مجلس احراراسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ نے نجی اسکولوں کے نصاب میں وطن عزیز کیخلاف مواد اورمتنازع کورس کے انکشاف پرسخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک گہری اوردیرینہ سازش کا شاخسانہ قراردیاہے ۔انہوں نے کہاکہ بچوں کے والدین نے اس سلسلہ میں عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کیاہے جوخوش آ ئندہے ایک میڈیا رپورٹ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ملک بھرکے سب سے بڑے اسکولوں کا نیٹ ورک اس قدر بااثرمافیابن گیاہے کہ وہاں پرمحکمہ تعلیم کے افسر ان کوباقاعدہ انسپکشن کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ان اسکولوں میں سندھ ،پنجاب ،خیبرپختونخواہ سمیت دیگر ٹیکسٹ بک بورڈز کی کتابیں پڑھانے کے علاوہ اپنااپنانصاب بھی پڑھایا جاتاہے ،جس میں ملک مخالف مواد شامل کیاگیاہے اورکمسن طلبہ کے ذہن میں ایسے سبق اورنقشے بٹھائے جاتے ہیں جوسراسراسلام اورپاکستان کے مخالف ہیں ۔اس حوالے سے پنجاب کے مختلف شہروں میں محکمہ تعلیم کے نچلے افسران نے محکمے کے اعلیٰ افسران کے علم میں بھی یہ لایا تاہم کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ای ڈی اوملتان کی جانب سے اعلیٰ حکام کوخط لکھا گیاہے جس میں انہوں نے دی ایجوکیٹر اوربیکن ہاؤس کے نصاب پرپابندی عائد کرنے کی سفارش کی تھی ۔دی ایجوکیٹر کے سابق ملازم ارمغان علیم ولد عبدالعلیم کی جانب سے سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل کوبھیجی گئی درخواست کے مطابق بیکن ہاؤس کے ذیلی ادارے دی ایجوکیٹرز میں2018ء اور2019ء کی کلاسوں میں سوشل اسٹڈیز میں جموں وکشمیرکوبھارت کا حصہ بتایااوردکھایا جارہاہے ۔اس خط میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیٹر کاحوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی اسکول یا ادارہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی چیپٹرعلیحدہ سے چھاپ سکتا ہے نہ پڑھا سکتا ہے ،تا ہم اس کے باوجود ایجوکیٹر کی جانب سے ایسا نصاب پڑھایا جا رہا ہے ،جس پر متعلقہ اتھارٹی کے علم میں لانے کے علاوہ دی ایجوکیٹر کے ریجنل مینجر شہزاد حسین کے علم میں بھی لایا گیا ۔رحیم یار خان کے اسسٹنٹ مینجر غلام احمد کو بھی اس مواد سے آگاہ کیا گیا۔خط کے مطابق دی ایجوکیٹر کلاس 7کی سوشل اسٹڈیز کی کتاب میں گلگت بلتستان اور جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے ۔دوسری کلاس کے نصاب میں پاکستان کے نقشے کے مطابق اسکردو اور آزاد کشمیر کو متنازعہ علاقوں کے طورپر دکھایا گیا ہے ۔چوتھی جماعت کی کتاب میں بھی آزاد کشمیر کو متنازعہ اور گلگت بلتستان کو بھارت کا مقبوضہ علاقہ دکھایا ہے ۔پانچویں جماعت کی کتاب میں بھی اسی طرح کے نقشے ظاہر کئے گئے ہیں ،جن میں کشمیر کو بھارت کا حصہ اور گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ دکھایا گیا ۔اسی کتاب کے ایک دوسرے حصے میں آزاد کشمیر اور مظفرآباد کو بھی متنازعہ قرار دیا گیا ہے ۔اسی کتاب کے ایک دوسرے نقشے میں مکمل گلگت کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے ۔تیری جماعت کی کتاب کے نقشے میں جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے ۔اس طرح سوشل میڈیا پر شہریوں نے بیکن ہاؤس اور دی ایجوکیٹر کے اس نصاب کو ففتھ جنریشن وار سے تشبیہ دیتے ہوئے مہم شروع کر دی ہے ۔دانیال ہمدانی نے لکھا ہے کہ ففتھ جنریشن وار اور سلوپوائزنگ کے تحت اب بھارت یا کوئی بھی ملک اپنے حریف کے خلاف جنگ اسی نوعیت کی لڑے گا۔ایجوکیشن مافیا کے نام سے ایک آئی ڈی سے لکھا ہے کہ ان اسکولوں میں بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے کہ تمام خداؤں کا خدا زیوس (Zeus)ہے ۔پھر اس کے بعد بچوں سے سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ بتائیے (Zues)کون ہے تا کہ اس کا بچے اعادہ کریں۔کمروٹی ایجوکیشنل سوسائٹی کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ پاکستان کے مقتدر ادارے دی ایجوکیٹرز کے خلاف کاروائی کر کے متنازعہ نصاب بند کرائیں تاکہ ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں کشمیر اور اس کے علاوہ دیگر گلگت و بلتستان کے حوالے سے ابہام نہ رہے۔’’بیکن ہاؤس اور آن پاکستان ‘‘نامی سوشل میڈیا پیج کے ذریعے ایک مہم چلائی جا رہی ہے ،جس میں بتایا گیا ہے کہ 2018 ء کے شروع میں ہی بیکن ہاؤس اور دی ایجوکیٹرز کے اپنے نصاب میں تبدیلیاں کی تھیں۔پاکستان کے نقشے سے کشمیر نکال کر بھارت کے حصے میں ڈال دیا تھا ۔گلگت بلتستان کو بھی پاکستان کے نقشے سے نکال کر دکھایا گیا ۔اسی طرح دی ایجوکیٹر اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہے کہ 1971 ء کی جنگ کے حوالے سے پاکستانی موقف کے بجائے بھارتی موقف کو پروموٹ کیا جا رہاہے۔سوشل میڈیا پر چلنے والی اس زبردست مہم کے بعد نامور صحافیوں کی جانب سے بھی اس پر تبصرے کئے جا رہے ہیں۔اوریا مقبول جان کی جانب سے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گزشتہ 30سے 35برس سے ،جب سے آکسفورڈ اور کیمبرج کے نظام کو داخل ہونے کی اجازت دی گئی ۔تب سے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تاریخ ،معاشرتی علوم میں بڑے پیمانے پر قدغن لگائی جا رہی ہے کیونکہ 12سے 13سال کے عمر کے بچوں کی ذہن سازی ایسی کی جا رہی ہے ،جس سے وہ ساری زندگی اس سبق کو یاد رکھتا ہے اور اسی کو ہی آگے پھیلائے گا ۔مجیب الرحمٰن شامی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ سوشل میڈیا پر جس نصابی کتابوں پر بحث کی جا رہی ہے ۔وہ کیمبرج کے نصاب میں بھی شامل ہے اور دیگر متعدد اسکولوں میں پڑھائی جا رہی ہے،صرف نزلہ بیکن ہاؤس پر ڈالنا بدنیتی معلوم ہوتی ہے ۔حکومت کوبرطانوی حکومت سے بات کرکے اسے نصاب سے حذف کروانا چاہیے ۔ادھربیکن ہاؤس کی جانب سے اپنے سوشل میڈیا پیج کے ذریعے اپنے خلاف اس مہم کو پروپیگنڈہ قراردیاجارہاہے ،تاہم میڈیاکی جانب سے بیکن ہاؤس کے مالک خورشید محمودقصوری سے متعدد باررابطہ کیاگیا تاہم انہوں نے فون ریسیونہیں کیا