مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
مجھ سے بڑا بھائی تپ دق میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا تھا، مجھے خود کھانسی کی شدت ہو گئی، اس لیے ۱۹۱۳ء میں خرابی صحت کی بنا پر کالج کی تعلیم کو ترک کرنا پڑا۔ ان ہی دنوں میں ایک عزیز وہم کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ ڈاکٹری اور یونانی علاج سے افاقہ نہ ہوا، ان دنوں میں ہومیو پیتھک طریقۂ علاج ایک اچنبھا بات تھی۔ اسے بھی آزمایا گیا۔ وہ عزیز ڈاکٹر کے پاس بیٹھا تھا کہ اس بیماری کا ایک اور مریض دور سے دُہائی دیتا ہوا آیا اور آتے ہی کئی تکلیفیں بیان کیں، میرے اس عزیز نے کہا یہ تمام بیماریاں تو مجھے ہیں۔ ڈاکٹر بے ساختہ پکار اٹھا:
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
دونوں مریضوں کا مکالمہ شروع ہو گیا، ایک کو دوسرا تندرست نظر آتا تھا، اس لیے ایک دوسرے کو جھٹلاتا تھا۔ اب اور مریض آ گئے، کوئی مریض کسی بیماری کا ان کے سامنے ذکر کرتا، یہ دونوں صاحب پکار اٹھتے کہ یہ بیماری تو ہمیں بھی ہے، سامعین کی ہنسی ضبط نہ ہو سکتی تھی۔
کچھ مدت ہومیو پیتھک علاج کیا گیا، افاقہ نہ ہوا تو مسمریزم کے ایک ماہر کی طرف رجوع کیا، وہ تنہائی پسند جالندھر چھاؤنی کے ایک گاؤں میں رہتا تھا، اس کی توجہ سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔ وہاں سے رخصت ہوتے وقت اس نے مجھ سے کہاکہ : ’’اگر تم اس علم کو خود حاصل کرو، تمھارے اندر اس علم کے حصول کی استعداد زیادہ ہے‘‘۔ میں اس کی حوصلہ افزائی سے متاثر ہو کر سواد سیاہ پر نظر جما کر بیٹھ گیا، یہ چند روز کی پریکٹس مجھے برسوں کے ذکر شغل سے بہتر ثابت ہوئی۔ سواد سیاہ رواں دواں نور میں تبدیل ہو گیا اور نظر میں اثر پیدا ہوا، اس اثر کو اخلاق کا پابند رکھنے میں مشکلات نظر آئیں تو دل برداشتہ ہو کر اسے چھوڑ دیا۔ مجھے تعجب سے یہ تجربہ ہوا کہ اہل نظر کا اثر کمزور طبیعت اور متشکک پر ہوتا ہے، ضدی اور قوی مزاج لوگوں پر نہیں ہوتا۔
جنگ عظیم:
انگلستان اس وقت کوس لمن الملک بجا رہا تھا۔ دنیا میں اس کا کوئی سیاسی حریف نہ رہا تھا، جنگجو جرمنی چند سال سے سر اٹھاتا تھا۔ مدبرین انگلستان کی دوربین نگاہوں نے جرمنی کے خطرے کو قیامت بنتے دیکھا، جرمنی عقاب کی طرح پر تول رہا تھا کہ ایک ہی اڑان میں سب سے بڑی بلندی پر جا پہنچے۔ انگریزی سیاست غیر مرئی طور پر اس کی گردن میں روس اور فرانس کا حلقہ باندھ چکی تھی۔ یکایک آسٹریا کے شہزادہ کے دن دہاڑے قتل نے یورپ کے خرمنِ امن میں چنگاری کا کام دیا، یوں معلوم ہوا کہ چاروں طرف خشک بارود کو آگ لگ گئی ہے۔ اعلان جنگ سے پہلے فوجیں سرحدات پر لڑنے لگیں، اٹلی، روس، فرانس اور انگلستان ایک طرف، جرمنی، آسٹریا اور ترکی دوسری طرف برسرِپیکار نظر آئے۔ ابتدا میں کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ جرمن حیرت انگیز طاقت کا مالک ہے، اسبابِ جنگ اور جنگی تدبیر کے لحاظ سے دنیا کے کوئی اور ملک جرمنی کی ٹکر نہ تھے۔ ہندوستان کے وسیع ذرائع اگر انگلستان کے قدموں پر نچھاور کرنے کو نہ ہوتے تو ایک سال میں لڑائی ختم ہو جاتی، ہندوستانی آبادی انگلستان کے لیے ارزاں ترین سپاہی مہیا کر رہی تھی، امراء روپیہ مہیا کر رہے تھے۔ اہلِ مذہب مندر اور مسجد میں فتح کی دعائیں کر کے عوام الناس کو قابو میں رکھتے تھے، ملک کے سامنے کوئی سیاسی مطمح نظر نہ تھا، اس لیے انگلستان، ہندوستان سے پورے طور پر بے فکر تھا۔ ہندوستان کی دس لاکھ فوج یورپ کے غربی محاذ پر غلامانہ قربانی کی داد وصول کر رہی تھی۔ انگریزی فوج کے مسلمان سپاہی ترکی افواج کے سینوں کو چھلنی کر کے اماکن مقدسہ کو انگریز کے لیے فتح کر رہے تھے۔ گیارھویں کے ختم پر آمادہ قتال ہونے والے پیر اور مولوی ہندوستانی سپاہیوں کو برکت کے لیے تعویذ دیتے تھے اور ترکوں کی گولیوں سے محفوظ رہنے کے لیے دم کرتے تھے۔
اِدھر یہ کیفیت تھی، اُدھر کرنل لارنس نے عرب اور عراق کے شیوخ کو طلائی طلسم میں گرفتار کر کے انھیں ترکوں کے لیے خنجر زیر آستیں بنا دیا۔ ایشیا میں سطوتِ اسلامی خود مسلمان اجیروں کے ہاتھ سے برباد ہو گئی، تمام ایشیا اتحادیوں کے ہاتھ میں آ گیا۔ ہندوستانی سپاہیوں اور عربی شیوخ کے پاس تنخواہ کے چند سکے رہ گئے۔ اسلام کا مردہ وسط ایشیا میں بے گور و کفن پڑا دیکھ کر ہندوستان اور عرب کو ندامت تو ہوئی، مگر قتلِ حسینؓ کے بعد کوفیوں کی گریہ زاری ہرگز معتبر نہیں۔ عرب، عراق اور ہندوستان کے مسلمان کا معاملہ اب خدا کے ساتھ ہے، خدا اس وقت کے مُلّا اور پیر کی حالت پر رحم فرمائے۔
مذہب کے ظاہری مدعی مگر روحِ اسلام سے بیگانہ مسلمان کی عقیدت کی یہ کیفیت تھی کہ انگریزی فوج کا ایک مسلمان سپاہی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے روضہ کی طرف گولیاں بھی چلاتا تھا اور ساتھ ہی حسنِ عقیدت کا یہ کہہ کر مظاہرہ بھی کرنا چاہتا تھا کہ دیکھیے پیرانِ پیر کی کرامات کہ ہر بار گولی کا نشانہ خطا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمان کی غلط عقیدت کے اور افسانے بھی مشہور ہیں۔ باوجود اس کے کہ انگریزی سیاست اسلامی سلطنتوں کا خاتمہ کر چکی تھی، جرمنی کے دم خم وہی تھے، روس کا کچومر نکل چکا تھا۔ افواجِ جرمن کیمل کی پہاڑوں پر قابض ہوا چاہتی تھی کہ امریکہ اتحادیوں کے دامِ تزویر میں پھنس کر جرمن پر تازہ دم فوجیں چڑھا لایا۔ جرمن کے یہودیوں نے انگلستان کی شہ پر بایں ایما غداری کی تاکہ فلسطین ان کے حوالہ کر دیا جائے۔ ان وجوہات کی بنا پر فاتح جرمنی مفتوح ہو گیا۔
انگلستان نے جنگ میں اسلامی دنیا کو مطمئن کرنے کے لیے بڑے سبز باغ دکھائے تھے، اب وہ وعدے سراب دکھائی دینے لگے۔ اتحادیوں نے جب اسلامی سلطنت کے ٹکڑے کر کے سب ملک ہتھیا لیے تو ہندوستان کے مسلمانوں میں ماتم بپا ہو گیا۔
میری طبیعت کے رجحانات انگریز کی طرف مائل نہ تھے، تاہم وقت کے رواج کے مطابق سلسلہ ملازمت میں منسلک ہو کر حلقہ بگوش انگریز ہو گیا۔ ۱۹۱۷ء میں بطور انسپکٹر پولیس بھرتی ہو گیا۔ انگریز پرستی نے مسلمانوں کی لٹیا ڈبو دی تو سب مسلمانوں کے ساتھ میری بھی آنکھوں سے غفلت کی پٹی کھلنا شروع ہوئی۔
جفاکار جنرل ڈائر کے ہاتھوں ۱۳؍ اپریل ۱۹۱۸ء کو جلیانوالہ باغ کا خونچکاں واقعہ پیش آیا، گاندھی، موتی لعل نے پنجاب میں ڈیرے ڈال دیے۔ مردہ ہندوستان میں جان آ گئی، یہ پہلا موقعہ تھا جب ہندوستانیوں نے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا سیکھا۔ ہندوؤں کے لیڈروں کے اس اقدام سے مسلمان نے بھی کروٹ لی اور انھیں بھی خلافت کے مٹنے پر خلیفہ یاد آیا اور اسلامی سلطنتوں کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے ہندوستان میں خلافت کمیٹیوں کا نظام استوار کرنے کی سوجھی۔ ۱۳ سو سال میں شاید ہی ایسا گہرا زخم لگا ہو، بنابریں ہندوستانی مسلمان نے حرارت قلب کا بہترین ثبوت دیا۔ مہاتما گاندھی کی راہنمائی میں ہندوؤں نے بھی مسلمانوں کے احساسات کے ساتھ پوری ہمدردی کا اظہار کیا، میں مہاتما گاندھی اور دوسرے لیڈروں کے اخلاص کا قائل ہو کہ انھوں نے خالص اسلامی مسئلہ کو اپنا بنا لیا۔
مسلمان سیاسی شعور سے عاری تھا وہ محسن کو بھی مردہ سمجھتا ہے۔ عوام کا دماغ سیاسی توازن کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے رہنما عوام سے کچھ مختلف نہیں، وہ کبھی اسلامی ممالک پر انگریز کے زور کو کم کریں، کبھی ہندو کے سلوک سے تنگ ہو کر کہتے ہیں کہ جائیں اسلامی ممالک بھاڑ میں، پہلے ہند سے نپٹ لینا چاہیے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ ہند کے متعلق ہماری پالیسی واضح ہے نہ انگریز کے متعلق رائے صاف ہے۔
پنجاب کے مشہور لیڈر لالہ دنی چند بیرسٹر سے گاندھی جی نے کہا کہ لالہ جی فلاں معاملہ میں آپ کی کیا رائے ہے۔ انھوں نے برجستہ فرمایا کہ مہاراج میری رائے پچاس فیصدی اس طرف ہے اور پچاس فیصدی دوسری طرف ہے۔
بالکل یہی حال ہندوستان کے مسلمان کا ہے، جو معاملہ بھی زیر غور ہو، اس کے متعلق ان کی رائے پچاس فیصد ادھر اور پچاس فیصد اُدھر ہو جاتی ہے۔ مسلمان کسی فیصلہ پر پہنچنے ہی نہیں پاتے، ایثار پیشہ لوگوں کی نسبتاً کمی نہ سہی واضح پالیسی کی ضرور کمی ہے، انگریز اس سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے۔ ماورائے سرحد پر بڑھنا ہو تو کچھ عرصہ ملازمتوں کے لالچ میں بڑے سے بڑا اسلامی سانحہ بھی برداشت کر لیا جاتا ہے۔
مسلمان کے لیے صاف طور سے تین راستے ہیں، غلامی پر قناعت، اہلِ وطن سے مل کر ملک کی آزادی، ہندو انگریز دونوں سے بے نیاز ہو کر مذہبی تنظیم اور ہندوستان پر حکومت۔
اگرچہ اکثر مسلمان کے طور طریقے صاف طور پر غلامی پر قناعت کے ہیں، لیکن زبان سے اقرار میں سخت ندامت ہوتی ہے۔ اس لیے غلامی پر قانع لوگ عزم کی انتہائی بلندی کا اظہار کر کے کہتے ہیں ، نہ انگریز سے موالات ممکن ہے، نہ ہندو سے تعاون ہو سکتا ہے، چنانچہ فرزندانِ توحید کی تیرہ سو سال کی روشن تاریخ کا حوالہ دے کر ان میں محمد بن قاسم کی حجازی سپرٹ پیدا کرنے کے متمنی ہیں۔ ان کا خود حال یہ ہے کہ انگریز کی دہلیز پر نت نئے روز سر کو خم کرنے جاتے ہیں اور ساتھ ہی مسلمانوں کو ہندوؤں کی اکثریت کا بھی خوف دلاتے، پھر اس خائف قوم سے ہندوستان پر حکومت کرنے کی امید کرتے ہیں، نہ اس کی تیاری، نہ عزم اور نہ بظاہر امکان۔ میرے نزدیک مسلمان کے لیے بہترین تجویز یہی ہے کہ اہلِ وطن سے مل کر وطن عزیز کو آزاد کرائے اور اپنے ایثار اور قربانی سے اہل ہند پر اپنی فوقیت کا سکہ جمائے۔ وطن کی وہ خدمت کرے کہ کسی دوسرے ہمسایہ کو بجز تعریف کے چارہ کار نہ رہے، خدا نے انھیں خیر الامت کا خطاب دیا ہے، پس مسلمان کی پالیسی یہی ہونی چاہیے کہ دنیا ہمارے عمل کو دیکھ کر پکار اٹھے کہ قوموں میں مسلمان بہترین قوم ہے، یہ بندگان خدا کے لیے خیر و برکت کا باعث ہیں۔ غضب اور ظلم کے دشمن ہیں لیکن افسوس مسلمان اپنے لیے خدا کے مقررہ کردہ مشن کو بھول گئے۔ ہمسایہ قوموں کو ان پر شبہ ہے، ان کو ہمسایہ کے متعلق شکوک ہیں، حالانکہ بے لوث خدمت سے ہمیں ہر اہلِ وطن کے دل میں اپنی جگہ بنا لینی چاہیے تھی۔
میں نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں اسی اصول کو کتنی بار الٹ پلٹ کر کہا ہے کہ مسلمان قوم کو خیر الامت خدا کا دیا ہوا خطاب ہے۔ ہمارے عمل سے کثرت کے ساتھ مخلوقِ خدا کی بھلائی ظاہر ہونی چاہیے، ہم دنیا میں کچھ لینے کی نیت سے نہیں بلکہ خلق اﷲ کے لیے سب کچھ لٹا دینے کے لیے حکم دیے گئے ہیں۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے اٹھو اور آخرت میں پروردگار خود ہی انعام دے گا، دنیا کی حکومت بھی تمھاری لونڈی غلام ہو گی، شرط یہ ہے کہ خدمتِ خلق کے عزم سے اٹھو اور بنی نوع انسان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے بڑھو۔ خدمت میں تنگ دلی نہ دکھاؤ۔ یاد رکھو! خدا کی خوشنودی اور کشادہ جنت، تنگ دل انسانوں کے لیے نہیں ہے۔
تحریک خلافت میں گاندھی کی رہنمائی اور ہندوؤں کی شمولیت نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا۔ کانگریس کے مردہ جسم میں جان آگئی، ہندو اور مسلمان کارکنوں نے جلدی ہی دیکھ لیا کہ خلافت ایجی ٹیشن میں کامیابی اور جلیانوالہ باغ کے حادثہ کے تکرار کو روکنے کی صرف یہی صورت ہے کہ ملک آزاد ہو۔ جب تک ہندو، مسلمان غلامی پر قانع ہے، تب تک ایسی ذلتیں ہوتی رہیں گی، اس لیے حادثہ جلیانوالہ باغ اور ترکوں کے لیے انصاف حاصل کرنے کے لیے آزادیٔ وطن کا پراپیگنڈا بھی شروع کیا گیا۔
ہندوستان کی آزادی ایسی صحت بخش چیز ہے جس کے بغیر غلام قوم کے دکھوں کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا، چھوٹے چھوٹے مطالبات پر لڑنا تضییعِ اوقات ہے، حکومت سے ایسی ٹکر جو بالآخر آزادی میں ممد و معاون ثابت ہو ضروری ہے۔
ملازمت:
باوجود باغیانہ رجحانات کے، حالات نے مجھے ملازمت پر مجبور کر دیا۔ میں پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہو کر قلعہ پھلور میں ٹریننگ کے لیے چلا گیا۔ سب انسپکٹر جب تک قلعہ پھلور میں زیرِ تعلیم رہتا ہے، فرعون مزاج ڈرل انسٹرکٹروں کے ہاتھوں، ہر قسم کی ذلت اٹھاتا ہے، جب پولیس ٹریننگ سکول کا کورس ختم کر کے ضلع میں آتا ہے تو قلعہ کو بھول کر خود فرعون ہو جاتا ہے۔ غلام ہندوستان میں سب انسپکٹر پولیس بھوکا بھیڑیا ہے، جدھر منہ اٹھاتا ہے، لوگوں کو چیرتا پھاڑتا چلا جاتا ہے۔ سرکار کے ملازمین کے ہاتھوں انسانیت کی ایسی تذلیل شاید ہی کہیں ہوتی ہو۔ جب میں قلعہ سے ضلع میں آیا تو تھانہ صدر لودھیانہ کے حوالدار تفتیش نے سمجھایا کہ یہاں سیدھی انگلی گھی نہیں نکلتا، یہاں کے لوگ جوتے کے یا رہیں۔ جوتا ہاتھ میں ہے تو سب سلام کرتے ہیں، محبت سے پیش آؤ تو پگڑی اتارتے ہیں۔ اس نے مزید سمجھایا کہ تفتیش کے لیے عقل کی ضرورت نہیں، جس گاؤں میں تفتیش کے لیے جاؤ، پہلے چماروں کے گھروں کی طرف سیدھے ہو لو۔ ان پر بلا تکلف ڈنڈے برساؤ، پھر چوکیدار کو بلا کر اس کے منہ پر بے شک بلاوجہ چپت لگاؤ، چمار اور چوکیدار کبھی ظلم کی داد رسی نہیں چاہتے، بلکہ مظالم پر صبر کرتے ہیں اور عاجزی سے ہاتھ جوڑ دیتے ہیں۔ نمبر دار کا سوال البتہ ٹیڑھی کھیر ہے۔ پہلے اس کو معمولی سی گالی دے کر اس کے صبر کا امتحان کرنا چاہیے، اگر سور کتے کی گالی برداشت کر جائے تو فحش گالیاں دے، یہ گالیاں بھی برداشت کر لے تو بے شک داڑھی پکڑ کر ہلاؤ۔ ان ان تین مدارج میں سے کسی مرحلے پر نمبردار ناک بھوں چڑھائے یا تیوری ڈالے تووہیں بس کر کے بات ٹال دے، کیونکہ نمبر دار اپنے آپ کو ذی عزت سمجھ کر بعض دفعہ شکوے شکایت تک نوبت پہنچا دیتے ہیں۔ جس گاؤں کا نمبردار گالی برداشت کر لے، سمجھو کہ وہاں کوئی شخص نہیں جو تمھاری من مانی کارروائی میں مزاحم ہو۔
ایسے گاؤں میں جا کر جس پر شبہ بھی نہ، بلا کر بغیر کچھ پوچھے سنے کان پکڑوا دو اور چوتڑوں پر خوب جوتے برساؤ، بہتر ہے کہ جوتے پٹوانے کا عمل رات کے وقت شروع کیا جائے تاکہ اس کی آواز سنی جائے اور عورتیں پکار اٹھیں کہ حاکم بڑا سخت مزاج ہے۔ تمھاری ہیبت سے ہی ملزم اقرارِ جرم کر لے گا، ورنہ تھوڑے بہت تشدد سے اصل حال معلوم ہو جائے گا، اس طرح جرائم کا انسداد بھی ہو جائے اور جھولیاں بھی بھر لو گے۔ اگر خدانخواستہ کوئی مقابلہ پر اتر آئے تو خان صاحب کی طرح مقابلہ نہ کرو، بلکہ شیخ صاحب کی طرح فوراً مونچھیں نیچی کر لو اور بھیگی بلی بن جاؤ اور مناسب موقعہ کی تلاش کرو۔ اگر تمھارے سامنے بلوہ ہوتا ہو تو بلوائیوں میں کود پڑنا دانائی نہیں بلکہ وہاں سے کھسک جانا عقل مندی ہے، جب بلوائی گھروں کو منتشر ہو جائیں تو بے شک ایک ایک کو باندھ کر سزا د، جو افسر فرض کی بجا آوری کے زعم میں بلوے کی گرما گرمی میں گرفتاری کرنا چاہتے ہیں، وہ اکثر خود زخمی ہو جاتے ہیں اور ذلت اٹھاتے ہیں۔ ہوشیار آفیسر وہی ہے جو گرم سرد دیکھے۔
میں نے اس کے ارشادات کو مقدس احکامات کی طرح سنا، لیکن مخلوقِ خدا پر بلاوجہ ظلم کا جواز سمجھ میں نہ آیا، تاہم بوقت ضرورت کام آنے کے لیے ان نصائح کو آویزۂ گوش بنا رکھا اور تفتیش جرائم کے کام کو شروع کر دیا۔
تفتیش جرائم:
دیوتائے عشق کی کارفرمائی کے باعث میرے پڑوس میں زہر خوانی کا ایک کیس ہو گیا۔ ایک عاشق قلاش، محبوب کی فرمائش کو پورا کرنے کے لیے در در مارا پھر کہ کہیں کچھ قرض مل جائے، کسی نے عشق کا راستہ آسان کرنے میں اس کی مدد نہ کی۔ لاچار نوجوان نے اپنی بوڑھی پھوپھی کو دھتورہ سے بے ہوش کیا، نقدی اور زیورات اڑا کر دیوی کے بھینٹ کیے۔ معاملہ بہت صاف تھا۔ عاشق حزیں کو جلد ہی محبت کا روایتی زیور یعنی زنجیر پہنا کر منزل محبوب یعنی جیل میں پہنچا دیا گیا۔
اس مقدمہ سے فارغ ہوا ہی تھا، آدھی رات کو مخبری ہوئی کہ بردہ فروشوں کا ایک گروہ، ایک خالی بنگلہ میں شب باش ہے۔ ان کے ہمراہ اغوا شدہ عورتیں ہیں، اسی وقت پولیس کی جمعیت کو ساتھ لیا اور بندوق سنبھال کر چل دیا۔ تلاش کرنے پر دیکھا کہ ایک حسینہ، جس کا جسم چاندنی سے میلا ہوتا تھا، فرش خاک پر سو رہی ہے اور دو مشٹنڈے پہلو میں پڑے ہیں۔ تحکمانہ لہجہ میں انھیں جگایا، وہ ڈراؤنے خواب کی طرح چونک اٹھے۔ نکیرین کو سامنے دیکھ کر گھبرائے، میں نے کہا چلو یومِ حساب آ گیا۔ وہ اٹھے، ہم انھیں ہمراہ لے کر تھانہ میں آگئے، تینوں بھائی بہن کا رشتہ بتاتے تھے۔ میں نے کہا عورت کو ان سے الگ کر کے بٹھاؤ، تاکہ ان کا جادو اترے تو میں اپنا سحر پھونکوں۔ مردوں کو حوالات میں بند کر دیا گیا، عورت کو پہرہ دار کی نگرانی میں بٹھا کر میں سو گیا۔ صبح اٹھا تو معلوم ہوا کہ عورت پر پہرہ دار سپاہی نے ڈورے ڈالنے شروع کر دیے تھے، وہ تو خیر ہوئی کہ عصمت دری تک نوبت نہ پہنچی، ورنہ سپاہی کے گناہ پر افسر بھی غفلت کے الزام میں دھر لیا جاتا۔ ہیڈ کانسٹیبل تفتیش نے کہا کہ عورت کو کبھی ایک کانسٹیبل کی نگرانی میں نہ چھوڑنا چاہیے۔ مرد اور عورت کی تنہائی یوں بھی فتنہ خیز ہوتی ہے، پھر آوارہ عورتوں کو ادنیٰ ملازمین کے سپرد کر کے ان کی سلا متی کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
ہیڈ کانسٹیبل اور سپاہی صبح سے لے کر شام تک عورت سے سر کھپاتے رہے، مگر اس نے کوئی بات مان کر نہ دی۔ مردوں کو بھائی بتاتی رہی، اگرچہ میں تفتیش جرائم میں نو آموز تھا، لیکن مجھے واقعات شاہد عادل تھے کہ عورت مغویہ ہے، ورنہ اجڑی کوٹھی میں شب باشی کے کوئی معنی نہ تھے۔ تھانہ کا عملہ تجربہ کار ضرور تھا، لیکن وہ اپنے تجربے کے باہر نہ جا سکتا تھا۔ ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبل اس بات کے قائل ہو چکے تھے کہ اغوا کا معاملہ نہیں، غریب راہ گیروں نے کہیں ٹھکانہ پا کر خالی کوٹھی کو رین بسیرا بنا لیا ہو گا۔
میں نے بڑے یقین سے سارجنٹ کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کی ابتدائی نصیحتوں کو میں نے دل میں جگہ دی ہے، لیکن میں کچھ کالا علم جانتا ہوں، کان میں وہ افسوں پھونکوں گا کہ عورت مینا کی طرح بولے گی۔ اس نے کہا: ’’حضور اگر کام منتر جنتر سے چل جائے تو درد سری کیوں کی جائے‘‘۔
میں اٹھا، عورت کے کان میں اتنی بات کہی کہ کنوارا ہوں۔ تمھارا ان سے پیچھا چھوٹ جائے تو میرے گھر کی رانی بن کر رہو۔ سب نے دیکھا کہ جادو چل گیا۔ عورت کے چہرے پر رونق اور آنکھوں میں چمک آ گئی، اس نے ذرا اونچی آواز سے کہا کہ یہ تو مجھے بھگا کر لائے ہیں، اب معاملہ صاف ہو گیا۔ سب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے عورت سے کیا کہا؟ میں نے کہا: ’’اصل کہانی یوں معلوم ہوتی ہے کہ حسین عورت غریب کی جورو بن گئی ہے، محلات کا خواب دیکھنے والی عورت جب جھونپڑی میں رہنے پر مجبور ہو جائے تو وہ اسے قید بلا سمجھ کر آزادی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اغوا کرنے والے، ان ہی موقعوں اور گھرانوں کے متلاشی رہتے ہیں، وہ موقع مناسب دیکھ کر اس کے حسن کی تعریف کرتے ہیں اور گھر کی غربت پر ٹسوے بہاتے ہیں اور باتوں باتوں میں کہہ دیتے ہیں کہ اگر حسن کوئی جوہری دیکھ پائے تو تمھیں نور محل بنائے۔ چنانچہ وہ جھونپڑی میں رہ کر محلات کے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہے اور ان خوشگوار خوابوں کی حسین تعبیر کے لیے گھر سے نکل کھڑی ہوتی ہے، میں نے شادی کا چکمہ دے کر دیرینہ آرزوؤں کی تکمیل کر دی‘‘۔
اب وہ چھم چھم کرتی تھانے میں اِدھر اُدھر آزادی سے پھرنے لگی، حسن کے ساتھ تمکنت آ گئی۔ وہ چھوٹے درجہ کے آدمیوں سے بڑے درجہ کی عورتوں کی طرح متانت سے گفتگو کرنے لگی تھی۔
اگلے روز عدالت میں چالان پیش کرنا تھا، اس نے کپڑے بدلے، کاجل آنکھوں میں ڈالا، بازار میں نور برساتی چلی اور اس شان سے کمرہ عدالت میں پہنچی کہ مجسٹریٹ نے قلم ہاتھ سے رکھ کر اور عینک کو آنکھوں سے ہٹا کر بے ساختہ منہ سے کہا ارے!
وہ چراغ رخِ زیبا لے کر دنیا کی بے انصافیوں سے پناہ نہ پا کر عدالت کے اندھیرے میں انصاف ڈھونڈنے آئی تھی۔ حسن کی خاموش تصویر کی طرح زبانی بے زبانی سے داستانِ درد بیان کر رہی تھی کہ میں گوہرِ شب چراغ تھی، مزدور کے گھر میں رہ کر خاک میں مل گئی۔ غربت نے خاوند کے لیے دنیا اندھیر کر رکھی تھی، اسے میری روز مرہ کی بدحالی کے باعث نظر اٹھا کر دیکھنے کی فرصت ہی نہ تھی، میں نظرِ التفات سے محروم گھر سے نکل آئی۔ اب بازار کی جنس ہوں اور سرمایہ کے ہاتھ کی میل پر بک سکتی ہوں۔
ہر شہر کے بازار حسن میں بیوائیں یہی درد ناک داستان بیان کر رہی ہیں کہ کس طرح سونے چاندی کی جھلک پر مزدوروں کے گھروں سے حسن سرمست ہو کر نکلتا ہے، پھر عمر بھر رسوائے بازار رہتا ہے۔
اس روز عدالت نے تاریخ دے دی، تاکہ معلوم ہو سکے کہ ملزمہ سابقہ سزا یافتہ ہیں یا نہیں۔ مجھے ایک اور سرکاری کام کے لیے باہر جانا پڑا۔ میری غیر حاضری میں ملزم سزا پاگئے۔ مجھے امید تھی کہ عورت وارثوں کو واپس کر دی گئی ہو گی، مگر معلوم ہوا کہ تھانے کا عملہ بالعموم بردہ فروشی کا کام سرانجام دے لیتا ہے، عورت ان ہی کی وساطت سے گاؤ خورد ہو گئی۔
کیا تفتیش جرائم میں جھوٹ بولنا مناسب ہے۔ میری طبیعت پر بوجھ رہا کہ جو بات پورا کرنے کا ارادہ نہ تھا، میں نے وہ بات منہ سے کیوں کہہ دی؟ اسی طرح ایک اور مقدمہ میں، مَیں نے قرآن کے بجائے تعزیرات ہند سر پر اٹھا کر ملزم سے اقبالِ جرم کرا لیا۔ سرکاری کام نکل گیا، میری واہ واہ ہو گئی، مگر طبیعت مدت تک بے اطمینان رہی۔ قرآن بتا کر تعزیرات ہند قسم کے لیے سر پر اٹھائے، کیا ایسا شخص خدا کے غصہ سے بچ سکتا ہے؟ یہ شرعی حیلے ممکن ہے کہ زیادہ مواخدہ کا باعث ہوں۔
ڈکیتی:
ان دو مقدمات میں تو شان جمالی سے کام نکل گیا، ابھی شانِ جلالی کا ظہور باقی تھا۔ ایک گاؤں میں چوری کی رپٹ درج کی گئی، کئی ہزار کا سرقہ بتایا گیا، علاقہ کے مشہور بدمعاشوں کی فہرست ترتیب دی گئی تو معلوم ہوا کہ موقع واردات کے قریب ہی گاؤں میں ایک بڑا بدمعاش رہتا ہے۔ باوجود یہ کہ میرے پاس کافی جمعیت تھی، محض حماقت کر کے میں ایک کمزور سپاہی کو لے کر اس کی خانہ تلاشی کے لیے چل کھڑا ہوا۔ وہ بدمعاش یا تو کھڑا تھا یا مجھے چڑانے کے لیے چارپائی پر دراز ہو گیا۔ میں کھڑا، وہ لیٹا تھا اور لیٹے ہی لیٹے باتوں کا جواب دیتا رہا۔ گاؤں کے دو نمبردار موجو تھے، اس کی گستاخی دیکھ کر وہ بھی شوخ ہو گئے۔
مجھے ہیڈ کانسٹیبل تفتیش یاد آیا، اگر چماروں اور چوکیداروں سے معاملہ شروع کرتا تو یہ معرکہ پیش نہ آتا۔ صبح کو بھولا شام کو گھر آ جائے تو بھولا نہ جانیے کے مصداق، میں نے فوراً اس کی باقی نصائح پر عمل شروع کیا اور بالکل شیخ صاحب بن کر نرم ہو گیا۔ اب تو وہ اور بھی ماش کے آٹے کی طرح اکڑ گیا اور نمبر دار پہلے سے زیادہ میرے حال پر ہنسنے لگے۔
بدمعاش اپنی فوقیت کا سکہ جمانے کے لیے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: ’’تھانیدار صاحب تمھارے جیسے بیسیوں ہمارے شاگرد ہیں، ہمارے چرن لگے رہو گے تو تھانہ داری کر سکو گے، ورنہ اﷲ بیلی کر دیے جاؤ گے‘‘۔
میں نے انداز گفتگو اور بہتر بنا لیا اور کہا: ’’بے شک اسی لیے تو میں تمھارے مکان پر حاضر ہوا ہوں، تمھاری امداد کے بغیر کام میں کامیابی کیسے ممکن ہے‘‘۔ وہ میرے خوشامدانہ بات سے بن پئے جھوم گیا۔ لاف زنی کرتا ہوا آہستہ آہستہ میرے ساتھ ہو لیا، میں اس کے عالمگیر کارناموں کی داد دیتا ہوا موقع واردات تک لے آیا۔ وہاں چار پانچ سپاہی موجود تھے، میں نے کہا: ’’لو بھئی! اب کان پکڑ لو‘‘۔ وہ میری طرف کمال استغنا سے دیکھ کر کہنے لگا: ’’تھانے دار صاحب ہمارے ساتھ بھی ایسی باتیں‘‘۔
اب بھیڑ بھیڑیا بن چکا تھا، مجھے خوشامد کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی گستاخی کی بنا پر میں خون کے گھونٹ پی رہا تھا، آؤ دیکھا نہ تاؤ، تڑاخ سے اس کے منہ پر چپت لگائی۔ میرا ہاتھ ہلانا تھا کہ سپاہیوں نے جوتے اٹھالیے، ’’لے تیری کی دے تیری‘‘ شروع ہو گئی۔ علاقہ کے بڑے بدمعاش کو پٹتا سن کر عورتوں نے گھروں کے دروازے بند کر کے بچوں کو چھاتیوں سے لگا لیا۔ بدمعاشوں کی تواضع جاری تھی، میں نے مغرب کی نماز ادا کی۔ بڑا اکڑی گردن کا آدمی تھا، کان پکڑنے سے برابر انکار کرتا رہا، مگر تابکے مرتا کیا نہ کرتا۔ رات بارہ بجے بات مان گیا، یہ کہہ کہ کان پکڑ لیے کہ توبہ بھلی۔
کان تو پکڑ لیے، مگر بات مان کر نہ دے۔ اس تشدد کے بعد مقصد حل ہوتا نہ دیکھ کر میں اس سے مایوس ہو گیا، لیکن علاقہ کے ذیلدار نے بتایا کہ اس کی ایک داشتہ ہے، جس کا اس پر بڑا اثر ہے۔ صبح اسے بلایا، وہ مجھ سے ایسے مرعوب ہو گئی کہ آتے ہی کہنے لگی: ’’مجھ پر ہاتھ نہ اٹھاؤ، مال مسروقہ میں دلائے دیتی ہوں‘‘۔
کیا کہوں کہ عورت کی زبان میں کیا جادو تھا۔ ایک دفعہ کہا کہ مال دے دے، بدمعاش نے دوسری بات نہ کی۔ آگے آگے ہو لیا۔ ایک اور بھی مقدمہ کا مال برآمد کرا دیا، اس واردات میں اس کے اور شریک کار بھی تھے۔ انھوں نے مجھے کی ہزار رشوت دینا چاہی، اس گروہ نے علاقہ بھر کو لوٹ رکھا تھا، ان کے حال پر کسی وجہ سے رحم مخلوق خدا پر ظلم تھا۔ رشوت اور سفارش سے بے پرواہ ہو کر میں نے چالان کر دیا۔ مجسٹریٹ علاقہ نے میری دیانت داری کی بے حد تعریف کی، اس گروہ کی سزا یابی سے سرقہ کی وارداتوں میں کسی قدر کمی ہو گئی۔ (جاری ہے)