مدبر احرار ماسٹر تاج الدین انصاری رحمۃ اﷲ علیہ
( قدیم سیاسی روابط اور چند خوشگوار ملاقاتوں کا اجمالی تذکرہ )
یادِ ماضی:
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہ
۱۔ زمانہ کروٹ بدلتا ہے تو حالات بھی پلٹا کھا جاتے ہیں۔ آج سے تقریباً چالیس برس پہلے کی بات ہے جب مسلم لیگ کے عظیم رہنما ’’قائدِ اعظم محمد علی جناح‘‘ ابھی صرف ’’محمد علی جینا‘‘ کے نام سے پکارے جاتے تھے، اُن دونوں کانگرس اور مسلم لیگ میں کَٹا چھنی یا چپقلش کی بہت کم گنجائش تھی۔ غالباً ۲۸ء کا ذکر ہے کلکتہ میں مسلم لیگ کا اجلاس ہونے والا تھا۔ مسلم لیگ دو متحارب گروہوں میں تقسیم تھی۔ ایک گروپ کی سرداری مولانا محمد شفیع داؤدی مرحوم کر رہے تھے۔ دوسرا مضبوط گروپ مسٹر جناح کا تھا، مولانا شفیع داؤدی بڑی شد و مد سے مسٹر جناح کی مخالفت پر کمر بستہ تھے۔ نظر بظاہر مولانا شفیع داؤدی کا پلّہ بھاری نظر آ رہا تھا، پراپاگنڈے کے زور پر وہ مسٹر جناح کو شکست دینے کے لیے ہنگامہ آرائی پر تُل چکے تھے۔ کلکتہ کے بعض شوریدہ سر مولانا شفیع داؤدی کی حمایت میں پستولیں لیے پھرتے تھے۔ مسٹر جناح آئین شکنی اور ہنگامہ آرائی سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ اس صورتِ حال سے وہ کسی قدر گھبرائے ہوئے تھے۔ ہم اس اجلاس میں مسلم لیگ کے کونسلر کی حیثیت سے موجود تھے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہم میں سے بعض اراکین کی فیس بھی آخری وقت میں ادا کی گئی تھی۔ رسید کے طور پر ہمیں بارہ روپے میں سینے پر آویزاں کرنے کے لیے خوبصورت بیج دیے گئے تھے، یہی بیج کونسلری کی رسید اور گیٹ پاس کا کام دیتے تھے۔ مولانا شفیع داؤدی کا گروپ سرمایہ پرست اور ٹوڈی قسم کے لوگوں پر مشتمل تھا۔ ہماری ہمدردیاں مسٹر جناح کے ساتھ تھیں۔ مسٹر جناح کانگرس سے باہر آ کر بھی ذہناً کانگرسی تھے۔ بہرحال ہمارا دلی لگاؤ اُنھی کے ساتھ تھا۔
مسلم لیگ کانفرنس کا انتطام:
۲۔ انتظامات کی ذمہ داری ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ بمبئی والے، عبدالکریم چھاگلا کے سپرد تھی، مسٹر چھاگلا ان دنوں مسٹر جناح کے دستِ راست تھے۔ وہ خوبصورت، دُبلے پتلے اور شرمیلے سے نوجوان تھے۔ مسٹر جناح کو اُن پر بڑا اعتماد تھا، اِسی اعتماد کے صدقے میں مسٹر چھاگلا پروان چڑھے۔ ہم نے مسٹر جناح سے درخواست کی کہ وہ مسٹر چھاگلا سے کہہ کر گیٹ کی ذمہ داری ہمارے آدمیوں کے سپرد کر دیں، ہمارے پنجابی ساتھی گیٹ کی پوری ذمہ داری سنبھال لیں گے، جو ہنگامہ ہونا ہے گیٹ ہی پر ہو جائے گا، ہم بہرحال اس سے بخوبی نپٹ لیں گے اور ووٹنگ کے وقت ہم آپ کے پاس اندر پہنچ جائیں گے۔ مسٹر جناح نے ہماری خواہش کے مطابق گیٹ کی پوری ذمہ داری ہمیں سونپ دی۔ خواجہ عبدالرحیم عاجز، ان کے امرتسری نوجوان ساتھی اور دوسرے پنجابی نوجوانوں نے بحیثیت رضا کار گیٹ کا انتظام مضبوطی سے سنبھال لیا۔ مسٹر جناح ہمارے انتظام سے بالکل مطمئن ہو گئے۔ دوسرے دن اجلاس شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پیشتر ہی کرایہ پر لائے ہوئے فریقِ مخالف کے غنڈا عناصر ٹولیاں بنا کر گیٹ کے گرد گھومنے پھرنے لگے، مگر جب ان لوگوں نے پنجابی نوجوانوں کو گیٹ پر پرا جمائے اور چاق و چوبند کھڑے دیکھا تو وہ بے حوصلہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگے اور گیٹ سے دور جا کھڑے ہوئے۔ اجلاس شروع ہونے سے قبل مسٹر جناح نے صدر جلسہ کی حیثیت سے اعلان کیا کہ جن لوگوں کے پاس داخلے کے نشان یعنی بیج نہیں ہیں، وہ حضرات باہر تشریف لے جائیں، مگر حاضر اراکین میں سے کوئی بھی بیج کے بغیر نہیں تھا۔ اتنے میں مولانا داؤدی گیٹ میں داخل ہوئے، ہم سب گیٹ کو مضبوط اور بہادر ساتھیوں کے حوالے کر کے مولانا داؤدی کے ساتھ ہی اندر پنڈال کی طرف بڑھے، ابھی ہم کرسیوں سے دور ہی تھی کے اندر کے رضا کار ہم سب کو روک کر کھڑے ہو گئے، وہ چیک کر کے آگے جانے کی اجازت دیتے تھے۔ یہ ضابطے کی بات تھی، جونہی مولانا داؤدی آگے بڑھ کر ایک رضاکار کے قریب پہنچے، رضاکار نے اُنھیں روک لیا اور کہا کہ آپ کا بیج کہاں ہے؟ اگر جیب میں ہے تو نکال کر سینے پر لگا لیجیے تاکہ چیکنگ میں آسانی رہے۔ مولانا موصوف نے حیرانی سے اپنے سینے کی جانب نگاہ ڈالی تو بیج غائب تھا۔ ’’ارے گیٹ پر آیا ہوں تو بیج میرے سینے پر موجود تھا، خدا جانے گیٹ پر گرا یا اندر آ کر گر گیا‘‘۔ رضا کار نے مولانا سے ادب کے ساتھ کہا، آئیے مولانا! گیٹ پر چل کر معلوم کر لیتے ہیں۔ رضا کار مولانا کو اپنے ہمراہ لے کر پنڈال سے باہر گیٹ پر چلا گیا۔ دس منٹ بعد گیٹ پر ہنگامہ ہوا۔ مولانا اور ان کے باہر والے ساتھی ہمارے رضاکاروں سے اُلجھ پڑے۔ مگر ضابطہ کے مطابق اُنھیں بیج بغیر اندر آنا نصیب نہ ہوا، وہ اندر آ بھی جاتے تو اُن کے ہم خیال ووٹ ہی کتنے تھے؟ اس طرح سرکاری ٹولی اور اُن کے لگے بندھے مسٹر جناح سے شکست کھا گئے۔ چند ووٹ تھے جو مسٹر جناح کے خلاف آئے باقی اراکین کی بہت بڑی اکثریت کے ووٹ مسٹر جناح کے حق میں تھے۔ ہماری اور قائد اعظم کی یاد اﷲ اس وقت سے تھی جب آج کے اکثر لیگی رہنما اس دنیا میں تشریف بھی نہ لائے تھے۔ مگر…… اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ سیاسی میدان میں ہماری اور ان کی راہیں جدا جدا ہو گئیں، اس کے باوجود فریقین نے بارہا کوشش کہ کہ بیچ کا پردہ ہٹے تو باہمی مشورہ اور اشتراک سے مسلمان قوم کی برتری کے لیے متحدہ محاذ قائم کیا جائے۔ اس سلسلہ میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں مگر بے نتیجہ۔
پہلی ملاقات:
۳۔ ۳۶ء میں پنجاب کی مسلم لیگ پر معدودے چند سرکار پرستوں کا قبضہ تھا، آزاد خیال لوگ خال خال نظر آتے تھے۔ ساری کارروائی کاغذی ہوتی تھی۔ مسٹر جناح پنجاب میں ایسی جاندار لیگ بنانا چاہتے تھے جو سرکاری اثرات سے پاک ہو، مگر یہاں کا ٹوڈی طبقہ اوپر کے اشارے پر جب چاہتا لیگ میں داخل ہو کر بیان بازی کر لیتا اور جب اشارہ ملتا خاموش ہو کر بیٹھ جاتا۔ سر فضل حسین حکومت برطانیہ کے قابلِ اعتماد، ذہین اور طاقتور مُہرے تھے۔ ان دنوں سر فضل حسین کا طوطی بولتا تھا۔پنجاب پر دو طاقتوں کا قبضہ تھا؛ عوام کی نمائندگی میں احرار اور سرکار کی نمائندگی میں سر فضل حسین، احرار رہنماؤں سے سر فضل حسین کے تعلقات میں بظاہر کوئی کشیدگی نہ تھی۔ فضل حسین بے حد ذہین، سیاسی شاطر اور منتقم مزاج انسان تھے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا مسٹر جناح پنجاب مسلم لیگ کو مضبوط بنیادوں پر اُستوار کرنا چاہتے تھے۔ وہ سرکار پرستوں سے چھٹکارا چاہتے تھے مگر اُنھیں عوام تک رسائی حاصل نہ تھی، وہ اس ارادہ سے پنجاب میں تشریف لائے تاکہ آئندہ الیکشن کے لیے میدان درست کیا جائے۔ وہ سر فضل حسین سے بھی مسلم لیگ کے بارے میں مُبادلۂ خیال کرنا چاہتے تھے۔ اِدھر سر فضل حسین بھی مسٹر جناح سے ملاقات کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسٹر جناح کو پنجاب کے پالیٹکس میں داخل ہونے سے حتّی الوسع روکا جائے، چنانچہ ان دونوں بڑے آدمیوں نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں سر فضل حسین نے نہایت عیّاری سے کام لیتے ہوئے، ملاقات کے کمرے میں پردے کے پیچھے دو برطانوی جاسوسوں کو بٹھا دیا تاکہ وہ بھی مسٹر جناح کے خیالات اپنے کانوں سے سن لیں۔٭٭٭ بہرحال مسلم لیگ کو الیکشن کے میدان میں اتاریں گے، خواہ اُنھیں کانگرس سے کوئی سمجھوتا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ سرفضل حسین نے مسٹر جناح کو بے حوصلہ، دل برداشتہ اور مایوس کرنے کی انتہائی کوشش کی اور آخر میں اُنھیں کہا کہ: ’’آپ پنجاب میں جلسہ کرنے کی ہرگز کوشش نہ کریں، جلسہ کامیاب نہ ہو سکے گا، یہاں کون آپ کی بات سنے گا؟ اور کس نے ساتھ دینا ہے‘‘؟
احرار اور مسٹر جناح کی گفتگو:
۴۔ اس قسم کی گفتگو سن کر مسٹر جناح افسردہ خاطر ہو کر سر فضل حسین کے ہاں سے واپس آ کر رہنماؤں سے ملے۔ مسٹر جناح اور احرار رہنماؤں کی یہ ملاقات ڈاکٹر عبدالقوی لقمان کے مکان پر ہوئی، اس ملاقات میں احرار رہنماؤں نے مسٹر جناح سے ہمدردی کا اظہار کیا اور انھیں پنجاب کے مسلم لیگیوں اور سر فضل حسین کی صحیح پوزیشن بتائی اور اُنھیں کہا کہ آپ جلسۂ عام میں ضرور تقریر کریں، ہم جلسے کا انتظام پوری ذمہ داری سے کریں گے، چنانچہ جلسہ ہوا، مسٹر جناح نے دل کھول کر تقریر کی اور احرار رضاکاروں نے بے وردی اس جلسے کا انتظام کیا۔ مسٹر جناح کو احرار رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ آپ مسلم لیگ کو ٹوڈیوں اور سرکار پرست رؤسا کے پنجے سے نکالیے اور اسے عوامی جماعت بنایے۔ مسلم لیگ کا موجودہ طبقہ آپ کی بجائے برطانوی اشاروں پر چلتا ہے۔ جب اشارہ ملتا ہے مسلم لیگ زندہ باد کہنے لگتے ہیں، تب مسلم لیگ میں جان پڑ جاتی ہے، جب دوسرا اشارہ ملتا ہے خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور مسلم لیگ کی جان نکل جاتی ہے۔ یہ لوگ مسلم لیگ کے گلے میں چکی کا پاٹ ہیں، یہ آپ کو چلنے نہیں دیں گے۔ مسٹر جناح نے احرار رہنماؤں سے کہا کہ ’’اگر احرار ساتھ دیں تو وہ فضل حسین سے ٹکر لینے کو تیار ہیں‘‘۔ سر فضل حسین نے چونکہ ملاقات کے وقت دو انگریزوں کو پس پردہ بٹھایا تھا اور مسٹر جناح اس حرکت سے باخبر ہو چکے تھے، اس لیے مسٹر جناح سخت برہم تھے اور وہ واقعی سر فضل حسین کو اس حرکت کا مزہ چکھانا چاہتے تھے مگر……
احرار کو کیا تحفہ ملا؟
۵۔ سرفضل حسین سے خفا ہو کر مسٹر جناح تو لاہور سے تشریف لے گئے مگر سر فضل حسین کے دل میں احرار کے خلاف گرہ بیٹھ گئی، وہ احرار اور مسٹر جناح کے باہمی تعلقات کو برداشت نہ کر سکے اور احرار کے سخت خلاف ہو گئے، وہ حکومت کے نفسِ ناطقہ تھے۔ مسٹر جناح سے احرار رہنماؤں کی یہی ملاقات سر فضل حسین سے نزاع کا باعث ہوئی، ورنہ چودھری افضل حق مرحوم اور مولانا مظہر علی اظہر صاحب کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور دوستوں کی طرح ملنے میں فخر محسوس کرتے تھے، احرار رہنماؤں کے علاوہ مولانا حبیب الرحمن مرحوم و مغفور کے والد بزرگوار مولانا حافظ محمد زکریا مرحوم کے بہترین دوستوں میں تھے، بلکہ اُنھیں پیروں کی طرح مانتے تھے۔ مگر سیاست کا میدان ایسا خطرناک ہے کہ اس کی تلخی اور انتقامی جذبہ کربلا بنا دیتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ احرار کی مقبولیت جب پورے شباب پر تھی تو سر فضل حسین ہی کی مہربانی سے احرار پر ’’مسجد شہید گنج‘‘ کا ملبہ گرا دیا گیا، غریب احرار کو ایک جلسے کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑی، اور
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
مسٹر جناح دفتر احرار میں
دوسری ملاقات:
۶۔ مسٹر جناح اور مجلس احرار کے رہنماؤں میں سر فضل حسین کی ملاقات کے بعد تعلقات نہایت خوشگوار ہو گئے تھے، چنانچہ الیکشن قریب آ گیا تو مسٹر جناح لاہور تشریف لے آئے۔ اب احرار اور مسٹر جناح کے درمیان چونکہ کوئی پردہ حائل نہ تھا، وہ بے تکلف دفتر احرار میں چلے آئے اور الیکشن کے بارے میں صاف دلی سے مُبادلۂ خیال کیا، مگر سر فضل حسین کے چیلے چانٹے لیگ میں پہلے سے موجود تھے، وہ اس اہم ملاقات کو کیسے برداشت کرتے؟ اِس دوسری ملاقات کے موقع پر جو دلچسپ واقعہ ظہور پذیر ہوا اُس سے قارئین کرام صحیح اندازہ لگا سکیں گے کہ مسٹر جناح کو خود ان کے خود غرض حاشیہ نشینوں نے کن پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا تھا؟
ناقابلِ تردید حقیقت:
۷ ۔ واقعہ یہ ہے کہ مسٹر جناح کی دلی خواہش تھی کہ پنجاب کے انتخابات میں احرار ایسی فعّال جماعت اور مسلم لیگ میں باہمی تعاون ہونا چاہیے، وہ اس بارے میں احرار زعماء سے مُبادلۂ خیال بھی کرتے رہے۔ ادھر احرار زعماء بھی یہ چاہتے تھے کہ پنجاب اسمبلی میں مسلمانوں کے ایسے نمائندے آنا چاہئیں جو سرکار پرست نہ ہوں، بلکہ مخلص اور نڈر مسلمان ہو، جو مسلمان قوم کی صحیح نمائندگی کر سکیں۔ مسٹر جناح پر تو احرار کو اعتماد تھا مگر پنجاب کے اکثر مسلم لیگی رہنماؤں پر بہ وُجوہ قطعاً اعتماد نہ تھا۔ حالانکہ میاں عبدالعزیز اور ڈاکٹر اقبال مرحوم مجلس احرار کے ہر فرد کے لیے قابلِ احترام بزرگ تھے۔ احرار نے اپنی رائے کو چھپایا نہیں، بلکہ صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے مسٹر جناح سے بھی عرض کر دیا کہ آپ کے بعض ساتھی دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ انھیں باغبان اور صیّاد دونوں کو خوش رکھنے کی مستقل عادت ہے۔ انھیں ہمارے ساتھ ایمان داری سے تعاون کی تاکید فرما دیں۔ چنانچہ لاہور سے روانی سے قبل مسٹر جناح نے پنجاب کے ان مسلم لیگی رہنماؤں پر یہ بات واضح کر دی کہ ’’انتخابات میں احرار اور مسلم لیگ کو مل کر کام کرنا ہو گا، اب یہ ایک طے شدہ امر ہے‘‘۔ مسٹر جناح کی اس تاکید پر احرار مطمئن ہو گئے۔ پنجاب کے ان مسلم لیگی رہنماؤں میں یہ جرأت نہ تھی کہ وہ احرار کے متعلق اپنی دلی رائے کا واشگاف الفاظ میں اظہار کر دیتے اور مسٹر جناح سے یہ کہہ دیتے کہ احرار کے ساتھ کسی بھی صورت میں تعاون نہیں ہو سکتا اور نہ ان مسلم لیگی رہنماؤں میں یہ حوصلہ تھا کہ وہ اپنے مخلص قائد سے بغاوت کرتے۔ مسٹر جناح کے لاہور سے تشریف لے جانے کے بعد یہ حضرات پیچ و تاب کھاتے رہے اور منصوبے بناتے رہے کہ احرار سے کیونکر چھٹکارا حاصل کیا جائے تاآنکہ مشترکہ اجلاس کا وقت آ پہنچا۔ مسٹر جناح کی ہدایت کے مطابق الیکشن بورڈ کا اجلاس برکت علی ہال میں منعقد کرنے کی تاریخ کا تعیُّن ہو گیا۔ اجلاس کے انعقاد سے چند روز قبل چند لیگی رہنماء رسمی گفتگو کے لیے دفتر احرار میں تشریف لائے۔ سرسری گفتگو کے بعد یہ حضرات فرمانے لگے کہ چونکہ مسلم لیگ نے باہمی تعاون سے الیکشن لڑنا ہے ، اس لیے ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت کو سمجھ لینا چاہیے، پھر فرمایا الیکشن کے اخراجات سے نپٹنے کے لیے بہتر صورت تو یہ ہے کہ مشترکہ پارلیمنٹری بور کی جانب سے مُعْتَد بِہٖ رقم ہر امیدوار کے ٹکٹ پر لگا دی جائے اور باقی اخراجات ہر امیدوار خود ادا کرے۔ چودھری افضل حقؒ نے فرمایا کہ: ’’ہمارے ہاں تو الیکشن کے اخراجات برائے نام ہوتے ہیں، میرا گزشتہ انتخاب آپ حضرات کے سامنے ہوا ہے، اخراجات کی تفصیل بھی سن لیجیے۔ میرے پاس کل رقم دو صد روپیہ تھی، جو میں نے اپنے ساتھیوں کے حوالے کر دی۔ انتخاب ہو چکا تو کارکنوں نے واپسی پر مجھے بہتر روپے دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان دو سو روپوں میں سے باقی بچے ہیں۔ اس لیے حضرات کرام ہمیں تو الیکشن کے اخراجات کی قطعاً فکر نہیں ہے۔ آپ کی امداد بہرحال ہمیں کرنا ہے۔ ہمارے کارکن اور معزز رفقاء حلقہ انتخاب میں وقتِ ضرورت پیدل بھی سفر کر لیتے ہیں، فاقے بھی کاٹ لیتے ہیں، تھرڈ کلاس میں سفر کرتے ہیں اور اسی قلندرانہ ٹھاٹھ سے شہنشاہوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال دیا کرتے ہیں‘‘۔
اس گفتگو کے بعد فریقین مطمئن ہو گئے۔ احرار اس لیے مطمئن تھے کہ ہم نے اپنی اصل حقیقت اور حیثیت نئے دوستوں پر بغیر کسی ایچ پیچ کے واضح کر دی ہے اور یہ مسلم لیگی زغماء اس لیے مطمئن ہو گئے کہ مدِ مقابل کا پینترا معلوم ہو گیا ہے۔ اب پٹخنی دینے کے لیے آسانی سے داؤ مارا جا سکتا ہے۔
برکت علی ہال کا تاریخی اجلاس:
۸۔ مشترکہ پارلیمنٹری بورڈ کی جانب سے اجلاس کے انعقاد کا اعلان ہوا کہ ’’جلسہ کی کارروائی برکت علی ہال میں ٹھیک چار بجے شام شروع ہو گی۔ (مدعوئین کو وقت کا خاص طور پر خیال رہے)۔ ایجنڈا حسبِ ذیل ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ دیگر امور بہ اجازت صدر‘‘۔
اس اعلان کے مطابق احرار زعماء مشترکہ پارلیمنٹری بور کے اجلاس میں شمولیت کے لیے اپنے دفتر دہلی دروازہ سے جو برکت علی ہال سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع ہے، پیدل چل کر ٹھیک چار بجے ہال میں داخل ہوئے۔ خلافِ توقع مسلم لیگی زعماء ہال میں پہلے سے موجود تھے۔ احرار جا کر بیٹھے ہی تھے کہ اسٹیج سے اعلان ہوا: ’’ضروری کارروائی ایجنڈے کے مطابق ختم ہو چکی ہے۔ کوئی اور بات ہو تو فرمائیے‘‘۔ احرار زعماء حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ اپنی گھڑیاں دیکھیں تو چار بج کر چار یا پانچ منٹ ہوئے تھے، خدایا تلاوت کس وقت ہوئی۔ جلسے کا افتتاح کس نے کیا۔ تجاویز کب پیش ہوئی، یہ ماجرا کیا ہے؟ صدرِ جلسہ سے احرار زعماء نے دریافت کیا کہ ابھی تو چار بج کر چار یا پانچ منٹ ہی ہوئے ہیں، ہم ٹھیک وقت پر حاضر ہو گئے ہیں۔ اب کارروائی شروع ہونا چاہیے۔ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ لیگی زعماء یہ باتیں سن کر مسکرا رہے تھے۔ احرار زعماء کو مخاطب کرتے ہوئے صدر جلسہ نے فرمایا: ’’ادھر ہال کلاک کی طرف دیکھیے، ساڑھے چار بج چکے ہیں۔ معمولی کارروائی تھی جو ختم ہو چکی ہے‘‘۔
ہوا کیا:
۹۔ ہوا یہ کہ بعض لیگی حضرات نے معین وقت سے قبل ہال میں داخل ہو کر نہایت آسانی سے ہال کے کلاک کی سوئی کو گھمایا اور آدھ گھنٹا آگے بڑھا دیا۔ یعنی چار کی بجائے ساڑھے چار بجا دیے۔ احرار زعماء حیران تھے کہ یہ کیا تماشا ہوا ہے؟ بہرحال احرار زعماء نے صدرِ جلسہ سے عرض کیا کہ بندہ پرور، بات تو ہم نے سمجھ لی ہے، اتنا تو بتا دیجیے کہ کون کون سی تجاویز منظور ہوئی ہیں؟ ارشاد ہوا ہم نے چند کمیٹیاں بنائی ہیں اور امیدواروں کے لیے ٹکٹ کی فیس کا تعین کیا ہے۔ دریافت کیا کتنی فیس رکھی ہے؟ فرمایا ساڑھے سات سو روپیہ فی کس، وہ بھی مشروط (اس واقعہ کا ذکر تاریخِ احرار، طبع ثانی بابت مارچ ۱۹۶۸ء کے صفحہ ۲۱۱ پر ملاحظہ فرمائیں)۔ اس مرحلے پر احرار زعماء نے لیگی رہنماؤں کی عیاری اور چالاکی کو بخوبی سمجھ لیا تھا۔ احرار غریب کیا کرتے، دل برداشتہ ہو کر جلسے سے اٹھ آئے۔ آتے ہی مسٹر جناح کی خدمت میں اس صورتِ حال کی تفصیل لکھ بھیجی۔ مسٹر جناح اس خط کے ملتے ہی لاہور تشریف لے آئے، احرار زعماء سے دفتر احرار میں آ کر ملے۔ انھیں اپنے ساتھیوں کی اس طفلانہ حرکت اور نامناسب کارگزاری پر بڑا دکھ ہوا۔ وہ احرار کے دفتر سے یہ فرماتے ہوئے اُٹھے کہ ’’میں اُن لوگوں سے ابھی دریافت کرتا ہوں کہ انھوں نے ابتداء ہی میں ایسی بدمزگی کیوں پیدا کی
دوسرے دن مسٹر جناح پھر تشریف لائے۔ ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ: ’’میں چاہتا تھا کہ آپ بھی میرے ساتھی بنیں، مگر جب میرے اپنے بعض ساتھی آپ کے ساتھ نہ چل سکیں تو کیا کِیا جائے؟ مجھے بہرحال یہ لوگ جیسے بھی ہیں، اِنھی کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا‘‘۔
آخری ملاقات:
۱۰۔ رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اﷲ علیہ کو ایک روز مسٹر جناح نے دہلی میں اپنی کوٹھی پر چائے کی دعوت دی۔ اُن دنوں جماعتی تنظیم کے سلسلہ میں، دہلی میرا ہیڈ کوارٹر تھا۔ دعوت چونکہ صرف مولانا حبیب الرحمن صاحب کو دی گئی تھی، اس لیے میں اُن کے ہمراہ نہ جا سکا، مولانا تنہا تشریف لے گئے۔ میں مولانا کی واپسی کا بے تابی سے انتظار کرتا رہا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ دو ذمہ دار لیڈروں نے قوم اور ملک کی بہتری کے لیے کن لائنوں پر مُبادلۂ خیال کیا ہے۔ موصوف کی کوٹھی سے مولانا نے واپس آ کر بتایا کہ مسٹر جناح نے نہایت بے تکلفی اور خلوص سے باتیں کیں۔ مقصد ایک تھا، مگر طریقِ کار میں اختلاف تھا۔ کافی بحث مُباحثہ کے بعد مسٹر جناح نے مولانا کو بازو سے پکڑ کر فرمایا کہ: ’’مولانا میرا ساتھ دیجیے، پھر دیکھیے میں کیا کرتا ہوں‘‘؟ مولانا نے برجستہ جواب دیا کہ: ’’آپ نے مجھے بازو سے پکڑا ہے، آپ چھوڑ تو نہیں دیں گے؟ آپ کے موجودہ ساتھی ہمیں برداشت کر لیں گے؟ کہیں پھر شفیع لیگ کا مردہ زندہ نہ ہو جائے اور آپ اپنے ساتھیوں ہی کی وجہ سے دوسری الجھن میں پھنس جائیں، آپ اچھی طرح سوچ لیں‘‘؟
مولانا نے بتایا کہ یہ ساری گفتگو دوستانہ ماحول میں ہوئی۔ مولانا واپس آنے لگے تو قائد پاکستان نے دوبارہ ملاقات کی خواہش کی مگر اُس کے بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ دوبارہ ملاقات کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ مسلم لیگ پر مسلط ٹوڈیوں اور سرمایہ داروں، لیگ کے دوسرے درجہ کے لیڈروں اور نچلی سطح کے کارکنوں نے ایسا معاندانہ رویہ اختیار کیا اور اختلافات کی ایسی آندھیاں اٹھائیں کہ پناہ بخدا! مجلس احرارِ اسلام اور مسلم لیگ میں تلخی بڑھ گئی۔ اختلافِ رائے نے مخالفت کی صورت اختیار کر لی اور مُنافرت کی خلیج ناقابلِ عبور ہو گئی تا آنکہ
اس کشمکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہ کا !