منصوراصغرراجہ
مشائخِ پنجاب میں سے تاجدار ِ گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ نے سب سے پہلے قادیان کے جھوٹے نبی کے دجل و فریب کی دھجیاں اُڑائیں۔ پیر صاحبؒ 1890ء میں جب حج کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے اور زندگی کے باقی دن مدینۃ النبیﷺمیں بسر کرنے کا فیصلہ کیا توسیدُ الطائفہ حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی ؒ نے آپ سے فرمایا: ’’آپ کے ہاں ایک بہت بڑا فتنہ ظاہر ہونے والا ہے ۔ اس کا سدِ باب آپ کی ذات سے متعلق ہے ۔ آپ وہاں خاموش بھی بیٹھے رہے تو بھی ملک کے علماء اس فتنے کی زد سے محفوظ رہیں گے اور عامۃُ المسلمین اس کی دستبرد سے بچ جائیں گے ۔‘‘ تاجدار گولڑہؒ اور مرزا قادیانی کے مابین پہلا ٹاکرا تب ہوا، جب مرزا قادیانی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس دعوے کے جواب میں پیر صاحبؒ نے ’’شمس الہدایہ فی اثباتِ حیات المسیح‘‘ کے نام سے کتاب لکھ کر مرزا قادیانی کے دعویٔ مسیحیت کے تاروپود بکھیر دیے۔ اس کتاب کو جہاں علماء کے حلقوں میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی، وہیں مرزا قادیانی اور اس کے پیروکار تلملا اٹھے ۔ چنانچہ 22 جولائی 1900ء کو قادیان کے مڈل فیل جعلی نبی نے جواباً ایک انتہائی گستاخانہ مضمون پر مبنی اشتہار کے ذریعے تاجدارِ گولڑہ کو عربی تفسیر نویسی کا چیلنج کیا۔ پیر صاحبؒ نے جوابی اشتہار میں 22 اگست کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے لاہور میں مرزا قادیانی سے نہ صرف تحریری بلکہ تقریری مباحثے کا چیلنج بھی قبول کر لیا۔ آپ کی سوانح ’’مہر منیر‘‘ کے مطابق 22 اگست 1900ء کو آپ پچاس علماء کے ہمراہ لاہور تشریف لائے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر تاجدار گولڑہ کو اپنا قائد تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے تھے ۔ مباحثے کے لیے بادشاہی مسجد کا انتخاب کیا گیا، لیکن مرزا قادیانی عین موقع پر یہ کہہ کر میدان سے فرار ہو گیا کہ مولویوں نے مجھے دعویٔ نبوت میں جھوٹا ثابت کرکے قتل کرانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔
کچھ دن گزرے تو قادیانی جماعت کے ایک وفد نے حضرت تاجدار گولڑہ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں یہ کہہ کر مرزا قادیانی سے مباہلے کی دعوت دی کہ ایک اندھے اور لنگڑے کے حق میں مرزا اور دوسرے اندھے اور لنگڑے کے حق میں پیر صاحب دعا کریں۔ جس کی دعا سے اندھا اور لنگڑا صحت یاب ہو جائیں، وہ سچا ہو گا۔ قادیانی وفد کی بات سنتے ہی تاجدار گولڑہ نے فرمایا: ‘‘اگر مردے بھی زندہ کرنے ہوں تو آجاؤ’’ اور اس کے بعد قادیانی جماعت کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ کچھ وقت گزرا تو پیر صاحبؒ نے آخری ضرب لگاتے ہوئے مرزا کو دو چیلنج کیے ۔ اول یہ کہ آؤ ہم دونوں ایک کاغذ پر اپنا اپنا قلم چھوڑتے ہیں۔ جس کا قلم سچا ہو گا، وہ خود بخود چلتے ہوئے تفسیر قرآن لکھ دے گا۔ دوم یہ کہ آؤ ہم دونوں بادشاہی مسجد کے مینار پر چڑھ کر چھلانگ لگاتے ہیں۔ جو سچا ہو گا، وہ بچ جائے گا اور جو جھوٹا ہو گا، مر جائے گا۔ پیر صاحب کے ان دونوں روحانی چیلنجز نے مرزا کے اوسان خطا کر دیئے ۔ اب اس کاذب نبی نے اپنا آخری حربہ آزماتے ہوئے اعلان کیا کہ پیر صاحب اس کی زندگی میں ہی دنیا سے رخصت ہو جائیں گے لیکن اس اعلان کے کچھ عرصے بعد ہی مرزا قادیانی 26 مئی 1908ء کو لاہور میں ہیضے کے مرض میں مبتلا ہو کر عین بیت الخلا کے اندر دم توڑ گیا، جبکہ تاجدار گولڑہ نے اس کی موت کے 29 برس بعد 11 مئی 1937ء کو وصال فرمایا۔
مرزا بشیر الدین محمود کے دور میں جن لوگوں نے قادیانیت پر کاری ضرب لگائی، ان میں مولانا ظفر علی خانؒ، علامہ اقبالؒ اور امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے نام نمایاں ہیں۔ مولانا ظفر علی خانؒ نے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ اور ’’ستارہ صبح‘‘ کے صفحات پر قادیانی جماعت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ مولانا ایک طرف تو شگفتہ نثر کے ذریعے قادیانی عقائد کا تجزیہ کرتے ہوئے قادیانی امت کے بخیے ادھیڑتے اور دوسری جانب نظم کے ذریعے مرزا محمود اور اس کی جماعت پر طبع آزمائی فرماتے ۔ مولانا ظفر علی خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے قادیانی مسئلے کو عوامی تحریک کی شکل دی۔ تعلیم یافتہ حلقوں میں قادیانیت کا اصل چہرہ بے نقاب کیا اور لوگوں کو بتایا کہ قادیانیت کوئی مذہب نہیں، بلکہ ایک سیاسی تحریک ہے ، جو برطانوی استعمار کی استعماری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وجود میں لائی گئی۔برصغیر میں قادیانی تحریک کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں سب سے پہلا مقدمہ 4 مارچ 1933ء کو مولانا ظفر علی خانؒ اور ان کے رفقا مولانا احمد علیؒ، مولانا حبیب الرحمانؒ، مولانا لال حسین اخترؒ، مولانا عبد الحنانؒ، مولانا محمد بخش مسلمؒ اور خان احمد یارخان رزمیؒ کے خلاف درج کیا گیا۔ اس موقع پر عدالت کی طرف سے انہیں نوٹس پڑھ کر سنایا گیا کہ ’’تمہارے اور احمدی جماعت کے درمیان اختلاف ہے ۔ تم نے اس کے عقائد اور اس کے مذہبی پیشوا پر حملے کیے ہیں، جس سے نقصِ امن کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے ۔ وجہ بیان کرو کہ تم سے کیوں نہ نیک چلنی کی ضمانت طلب کی جائے ۔‘‘ مولانا ظفر علی خانؒ نے ٹھاکر کیسر سنگھ مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں اس نوٹس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کے ہاتھوں مرزائیوں کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچے گا، لیکن جہاں تک مرزا غلام احمد کا تعلق ہے ، ہم اس کو ایک بار نہیں، ہزار بار دجال کہیں گے ۔ اس نے حضور اقدسﷺ کی ختم المرسلینی میں اپنی نبوت کا ناپاک پیوند لگا کر ناموس رسالت پر کھلم کھلا حملہ کیا ہے ۔ اپنے اس عقیدے سے میں ایک منٹ کے کروڑویں حصے کے لیے بھی دست کش ہونے کو تیار نہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مرزا غلام احمد دجال تھا، دجال تھا، دجال تھا۔ میں اس سلسلے میں قانونِ انگریزی کا پابند نہیں، بلکہ قانونِ محمدیﷺ کا پابند ہوں۔‘‘ مولانا ظفر علی خانؒ کی اس مقدمے میں گرفتاری کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی۔ اسی سلسلے میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے دارالعلوم دیوبند میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘غلام احمد قادیانی بلاشبہ مردودِ ازلی ہے ۔ اس کو شیطان سے زیادہ لعین سمجھنا جزوِ ایمان ہے ۔ شیطان نے ایک ہی نبی کا مقابلہ کیا تھا، اس خبیث اور بدباطن نے جمیع انبیاء علیہم السلام پر افترا پردازی کی۔ مولانا ظفر علی خان کا اقدام یقینا لطیفۂ الٰہیہ ہے ۔ ان کی جدوجہد اور قربانی اﷲ و رسولﷺ کے نزدیک ان شاء اﷲ قبول ہو گی۔‘‘
اسی طرح حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے برصغیر کے اعلیٰ حلقوں میں قادیانی تحریک کی سازشوں اور پوشیدہ اغراض و مقاصد کا پردہ چاک کیا۔ کشمیر کمیٹی اور انجمن حمایت اسلام سے قادیانیوں کا اخراج بھی علامہ صاحبؒ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ تھا۔ علامہ صاحبؒ نے قادیانی تحریک کے بارے میں 20جون 1933ء کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں فرمایا: ’’مسلمان ایسی تمام تحریکوں کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں، جنہیں وہ اپنی اساسی وحدت کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں،چنانچہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہے ، لیکن اپنی بنیاد کسی نئی نبوت پر رکھتی اور اُن تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتی ہے ، جو اس کے مبینہ الہامات پر اعتقاد نہیں رکھتے ، مسلمان اس جماعت کو اسلام کی وحدت کے لیے ایک خطرہ تصور کرتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہئے ، کیونکہ وحدتِ اسلامی کا تحفظ ختم نبوت کے عقیدے ہی سے ممکن ہے۔‘‘21 جون 1936ء کو پنڈت جواہر لال نہرو کے نام اپنے خط میں لکھا: ’’میرے ذہن میں اس سے متعلق کوئی ابہام نہیں کہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔‘‘
قادیانی فتنے کے خلاف امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور ان کی جماعت مجلس احراراسلام کی جدوجہد کی تاریخ آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے ۔ مجلس احراراسلام نے تنظیمی سطح پر قادیانی جماعت کا تعاقب کرکے اُسے عوامی سطح پر بے نقاب کیا اور اس کے قلعے میں ایسے شگاف ڈالے کہ قادیانی اور ان کی سرپرست انگریز سرکار ششدر رہ گئی۔ مرزا محمود نے قادیان میں ریاست کے اندر ریاست قائم کر رکھی تھی، جہاں ان کے مخالفین پر نہ صرف زندگی تنگ کردی جاتی، بلکہ انہیں قتل تک کرانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا تھا۔ مجلس احرار نے قادیان میں اپنا دفتر کھول دیااوراکتوبر 1934ء میں قادیان میں پہلی آل انڈیا احرار تبلیغ کانفرنس منعقد کرکے قادیانیوں کو اس حد تک حواس باختہ کر دیا کہ سر ظفر اﷲ خان اپنی اماں کو ہمراہ لے کر وائسرے ہند کے پاس پہنچ گئے اور دہائی دی کہ قادیانی جماعت کو احرار سے بچایا جائے ۔
اپنی کتاب ‘‘تحریک ختم نبوت’’ میں یہ تمام تفصیلات بیان کرنے کے بعد شورش کاشمیریؒ کہتے ہیں کہ قادیانی جماعت کے خلاف مولانا ظفر علی خانؒ، علامہ اقبالؒ اور امیر شریعتؒ کی مساعی اور جدوجہد دراصل تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ ؒ کا رُوحانی فیضان تھا۔ مولانا ظفر علی خانؒ پر آپ خاص نظر کرم فرماتے تھے ۔ ایک بار انگریزسرکار نے ضلع اٹک کے علاقے حضرو میں تقریر کرنے پر مولانا کے خلاف مقدمہ بغاوت قائم کرنے کا ارادہ کیا تو ایس پی لال شاہ نے استغاثہ کے گواہوں میں پیر صاحب کا نام بھی لکھوا دیا، جس پر آپ نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ نے میرا نام دینے کی جرأت کیونکر کی۔ ظفر علی خان حضور ختم المرسلینﷺ کا شیدائی ہے اور قادیانیت کے حصار کو توڑ رہا ہے ۔ آپ اسے قید کرانا چاہتے ہیں؟‘‘علامہ اقبال ؒقادیانی فتنے کے متعلق علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کے علاوہ تاجدار گولڑہؒ سے بھی رہنمائی لیا کرتے تھے ، جبکہ امیر شریعتؒ کے تو وہ مرشدِ اول تھے ۔ شاہ جی نے پہلی بیعت پیر مہر علی شاہؒ کے دست مبارک پر کی تھی۔
تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ، دینی جماعتوں اور فدایانِ ختم نبوت کی تاریخی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں سات ستمبر 1974ء کو پاکستانی پارلیمان نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تب سے اب تک قادیانی جماعت اور اس کے آقایانِ ولی نعمت نے پاکستانی پارلیمان کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں آئین پاکستان میں ہونے والی ختم نبوت ترمیم کو قبول نہیں کیا اور ہر دور میں اس ترمیم اور اس کے نتیجے میں بننے والے قانون توہین رسالت کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ۔ موجودہ حکومت کی طرف سے قومی اقتصادی مشاورتی کونسل میں عاطف میاں قادیانی کا بطور مشیر تقررکا فیصلہ (جو شدید عوامی دباؤ پر معطل کرنا پڑا) اور یوم دفاع کے موقع پر نظریہ پاکستان کے علمبردار ایک قومی اخبار (نوائے وقت) میں جماعت احمدیہ کے اشتہار کی اشاعت بھی اسی سلسلے کی کڑی قرار دی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ایم ایم احمد قادیانی کی ’’اقتصادی خدمات‘‘ کو ملک و قوم بھگت چکے ہیں۔
ہماری رائے میں اس نوع کے اقدامات دراصل پاکستانی قوم کی ایمانی حرارت کو جانچنے کا حربہ ہے ۔ ایسے کسی بھی موقع پر اگر قوم خاموش رہے گی تو سارقین ختم نبوت کے حوصلے مزید بڑھیں گے ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی و غیر سیاسی پس منظر کے حامل علماء و مشائخ تمام مسلکی و فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر میدان میں نکلیں۔ اگر وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت اپنی مدت پوری کرے تو پھر انہیں خصوصاً ان چند مخصوص لابیوں سے اپنا دامن بچانا ہو گا، جنہوں نے آج کل انہیں بری طرح سے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے ۔ اربابِ علم و دانش خاص طور پر قادیانی جماعت کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور نئی نسل کو آگاہ کریں کہ مرزا بشیر الدین محمود نظریہ اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتا تھا اور اس کی جماعت ہر دور میں پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں پیش پیش رہی ہے ۔ یاد رہے کہ عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ صرف مولوی کی ذمہ داری نہیں، بلکہ خاتم الانبیاءﷺ کے ہر ہر امتی کا بنیادی فریضہ ہے ۔ اس لیے پوری قوم کو چوکنا رہنا ہو گا تاکہ کوئی سیاسی و غیر سیاسی قوت تبدیلی کے نام پر آئین میں ’’تبدیلی‘‘کی جسارت نہ کرسکے ۔