حکیم حافظ ارشاد احمد رحمہ اﷲ
یہ مضمون امامِ اہلِ سنَّت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری قدس سرہ کی وفات (۲۳ ؍اکتوبر ۱۹۹۵ء) کے موقع پر جناب حکیم حافظ ارشاد احمد مرحوم و مغفور نے تحریر کیا۔ مضمون کے مصنف بھی انتقال کر چکے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ صاحب تحریر اور موضوعِ تحریر دونوں بزرگوں کی مغفرتِ کاملہ فرمائے۔ بطورِ یاد گار مضمون شاملِ اشاعت ہے۔(ادارہ)
حضرت سید ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ عرصہ چالیس سال سے اس بندۂ عاجز کی شناسائی تھی۔ آپ کے متعدد واقعات اور کئی واجب التقلید عظیم الشان کارنامے جو دل و دماغ میں چھپے ہوئے تھے آج ایک واضح نقشہ کی مانند آنکھوں کے سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔ حضرت ممدوح رحمۃ اﷲ علیہ ہمارے قائد و رہبر تھے مگر بے تکلفی ایسی تھی کہ اگر بیان کی جائے تو افسانہ معلوم ہو گا۔ آہ صد آہ!
کون ہے جو تقدیر سے پوچھے کہ کیوں مر جاتے ہیں ایسے لوگ
جن کی باتیں جن کی یادیں بن جاتی ہیں دل کا روگ
قربِ قیامت ہے ، فتنے کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں ایسے قدسی صفات برگزیدہ حضرات کا دنیا سے رخصت ہو جانا ہمارے لیے یقینا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ خطابت کے بادشاہ تھے، مؤرخ، محقق، عظمتِ صحابہ کی مظلومیت کی حقیقی وکالت کرنے والے اور تحفّظ عقیدۂ ختم نبوت کے علم بردار تھے۔ وہ آج ہم سب کو داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔ آہ
وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
ولٰکنَّہ بنیان قومٍ تہدَّما
یعنی قیس کی موت کسی ایک شخص کی موت نہیں بلکہ وہ تو پوری قوم کی بنیاد تھا جو گر کر پاش پاش ہو گئی۔
عصرِ حاضر میں حضرت ممدوح رحمۃ اﷲ علیہ کے علم و عمل کی نظیر تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ میں قیادت کے جملہ اوصاف موجود تھے۔ مجھے یاد آ رہا ہے، کہ آپ نے جب جریدہ ’’مستقبل‘‘ کا اجراء فرمایا تو حضرت امیر شریعت قدس سرہ کے دورۂ ضلع ڈیرہ غازی خان کے لیے راقم کو تقریباً ایک سو نسخہ برائے فروخت دیا۔ مگر میری طبیعت راستے میں خراب ہو گئی اس لیے میں یہ جریدہ فروخت نہ کر سکا۔ حضرت امیر شریعت رحمۃ اﷲ علیہ کا آخری خطاب کوٹ مٹھن تھا تو میں نے عرض کی کہ حضرت میرے پاس حضرت حافظ جی کا جریدہ ’’مستقبل‘‘ برائے فروخت موجود ہے، میری طبیعت ٹھیک نہیں ـتھی اب آپ اپنے خطاب کے دوران اس کا تعارف کرا دیں تا کہ یہ رسالہ فروخت ہوجائے۔ حضرت شاہ جی مسکرا کر خاموش ہو گئے۔ مگر جب آپ کا خطاب شروع ہوا تو آپ نے ’’مستقبل‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:
’’حضرات! میرے بیٹے سید ابو ذر بخاری کا ایک علمی جریدہ ’’مستقبل‘‘ ملتان، برائے فروخت جلسہ گاہ میں ان کے ایک ساتھی کے پاس ہے۔ سید ابو ذر بخاری جو اس رسالے کے مدیر ہیں عالم ِ دین ہیں، حافظِ قرآن ہیں، شاعر و ادیب ہیں، مدرس و محقّق ہیں، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ سب کچھ ہیں اور میں کچھ نہیں ہوں‘‘۔
تقریباً ۱۰۰ عدد شمارے آدھ گھنٹے میں فروخت ہوگئے۔ میں نے واپسی پر حضرت ابو ذر بخاری کو حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ کے یہ جملے سنائے تو فرمایا: ’’شفقتِ پدری نے یہ الفاظ استعمال کرائے ہیں‘‘۔ آپ نے کئی بار میرے ذمے لگایا کہ تم نے ابا جی رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ کئی دوروں میں شرکت کی ہے، ان کے فرمودات اپنی روایت کے ساتھ قلم بند کر دو، میں وہ سب تمھاری روایت کے ساتھ شائع کر دوں گا۔ مگر وائے افسوس کہ میں حضرت ممدوح علیہ الرحمۃ کی زندگی میں اس کی بھی تکمیل نہ کر سکا۔ حضرت ابو ذر بخاری کی موت نے آج پھر سے پورے قافلہ اور کاروان کی یاد تازہ کر دی ہے۔ مفکر احرار چودھری افضل حق، امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا محمد گل شیر شہید، قائدِ احرار شیخ حُسام الدین، ماسٹر تاج الدین، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا لال حسین اختر، مولانا محمد حیات فاتحِ قادیان، مولانا عبد الرحمن میانوی، آغا شورش کاشمیری اور جانباز مرزا رحمہم اﷲ اجمعین اور ہزاروں رضاکارانِ احرار آج میرے سامنے ہیں اور میری یادیں ان کے کارناموں اور تقریروں سے منوّر ہیں۔
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
سنتے تھے کہ حضرت مولانا سید ابو ذر بخاری کسی کی اختلافی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، مگر قریب ہوئے تو پتا چلا یہ سب ان کے خلاف بعض مذہبی اجارہ داروں کا پروپیگنڈہ تھا۔ ہم نے کئی بار حضرت ممدوح علیہ الرحمۃ سے اختلاف کیا اور آپ نے بڑی خندہ پیشانی سے نہ صرف سنا بلکہ خود ان اختلافی نوٹس کو لکھتے رہے، غور فرمایا اور اس بارے میں بڑے پیار اور دلائل سے ہمیں اچھی طرح سمجھایا۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
آپ بحیثیت انسان ناراض بھی ہو جاتے اور اس ناراضی کی بھی کوئی معقول وجہ ہوتی تھی، مگر تھوڑی دیر بعد بڑی شفقت و محبت سے مہربان ہو کر منا لیتے۔ آپ کی وفات کا یقین بھی نہیں آ رہا مگر کب تک۔ منقول ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے برادرِ محترم سیدنا حضرت عبد الرحمن بن صدیقِ اکبر رضی اﷲ عنہ کی قبر کی زیارت کے وقت بڑے اندوہناک طریقے میں یہ اشعار پڑھے:
وکنّا کندمانَی جُذیمۃ حقبۃً
من الدہر حتَّی قیل لن یتصدَّعا
فلمَّا تفرَّقنا کأنِّی ومالکاً
لطولِ اجتماعٍ لم نبت لیلۃ معا
اور ہم جذیمہ کے دو ہم نشینوں کی طرح کافی زمانہ اکٹھے رہے، یہاں تک کہ لوگوں نے کہا کہ اب وہ جدا نہ ہوں گے۔ لیکن جب موت نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی تو ایسے معلوم ہونے لگا کہ اس طویل اجتمال کے با وجود گویا میں نے اور مالک نے ایک رات بھی اکٹھے بسر نہیں کی۔(جذیمہ الابرش ایک بادشاہ تھا جس کی مجلس میں دو لوگ ہمیشہ ساتھ ساتھ حاضر رہتے تھے، جن کے نام مالک اور عقیل تھے)۔
رات دن لوگ زیرِ زمیں چلے جاتے ہیں
نہیں معلوم تہہِ خاک تماشا کیا ہے