ڈاکٹرعمرفاروق احرار
برطانوی اِستعمارکے متحدہ ہندوستان میں قادیانیت کی تخلیق کے بنیادی مقاصدمیں انگریزسرکارکے لیے وفاداری کے جذبات پیداکرنا،جذبۂ جہادکی رُوح کا خاتمہ اورمسلمانوں میں مذہب کے نام پر نئے اِرتدادی فتنے کی ترویج تھی۔اس لیے مرزاغلام احمد قادیانی نے انگریزوں کے ایماء پر مرحلہ وارمجدد،مہدی اورنبی ہونے کے دعوے کرکے اُمت مسلمہ میں انتشارواِفتراق کا بیج بویا اورجہادکے خلاف تحریروں کا آغازکیا۔مرزاقادیانی مشرقی پنجاب(انڈیا) کے ضلع گورداس پورکے قصبہ قادیان کا رہنے والاتھا۔اِس لیے قادیانیوں کے نزدیک قادیان کو مقدس مقام کادرجہ حاصل تھا۔مرزاقادیانی کے بعداُس کے بیٹے مرزابشیرالدین کے قادیانی جماعت کی سربراہی سنبھالتے ہی قادیان میں اُس کی آمرانہ حکومت قائم ہوگئی اور غیرقادیانیوں خصوصاً مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی۔ مسلمانوں کو سماجی بائیکاٹ اورظلم و تشددکے حربوں سے اس قدرزِچ کردیاگیاتھا کہ اُن کے لیے قادیانیت قبول کرلینے یا قادیان چھوڑدینے کے سواکوئی تیسراراستہ باقی نہ رہاتھا۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود کی آمرانہ اور استبدادی طبیعت کی وجہ سے مرزائی جماعت میں بھی پھوٹ پڑ گئی اور وہ لاہوری اور قادیانی؛ دو ذیلی فرقوں میں بٹ گئی۔ مرکزی دھارے کی مرزائی جماعت قادیانی کہلاتی ہے اور دوسری جماعت لاہور میں مرکز ہونے کی وجہ سے لاہوری کہلاتی ہے۔ ان روزوں اکثر لبرل پلیٹ فارمز پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مولوی احمدیوں کو قادیانی کیوں کہتے ہیں؟تو اس کا تاریخی پس منظر یہی ہے۔ جب عام مسلمان اور خاص طور پر مرزائی مذہب کی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے مسلمان قادیانی کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد مرزائیوں اور احمدیوں کا ایک خاص فرقہ ہوتا ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں۔ جب کہ دوسرا فرقہ لاہوری فرقہ ہے جس کے خیال میں مرزا قادیانی نبی نہیں تھا بلکہ ایک مجذوب صوفی اور مصلح و مجدد تھا۔
مجلس احراراسلام کے رہنما تحریک کشمیر(1931ء)کے اجراء اوراُس کے نتیجے میں قیدوبندسے آزادہوئے ہی تھے کہ اُنھی دنوں قادیان کے مظلوم مسلمانوں نے اُنہیں دادرَسی کی درخواست اوروہاں کے دردناک حالات وواقعات پر مشتمل ایک خط ارسال کیا۔افسوسناک واقعات سے آگاہی پاکر احرار رہنماؤں میں اضطراب کی شدید لہردوڑگئی اور اُنہوں نے میدان میں اُترنے کا فیصلہ کرلیا۔ جنوری 1934ء میں مولاناعنایت اﷲ چشتی ؒکو قادیان میں بحیثیت احرارمبلّغ تعینات کرکے وہاں دفتر احرارکھول دیاگیا۔یہ قادیان کی تاریخ میں پہلی بارکسی مسلمان جماعت کا قادیانیوں کے مقابل آنے اورقادیان میں ڈیرہ لگانے کا جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔ مجلس احراراسلام نے ختم نبوت کے تحفظ، قادیانیت کے طلسم کو توڑنے اوراُس کے منفی اثرات کے خاتمے کے لیے اپریل 1934ء میں جماعت کا ایک غیرسیاسی شعبہ،’’شعبۂ تبلیغ‘‘ کے نام سے قائم کیا۔اِسی اثناء میں احرار رہنماؤں نے 21،22،23؍اکتوبر1934ء کو قادیان میں تاریخ ساز تین روزہ آل انڈیااحرارتبلیغ کانفرنس کے انعقادکا جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔
قادیان ،ایک قادیانی ریاست کے طورپر پہچاناجاتاتھا۔جہاں قادیانیوں کو اَنگریزحکام کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی ۔وہاں قادیانیوں کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت کرنا ،گردن زدنی کے مترادف تھا۔متعددعلمائے کرام تحفظ ختم نبوت کی پاداش میں قادیانیوں کے ہاتھوں پِٹ چکے تھے۔ ظلم اوروَحشت کی اس فضامیں قادیان میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد بہت جرأت آزما اوربڑے دل گردے کا کام تھا۔قادیان مرزائی نبوت کے شاہی خاندان کا ملکیتی قصبہ تھا۔اپنے علاقہ میں وہ ایسی کانفرنس کامنعقد ہونا کیسے برداشت کرسکتے تھے؟ اِس لیے کانفرنس کے لیے متعینہ جگہ کے گرد قادیانیوں نے چاردیواری تعمیرکردی ۔آخر کار قادیان کی غربی سمت آریہ ہندوؤں کے قائم کردہ ایک سکول کی کئی ایکڑ پر مشتمل وسیع اراضی کو کانفرنس کے لیے منتخب کرلیاگیا۔
احرار ختم نبوت کانفرنس کا شہرہ برصغیرکے کونے کونے تک پہنچ چکاتھا۔مسلمانوں کی اپنے آقامحمدرسول اﷲﷺ سے محبت اوراُن کے ناموس پر مرمٹنے کا جذبہ دیدنی تھا۔ہندوستان کے ہرعلاقے بالخصوص پنجاب میں کہ جہاں سے قادیانیت نے جنم لیاتھا،مسلمانوں کا جوش وجذبہ اپنے عروج پر تھا۔ہندوستان کے کونے کونے سے مسلمان قادیان پہنچ رہے تھے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 2لاکھ سے زیادہ ختم نبوت کے پروانوں نے اپنے آقاﷺکے ناموس کی حفاظت کے عزم کے لیے کانفرنس میں شرکت کی۔یہ احرارکاقادیان میں فاتحانہ داخلہ تھا۔ہندوستان کے نامورعلماء کرام اورمشائخ عظام کی بڑی تعدادختم نبوت کانفرنس میں شریک ہوئی۔جن میں مولانا سیدحسین احمدمدنی،مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلوی،مولانا احمدعلی لاہوری، حضرت خواجہ فضل علی قریشی، مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری،مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،مولانا ظفرعلی خان،مولانا سیدمحمد داؤدغزنوی ،صاحبزادہ سید فیض الحسن،مفتی عبدالرحیم پوپلزئی، مولانا سیدابوالحسنات محمداحمد قادری رحمہم اﷲ تعالیٰ، سمیت احرارکے تمام مرکزی قائدین شامل تھے۔کانفرنس حضرت امیرشریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒکی صدارت میں ہوئی۔جس میں آپ نے تاریخی تقریرفرمائی۔
مجلس احراراسلام کے قادیان میں فاتحانہ داخلے اورختم نبوت کانفرنس کی تاریخی کامیابی نے مسلمانانِ ہند کے اذہان وقلوب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ کانفرنس کا ایک منفردنتیجہ یہ ہواکہ وہ لوگ جو قادیانیوں کے کفریہ عقائد سے ناواقفیت کی بناء پر اُنہیں مسلمانوں میں شامل سمجھتے تھے اورمسئلہ ختم نبوت کو محض ’’احراری،احمدی تنازع‘‘ اورمسلم گروہوں کا فرقہ وارانہ جھگڑا خیال کرتے تھے،مقررین کے مضبوط دلائل سے متاثرہوئے،نیزتمام مکاتب فکر کے رہنماؤں کوایک ہی سٹیج پربراجمان اور ختم نبوت کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد دیکھ کرقادیانیت کے خلاف اُن کے عقائدمیں مزید پختگی پیداہوگئی۔بالخصوص جدید تعلیم یافتہ مسلمان قادیانیوں کی سازشوں سے باخبرہوگئے۔ جبکہ قادیان کے مسلمانوں کو بہت حوصلہ ملا کہ اب قادیانیوں کے خلاف سینہ سپر ہونے میں ساراہندوستانی مسلمان اُن کا پشت پناہ ہے۔دوسری طرف قادیانی فرعونیت کے غبارے سے ہوانکل گئی اوراحرارکے قادیان میں فاتحانہ داخلے سے قادیانیوں پر یہ واضح ہوگیا کہ ظلم ودھونس سے مقامی مسلمان آبادی کو مزیددبائے رکھناممکن نہیں رہا،کیونکہ اب قادیانیوں کے مقابلے میں قادیان کے نہتے اورمظلوم مسلمان ہی نہیں،بلکہ مجلس احراراسلام جیسی ملک گیردائرۂ عمل اورتنظیم رکھنے والی جماعت آچکی تھی۔جس کے مقابل آنا اب قادیانیوں کے لیے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا۔
غرض یہ کہ قادیان میں احرارکے فاتحانہ داخلے ،ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد اوربعدمیں مجلس احرارکے زیراِنتظام مرحلہ وارمسجدختم نبوت اورمدرسہ جامعہ محمدیہ کی تعمیراورقادیان کے غریبوں کے لیے دیسی کھڈیوں اورسکول کے قیام وغیرہ جیسے اقدامات سے وہاں کے مسلمان ،قادیانیوں کے مقابلے میں مضبوط ہوتے گئے اورقادیانیت کا مکروہ چہرہ انصاف پسندحلقوں پر مزیدواضح ہوتاگیا۔ قادیانیت کے بے نقاب ہونے سے مسلمانوں کے تمام طبقات بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقے پر قادیانیت کے اصل خدوخال واضح ہوئے اوراُس کے نتیجہ میں علامہ اقبالؒ جیسی عظیم قومی شخصیت کے قلم سے قادیانیوں کے خلاف مضامین نکلے۔جن کی بدولت قادیانیت کی اصل تصویرسب پر آشکارہوتی چلی گئی ۔جانگسل جدوجہد اوربے مثال قربانیوں کے تسلسل کے بعد بالآخر 7ستمبر1974ء کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کے کفرواِرتداد کے بارے میں قرآن وحدیث کے فیصلے کی توثیق کردی اوربالاتفاق اُنہیں آئینی طورپر غیرمسلم اقلیت قراردے دیا ،جو دراصل قادیان سے شروع ہونے والی مسلمانوں کی اس بے مثال تاریخی جدوجہدکا منطقی نتیجہ تھا۔درحقیقت اخلاص اورایمانی غیرت سے آغازپانے والے اقدامات ایسے ہی شاندارنتائج اوردُوررَس اثرات سے ہم کنارہُواکرتے ہیں۔