ابوواسع (پہلی قسط)
جماعت احمدیہ نے گھروالوں کے ساتھ مل کر مینٹل ہسپتال میں داخل کرادیا۔مظہر کو بیشتر اوقات شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتارہا۔ ایک مسلمان لڑکی کے شادی سے انکار نے مظہر کو قادیانیت کے مطالعے کی جانب راغب کیا۔ چناب نگر ریاست کے اندر ریاست کی بدترین مثال ہے۔ایک سابق قادیانی کی کہانی اسی کی زبانی۔
قادیانیت سے تائب ہونے والے پیدائشی قادیانی مظہر احمدنے جب جماعت احمدیہ کا کریہہ چہرہ دیکھ کر اسلام قبول کیا تو اسے گھر والوں اور جماعت احمدیہ نے پاگل قرار دے دیا اور دونوں نے مل کر اسے شدید ترین تشدد کانشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ مینٹل ہاسپٹل داخل کرادیا گیااور پھر اسے مسلسل ذہنی سکون کی دوائیں شروع کرادی گئیں، جس کی وجہ سے مظہر خود سے اور اپنے ارد گرد سے زیادہ تر بیگانہ رہتا۔ مظہراِن دنوں چناب نگر(سابق ربوہ) میں رہائش پذیر ہے ، اور اسے مسلمان ہونے کی پاداش میں گھر سے بیدخل کردیا گیاتھا، اب اگرچہ گھر والوں نے واپس ایک سٹور میں رہنے کو جگہ تو دے دی ہے لیکن آج بھی اسے گاہے گاہے انجکشن اور سکون آور دوائیں دی جارہی ہیں۔ مسلسل بیس برس تک گھر سے بے گھر رہنے والے مظہر کی کہانی اس قدرافسوس ناک ہے کہ جسے سن کر کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی انسانیت کی معراج سے اس حد تک بھی گر سکتا ہے کہ وہ ایک جھوٹ پر مبنی مذہب کی بنیاد پر اپنی اولاد کو ہی تشدد کا نشانہ بنا ڈالے گا۔ اس کے باوجود کہ اب بھی مظہر کی حالت کچھ ایسی اچھی نہیں ہے کہ وہ ان کا مقابلہ کرسکے لیکن آفرین ہے اس مرد مجاہد پر کہ وہ اس حالت میں بھی استقامت کے ساتھ کلمہ حق کا ساتھ دے رہا ہے اور خود کو ببانگ دہل خود کو مسلمان کہتا ہے اور ربوہ(چناب نگر) میں قائم مسلمانوں کی پہلی مسجد ، ’’جامع مسجد احرار ‘‘ میں نماز ادا کرتا ہے۔
دین اسلام کی خاطر تشدد کا نشانہ بننے والے اسی مظہر سے ملاقا ت کی غرض سے چناب نگر جانا ہوا۔سب سے پہلے چناب نگر کے بارے میں کچھ بات کی جائے تو یہ وہ شہر ہے جو ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی شرمناک مثال ہے۔ اس شہر میں جماعت احمدیہ کی مرضی کے بغیر وہاں رہنے والا کوئی ذی روح محاورۃً نہیں بلکہ حقیقتاً سانس بھی نہیں لے سکتا۔چناب نگر میں ہمارے ساتھ سفر میں شریک حافظ حذیفہ بھی تھے، جنہوں نے مسجد احرار تک ہماری رہنمائی کی، وہاں پرمولانا محمود الحسن ہمارے میزبان ہوئے ۔ چناب نگر میں وہ پہلی جامع مسجد دیکھی جو قادیانیت کے سینے پر آج بھی مونگ دل رہی ہے۔اسی مسجد کے عین بیرونی دروازے کے سامنے قادیانیوں کے دفاتر تحریک جدیدکا ایک بلاک بھی موجود ہے جو کہ دو بڑے حصوں پرمشتمل ہے ، اس کے علاوہ مسجد کے بائیں جانب کھیتوں کے درمیان گورنمنٹ کالج کی عمارت بھی موجود ہے جو کہ ایک مدت تک بند رہا اور ان دنوں بھی عارضی طور پر بند ہے ، جس کی وجہ وہاں سے قادیانیوں کے اثر ورسوخ ختم ہونے کا تنازعہ ہے ۔
مظہرسے ملاقات کے انتظار کے دوران مولانامحمود الحسن، جو کہ قائم مقام امام مسجد ہیں، نے جامع مسجد احرار کے بارے بتایا کہ اس کی تعمیر یہاں کیسے ممکن ہوئی۔ 1947ء میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد مغربی پنجاب کا پہلا گورنر فرانسس موڈی تعینات ہوا،اس نے قادیانیوں کو یہ جگہ لیز پر دی ۔اُس وقت یہ زمین 1034ایکڑ کے لگ بھگ تھی لیزپر دی، جو اَب بڑھ کر چوبیس سو ایکٹر پر ہو چکی ہے۔قادیانیوں کو 1948ء میں یہ زمین ننانونے برس کے لیے بارہ ہزارروپے کے عوض لیز پر دی گئی۔ بعد ازاں اُسی برس اس جگہ کا انجمن احمدیہ کے نام پر انتقال کرالیاگیا، (زمین کے اس انتقال کی خبر مولانا منظور احمد چینوٹی کو ہوئی جنہوں نے اس کے خلاف کیس دائر کیا،اس کی الگ روداد ہے)۔اس وقت سے جماعت احمدیہ نے یہ طے کیا کہ یہاں کوئی بھی مسلمان زمین نہیں خرید سکے گا۔اس کے علاوہ جو بھی مرزائی یہاں جگہ خریدے گا ، اسے زمین کا انتقال نہیں دیا جائے گا، بلکہ وہ اشٹام پیپر پرخریدای کرے گا۔اگر خوش قسمتی سے کوئی قادیانی یہاں مسلمان ہوجاتا ہے تو اس سے جماعت احمد چناب نگرسے بیدخل کرکے مکان خالی کرالیتی ہے یہ شہر ریاست کے اندر ریاست کی ایسی مثال ہے جو کسی دوسرے ملک میں نہیں ملے گی، یہاں جو اپنی جگہ بیچنا چاہے گا، وہ جماعت احمدیہ کی مرضی کے بغیر نہیں بیچ سکے گا، یعنی زمین خریدنے اور بیچنے میں جماعت احمدیہ کی مرضی ہوگی تو یہ عمل مکمل ہوگا، ورنہ نہیں۔کسی نے جگہ بیچنی ہے توجماعت کو درخواست دے گا، اور جماعت اپنی مرضی کے بندے کو وہ جگہ لے کر دے گی، یہی حالت ربوہ بازار کی بھی ہے یہاں بھی جماعت احمدیہ کی اپنی ترتیب ہے،اسی طرح مختلف شہروں کے لیے چناب نگر بس اڈے سے قادیانیوں کی اپنی ٹرانسپورٹ چلتی ہے جو صرف قادیانیوں کو مختلف شہروں سے لاتی لے جاتی ہیں۔اکثر دوسرے شہروں سے قادیانی دارالضیافت میں آتے ہیں یا کسی رشتہ دار کے گھر آتے ہیں تو اِسی بازار سے زیادہ تر خریداری کرکے لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں، چناب نگر قادیانیوں کے لیے مکہ مدینہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ پس منظر بتانے کا مقصدیہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کے لیے مسجد بنانا کس قدر دشوار امر تھا،یہ بات نہیں ہے کہ یہاں تمام قادیانی ہیں۔ یہاں مسلمان بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں لیکن وہ سب اسی ’’ریاست ‘‘ کی عمل داری میں آتے تھے۔جب 1974ء میں قادیانی غیرمسلم قرار دیے گئے تو امیر شریعت کے صاحب زادے مولاناسید عطاء المحسن بخاریؒ اورسید عطاء المہیمن بخاری نے کوشش شروع کردی کہ اب ربوہ میں مسلمانوں کے لیے الگ مسجد ہونا بہت ضروری ہے۔سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ چنیوٹ میں بے پناہ جلسے کرتے تھے لیکن ربوہ میں جلسہ نہیں ہونے دیا جاتا تھا، ان کی بڑی خواہش تھی کہ یہاں مسلمانوں کے لیے مسجد تعمیر کرائی جائے لیکن ممکن نہ ہوا۔قادیانیوں کے کافر قرار دیے جانے کے بعد جانشین امیرشریعت سید ابوذربخاریؒ نے خواب دیکھا کہ ایک مسجد کے صحن میں آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی ﷺتشریف فرما ہیں، اورمجھے اُن کی دست بوسی کا شرف حاصل ہواہے۔شاہ صاحب اس خواب کے حوالے سے حضرت مولانا سیدیوسف بنوریؒ کے پاس کراچی جاپہنچے اور انہیں یہ خواب بتایا،تو انہوں نے فرمایا کہ شاہ جی! اﷲ آپ سے کوئی بہت بڑا کام لیں گے۔‘‘شاہ صاحب کا بیان تھا کہ جب ربوہ میں مسجداحرارکے سنگ بنیادکے موقع پر مسجدکا محل وقوع دیکھا تو مجھے اپنے خواب میں دکھلائی گئی مسجدیاد آگئی اوروہ یہی مسجد تھی۔‘‘ شاہ صاحب نے اپنی نعت کے ایک شعرمیں بھی اِس خواب کی بابت اشارہ کیاہے کہ:
صحنِ مسجد بنا، جلوہ گاہِ نبی، دست بوسی کا اعزاز بخشا گیا
ایک ذرہ بنا رشکِ شمس و قمر، بادشاہوں کی صف میں غلام آگیا
ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ مظہر بھی مسجد میں آپہنچا، انتہائی مفلوک الحال شخص نے بڑی گرم جوشی سے ہمارے ساتھ معانقہ کیا، موسم چونکہ خاصا گرم تھا،اس لیے مظہر کو ٹھنڈا پانی پلایا گیا، کیوں کہ مظہر بہت دُور سے پیدل چل کر جامع مسجد احرار پہنچا تھا،جامع مسجد احرار کا احوال روک کر مظہر سے گفتگو شروع ہوگئی ۔مظہر سے ابتدائی حال احوال کے بعد اصل مقصد کی طرف آئے اور ان سے ان کی کہانی انہی کی زبانی سننے کو ملی۔ مظہر کا کہنا تھا کہ
’’میں چناب نگر میں پیدا ہوا، آپ جب چناب نگر آئے ہوں گے تو وہاں پہاڑیوں کے درمیان ایک درہ(دو پہاڑوں کے درمیان راستے کو درہ کہا جاتا ہے) سا آتا ہے، اسی کے ساتھ ہمارا ایک محلہ تھا، جسے دارالیمن کہتے تھے، اسی محلے کے ایک گھر میں پیدا ہوا،میری والدہ کا بتانا ہے کہ جب میں نوماہ کا ہوا تو ہم لوگ دبئی شفٹ ہوگئے،چونکہ میرے والدظفر احمد ناصر دبئی میں ملازمت کرتے تھے، اس لیے انہوں نے میری والدہ کو وہاں بلوا لیا، چنانچہ میرے اکیس برس دبئی میں گزرے ،ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی، میٹرک وہاں سے کی، تمام دوست وہیں ہیں، جن میں زیادہ تر عربی ہیں۔ میٹرک کے بعد جب مزید تعلیم کے لیے داخلہ لیا،تو وہاں کو ایجوکیشن تھی، وہیں پر میری زندگی میں ایک لڑکی آئی ، جو کہ مسلمان تھی۔ میں نے اس سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا، ظاہر ہے نوجوان کی اس وقت سب سے بڑی خواہش ایک خوبصورت ہم سفرکی ہوتی ہے، تو اس لڑکی نے میرے گھر والوں کو چائے پر مدعو کیا، اور کہا کہ انہیں لے کر آؤ، تاکہ میرے گھروالوں سے مل کر رشتے کی بات کرسکیں۔ میں نے اپنے گھروالوں سے کہا کہ میری زندگی میں ایک لڑکی ہے ،اس کے گھر والوں نے چائے پر بلایا ہے ،بے شک ابھی منگنی وغیرہ کردیں۔ شادی تعلیم مکمل ہونے کے بعد کر دیجیے گا،لیکن میرے والد نے کہا کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ میں نے اپنے والدصاحب سے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا ، تو انہوں نے کہا کہ ہم احمدی ہیں اور وہ لوگ غیر احمدی ۔ میں چونکہ دبئی میں تھا، اس لیے میری تربیت پاکستانی قادیانیوں کی طرزپر نہیں ہوئی تھی، اس لیے مجھے کچھ اندازہ نہ تھا کہ احمدی ، غیر احمدی کے ساتھ شادی نہیں کرسکتا،یہ وہ وقت تھا، جب ضیاء دورمیں مرزا طاہر نیا نیا لندن گیا تھا، اور احمدیوں کے لیے پاکستان میں کچھ نئے قوانین بنائے گئے تھے،لیکن دبئی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا، یہاں احمدی مسلمان کہلاتے تھے، ادھر میرے والد نے اپنے پاسپورٹ پر مذہب کے خانے میں اسلام لکھوایا ہوا تھا، اور وہ حج بھی کر چکے تھے،جب میں نے اس لڑکی کو یہ صورت حال بتائی تو اس نے واضح طور پر مجھے کہا کہ تم لوگ تو کافر ہو،تم نے ہمت کیسے کی کہ ایک مسلمان لڑکی کے ساتھ شادی کے بارے میں سوچ بھی سکو،چونکہ ہم دونوں کی عمر کم تھی، لڑکپن سے نوجوانی میں قدم رکھنے والے کو دبئی جیسے ماحول میں مذہب کے بارے تفصیلات معلوم نہیں تھی۔ البتہ لڑکی بڑی بہن کو معلوم تھا کہ قادیانی کیا ہوتے ہیں، اس نے اپنی بہن کو بتایا اور سمجھایا تو وہ ہتھے سے اُکھڑ گئی، چنانچہ مجھے ایک شدید دھچکا لگا۔میں سوچنے لگا کہ ہمارا کلمہ ایک ہے ،نماز ایک ہے ،سب کام مشترکہ ہیں،پھر یہ فاصلے کیوں ہیں،میں اس کی جستجو میں لگ گیا۔احمدیوں اور عام مسلمانوں میں کیا فرق ہے یہ میرے لیے اس وقت سب سے بڑا سوال تھا۔میں نے اپنے رب سے گڑگڑا کر دعا کی کہ یااﷲ مجھے سیدھا راستہ دکھا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔
میں چونکہ عشق میں ہارا ہوا شخص تھا، اس لیے خود کو دونوں مذاہب کے مطالعہ میں مصروف کردیا۔ جب میں نے قادیانیت کا مطالعہ کیا اور اسلام کے ساتھ اس کا تقابل کیا تو مجھے سمجھ آئی کہ قادیانیت تو نرا جھوٹ ہے، چنانچہ میں اندر ہی اندرقادیانیت سے باغی ہوگیا۔یہ بات نہ تھی کہ میں کسی لڑکی کے لیے اپنے مذہب سے متنفر ہوا، وہ تو میری زندگی سے نکل کرنہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔کافی عرصے بعد اور کئی کتب کے مطالعے کے بعد مجھے یہ اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ حق کیا ہے ۔ فی الحال میں اندر سے جماعت احمدیہ کا باغی ہوگیا،لیکن اس کا اعتراف ابھی نہیں کیا تھا۔میں نے جب گھروالوں سے سوال جواب شروع کیے ، اور دلائل دیے تو میرے والد نے کہا کہ اس کے دماغ پر اثر ہوگیا ہے، چنانچہ انہوں نے میرا دماغی علاج شروع کرادیا اور مجھے ٹیکے لگوائے اور دوائیں وغیرہ دینا شروع کردیں۔جب مجھے دوائیں اور ٹیکوں کا اثرہوا تو اکثر مجھ پر غنودگی چھائی رہتی اور یوں میری بغاوت وقتی طورپر دب گئی۔‘‘مظہر کے ساتھ گفتگو جاری تھی، اس کی گفتگو اتنی نپی تلی تھی کہ وہ ہر لفظ کو بڑی احتیاط سے ادا کرتا تھا، ہمارے کسی بھی سوال کا فوری جواب نہیں دیتا تھا،بلکہ اچھی طرح سمجھتا اور جواب دیتا، اور اس کا جواب اتنا مفصل ہوتا کہ مزید کسی توجیہہ کی گنجائش ہی نہ رہتی۔
مظہر کا کہنا تھا کہ ’’میں اندر سے تو جماعت کا باغی ہوچکا تھا، لیکن میرے گھر والوں نے وقتی طور پر مجھے دوائیں دے کرمیری اس بغاوت کو دبا دیا تھا۔دراصل بغاوت کے دوران ہی مجھے ایک خواب آیا کہ میں کافی اونچائی سے نیچے کی طرف گر رہا ہوں، میرے ساتھ ایک اور باریش غیر احمدی آدمی تھا، وہ بھی گر رہا تھا، اسی دوران وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کلمہ طیبہ پڑھتا ہے ،ہم گرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بچ جاتے ہیں تو وہ مجھے کہتا ہے کہ دیکھو ہم نے کلمہ پڑھا تھا، اس لیے بچ گئے۔میں نے سوچا کہ میں نے تو کلمہ نہیں پڑھا تھا، کیوں کہ میں احمدی ہوں اور مسلمان کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا گناہ سمجھا جاتا ہے ۔کلمہ تو صرف اسی شخص نے پڑھا تھا، تو کیا میں اس کے ہاتھ پکڑنے کی وجہ سے بچ گیا ہوں،چنانچہ میں نے اُسی وقت کلمہ طیبہ پڑھا لیا۔اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد تو مجھے یقین ہوگیا کہ قادیانیت جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ میں نے دبئی میں موجود اپنے کزنز سے بحث مباحثہ کرنا شروع کردیا، اور ان سے قادیانیت کے حوالے سے سوال جواب کرتا تھا، ان لوگوں نے میرے والد سے میری شکایت لگا دی کہ یہ قادیانیت کے حوالے سے الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے ۔جیسے قرآن میں ہے کہ بے شک اﷲ ہر چیز پر قادرہے ، تو قادیانی کہتے ہیں کہ اﷲ ہر چیز پر قادر نہیں ہے ،بلکہ اﷲ نے سائنس کا علم دیا ہے، اﷲ جو کچھ کرتاہے وہ سائنس کے دائرہ کار میں رہ کر کرتا ہے ، بے شک سب کچھ اسی کا بنایا ہواہے ، ایسے سوالات پر میں انہیں زچ کردیتا تھا،چنانچہ اس تناظر میں گھر والوں نے سوچا کہ یہ زیادہ باتیں کرنے لگ گیاہے تو اس کا دماغی توازن ختم ہوگیا ہے ۔ 1999ء میں میرا ویزا رِی نیو نہ ہونے دیا گیا ، مجھے میڈیکلی اَن فٹ قراردلوا کر ربوہ بھجوا دیا گیا،چنانچہ میں اپنی والدہ کے ہمراہ پاکستان آگیا، جب کہ میرے والد یورپ چلے گئے۔والد کی خواہش تھی کہ یہ چناب نگر رہے گا، جماعت احمدیہ اسے سیدھی راہ پر لائے گی، اس کے بعد اپنی فیملی کو یورپ لے جاؤں گا، مجھے پاکستان سے بہت محبت تھی، میری خواہش تھی کہ میں یہاں پر ہی قیام کروں۔
اسی دوران میرے والد نے کہا کہ میری شادی خالہ کی بیٹی سے کردی جائے ، جو کہ جرمنی میں ہی رہتی تھی، اسی بہانے تم بھی جرمنی آجاؤ گے۔بعد میں مجھے میری اسی بیوی نے بتایا تھا کہ یہ سب پلاننگ کا حصہ تھا کہ جماعت احمدیہ اور میرے والد نے مل کر یہ طے کیا تھا کہ لڑکا ہمارے ہاتھ سے نکل نہ جائے،اس کی احمدی لڑکی سے شادی کردیتے ہیں، تاکہ یہ ہمارے چنگل میں پھنسا رہے ۔میں نے شادی کے لیے حامی بھر لی، سن دوہزار میں میری اس سے فون پر منگنی ہوگئی، اور پھر اس کے بعد اس سے خط کتابت شروع ہوگئی، اب یہاں ایک مسئلہ آن پڑا تھا کہ میں جرمنی نہیں جانا چاہتا تھا اور وہ لڑکی پاکستان میں آکریہاں رہنے کے حق میں نہ تھی۔خیر میں آہستہ آہستہ اسے قائل کرنے کی کوشش میں مصروف رہا۔اسے بتایا گیا تھا کہ میں ذہنی مریض ہوں،ا س نے مجھ سے سوال کیا کہ تمہیں تو پاگل کہتے ہیں اورتمہارا باپ چاہتا ہے کہ تم یہاں آجاؤ ،تاکہ تمہاری صحت کی دیکھ بھال اچھی ہوسکے ۔ میں نے کہا کہ کس نے تم سے کہہ دیا کہ میں پاگل ہوں، اس نے کہا کہ تمہارا والد کہتا ہے ، اگر تم واقعی پاگل نہیں ہو تو چناب نگر میں ہی کچھ ایسا کرکے دکھاؤ۔ تاکہ مجھے یقین آجائے کہ واقعی تم پاگل نہیں ہو،چنانچہ میں نے محلہ دار العلوم میں جہاں ہماری اپنی ا نیس مرلہ زمین تھی، جس پر کچھ کمرے بھی بنے ہوئے تھے اوران میں کرائے دار بھی رہ رہے تھے، میں نے کرائے دار اٹھا دیے اور لاہور سے جم کا سامان منگوا کرچناب نگر میں پہلا جم کھول لیا۔یہ وہ جم ہے جو آج بھی چل رہا ہے لیکن چونکہ مجھے بے دخل کردیا گیا تھا، اس لیے میرا عمل دخل اس سے ختم ہوچکا ہے، اسے اب میرے بھائی چلا رہے ہیں،لیکن اس کی شروعات اور محنت میری تھی۔
میرے جم کا کام بہت بڑھ چکا تھا، اور میں نے خود بھی اپنے جسم پر محنت کی تھی،چنانچہ میں نے اپنی ہونے والی جرمن بیوی کو اپنی تصاویر بھجوائیں اور پوچھا کہ کیسا دکھائی دے رہا ہوں، وہ حیرت زدہ رہ گئی اور کہنے لگی کہ تم تو ہیرو دکھائی دے رہے ہو، میں نے اسے کہا کہ یہاں آجاؤ ،یہاں ہمارا اپنا مکان ہے، تم وہاں دھکے کھاتی پھر رہی ہو، کبھی فیکٹری میں ملازمت کرتی ہو، کبھی گاڑی چلاکر اخراجات پورے کرتی ہو۔وہاں دوسرے درجے کی شہری ہو، یہاں آؤ تمہارا اپنا ملک ہے یہاں رہو۔ یہاں میراکام چل رہاہے ، سو کے قریب میرے شاگرد ہیں ، اپنا کام ہے ،کوئی فکرنہیں ،چنانچہ وہ رضا مندہوگئی۔2007ء میں وہ پاکستان آگئی، یعنی چھ برس بعد اس نے فیصلہ کیا۔ اس دوران میرا آنا جانا مسلمانوں کے ساتھ لگا رہا، میں آہستہ آہستہ اسلام کی تعلیمات لیتا رہا، نماز جمعہ خاص طور پر جامع مسجد احرار آکرادا کرتا تھا۔پندرہ دن کے اندر اندر میری اس سے شادی ہوگئی۔
ابھی چناب نگر میں ، میں نے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیاتھا، کچھ مسلمانوں کو معلوم تھا، لیکن سب نے بات چھپائی ہوئی تھی۔ شادی کی پہلی رات میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ دیکھو، میں قادیانیت سے دلبرداشتہ ہوں، تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے ،میرے ساتھ مل کر نماز پڑھو اور پھر فیصلہ کرو کہ تم نے کیا کرنا ہے ۔ نماز کے بعد اس نے کہا کہ مجھے پہلے پورا ربوہ گھماؤ، اور اس کے بعدسارا پاکستان گھوموں گی، پھر تمہیں بتاؤں گی کہ میں نے کیا کرنا ہے،لیکن میری ایک شرط ہے کہ مجھے اس دوران بچہ نہیں چاہیے ہوگا۔ خیر میں نے اسے کراچی سے لے کرپشاور تک اہم شہر گھمائے۔وہ دو ماہ یہاں رہی ، انہی دنوں ہمارا بہاول پور کا چکر لگا، لودھراں، بہاولپور اور دنیا پور میں ہمارے رشتہ دار رہتے ہیں جو کہ قادیانی نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔وہاں ایک شادی کی تقریب میں ہم لوگ بیٹھے تو میں نے اسے دو لڑکیاں دکھائیں اور کہا کہ انہیں جانتی ہو یہ کون ہیں۔اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم ، تو میں نے کہا کہ تمام عورتیں جو یہاں پر موجود ہیں وہ سب مسیح و موعود اور امام مہدی کو ماننے والی ہیں ،سوائے ان دونوں لڑکیوں کے ۔ تم بتاؤ کہ ان میں اور ان سب میں کیا فرق ہے ، تو اس نے کہا کہ ان دنوں لڑکیوں نے سروں پر دوپٹے کیے ہوئے ہیں جبکہ مسیح موعود کی ماننے والی سب ننگے سر ہیں۔میں نے کہا کہ یہ حمید صاحب کی بیٹیاں ہیں جو کہ غیر احمدی ہیں اور ہمارے رشتہ دارہیں ، اب تم فرق خود دیکھ لو کہ احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے ۔میری بیوی نے کہاکہ ہم حمید صاحب کے گھر جائیں،چنانچہ ہم ان کے گھر گئے ۔وہ ہمارے ننھیالی رشتہ دارتھے۔میری بیوی ان سے بہت متاثر ہوئی، میں نے حمید صاحب سے اظہار کردیا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں،چنانچہ وہاں میری بیوی نے بھی اسلام قبول کرنے کا اظہار کردیا۔انہوں نے ایک مولانا کو بلوا کر ہمیں پہلے مسلمان کیا اور بعد میں تین ہزار حق مہر کے عوض ہمارا دوبارہ نکاح کرادیا۔اس کے باوجود ہم نے مسلمان ہونے کا ابھی تک اعلان نہ کیا،کیوں کہ ہمیں ہمارے رشتہ داروں نے کہا تھا کہ ابھی اعلان نہ کریں، وقت آنے پر اعلان کیجیے گا، ابھی اسی طرح چلنے دیں۔ کیوں کہ جماعت احمدیہ کو جب یہ بات معلوم ہوتی تو ہمیں ربوہ سے بے دخل کرنے میں ایک منٹ لگایا جاتا اور ابھی ہم اس مسئلے سے دوچار نہیں ہو سکتے تھے۔کیوں کہ میری بیوی نے واپس جرمنی جاناتھا۔وہ جرمنی چلی گئی، وہاں گئی تو اس کے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی، اس کا باپ یعنی میرا سسر میری خالہ کوچھوڑ کر اسلام آباد آگیا اور یہاں دوسری شادی کرلی۔ اس سے میری بیوی قادیانیت سے مزید متنفر ہوگئی اور اس نے مجھے فون کیا کہ میں مستقل پاکستان آنا چاہتی ہوں، تم میری دیکھ بھال کرسکو گے۔ میں نے کہا کہ بالکل آجاؤ، میں مینج کرلوں گا،چنانچہ وہ اپنا سارا سامان وغیرہ سمیٹ کر پاکستان آگئی۔
گھر والوں کو ہمارے عمل سے شک تو پہلے ہی تھا۔ اب یقین ہونے لگا کہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں، انہوں نے ہمیں دھمکانا شروع کردیا۔ ربوہ میں مسلم کالونی اور اس سے تھوڑا دُور ایک گاؤں ہے، جس کا نام’’ چھنی قریشیاں‘‘ ہے ،وہاں حسن بھائی ہوتے ہیں ، جن سے میں نے بات کی کہ کس طرح ہم میاں بیوی مسلمان ہوچکے ہیں،لیکن میرے گھر والوں کو شک پڑ گیا ہے کہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں، وہ اب ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں گھر سے نکال دیں گے اور جم وغیرہ چھین لیں گے، کیوں کہ ان کو جو پہلے شک تھا اب یقین میں بدل چکا تھا کہ ہم دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔
دراصل پورے چناب نگر کے ہر محلے میں ان کا جو ذمہ دار مربی ہوتاہے وہ ہر کسی کی خفیہ نگرانی بھی کراتاہے ، میری بھی نگرانی یقینا ہوتی رہی ہوگی، اسی لیے میری بیوی کے جانے کے بعد انہیں معلوم ہوگیا تھا،کیوں کہ انہیں میری بیوی پر قطعی یقین نہ تھا کہ وہ بھی مسلمان ہوچکی ہے ، میں تو پہلے ہی ان کی ہٹ لسٹ پر تھا، کہ دبئی سے واپس ہی اسی لیے بھجوایا گیا تھا۔ پہلے تو میرے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا، پھر گھر سے بیدخلی کی تلوار لٹکا دی گئی۔(ہمیں دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ مظہر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور زبردستی کہا گیا کہ غلام احمد قادیانی پر ایمان لاؤ)۔حسن بھائی نے مجھے مینا روالی مسجد کے امام صاحب کے پاس بھجوا دیا، مینا روالی مسجد چناب نگر میں عالمی ختم نبوت والوں کی مسجد ہے ، انہیں تمام صورت حال بتائی تو انہوں نے کہا کہ تمہارا کوئی کاغذی ثبوت نہیں ہے ، یعنی عدالتی ثبوت ہونا چاہیے ، اس طرح تو جماعت احمدیہ تمہیں دوبارہ مشکل میں ڈال دے گی، اور قانونی طورپر وہ تم سے تمہاری بیوی چھین سکتے ہیں۔بہتر ہے کہ تم دوبارہ نکاح کراکے ، اسے رجسٹرڈکرالو ، تاکہ انہیں کوئی بات کرنے کا موقع ہی نہ ملے ۔ (جاری ہے)