۔اس وقت اس زمین پر ٹینٹ لگا کر صفیں بچھائی گئیں اور اسپیکر لگایا گیا، پولیس نے اُسی وقت یہ سب کچھ اکھاڑ دیا، اورسب سامان اٹھا کر تھانے لے گئی۔حتیٰ کہ اس وقت لوگوں کے لیے کھانے کی جو دیگیں منگوائی گئی تھی وہ پکی پکائی دیگیں بھی اٹھا کر لے گئے۔لوگ مسجد کے سنگ بنیاد کے لیے دُور دُور سے آرہے تھے، کوئی پیدل آرہا تھا تو کوئی ٹانگے اور سائیکل پر سوار تھا۔یہ جمعہ کا روز تھا، اور جمعہ کی نماز سیدعطاء المحسن شاہ بخاری ؒ نے پڑھائی۔ جنہیں نماز جمعہ کے فوری بعد گرفتار کرلیا گیا۔مولاناسیدابوذر بخاریؒ کو دوران تقریر گرفتار کرلیا گیا۔ یوں چناب نگر میں پہلی جامع مسجد اﷲ کے فضل سے قائم ہوگئی۔ بعد ازاں عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے چھوٹے بیٹے پیرجی سیدعطاء المہیمن بخاری مستقل یہاں بیٹھ گئے ، قادیانیوں نے کئی بار قاتلانہ حملہ کیا۔(بعد کے دورمیں جامع مسجداحرارکے خطیب مولانا اﷲ یار ارشدؒ پر بھی قادیانیوں نے تشدد کیا اور اُسترے کے ساتھ ان کی شہ رگ کاٹنے کی کوشش کی تھی، ان کی زندگی تھی کہ اﷲ نے انہیں اس وقت بچا لیا، لیکن قادیانیوں نے انہیں جان سے مار دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔)بالآخر مسجداحرار تعمیر ہوگئی۔ پھر 1982ء میں یہاں حکومت نے یہاں مسلم کالونی قائم کردی۔ جامع مسجد احرار کے بعد یہاں مزید مساجد کی تعمیر کے لیے تگ ودو شروع ہوئی ۔مسلم کالونی میں ایک مینار والی مسجد تعمیر ہوئی، جو کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر انتظام ہے ۔ 1934ء میں جب قادیان میں مجلس احراراسلام کے فاتحانہ داخلہ کے بعدوہاں مسجد احرار تعمیر ہوئی تھی توقادیانیوں نے مجلس احرارکا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جماعت تحریک جدید کے نام سے قائم کی تھی،اب چناب نگر میں مسجد احرار کے بالکل سامنے قادیانیوں نے تحریک جدید کے دو بڑے بلاک بنا ڈالے ہیں۔‘‘ اس موقع پر مظہر کا کہنا تھا کہ’’ جامع مسجد احرار نومسلموں کے لیے ایک نعمت اورپناہ گاہ ہے، لیکن جماعت احمدیہ کی آنکھوں میں یہ کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے ۔ ‘‘
مظہر نے مزید بتایا کہ ’’ میں اور میری نومسلم بیوی چنیوٹ میں رہنا شروع ہوگئے، میں نے سبزی منڈی سے کام چھوڑکر سنار کا کام سیکھنا شروع کردیا اور پانچ برس تک یہ کام کرتا رہا۔اس دوران چناب نگر سے میرے گھروالے آتے رہتے اور ہمیں دوبارہ قادیانیت کی تبلیغ کرتے ، ان کی کوشش ہوتی کہ کسی طرح وہ میری بیوی کو مجھ سے متنفر کریں اور ہمارا آپس میں جھگڑا ہو، کیوں کہ میں نے اپنے ساتھ اسے بھی مسلمان کرلیا تھا، اور وہ جرمن نیشنیلٹی ہولڈرتھی، جو کہ ان کے لیے بہت اہم تھی ۔اس کے ذریعے وہ کسی بھی قادیانی کو جرمنی بھجوا سکتے تھے لیکن میری بیوی ان کے ہاتھ نہ آئی ۔اسی دوران میری بیوی نے مجھے کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ہمارا اپنا مکان ہو ، اس کے پاس جو پیسے تھے اور کچھ میں نے ملائے تو اتنی رقم ہوگئی کہ ہم نے چینوٹ کے علاقے عثمان آباد میں عثمانیہ مسجد کے ساتھ ایک مرلے کا پلاٹ خرید لیا ، چونکہ یہ جگہ شہر کے اندر تھی، اس لیے ایک مرلہ دکان وغیرہ کے لیے دستیاب ہوتاہے ، ہم نے وہ خرید ا، اگرچہ یہ جگہ بہت کم تھی لیکن چونکہ وہ جرمنی میں رہ کر آئی تھی اور ایسے ہی چھوٹے فلیٹس میں رہتی رہی تھی، اس لیے وہ جانتی تھی کہ اسے کیسے بنایا جائے گا ۔ مکان کا تمام نقشہ اس نے خود تیار کیا تھا۔ایک مرلے پر ہم نے تین منزلیں بنا ڈالی،نیچے ایک کمرہ ،باتھ اورساتھ سیڑھیاں تھیں۔اس کے اوپر ایک اور کمرہ تھا اور اس کے ساتھ کچن تھا، اس کے اوپر ایک اور کمرہ بنا یا گیا۔یہ مکان میری بیوی کی اپنی نگرانی میں تعمیر ہوا۔ میرا سنار کا کام بھی چل رہا تھا، اس لیے مکان کی تعمیر میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔
دوسری جانب جماعت احمدیہ نے میرے بہن بھائیوں اور والد کے ساتھ مل کر مسلسل میری بیوی سے رابطہ رکھا ، اور ہمارے درمیان پھوٹ ڈلوانے کی کوشش جاری رکھی۔ان کی کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہمارے درمیان چھوٹا موٹا جھگڑاشروع ہوگیا۔ میں بڑی مشکل میں تھا اور کوشش کررہا تھاکہ گھر کے حالات ٹھیک رہیں، تاکہ ہمارے درمیان جھگڑانہ بڑھے۔بہرحال اسی طرح سات برس گزر گئے ۔ اب ہمارے دو بچے بھی ہوچکے تھے،یوسف بڑا بیٹا اور سارہ چھوٹی بیٹی پیدا ہوچکی تھی۔زندگی اب بہتر ہورہی تھی،لیکن قادیانیوں نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔ انہیں معلوم تھا کہ عورت کوقابو کرنا آسان ہوتاہے ، میں تو سارا دن گھر سے باہر ہوتا تھا، پیچھے میرے بہن بھائی میری بیوی کے پاس آتے جاتے رہتے اور اس کے ذہن میں مختلف باتیں ڈال جاتے ۔انہوں نے میری بیوی کے ذہن میں لالچ ڈالنا شروع کردیا، اور میری بیوی کو مختلف طریقے سے بہکانا شروع کردیا۔ اب ہماری زندگی میں ایک اور ٹرننگ پوائنٹ آرہا تھا، میری بیوی کے ذہن میں لالچ آنا شروع ہوگیا کہ پیسہ ادھر سے بھی آئے اور اُدھر سے بھی آنا چاہیے۔میں اﷲ توکل انسان تھا، جو مل گیا کھالیا، لیکن وہ اب زندگی کا معیار بہتر کرنا چاہتی تھی اور وہ اس حوالے سے ٹھیک بھی تھی۔ وہ کہتی کہ اب ہم اکیلے نہیں ہیں، ہمارے دو بچے ہوگئے ہیں،ان کے مستقبل کے بارے سوچنا ہے ، یہ کرناچاہیے وہ کرنا چاہیے۔میں اسے سمجھاتا کہ اﷲ نے اولاد دی ہے تو اس کے لیے بہتر اسباب بھی پیدا کردے گا۔میں اسے اکثر کہتا کہ اپنے سے اوپر نہ دیکھا کرو، اپنے سے نیچے والوں کی طرف دیکھو، اس طرح تمہارے اندر شکرگزاری آئے گی۔صرف یہی دیکھوکہ جب ہم نے زندگی شروع کی تھی توہمارے پاس کرائے کے مکان تک کے پیسے تک نہیں تھے، بڑی مشکل سے زندگی شروع کی تھی،اب تو اﷲ کا شکر ہے کہ ہمارے پاس جیسا بھی سہی ،اپنا گھر تو موجود ہے۔ہم کرائے کے مکان میں بھی خوش تھے، اب تو اپنا مکان ہے ،اب زیادہ خوش رہا جاسکتا ہے،لیکن اس کے کان اس طرح بھرے جاچکے تھے کہ وہ اب کسی صورت کوئی بات ماننے کوتیار نہ تھی۔گھر میں روزانہ جھگڑا بڑھنے لگا، مجھے سمجھ نہ آسکی کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہے ، کیوں کہ اس نے میرے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے جرمنی جیسے ملک کو ٹھوکر مار ی تھی اور پاکستان میں میرے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دی تھی۔ اصل مسئلہ تو جماعت احمدیہ تھی جو اس کے پیچھے تھی۔وہ غیر محسوس طریقے سے ٹریپ ہورہی تھی،اگرچہ اسے قادیانیت سے نفرت تھی لیکن ان کا وار چل رہا تھا۔ایک روز جھگڑا اِس قدر بڑھا کہ اس نے میرے ساتھ رہنے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے طلاق دے دو، میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی، چنانچہ میں نے بھی غصے میں آکر اسے تین طلاقیں دے دیں۔میری بیوی نے مجھے کہا کہ میں تمہارے بعد کسی اور سے شادی نہیں کروں گی۔
بیوی کو طلاق دینے کے بعد میں لاہور چلا گیا، وہاں غلبۂ اسلام والوں کے پاس جاکر رہنے لگا اور ان کے ہاں چھوٹے موٹے کام کرنے لگا۔ دوسری جانب میری بیوی نے عدت پوری کی اور مجھے کہلوایا کہ اسے طلاق لکھ کردوں، کیوں کہ میں نے اسے طلاق زبانی دی تھی،چنانچہ میں واپس آیا اور اسے طلاق لکھ کر دی۔ اس نے جو مطالبات رکھے، وہ میں نے مان لیے، صرف بچوں سے ملنے کا میرا مطالبہ مان لیاگیا کہ ایک ماہ میں مجھے ایک بار یوسف اور سارہ سے ملنے دیا جائیگا۔ہم دونوں الگ ہوگئے اور یہ طے کیا تھا کہ اب کہیں اور شادی نہیں کریں گے۔ میری بیوی نے کہا کہ وہ اپنے بچے خود پالے گی، لیکن وہ اس پر قائم نہ رہ سکی اور اس نے احمد نامی ایک اور مسلمان لڑکے سے شادی کرلی۔میرا بیٹا یوسف اب لاہور میں مینار پاکستان کے پاس ایک مدرسہ ہے ،وہاں پر حفظ کررہا ہے۔ وہ مجھے گاہے بگاہے ملتا رہتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ میں اس کا باپ ہوں لیکن میری بچی سے ایک برس ہونے کو ہے، ملاقات نہیں ہورہی ، مجھے اپنی بچی بہت یاد آتی ہے ، وہ ابھی چھوٹی تھی کہ طلاق ہوگئی تھی۔
طلاق کے بعد میرے گھر والوں کو شدت سے احساس ہوا کہ ہم نے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے ۔ خاص طورپر میرے والد کو اِس کا بہت دکھ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اسے گھر سے نہ نکالتے تو اس کی زندگی اچھی چل رہی تھی، کیوں کہ انہوں نے تو مجھے پاگل قرار دے دیا تھا، حالانکہ میں نے دبئی سے پاکستان آکر دوائیں وغیرہ کھانا چھوڑ دی تھی۔دوائیں تو اِنسان کو مدہوش رکھتی ہیں ،دوائیں کھانے سے کسی کام کو جی نہیں کرتا، حتیٰ کہ نماز ادا کرنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ دوائیں چھوڑکر میں نے جم بنایا، اپنے جسم پر توجہ دی، پھر شادی کی، بچے ہوئے اور سات آٹھ برس بہترین زندگی گزاری۔طلاق کے بعد میرے والدین مجھے گھر لے آئے تھے۔اب میں وہیں رہ رہا ہوں ،میری دوائیں دوبارہ شروع کردی گئی ہیں۔یہ بہت خطرناک ہوتی ہیں،انسان جب یہ استعمال کرتاہے تو پھر انہی کا محتاج ہوجاتاہے۔دراصل مجھ پرعجیب و غریب تشدد کیا گیا، میں جب بھی قادیانیت کے خلاف بات کرتا، میرے گھر والے کہیں فون کرتے اور وہ لوگ آکر مجھے ٹیکے لگا جاتے ۔اس کے بعد مجھے مینٹل ہاسپٹل لاہور بھجوا دیا جاتا، وہاں مجھے الیکڑک شاک دئیے جاتے، ٹیکے لگائے جاتے، ہسپتال والے بھی تھک جاتے اور مجھے چھ سات ماہ اپنے پاس رکھتے۔ گھر والے اس وقت تک مجھ سے بے خبر رہتے۔ہسپتال والے ہی مجھے واپسی کا کرایہ دیتے اور میں واپس گھر آتا تھا۔ گھر واپس آکر میں پھر ان سے یہی بات کرتا۔
دراصل پرابلم یہ ہے کہ جتنے بھی قادیانی ہیں ،وہ مرزا غلام احمد کی کتابیں نہیں پڑھتے۔حتیٰ کہ جماعت احمدیہ والے خودبھی نہیں پڑھتے۔اگر وہ تھوڑی بہت پڑھتے بھی ہیں تو عام قادیانی کو نہیں بتاتے کہ اُن کتب میں اُس نے کیا کیا فریب لکھے ہیں۔ میں خود صرف’’ کشتیٔ نوح‘‘ نامی کتاب تھوڑی سے پڑھ کر چھوڑبیٹھا تھا۔ بعد میں جب اسلام کی جانب رغبت ہوئی تو پھر تقابلی جائزہ لیا۔مزے کی بات بتاؤں کہ میرے والد نے بھی ساری زندگی مرز اقادیانی کی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔اب آخری عمر میں آکر انہوں ے کچھ کتابو ں کے سیٹ لیے ہیں ، لیکن ان سے بھی وہ پڑھی نہیں گئیں، بس انصاراﷲ کے آرڈرکے مطابق جتنے صفحے کہے جاتے ہیں کہ اس صفحے سے اس صفحے تک پڑھو تو وہ پڑھ لیتے ہیں۔خدام جن کی عمر کم ہوتی ہے، انہیں کچھ نہیں پڑھایا جاتا۔ ان سے صرف خدمت لی جاتی ہے ،لیکن انصار کو پڑھاتے ہیں۔ جو عمر کے آخری حصے میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ سچے ہوتے تو چھوٹی عمر سے مرزاقادیانی کی کتب پڑھاتے لیکن چونکہ نوجوانوں میں تحقیق کا جوہر بھی ہوتاہے ، اس لیے وہ اس جھوٹ کو جلد سمجھ جاتے ہیں ۔اس لیے وہ خدام کو کتابیں پڑھنے کو نہیں دیتے۔آخری عمر میں جب کوئی قادیانی انصاراﷲ میں داخل ہوتا ہے تو چونکہ اُس نے ساری زندگی تو قادیانیت میں گزاری ہوتی ہے اور وہ اس وقت جماعت کا محتاج اور ان کے چنگل میں پھنسا ہوا ہوتاہے ، اِس لیے وہ کس طرح اُن سے اختلاف کرسکتا ہے۔اِسی لیے انصار کو مرزاقادیانی کی مخصوص اورمنتخب کردہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اور وہ بھی صرف وہی صفحات جن کا آرڈر دیاجاتاہے ۔‘‘(جاری ہے)