مولانا زاہدالراشدی
وزیراعظم عمران خان نے ملک کے اقتصادی و معاشی معاملات کے حوالہ سے ایڈوائزری کونسل قائم کی ۔جس میں عاطف میاں کی شمولیت پر سوشل میڈیا میں بحث چھڑ گئی کہ وہ مبینہ طور پر قادیانی ہیں ، اس لیے اس کونسل میں ان کی شمولیت درست نہیں ہے اور وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان کا نام کونسل سے خارج کر دیں۔ اس پر بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ یہ مذہبی انتہا پسندی کا بے جا اظہار ہے اور مطالبہ کرنے والوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کے خیال میں قادیانی اس ملک کے شہری ہیں اور ملک کے نظام میں شرکت ان کا بھی حق ہے ۔ ہم اس سلسلہ میں جذباتی فضا سے ہٹ کر زمینی حقائق کے حوالہ سے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آخر ملک کے دینی حلقوں کو کسی قادیانی کے کسی منصب پر فائز ہونے پر کیوں اعتراض ہوتا ہے اور وہ کسی بھی حوالہ سے اس گروہ کے کسی فرد کو برداشت کرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں؟
پاکستان بننے کے بعد چودھری ظفر اﷲ خان ملک کے وزیرخارجہ اور جوگندرناتھ منڈل وزیر قانون بنے تھے ۔ اوّل الذکر قادیانی اور دوسرے ہندو تھے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف ظفر اﷲ خان کو کابینہ میں شامل کرنے پر احتجاج کیا گیا اور ملک کے تمام دینی مکاتب فکر نے متفقہ طور پر ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور یہ مطالبہ ظفر اﷲ خان کے وزیرخارجہ بنتے ہی نہیں بلکہ اس کے پانچ سال بعد ۱۹۵۳ء میں کیا گیا ،جبکہ ہندو وزیرقانون کے خلاف نہ کوئی مہم چلی اور نہ ہی ان کی برطرفی کا کسی نے مطالبہ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بات مسلمان یا غیر مسلم کی نہیں بلکہ متعلقہ گروہ اور فرد کے طرزعمل کی ہے۔ جس نے لوگوں کو اِس مطالبہ پر مجبور کر دیا۔ چودھری ظفر اﷲ خان کا یہ کردار اس سے قبل ریکارڈ پر آچکا تھا کہ انہوں نے قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی تقسیم کی حدود طے کرنے والے ریڈکلف کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کی نمائندگی کی، مگر ضلع گورداسپور کے حوالہ سے جہاں قادیانیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی، ان کا کیس مسلم لیگ کے موقف سے ہٹ کر الگ پیش کیا، جس سے یہ ضلع غیر مسلم اقلیت کا ضلع قرار پا کر بھارت میں شامل ہوگیا اور اسی سے ہندوستان کو کشمیر میں دخل اندازی کا راستہ ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے امیر مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت ہے کہ قادیانیوں کا کیس مسلمانوں سے الگ پیش کیا جائے۔ اس لیے وہ ان کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے ۔ اس کے باوجود انہیں وزیرخارجہ کے طور پر کافی عرصہ برداشت کیا گیا مگر جب یہ رپورٹیں عام ہونے لگیں کہ مختلف ممالک میں ان کے زیر سایہ پاکستان کے سفارت خانے قادیانیوں کی تبلیغ اور سرگرمیوں کا مرکز بنتے جا رہے ہیں تو ان کے اس طرز عمل کو برداشت نہ کرتے ہوئے ۱۹۵۳ء میں ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس دوران یہ واقعہ بھی ہوا، جس نے اشتعال میں اضافہ کیا کہ کراچی کی قادیانی جماعت نے ایک پبلک جلسہ میں ظفر اﷲ خان کے خطاب کا اعلان کیا تو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے انہیں روکا کہ وہ اس جلسہ سے وزیرخارجہ کی حیثیت سے خطاب نہ کریں۔ جسٹس منیر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق چودھری ظفر اﷲ خان نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ اپنے منصب سے استعفیٰ دے سکتے ہیں مگر جلسہ سے خطاب ضرور کریں گے اور انہوں نے جلسہ سے خطاب کیا۔
اس کے بعد جنرل یحییٰ خان کے دور میں مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد کو ملک کی اقتصادی کمیشن کا ڈپٹی چیئرمین بنایا گیا اور وہ جنرل یحییٰ خان کے معتمد ترین افسر سمجھے جاتے تھے ۔،مگر ان کے بارے میں مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کے رکن مولوی فرید احمد مرحوم اور دیگر ذمہ دار حضرات نے کھلم کھلا یہ کہا کہ وہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان معاشی اور سیاسی دونوں حوالوں سے خلیج بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں جبکہ بہت سی دیگر رپورٹوں میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دینے کے مکروہ عمل میں ایم ایم احمد کا خاصا کردار رہا ہے ۔ اس حوالہ سے راقم الحروف کے ایک مضمون کا اقتباس ملاحظہ کیجئے جو ۱۲ مارچ ۱۹۷۱ء کو ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں شائع ہوا:
’’قارئین کو یاد ہوگا کہ حالیہ انتخابات سے قبل مشرقی پاکستان کے متعدد سیاسی راہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں مسٹر ایم ایم احمد کو اقتصادی منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ماضی میں اقتصادی طور پر مشرقی پاکستان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں، ان کے ذمہ دار مسٹر ایم ایم احمد ہیں کہ انہوں نے اقتصادی منصوبہ بندی میں مشرقی پاکستان کو ثانوی حیثیت دی، اور شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات جو آج سیاسی بحران کا باعث بنے ہیں اسی نا انصافی اور ترجیحی سلوک کی صدائے بازگشت ہیں۔صدر مملکت نے مسٹر ایم ایم احمد کو ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ سے تو ہٹا دیا مگر اس سے زیادہ اہم پوسٹ ان کو دے کر اپنا اقتصادی مشیر مقرر کر لیا۔ اور صدر کے مشیر کی حیثیت سے ان صاحب نے جو ’’خدمات‘‘ انجام دیں ،وہ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ، پی آئی اے کے سابق سربراہ، سابق ڈپٹی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور سابق گورنر مغربی پاکستان جناب نور خان سے دریافت کیجئے ۔ انہوں نے ۲ مارچ کو اپنی ہنگامی پریس کانفرنس میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے التواء پر تبصرہ کرتے ہوئے اس طرف اشارات کیے ہیں۔ روزنامہ’’ آزاد‘‘ لاہور ۳ مارچ کے مطابق جناب نور خان نے مشرقی پاکستان کے ساتھ ناانصافیوں کا ذمہ دار نوکر شاہی خصوصاً ایم ایم احمد کو قرار دیا اور الزام لگایا کہ موصوف صدر مملکت کو غلط مشورے دے کر ملک کے دونوں حصوں کے درمیان اختلافات کی خلیج کو وسیع کر رہے ہیں۔ جناب نور خان نے یہ بھی بتایا کہ موجودہ سیاسی بحران بپا کرنے کے لیے مسٹر احمد اور ان کے ساتھی افسروں نے اور بھی خفیہ سازشیں کی ہیں۔‘‘
پھر ایک قادیانی سفارتکار مسٹر منصور احمد کا یہ کردار بھی پیش نظر رہے کہ جب جنیوا اِنسانی حقوق کمیشن میں حکومت پاکستان کے خلاف قادیانیوں نے اپنے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالہ سے درخواست دائر کی تو جنیوا میں پاکستان کا سفیر ہونے کے ناتے سے مسٹر منصور احمد حکومت پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر قادیانی ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے نمائندہ کے طور پر پیش ہوئے اور قادیانیوں کی درخواست کے حق میں فیصلہ دلوایا جو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
یہ چند مثالیں ہیں جو ریکارڈ پر ہیں اور قادیانیوں کے بارے میں مسلمانوں کی بے اعتمادی کے بنیادی اسباب پر شواہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ جس ملک میں جوگندرناتھ منڈل، جسٹس اے آرکار نیلئس، جسٹس دراب پٹیل، فادر روفن جولیس اور ان جیسی درجنوں غیر مسلم شخصیات کو حکومتی مناصب پر قبول کیا گیا ہے ،وہاں دو چار قادیانیوں کے آجانے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ لیکن اصل بات یہ نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ وہ ہے جو جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے آخری ایام میں اپنے جیل کے نگران کرنل محمد رفیع سے کہی تھی اور جو ان کی یادداشتوں میں چھپ چکی ہے کہ ’’قادیانی حضرات پاکستان میں وہ پوزیشن حاصل کرنے کی تگ و دو میں مسلسل مصروف ہیں کہ جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے کہ ملک کا کوئی فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف نہ ہو اور کوئی پالیسی ان کی منشا سے ہٹ کر طے نہ پا سکے ۔‘‘
ہم معترضین سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ اسے صرف مذہبی جذباتیت کے حوالہ سے نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں زمینی حقائق کی بنیاد پر دیکھیں اور پاکستانی قوم کے اجتماعی فیصلے اور جذبات کا احترام کرتے ہوئے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے ان مضامین کا بھی ایک بار ضرور مطالعہ کر لیں، جن میں قادیانیت کو یہودیت کا چربہ اور قادیانیوں کو اسلام اور ملک دونوں کا غدار کہا گیا ہے ۔
یہ سوال اس وقت مختلف دائروں میں گردش کر رہا ہے کہ کیا قادیانیوں کو مسلم سوسائٹی میں شامل کرنے کی کوئی صورت ممکن ہے ؟ ایک محفل میں مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے عرض کیا کہ ایک ہی صورت ممکن ہے کہ قادیانی اس مقصد کے لیے ‘‘پراپر چینل’’ آئیں۔ اس لیے کہ ہر کام کا کوئی فطری پراسیس ہوتا ہے اور کوئی چینل ہوتا ہے ، وہ کام اس ذریعہ سے کیا جائے تو وہ کام ہو پاتا ہے ،ورنہ مطلوبہ پراسیس اور چینل کو کراس کرنے سے معاملات پہلے سے زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔
جنابِ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں چار حضرات نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اُن کے ساتھ ہزاروں افراد پیروکار کے طور پر شامل ہوگئے تھے۔ (۱) مسلیمہ کذاب (۲) اُسود عنسی (۳) طلیحہ بن خویلد (۴) اور سجاح( خاتون)۔ ان کا مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ ہوا، جنگیں ہوئیں اور کافی دیر معرکہ آرائی رہی، جس کا آخری نتیجہ یہ تھا کہ مسیلمہ اور اُسود تو مارے گئے مگر طلیحہ اور سجاح نے نبوت کے دعویٰ سے رجوع کر کے عام مسلمانوں کے اجماعی عقائد کی طرف واپسی کر لی، جبکہ ان کے ہزاروں ساتھیوں نے شکست کے بعد محاذ آرائی ترک کر دی، اپنا الگ تشخص ختم کر دیا اور اس طور پر خود کو مسلم سوسائٹی میں ضم کر دیا کہ اس کے بعد ان میں سے کسی شخص کی نبوت کا پرچار تاریخ کے ریکارڈ میں موجود نہیں ہے ۔ اس لیے اس سلسلہ میں فطری راستہ اور طریقہ کار یہی ہے کہ قادیانی امت نئی نبوت کے دعوے سے دستبردار ہو جائے ، مسلمانوں کے اجماعی عقائد کو قبول کرنے کا اعلان کرے اور نبوت کے نام پر اپنا الگ تشخص ختم کر دے تو طلیحہ اور سجاح کی طرح اور مسیلمہ کذاب کے ہزاروں پیروکاروں کی طرح قادیانیوں کو بھی مسلم سوسائٹی میں قبول کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس سے ہٹ کر اِس سلسلہ میں ان کی کوئی کوشش اور ان کے حمایتیوں اور پشت پناہوں کا کوئی دباؤ قبول کرنا امت مسلمہ کے لیے ممکن نہیں ہے ۔
مزید برآں یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نبوت کے دعوے سے قبل ان کے عقائد وہی تھے جو عام مسلمانوں کے ہیں اور ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ قادیانی حضرات بیرونی دنیا میں مرزا صاحب کے اُس دور کی بعض عبارات کو پیش کر کے یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب تو ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں مگر مولوی حضرات خواہ مخواہ انہیں ختم نبوت کا منکر قرار دے رہے ہیں۔ اگرقادیانی فی الواقع نبوت کے دعویٰ سے قبل کی مرزا صاحب کی ان عبارات اور عقائد کو صحیح مانتے ہیں تو پھر وہ مرزا صاحب کے نبوت کے دعویٰ اور اس کے بعد کے عقائد سے برأ ت کا اعلان کر دیں۔ یہ صورت بھی مسلم امہ میں اُن کی واپسی کی ہو سکتی ہے ، وہ اگر یہ کر سکتے ہیں تو ہم انہیں قبول بھی کریں گے اور خیرمقدم بھی کریں گے ، مگر اس کے بغیر اگر وہ دجل و فریب کے ذریعے سے اور دنیا کو گمراہ کر کے خود کو مسلمانوں میں شامل کرانا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے اور مسلّمہ علم و دانش اور اخلاقی و مذہبی اصولوں کے بھی خلاف ہے ۔ اس لیے وہ اور اُن کے پشت پناہ گروہ اس فضول محنت میں اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کریں، اس کا کبھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔