سید محمد کفیل بخاری
پی ٹی آئی حکومت قائم ہوئے ابھی دو ماہ ہوئے ہیں لیکن جس تبدیلی کا نعرہ لگا کر اور عوام کو سبز باغ کا چکمہ دے کر موجودہ سیاسی اشرافیہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو ئی ہے بہت ہی تھو ڑے وقت میں اس کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے تاریخی دھرنے اور پھر جولائی 2018ء کے انتخابات میں یہ بات مسلسل دہرائی کہ:
’’ہم اقتدار میں آکر لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لیں گے، ملک کی معیشت کو مضبوط و مستحکم کریں گے اور آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لیں گے، سابق حکمرانوں نے ملک کو قرضوں میں جکڑ کر عالمی سرمایہ داروں کے ہاں گروی رکھ دیا ہے، ہمارے ملک کے اپنے اتنے وسائل ہیں کہ ہمیں قرضوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، ہم اپنے وسائل کو استعمال کر کے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیں گے اور ’’نیا پاکستان‘‘ہو گا ‘‘
لیکن دوماہی حکومت کے نئے پاکستان کا منظر انتہائی بھیانک اور مایوس کن ہے – اب نئے پاکستان کے نئے وزیر اعظم فرما رہے ہیں کہ:
’’ملک بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے، زر مبادلہ کے ذخائر ختم اور خزانہ خالی ہے، ملک دو مہینے بھی نہیں چل سکتا۔ ہم آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرضے لیں گے، سابقہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہمیں مزید قرضوں کی ضرورت ہے اور یہ ہماری مجبوری ہے۔ آنے والے 3سے 6 ماہ پاکستان کے لیے بہت سخت ہیں‘‘
وزیر اعظم عمران خان جو الزامات سابق حکومتوں کو دیتے رہے اب خود انہی پر عمل پیرا ہیں، کہاں گئی وہ تبدیلی جس کو عنوان بناکر اور جس کے نعرے لگا کر وہ تخت اقتدار پر فروکش ہوئے ہیں۔ انہوں نے تو سو دن میں سب کچھ بدلنے کا وعدہ و اعلان کیا تھا اور دوماہ میں ہی ان کی بس ہو گئی ہے۔ انہوں نے ایک ماہ میں سعودی عرب کے دومرتبہ دورے کیے اور بالآخر 6ارب ڈالر کا ’’بھیک پیکج‘‘ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ 3 ارب ڈالر نقد اور 3ارب ڈالر کا ادھار تیل۔ ابھی ملائشیا اور چین کے دورے بھی ہونے ہیں، دیکھتے ہیں وہاں سے کیا خیرات ملتی ہے۔ سی پیک کے حوالے سے پاکستان پہلے ہی چین کا مقروض ہے، چینی سفیر کے مطابق یہ آئندہ 3سال بعد پاکستان نے ادا کرنا ہے۔ خان صاحب آئی ایم ایف سے بھی قرضہ لیں گے اور وہ اپنی شرائط پر ہی دے گا، جو ہمیشہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور ملکی خود مختاری کے خاتمے پر ہی مشتمل ہو تی ہیں۔ معلوم نہیں یہ کونسی معاشی و اقتصادی تھیوری اور حکمت عملی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر عمران خان نیا پاکستان یعنی دو منزلہ پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
پی ٹی آئی حکومت نے دو مہینوں میں جتنے غلط فیصلے کیے اور جتنے یو ٹرن لیے وہ تاریخی ریکارڈ اور نا اہلی و نا پختگی کی بد ترین مثال ہے۔قر ضوں کی مخالفت کی، اب کشکول لیے ملکوں ملکوں پھر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملک کو نجات دلانے کا اعلان کیا، اب اسی سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ الیکٹیبلز کو لوٹے اور ڈاکو کہا، لیکن سابق آمر پرویز مشرف دور کے سارے لوٹے اور باقیات سیئات اپنی کا بینہ میں شامل کر لیے۔ مہنگائی کو ختم کر نے کا وعدہ کیا، لیکن بجلی و گیس اور خور و نوش کی بنیادی عوامی ضرورتوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ادھر وزیر خزانہ اسد عمر فرماتے ہیں کہ آئندہ تین سال تک ہمیں مہنگائی کی چکی میں پسنا ہوگا۔
ان حالات کے پیش نظر پی ٹی آئی کمپنی کی حکومت زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتی۔
سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ:
’’پی ٹی آئی ملک نہیں چلا سکتی، تمام جماعتیں حکومت کے خلاف قرارداد لائیں‘‘
مولانا فضل الرحمن روز اول سے اپوزیشن جماعتوں کو متحد و منظم کر نے کی جد و جہد کر رہے ہیں اور اس وقت حکومت کے سخت ترین مخالف ہیں، ان کی کو ششیں بار آور ہوتی نظر آرہی ہیں۔ آصف زرداری، مولانا کے در دولت پر حاضر ہو ئے، سابق وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف احتساب عدالت میں پیشی پر اکٹھے ہوئے اور اب مولانا فضل الرحمن نے 31 اکتوبر کو اے پی سی بلانے کا اعلان کر دیا ہے، اپوزیشن کے عزائم اور تیور موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی چغلی کھا رہے ہیں۔ منظر کچھ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ:
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پو چھو
گھری ہوئی ہے ’’حکومت‘‘ تماش بینوں میں
وزیر اعظم عمران خان اگر پی ٹی آئی کمپنی حکومت چلانا چاہتے ہیں تو انہیں لڑائی کے محاذ کم کرنے ہوں گے، وہ بیک وقت سیاسی و مذہبی محاذوں پر حملہ آور ہیں۔ پہلے قادیانی عاطف میاں کو اقتصادی کونسل میں شامل کیا پھر شدید عوامی رد عمل پر برطرف کیا۔ سینیٹ میں قانون توہین رسالت پر حملہ کی کوشش کی گئی جس پر جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے شدید احتجاج کیا اور حکومت کو بیک فٹ پر آنا پڑا۔ اب لمز یونیورسٹی کے طلبا کو چناب نگر کے قادیانی اداروں کا دورہ کرایا گیا اور رواداری کے نام پر مسلمان طلبا کو بے غیرتی کا سبق پڑھایا گیا ہے۔ دینی مدارس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، دینی جماعتوں اور رہنماؤں کے راستے مسدود کیے جا رہے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے اکثر اقدامات کے آغاز کی ذمہ داری مسلم لیگ ن کی سابق حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ دورِ سابق کے وہ سیاہ کارہائے بد ہیں جو استعماری اور طاغوتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انہوں نے کیے لیکن عمران خان کو ان کا اعادہ نہیں کرنا چاہیے، ان کے انجام بد کو سامنے رکھیں اور اپنے انجام خیر کی فکر کریں۔
فاعتبروا یآ اولی الابصار! ……………… رہے نام اﷲ کا