مولانا محمد غیاث الدین حسامی
قرآن کریم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے مقصد زندگی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے انسانوں اور جنات کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے (الذاریات: ۶۵)۔ یہی بات ایک حدیث قدسی میں کچھ تفصیل کے ساتھ ہے کہ اے میرے بندو! میں نے تمھیں اس لیے پیدا نہیں کیا کہ تم تنہائی میں میرے انیس بنو اور نہ اس لیے کہ قلت میں تمھارے ذریعے میں کثرت حاصل کروں، اور نہ اس لیے کہ تنہا ہونے کے باعث کسی کام کرنے سے عاجز ہو کر میں تمھاری مدد کا طلب گار بنوں اور نہ اس لیے کہ تمھارے ذریعہ کوئی نفع حاصل کروں یا کسی مضرت کو دفع کروں، میں نے تو تمھیں اس لیے پیدا کیا کہ تم زندگی بھر میری بندگی اختیار کرو، کثرت سے میرا ذکر کرو اور صبح و شام میری تسبیح پڑھتے رہو۔ (عبادت کا حقیقی مفہوم: ۴۳، مصنف ڈاکٹر یوسف القرضاوی)
عبادت کے تعلق سے اﷲ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کے ہر فرد بشر سے ایک مضبوط عہد لیا ہے، جسے قرآن مجید نے واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا ہے کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، اس لیے کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے (سورۂ یٰسین: ۶۰۔۱۶)۔ لیکن انسان گردشِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس وعدۂ خداوندی کو بھول گیا اور ایک خدا کی عبادت کی بجائے کئی خداؤں کی عبادت کرنے لاور اور ہر ذی یاثر چیز کو خدا کا درجہ دے دیا۔اس کی اسی غفلت کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں اور نزولِ کتب کا سلسلہ شروع کیا، جس کے ذریعہ پوری انسانیت کو ایک اﷲ سے کیے ہوئے اس وعدے کو یاد دلایا اور انھیں بندوں کی عبادت سے نکال کر اﷲ کی عبادت کی طرف پھیر دیا، ان نیک فطرت نبیوں اور رسولوں کا اپنی قوم کے لیے ایک ہی نعرہ تھا کہ اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمھارے لیے کوئی معبود نہیں ہے، قرآن کریم کی بہت سی آیتوں اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ کی بہت سے احادیث میں عبادت کی بہت تاکید گئی ہے اور یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے مقصدِ زندگی (عبادت) میں کامیاب ہو گا وہی رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کرے گا اور جو ناکام و نامراد ہو گا، وہ رب کی ناراضگی کی وجہ سے عذاب و عقاب کا مستحق ہو گا، اس لیے بندے کی اصل کامیابی حکمِ الٰہی اور طریقۂ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطابق عبادت کرنے میں مضمر ہے اور جو بندہ عبادت و بندگی کے علاوہ دوسرے طریقہ میں کامیابی کا طلب گار ہو گا، اُس کے لیے ناکامی لکھ دی گئی ہے۔
تاریخِ اسلام اس بات پر گواہ ہے کہ ابتداءِ اسلام سے آج تک عبادت و بندگی کے اس حکم پر جہاں مردوں نے عمل کیا ہے وہیں عورتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ خالقِ کائنات کی رضا جوئی کے لیے جہاں مرد اپنی راتوں کو عبادت سے مزین کیے رہے ہیں وہیں عورتوں نے بھی اطاعت و بندگی کے ذریعہ اپنی راتیں سجائیں اور اپنے مولیٰ سے ہم کلامی کے لیے شب بیداری اور آہِ سحر گاہی کا معمول بنایا۔ جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پورے جذبہ کے ساتھ عبادت میں مصروف ہوا کرتے وہیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے والی ازواجِ مطہرات بھی پورے شوق و جذبہ کے ساتھ فریضۂ بندگی بجا لاتیں۔ جہاں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین طریقۂ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطابق عبادت کیا کرتے وہیں صحابیات رضی اﷲ عنہن بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق عمل کرتیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے چہیتی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا عبادت گزار اور اﷲ سے ڈرنے والی تھیں، چاشت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتی تھیں، رمضان المبارک میں تراویح کا خاص اہتمام کرتیں، اکثر روز ے رکھا کرتیں، پورے جذبہ کے ساتھ ہر سال برابر حج ادا کرتیں، غلاموں پر شفقت کرتیں اور ان کو خرید کر آزاد کرتیں۔ (شرح بلوغ المرام)
اُمّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اﷲ عنہا کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی۔ انھیں عبادتِ الٰہی سے بہت زیادہ لگاؤ تھا، رمضان شریف کے علاوہ ہر مہینہ میں تین روزے پابندی کے ساتھ رکھا کرتی تھیں، اطاعتِ خداوندی ہر عمل میں صاف نظر آتا تھا، جہاں اوامر کی بے حد پابند تھیں وہیں نواہی سے بچنے کا التزام کرتی تھیں۔ (ابن سعد)
اُمّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ عنہا بڑی دین دار، پرہیز گار، حق گو اور سخی خاتون تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حد درجہ خشیتِ الٰہی کا غلبہ تھا، ان کی عبادت و زہد کا ذکر خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی کتاب ’الاصابۃ‘‘ میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت میں مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے، حضرت زینب رضی اﷲ عنہا بھی اس موقع پر موجود تھیں، انھوں نے کوئی ایسی بات کہی جو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو پسند نہیں آئی، انھوں نے ذرا تیزی سے حضرت زینب کو دخل دینے سے منع کیا، رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! انھیں کچھ نہ کہو، یہ اوّاہ (خدا سے ڈرنے والی) ہیں۔
اُمّ المؤمنین حضرت جویریہ رضی اﷲ عنہا بھی بڑی عبادت گزار اور زاہدانہ زندگی گزارنے والی خاتون تھیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انھیں اکثر عبادت و بندگی میں مشغول پاتے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جب کبھی گھر سے باہر جاتے یا گھر تشریف لاتے تو انھیں اپنے رب سے راز و نیاز کرتے ہوئے پاتے، ایک دن حضور انور صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں صبح کے وقت اپنے گھر کی مسجد (نماز کی جگہ) میں عبادت کرتے ہوئے دیکھا، پھر ضروریات سے فارغ ہو کر آئے تو بھی اسی حالت میں ان کو پایا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم ہمیشہ اسی طرح عبادت کرتی رہتی ہو؟ انھوں نے کہا: جی ہاں یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ علیہ وسلم) تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمات پڑھا کرو، ان کو تمھاری نفل عبادت پر ترجیح حاصل ہے: سُبْحَانَِ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضا نَفْسِہٖ وَزِنَۃِ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ
(مسند احمد، حدیث جویریہ بنت الحارث، حدیث نمبر: ۳۳۰۸۔ ناشر موسسۃ الرسالۃ)
مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بارہ رکعات نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد حضرت اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا بھی سن رہی تھیں، اس کے بعد پوری زندگی یہ بارہ رکعات ان کے معمول میں رہیں کبھی ان کو ترک نہیں کیا۔
(مسند احمد، حدیث ابی موسیٰ الاشعری، حدیث نمبر: ۱۹۷۰۹۔ ناشر موسسۃ الرسالۃ)
حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا ء رضی اﷲ عنہا کو عبادتِ الٰہی سے بے انتہا شغف تھا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تہجد گزار اور کثر سے روزے رکھنے والی تھیں، خوفِ الٰہی سے ہر وقت لرزاں اور ترساں رہتی تھیں، زبان پر ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں فاطمہ کو دیکھتا تھا کہ کھانا پکاتی تھیں اور ساتھ ساتھ خدا کا ذکر بھی کرتی جاتی تھیں۔ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کا بیان کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہ گھر کے کام کاج میں لگی رہتی تھیں اور قرآن مجید کی تلاوت کرتی رہتی تھیں، وہ چکی پیستے وقت بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ فاطمہ اﷲ تعالیٰ کے بے انتہا عبادت کرتی تھیں لیکن گھر کے کام میں کوئی فرق نہیں آنے دیتی تھیں۔ سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ ماجدہ کو صبح سے شام تک اﷲ تعالیٰ کے آگے گریہ و زاری کرتے، نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کرتے اور دعائیں مانگتے دیکھا کرتا تھا اور یہ دعائیں وہ اپنے لیے نہیں بلکہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے مانگتی تھیں، عبادت کرتے وقت آپ کا نورانی چہرہ زرد ہو جاتا تھا، جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا، آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی تھی یہاں تک کہ اکثر مصلیٰ آنسوؤں سے بھیگ جاتا تھا۔ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی عبادت کا یہ حال تھا کہ اکثر ساری رات نماز میں گزار دیتی تھیں، بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی عبادتِ الٰہی کو ترک نہیں کرتی تھیں، اﷲ تعالیٰ کی عبادت، اس کے احکام کی تعمیل اور اس کی رضا جوئی اور سنتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سما گئی تھی۔ (سیرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا)
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنہما عبادت و بندگی میں شہرہ رکھتی تھیں، نہایت درجہ کی عابدہ اور زاہدہ تھیں، کثرتِ عبادت ان کا خصوصی وصف تھا۔ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کسوف کی نماز پڑھا رہے تھے، بہت سی صحابیات بھی شریکِ نماز تھیں، ان میں حضرت اسماء بھی شامل تھیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز کو کئی گھنٹے طویل کیا، حضرت اسماء کی طبیعت کچھ کمزور تھی، تھک کر چُور چُور ہو گئیں لیکن بڑے استقلال سے کھڑی رہیں، جب نماز ختم ہوئی تو غش کھا کر گر پڑیں، چہرے اور سر پر پانی چھڑکا گیا تو ہوش میں آئیں۔ (بخاری شریف، باب صلوٰۃ النساء مع الرجال فی الکسوف، حدیث نمبر: ۱۰۵۳)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی چچی حضرت اُمّ الفضل رضی اﷲ عنہا نہایت پرہیز گار اور عبادت گزار تھیں، بعض روایتوں میں ہے کہ وہ پیر اور جمعرات کو ہمیشہ روزہ رکھا کرتی تھیں۔
حضرت خولہ رضی اﷲ عنہا بھی عبادتِ الٰہی سے کافی شغف رکھتی تھیں اور ساری رات عبادت اور نماز پڑھنے میں گزارتی تھیں۔ ان کا تذکرہ مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں حضرت خولہ کا ادھر سے گزر ہوا تو حضرت عائشہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) یہ خولہ ہے، جو پوری رات عبادت میں گزارتی ہے اور رات بھر سوتی نہیں، اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تعجب سے فرمایا کہ رات بھر نہیں سوتیں؟ پھر فرمایا کہ انسان کو اتنا ہی کام کرنا چاہیے جسے وہ ہمیشہ نباہ سکے (مسند احمد، مسند عائشہ، حدیث نمبر: ۲۵۶۳۲، ناشر موسسۃ الرسالۃ)
حضرت صفوان بن معطل رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آ کر شکایت کرنے لگیں کہ ان کے شوہر انھیں نماز پڑھنے کی بنا پر سختی کرتے ہیں، جب میں روزہ رکھتی ہو تو میرا روزہ بھی تڑوا دیتے ہیں۔ حضور انور صلی اﷲ علیہ وسلم نے صفوان بن معطل سے وجہ دریافت کی تو انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! یہ نماز میں لمبی لمبی سورتیں پڑھتی ہیں اور میں انھیں اس سے منع کرتا ہوں اور روزہ تڑوانے کی حقیقت یہ ہے کہ جب یہ نفلی روزے رکھنے پر آتی ہیں تو رکھتی ہی چلی جاتی ہیں جو میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ (مسند احمد، مسند ابی سعید خدیر، حدیث نمبر: ۱۱۰۸۰۱)
(مطبوعہ: ماہنامہ ’’الابرار‘‘ کراچی، اگست ۲۰۱۸)