نوراﷲ فارانی
چائے کے بارے میں کسی چائے کے شوقین نے کیا خوب کہا ہے : انسان اشرف المخلوقات ہے تو چائے اشرف المشروبات ۔ہمارے اکابر واسلاف میں سے بعض چائے کے بڑے رسیا تھے۔ حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ ،شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ ،حضرت مولانا ظفرعلی خان ،علامہ میر حسن کاشمیری وغیرھم نے اپنی تحریرات اور منظومات میں چائے کا ذکر بڑے چاؤ اور محبت سے کیا ہے مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے تو اس کثرت سے کیا ہے کہ کہاجاتا ہے کہ
’’ چائے ابوالکلام آزاد ؒ کی وجہ سے یا ابوالکلام آزادؒ چائے کی وجہ سے مشہور ہوئے ‘‘
چنانچہ مولانا غلام رسول مہر ؒ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’آپ کو خط لکھ رہا ہوں اور دل میں سوچ رہا ہوں اگر ایسی چائے کے فنجان میسر ہوں تو پھر اور کون سی نعمت باقی رہ جاتی ہے جس کی انسان خواہش کرے؟ میرے لئے یہی چائے سحری کی صبوحی بھی ہے اور افطار کا جام خمار شکن بھی۔‘‘
مولانا ظفر علی خان نے تو حد کردی ہے فرماتے ہیں
چائے پیتا ہوں تو ہوجاتا ہے ایماں تازہ
M چائے نوشی میری پرانی روایات سے ہے
اکابر واسلاف کی ذوق چائے نوشی کے متعلق ’’شراب الصالحین ‘‘ کے عنوان سے میرا سلسلۂ مضامین علمی وادبی حلقوں کی جانب سے بہت پسند کیا گیا۔ سردست قارئین ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت ‘‘ کے لیے ’’شاہ جی‘‘سے متعلق حصہ پیش ہے امید ہے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا ۔
شاہ جیؒ اور چائے :
حضرت امیرشریعت سّد عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ کے رفیق خاص جناب جانباز مرزا صاحب ؒ لکھتے ہیں:
انسانی عادات قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتیں حضرت امیرشریعت کو قوت ارادی (WILL POWER)کی وجہ سے اپنی عادات پر خاصا قابو تھا۔ لیکن عام عادات جو ان کی جزوِزندگی بن چکی تھیں، ان کے ہاتھوں مجبور تھے۔ مثلاً جیل میں ہوں یا ریل میں، نمازِ صبح سے پیشتر چائے بغیر دودھ کے ضرور پیتے۔ چنانچہ چائے کا سامان (سٹوو، مٹی کا تیل، بہترین چائے کی پتی، چینی، نمک، فنجان اور ایک چھوٹا چمچ) سفری بکس میں ہمیشہ ساتھ رہتا۔ کبھی کبھار شہروں میں اگر اچھی چائے نایاب ہوجاتی، تو دیہاتوں کے سفر میں اس کی تلاش کرتے جو اکثر مل جاتی۔ ‘‘(حیات امیر شریعتؒ از جانباز مرزا ص؍ ۴۷۳)
جناب شورش کاشمیری صاحب ؒ ان کے ذوق چائے نوشی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :
چائے گھٹی میں پڑی ہوئی تھی ،ہمیشہ نفیس چائے پیتے اور اکثر خود بناکرپیتے ،مدتوں کیتلی اور تام چینی کا آب خورہ ساتھ رکھا۔ ان کے خیال میں ہر شخص چائے بنانے اور چائے پینے کا اہل نہ تھا ،فرماتے:
’’عام لوگ چائے نہیں جوشاندہ پیتے ہیں ۔‘‘
مولانا ابوالکلامؒ کی طرح انہیں بھی چائے کی کہانی یاد تھی ، طبیعت حاضر ہوتو مزے سے بیان کرتے۔
(سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ سوانح وافکار ص؍ ۶۲ از شورش کاشمیری ؒ)
شاہ جیؒ کے رفیق کار خان غازی کابلی تحریر فرماتے ہیں :
چائے رغبت سے پیتے ہیں ،سٹرونگ (تیز) چائے زیادہ پسند فرماتے ہیں۔
(ماہنامہ الاحرار خصوصی اشاعت بیاد امیر شریعتؒ ص ؍ ۲۷)
معروف ادیب ماہرالقادری فرماتے ہیں :
میں دوبار ان کی خدمت میں حاضر ہوا، بڑے مزے کی چائے پلائی ،چائے کے ساتھ کچھ لوازمات بھی تھے اور ان سب سے بڑھ کر ان کے لطیفے اور چٹکلے (چائے کی پیالی میں ان کے تبسم کی شکر گھل جانے سے لطف دوبالا ہوگیا۔)
( ماہنامہ نقیب ختم نبوت کا امیرشریعت ؒ نمبر ج؍۱ ص ؍۵۰۳)
مکتوبات میں چائے کا ذکر:
جیل سے لکھے ہوئے مکتوبات میں بھی جابجا چائے کا ذکرمختلف انداز سے کیاہے جن میں سے چند اقتباسات موضوع کی مناسبت سے نذرِ قارئین ہیں ۔
سکھر جیل سے اپنی بیٹی ام کفیل ؒ کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں :
چائے چھوڑدی ہے اور کوئی تکلیف نہیں ہوئی ،پان بھی چوبیس گھنٹے میں ایک دو دفعہ ،یہ دونوں مصیبتیں دور ہوگئیں ہیں اور یہ اﷲ تعالیٰ کا بڑا فضل وکرم میرے حال پر ہے ۔یہ ارادۃً نہیں چھوڑیں بلکہ خواہش ہی جاتی رہی۔ (سیدی وابی ص؍ ۲۱۵)
سکھر جیل سے ایک دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں :
باقی اﷲ کے فضل سے چائے ،پان ،برف اس وقت تو سب سے نجات حاصل ہے اور کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی ،حالانکہ یہ چیزیں اپنے دام سے مل سکتی ہیں ۔ (سیدی وابی ص؍ ۲۳۱)
تیسرے خط میں یوں رقمطراز ہیں :
چائے اور پان کا چھوڑنا بھی بلا وجہ نہ تھا ،کچھ دقتیں تھیں اور اس سے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی ۔اگر چہ برسوں کی عادت تھی دراصل ہماری کلاس سی کلاس تھی آج دوتین دن ہوئے ہمیں بی کلاس دی گئی ہے اور غذا میں بھی خاصا فرق ہے۔ (سیدی وابی ص؍ ۲۶۰)
ایک اور خط میں لکھتے ہیں :
میٹھا بالکل چھوڑدیا ہے ، چائے میں سکرین کی گولیاں ڈال کر منہ میٹھا کر لیتا ہوں چار گولیوں سے ایک پیالی میٹھی ہوجاتی ہے اور نہ نفع نہ نقصان۔(سیدی وابی ص؍۳۲۱)
شاہ جیؒ،چائے اور مولانا ابوالکلام آزادؒ:
بنت امیر شریعت ؒ سیّدہ ام کفیل بخاریؒ تحریر فرماتی ہیں:
دلّی جیل کا واقعہ اباجی ؒنے سنایا تھا ،مولانا آزاد ؒ بھی اسی جیل میں تھے اور مولانا احمد سعید دہلوی مرحوم ومغفور بھی۔ایک روز موقع پاکر اباجیؒ اور مولانا احمد سعید صاحب ؒ ملاقات کے لئے مولانا(ابوالکلام آزادؒ) کے کمرے میں پہنچے ہی تھے کہ جیلر یا سپر ٹنڈنٹ راونڈ کرتا ہوا ادھر آتا دکھائی دیا۔ مولانا (ابوالکلام آزادؒ) نے فرمایا بھائی ! آپ بیٹھئے میں انہیں ’’مصروف‘‘ کرتا ہوں ۔ باہر تشریف لے جاکر اس سے گفتگو شروع فرمادی ۔پھر اس نے کیا ادھر آنا تھا ۔وہیں سے واپس ہوگیا ،مولانا احمد سعید سنا ہوا ہے بڑے بے دھڑک بزرگ تھے۔ مولانا آزادؒ سے کہنے لگے ۔لاحول ولاقوۃ آپ کے پاس آنا تو ایسے ہے جیسے کوئی شریف آدمی دن دہاڑے ’’اس بازار‘‘میں پکڑا جائے ،بے چارے مولانا یہ ریمارکس پی گئے۔ پھرچائے بنائی اور پوچھاکیسی ہے ؟ اباجیؒ نے تعریف کے ساتھ کہا حضرت ایک کمی رہ گئی ہے ۔اباجیؒ کہتے اب مولانا سے کوئی یہ کہے کہ آپ کی چائے میں کمی رہ گئی ! بڑی بڑی غزالی آنکھیں اُٹھاکر حیرت اور تعجب سے پوچھا: وہ کیا میرے بھائی؟میں نے کہا دوپتی زعفران بھی ہوتی ،فرمایا :
’’آپ اضافات کی بات کرتے ہیں ۔پھرکسی روز آئیے آپ کو’’ مزعفر‘‘پلاؤں گا۔‘‘
چنانچہ ایک روز زعفرانی چائے بھی پلائی۔ (سیّدی وابی ص ؍۱۶۹)
واکثر ھم لایعقلون:
حافظ عبدالرشید ارشد۱۹۵۲ء میں امیرشریعت ؒ کی جامعہ رشیدیہ آمدکے احوال بیان کرتے ہوئے ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ :
صبح کو شیخ الحدیث مولانا محمد عبداﷲ صاحب ،حضرت ناظم صاحب ، حضرت مفتی صاحب رحمہم اﷲ اجمعین اور مولانا مقبول احمد سبھی فجر کی نماز کے بعد حضرت شاہ صاحب ؒ کے پاس آگئے اور بڑی علمی مجلس ہوئی ،میں چائے بنا رہا تھا ۔ شاہ صاحب چائے دانی ، عمدہ چائے پان اور لوازمات ساتھ رکھنے کے عادی تھے ۔ میں نے پتی چائے دانی میں ڈال کر اُبلتا ہوا پانی اوپر ڈالا۔دل ودماغ تو باتوں کی طرف تھے صرف ہاتھ کام کررہے تھے شاہ صاحب ؒ گفتگو بھی فرمارہے تھے اور مجھے چائے بناتے بھی دیکھ رہے تھے پانی زیادہ پڑگیا اور کیتلی سے باہر آگیا شاہ صاحب ؒ نے فوراً فرمایا : واکثرھم لا یعقلون ۔
(ماہنامہ’’ نقیب ختم نبوت‘‘ امیر شریعت نمبر : ج ؍۲ ص ؍۱۲۹)
چائے مجلس کی زینت ہے:
ایک دفعہ امیر شریعت ؒ کے ہاں چند بڑے علماء بطور مہمان تشریف لائے، شاہ جیؒ نے ان کیلئے چائے منگوائی،انہوں نے انکار کیا۔شاہ جی نے فرمایا:
’’آپ کو پتہ ہے چائے مجلس کی زینت ہے ؟اس کو روایت کیا ہے بخاری ومسلم نے۔‘‘
مہمانانِ گرامی بولے شاہ جی آپ جیسا آدمی ایسی بات کرے کیا ہم نے بخاری ومسلم نہیں پڑھی ہیں ؟
شاہ جی ؒ نے جواب دیا :’’حضرات میں ہی تو بخاری بھی ہو ں اور مسلم بھی ۔‘‘
چائے کا انکار متفق علیہ کفر ہے :
بنت امیرشریعت ؒ ام کفیل بخاری ؒ تحریر فرماتی ہیں :
مولانا احمدالدین صاحب شگفتہ مزاج بزرگ تھے، اباجیؒ فرماتے : میری طرف دیکھ کرمسکراتے ہوئے کہتے ’’چائے کا انکار‘‘ متفق علیہ کفر ہے ۔مطلب تھا اباجی ؒ اورمولانا خود۔(سیدی وابی ص : ۱۲۲)
چائے میں نمک :
قاری ظہور رحیم صاحب تحریر فرماتے ہیں :
ہمارے ایک دوست اختر الہ آبادی بتلاتے ہیں کہ (شاہ جیؒ )میری ہمیشہ چائے سے ضیافت فرماتے۔ایک دفعہ چائے لائی گئی تو بجائے شکر کے نمک استعمال ہوا ،میں نے ظرافتاً کہا شاہ جیؒ! میں تو پہلے ہی نمک خوار ہوں ۔ فرمایا : بابو یہ بات نہیں ،ہفتہ بھر سے گھر میں شکر نہیں ہے اس لئے بلا تکلف نمک استعمال کررہا ہوں ۔اور دوستوں کو بھی نمکین مزہ سے آشنا کرنا چاہتا ہوں ۔پھر نمکینی اور حلاوت پر بات چھڑ گئی ۔تو فارسی اور اردو کے اشعار کے دفتر کے دفتر لگ گئے اور چائے کا ہر گھونٹ نمکینیت میں حلاوت کا ایسا مزہ بن گیا کہ اس کے سرور سے آج بھی روح کو کیف وخمار کی چاشنی محسوس ہوتی ہے ۔ اور ساقی کے چل دینے پر بھی وہ تمام لذتیں باقی ہیں جو ان کے ہوتے ملتی تھیں۔
اگرچہ میکدے سے اُٹھ کرچل دیا ساقی
وہ مئے وہ خم وہ صراحی وہ جام ہے باقی
انگریزکا گرم خون :
ایک مرتبہ مولاناسیّد عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ بفہ تشریف لائے ،مولاناغلام غوث ہزاروی ؒ گھر پر موجود نہیں تھے۔ حضرت شاہ جیؒ نے آتے ہی فرمایا : کہ انگریز کا گرم خون ضرورت ہے گھر والے سوچوں میں گم تھے ،کہ انگریزکے گرم خون سے کیا مراد ہے ؟ اچانک مولانا ہزارویؒ تشریف لائے اور فرمایا : کہ فوراً گرم قہوہ تیار کیا جائے،انگریز کے گرم خون سے مراد قہوہ ہے ۔ (سوانح مجاہد ملت مولانا غلام غوث ہزارویؒ از مولانا عبدالقیوم حقانی ص؍ ۸۴)
پشاوری قہوہ اور شاہ جیؒ:
حضرت مولاناسمیع الحق صاحب مدظلہ تحریر فرماتے ہیں :
’’مجھے خوب یاد ہے کہ جب حضرت اقدس (سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ) قدس سرہ‘ دارالعلوم حقانیہ کے سالانہ جلسوں میں تشریف لایا کرتے تھے ،تو پشاور کی قہوہ چائے کو بہت پسند فرماتے تھے ۔میں نے یہاں بھی عشاء کے بعد قہوہ تیارکرنے کی اجازت مانگی ،بخوشی قبول فرمایا مگر ذیابیطس کی وجہ سے میٹھا نہ کرنے کی ہدایت کی ۔ قہوہ چائے تیار کرکے پیش کی ، بڑے شوق سے نوش فرمائی ۔ (تذکرہ وسوانح امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ ازمولاناحقانی ص؍۳۲۱)
چائے میں خود بناؤں گا:
ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب ؒ حضرت مولاناعبدالکریم صاحب خطیب صدر شاہ پور کے ہاں تشریف لے گئے تھے ۔ چائے کی بات چلی تو شاہ صاحبؒ نے فرمایا : چائے میں خود بناؤں گا آپ صرف پانی گرم کردیں۔مولانا عبدالکریم صاحب ؒ کو بازارسے دودھ نہ ملا ، عرض کیا دودھ تو نہیں ملا ،گھر میں بکری ہے اگر پسند فرمائیں تو اس کا دودھ لادوں حضرت شاہ صاحب ؒ نے فرمایا جسے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پسند فرمائیں اس سے بخاری نفرت کرسکتا ہے؟ مسلمان کی شان یہی ہے کہحضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی پسند اس کو پسند اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناپسند اس کو ناپسند ہو، فرمایا جلدی لاؤ۔چنانچہ بکری کے دودھ سے چائے بنائی گئی اور آپ نے غایت شوق ومحبت سے نوش فرمائی ۔ (ترجمان اسلام ص؍ ۴ ، ۱۵ دسمبر ۱۹۶۱ء)
فاقع لونھا تسرالنظرین:
شاہ جی ؒ کی عادت تھی کہ اپنی چائے کا قہوہ خود بناتے تھے ،ایک مقام پر تشریف لے گئے تو وہاں حضرت شاہ جیؒ کے ارادت مند نے پہلے سے چائے بنا رکھی تھی ۔شاہ جی ؒ کے لئے جب وہاں کے (قہوہ ناشناس ) حضرات قہوہ،دودھ،چینی لائے ۔تو شاہ جیؒ نے فرمایا بھائی ذرا دیکھنا قہوہ کیسا ہے ؟۔۔۔تو قہوہ شاہ جی ؒ کے مزاج کے خلاف تھا۔۔۔مزاحاً عرض کیا: شاہ جی ؒ ! قہوہ ۔۔۔بمالاتھویٰ! اس پرمسکرائے اور میزبان کی دلجوئی کے لئے وہ قہوہ اٹھاکراندر کمرہ میں تشریف لے گئے اب واﷲ اعلم اسی کو ٹھیک بنایا، یا دوسرا بناکر لائے ۔۔۔بہر حال نہایت عمدہ قسم کا قہوہ بنا کر تشریف لائے اور پھر فنجان میں ڈالتے ہوئے فرمایا:فاقع لونھا تسرالنظرین !(نوائے درویش ص ؍۹۵)
شاہ جیؒ کی چائے :
مولانا غلام احمد صاحب ایک جلسہ کی روئیداد لکھتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:
قاضی صاحب اور مولوی عاشق محمد صاحب شہید کی اپنی ذاتی کوئی سواری نہیں تھی اور نہ ہی وہ اتنی مالی وسعت رکھتے تھے کہ جلسہ کے شریک ضیوف کی دعوت کے لئے گوشت وغیرہ کا انتظام کریں ۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت شاہ جیؒ نے ہم طلبہ سے فرمایا کہ چولہے پر دیگچی رکھو اور پانی گرم کرو،جب ابل جائے تو مجھے بتانا حضرت شاہ جیؒ نے اپنے ہاتھوں سے پانی میں پتی ڈالی اور حسب منشاء چائے بنائی ،اندازہ سے یاد آتا ہے کہ دودھ نہیں تھا ۔ اس طرح حضرت شاہ جی ؒ نے منتظمین ِ جلسہ کو خوامخواہ کے چائے کے خرچہ سے اور اپنی مرضی کے مطابق چائے سازی کے تکلف سے بچالیا۔(امیرشریعت نمبر ،ج ۱؍ص۳۸۹)
چین ،چائے اور شاہ جیؒ :
جناب رازی پاکستانی صاحب حضرت شاہ جیؒ کے ارادت مندوں میں سے تھے ،شاہ جیؒ کے ساتھ ایک ملاقات کے احوال لکھتے ہوئے خامہ فرساہیں :
اب وہ عظیم(شخص)ہمیں چائے پلانے پر اصرار کررہا تھا۔ تب یوں ہی کہیں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی غبار خاطر والی چائے کا ذکر ہوا تو انہوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ دیکھنا تو وہ چائے شاید چین میں ملتی ہو؟ اس کے بعد میں ہانگ کانگ چلا گیا ،وہاں کبھی کبھار چینی دوستوں کے ساتھ کسی کیفے میں ایسی چائے بغیر دودھ اور شکر کے پیتے تو شاہ جیؒ کی بات یاد آجاتی ۔
پیکنگ میں پاکستان کے پہلے قونصلر شیخ تاج الدین اب ہانگ کانگ میں مقیم تھے۔ ان سے مشورہ کے بعد میں نے پاکستانی سفارتخانے کے ایک صاحب کی معرفت وہ خاص چائے شنگھائی یا پیکنگ سے منگوالی ۔پارسل سے بھیج رہاتھا، کہ کامریڈ مبارک ساغر اور ابو سعید انور ہانگ کانگ پہنچ گئے ۔وہ ’’دفتر چٹان ‘‘ سے میرا ایڈریس اور فون نمبر لے آئے تھے۔ بہر حال وہ چائے شاہ جیؒ کو پہنچ گئی ۔۱۹۵۶ء میں واپس ملک آیا تو دوستوں کے ساتھ شاہ جیؒ کے ہاں حاضری دی وہ چائے کی بات کرنے ہی لگے تھے کہ میں نے جرأت سے کام لے کر کہا کہ نہ تو آپ اس غیر ضروری شے کے لیے شکریہ ادا کریں اور نہ ہی آپ جیسے جفاکش انسان کو مولانا آزادؒ کی پیروی میں آئندہ کے لیے ایسے چسکوں میں پڑنا چاہیئے ۔لاہور واپس آکر میں نے یہ بات آغاصاحب (شورش کاشمیری) کو بتارہاتھاتو حمید نظامی اور شیخ حامد محمود بھی وہاں بیٹھے تھے ۔شورش پوچھنے لگے کہ شاہ جیؒنے تب کیا کہا؟ میں نے کہا کہ اس عظیم شخص کی وہی مسکراہٹ تھی جس سے آپ بھی شناسا ہوں گے۔ (امیر شریعت نمبر ص؍ ۲۴۹ج؍۲)
چائے نہیں زہر ہے :
چائے کے حوالے سے یہ واقعہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا لہذا شامل کیا جاتا ہے ۔امین گیلانی ’’بخاری کی باتیں‘‘ میں لکھتے ہیں :
مارشل لاء اُٹھنے کے بعد مجلس احرار اسلام کے لیے لاہور میں میٹنگ ہوئی، کچھ دوستوں میں شاہ جی کی باتیں چل پڑیں۔ مولانا عبدالرحمن صاحب میانوی‘ مولانا ابوذر بخاری‘ نور احمد صاحب آزاد کچھ اور دوست اور راقم الحروف بیٹھے تھے، تو ایک صاحب نے جو بحیثیت کارکن کسی شہر سے احرار کی میٹنگ میں نمائندہ بن کر آئے تھے، انہوں نے واقعہ سنایا افسوس کہ کسی ضروری کام کے لئے مجھے اُٹھنا پڑگیا، میں ان صاحب کا نام اور پتہ دریافت نہ کرسکا۔ بہرحال انہوں نے سنایا کہ ایک دفعہ شاہ جی ہمارے ہاں تشریف لائے، تقریر کے بعد ہمارے مکان پر ہی قیام فرمایا۔ شاہ جی لیٹے ہوئے تھے اورمیں انہیں دبا رہا تھاکہ گھر سے چائے بن کر آگئی۔ میں نے چائے پیش کی تو آپ نے فوراً اسے سونگھا اور فرمایا: کیوں جی! ہمارے ساتھ کوئی دشمنی ہوگئی ہے؟ میں نے کہا شاہ جی !خدا نہ کرے۔ فرمایا : تو چائے میں زہر کیوں ملایا گیا ہے؟ میں حیران ہوگیا، میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میں نے کہا: شاہ جی! آپ کیا فرما رہے ہیں؟ یہاں سب آپ کے خدام ہیں، مگر آپ نے پورے اعتماد سے فرمایا: بھائی ! یہ چائے نہیں زہر ہے۔ میں گھبرایا ہوا اندر گیا۔ بیوی سے پوچھا چائے کس نے پکائی؟ اس نے کہا میں نے خود‘ دودھ اپنی بھینس کا ہے۔ میں نے کہا: اﷲ کی بندی! شاہ جی فرما رہے ہیں ، اس میں زہر ہے، اس نے متعجب ہوکر کہا: خدا نہ کرے ہائے ایسے نیک بندے سے کون ایسا کرسکتا ہے؟ اور پھر ہمیں اپنی جان عزیز نہیں۔ میرے لئے یہ بات معمہ بن گئی، مارے ندامت کے قدم بوجھل ہورہے تھے کہ شاہ جی کو کیسے سمجھاؤں او رکیا منہ دکھاؤں؟ اتنے میں میری بیوی کچھ سوچ کر بولی! اوہو ایک بات ہے سنو تو‘ ہمارے ہاں کھانڈ نہیں تھی‘ راشن کی کھانڈ ابھی مل نہیں سکتی تھی، میں نے پاؤ بھر کھانڈ ہمسایوں سے منگوائی تھی۔ وہ تو آپ کو معلوم ہے مرزائی ہیں، کہیں انہوں نے شرارت نہ کی ہو۔ بس میں سمجھ گیا۔ تحقیق پر یہی معلوم ہوا کہ چینی میں زہر ملا دیا گیا تھا۔ ہم شاہ جیؒ کی فراست پر حیران ہوئے اور شکر کیا کہ خدانے ہمیں ذلت سے بچالیا۔
خوشبو والی چائے:
سید محمد کفیل بخاری مد ظلہ حضرت شاہ صاحب کے حوالے سے ایک تأثراتی مضمون میں لکھتے ہیں کہ (حبیب احمد بن حاجی دین محمد صاحب راوی ہیں) ایک دفعہ شاہ جی ہمارے گھر تشریف لائے تو حسب معمول عصر کے بعد گھر سے چائے بن کر آئی۔ جب چائے پیالی میں ڈالی تو خاصی چکنائی تھی اور خوشبو بھی آ رہی تھی۔ شاہ جی نے پوچھا کہ بھائی دین محمد یہ چائے میں تیل کیوں ڈال دیا۔ حاجی صاحب پریشان ہو کر گھر گئے تو پتہ چلا کہ میری چھوٹی بہن نے عطر کی شیشی چائے میں انڈیل دی تھی۔ اتنے میں بچی بھی آ گئی، شاہ جی نے پوچھا: ’’بیٹی! یہ خوشبو چائے میں کیوں ڈالی؟‘‘ کہنے لگی شاہ جی! آپ کو عطر بہت پسند ہے، آپ جب بھی تشریف لاتے ہیں تو آپ کے کپڑوں سے عطر حنا کی خوشبو آتی ہے۔ میں نے اس لیے چائے میں شیشی انڈیل دی۔ چائے تو دوبارہ بنی لیکن دیر تک یہ لطیفہ محفل اور ہمارے گھر میں گردش کرتا رہا۔
ایک نا خوشگوار واقعہ پر معذرت:
جانشین امیر شریعت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل شاہ جی کہروڑ پکا کے کسی دیہات میں تقریر کے لیے تشریف لائے۔ میزبان کے ہاں محفل جمی تھی اور احباب چائے پی رہے تھے۔
ایک نہایت سادہ دیہاتی مولوی صاحب نے چائے کی پیالی منہ سے لگائی، نہایت لمبی تان اور بلند آواز میں چسکی لی کہ پوری محفل لرزہ براندام ہو گئی۔ شاہ جی اس معاملے میں بہت حساس اور لطیف مزاج تھے۔ کھانا کھاتے اور چائے پیتے وقت اگر کسی کے منہ سے آواز نکلتی تو طبیعت پر بہت برا اثر ہوتا۔ مولوی صاحب سے فرمایا: ’’مولوی صاحب! چائے پیتے ہو یا چائے سے زیادتی کرتے ہو‘‘، کچھ اور بھی سخت الفاظ کہہ دیے۔ مولوی صاحب بھی دھڑلے کے آدمی تھے۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، غصے میں چائے کی پیالی شاہ جی پر پھینک دی، کہنے لگے بڑے عالم بنے پھرتے ہو اور بات کرنے کا سلیقہ نہیں۔ یہ کہا اور یہ جا وہ جا۔ مولوی صاحب تو چلے گئے لیکن شاہ جی نے فوراً دوستوں سے کہا کہ بھائی! یہ مولوی صاحب میری امانت ہیں۔ میں نے تم سے لینے ہیں۔ یہ کہہ کر اٹھے، اپنے کپڑے دھوئے، غسل کیا، نماز ظہر ادا کی اور جلسے میں جانے سے پہلے پوچھا کہ بھائی وہ مولوی صاحب کہاں ہیں؟ کارکنوں نے بتایا کہ جلسے میں سب سے آخر میں بیٹھے ہیں۔ فرمایا: مجھے ان کے پاس لے چلو۔ چنانچہ شاہ جی پورے جلوس کے ساتھ مولوی صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ انھیں سلام کیا اور فرمایا: ’’بھائی مولوی صاحب! جو آپ نے فرمایا اور جو کیا وہ بالکل درست کیا، جو میں نے کہا غلط کہا، میرے منصب کے خلاف تھا، میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ آپ ان سارے لوگوں کے سامنے فرما دیں کہ عطاء اﷲ! میں نے تمھیں اﷲ کے لیے معاف کیا‘‘۔
مولوی صاحب رو رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ شاہ جی! آپ مجھے معاف فرما دیں۔ میں نے بدتمیزی کی ہے اور شاہ جی فرما رہے تھے کہ نہیں مولوی صاحب! غلطی مجھ سے ہوئی، معافی بھی میں ہی مانگوں گا۔ آپ یہی الفاظ کہیں گے کہ ’’عطاء اﷲ میں نے تمھیں اﷲ کے لیے معاف کیا‘‘۔ آپ معاف کریں گے تو میں تقریر کروں گا۔ چنانچہ مولوی صاحب نے یہ الفاظ بآواز بلند کہے۔ شاہ جی نے انھیں گلے لگایا، ماتھا چوما اور پھر سٹیج پر پہنچ کر تقریر کی۔ ساری تقریری انھی مولوی صاحب کی تعریف میں تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری اصلاح کے لیے ایسے نیک لوگوں کو پیدا کیا ہے جو ہماری غلطیوں پر سرعام ٹوکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انھیں جزاءِ خیر عطاء فرمائے۔
سبحان اﷲ! یہ وہ اخلاق اور عجز و انکسار تھا جس نے امیر شریعت رحمہ اﷲ کو خاص و عام کا محبوب بنا دیا تھا۔