ڈاکٹر شہزاد
فرض کریں میں بو قت قیامِ مملکتِ اسرائیل وہاں اسرائیل کا شہری ہوتا۔ وہ لوگ مجھے اپنے شہری کے طور پر ملازمت میں لے لیتے، میں ترقی کرتے کرتے وہاں کا چیف جسٹس بن جاتا۔اس حیثیت میں وہ لوگ،جی ہاں وہاں کے یہودی، اپنے مُلک کی تعمیر و ترقی کے لئے قانون دانوں کے کسی مجمع میں خطاب کی دعوت دیتے تو میں ڈنکے کی چوٹ پر بقائمی ہوش و حواس انہیں تجویز دیتا کہ اس مملکت کی بقاعبرانی زبان کے احیا میں مضمر ہے۔ لہٰذا اس زبان کو اسرائیلی قانون کی زبان بنایا جائے تبھی اسرائیل کے ساتھ وفا ہو گی۔ تبھی اسرائیل مضبوط ہو گا۔یہ کہنے سے نہ تو میرا ایمان خطرے میں پڑتا اور نہ میں دائرۂ اسلام سے خارج ہوتا اور یہی کام مغربی ممالک کی شہریت رکھنے والا ہر مسلمان کر رہا ہے۔ یہ کام کوئی بعید از فہم نہیں ہے۔ یہ ایمانی نہیں ایک عقلی نسخہ ہے۔ یہی کام کوئی ساٹھ سال قبل پاکستان کے اس وقت کے مسیحی چیف جسٹس جناب اے۔ آر۔ کار نیلیئس نے کیا تھا۔ آپ اُن کی تحریریں پڑھ لیں۔ چھپی ہوئی موجود ہیں۔
فرماتے ہیں: ملک کے تمام لا کالجوں میں داخلے کے لئے عربی زبان پر عبور ضروری قرار دیا جائے اور یہ کہ قانون کی تعلیم کے لئے ضروری ہو کہ ہر لا کالج میں شعبہ اسلامک جیورپروڈنس ہو اور قانون کی جملہ تعلیمات کا محور یہی شعبہ ہو۔یہ کچھ کہنے کے بعد بھی جناب کار نیلیئس کیتھولک مسیحی ہی رہے اور اسی حیثیت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ادھر اپنے ملک میں ’’پڑھے لکھوں‘‘ کا ایک ہجوم ہے جو لفظ نظریۂ پاکستان سنتے ہی حوا س کھو بیٹھتا ہے اور کہلاتا پھر بھی مسلمان ہے۔ میرے علم میں دُنیا کا کوئی ایک ملک ایسا نہیں ہے، جس کا کوئی نظریہ نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں لفظ نظریہ اس کثرت سے استعمال ہوا ہے دیگر ممالک میں یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ امریکہ کی نسبت سے اگر کوئی کہے کہ ’’نظریۂ امریکہ کا تقاضا ہے کہ‘‘ تو بات بظاہر عجیب سی ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ امریکہ نامی ملک کسی نظریے کے بغیر ہوا میں معلق ہے تو ایسے شخص کو اپنے علمی مرتبے پر نظرثانی کر لینا چاہئے۔ ذرا امریکہ میں جا کر کوئی کہہ کر دیکھے کہ شہریوں کو حاصل مطلق اور مادر پدر آزاد قسم کی آزادی ذرا غیراسلامی قسم کی ہے۔ لہٰذا میں امریکہ میں بطور امریکی شہری رہ کر اس آزادی کے خلاف اپنا ’’حق آزادی‘‘ استعمال کرتا ہوں تو پھر دیکھتے ہیں کتنے گھنٹے وہ جیل سے باہر رہتا ہے۔پاکستان میں مقیم ہندو، سکھ، مسیحی اور دیگر چند چھوٹے چھوٹے مذاہب کے ماننے والے نہ صرف اپنے بارے میں یکسو ہیں،بلکہ وہ پاکستان کو مسلمانوں کا اسلامی مُلک تسلیم کرتے ہیں اور یہ بات ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ ایک دفعہ میں ججوں کا ایک گروپ سپریم کورٹ میں لے گیا۔ ضلعی عدلیہ کے افراد بالخصوص دور دراز علاقوں میں تعینات ججوں کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملنا ایک تاریخی لمحہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم انہیں ترجیحی بنیادوں پر وہاں لے جایا کرتے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو جناب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب نے ملاقات سے معذرت کی اور دیگر دو ججوں کو ملاقات کرنے کی ہدایت کی۔ الگ بات ہے کہ مَیں نے اپنے طریقے استعمال کرکے انہیں بعد میں دفتر سے نکلوا لیا۔ وہ ہمارے ساتھ شریک ہوئے۔ البتہ اس نشست سے جناب جسٹس رانا بھگوان داس صاحب نے خطاب کیا۔ خطاب سے قبل انہوں نے پورے اہتمام کے ساتھ تلاوت قرآن پاک کرائی۔ اسے احترام سے سنا اور اسلامی قانون کے بارے میں بڑی مفید باتیں کیں۔
جو لوگ آج کل احمدیوں کے خود ساختہ وکیل بنے ہوئے ہیں،ان سے کوئی مذہبی، کوئی عقیدے پر مبنی اور علم الکلام والا سوال نہیں ہے۔ سادہ سا قانونی،بلکہ آئینی سوال ہے کہ 1974ء کے بعد ہونے والے کسی انتخاب میں کسی احمدی نے کبھی قومی یا صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا ہو تو مجھے اس کا نام ای میل کر دیں۔ صرف 1974ء میں ایک دفعہ قومی اسمبلی میں بشیر طاہر نامی شخص اور پنجاب اسمبلی میں ایک اور شخص اقلیتی احمدی نشستوں پر بھٹو صاحب کی کوششوں سے آئے۔ جماعت احمدیہ نے البتہ ان دونوں حضرات سے لاتعلقی اور اُن کی اسمبلی رکنیت سے برأت کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد احمدی جماعت میں سے کوئی شخص کسی اسمبلی میں آج تک نہیں آیا، نہ بذریعہ انتخاب نہ خصوصی نشستوں پر! بھلا کیوں؟ وجہ صرف ایک ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ اِس لئے تسلیم نہیں کرتے کہ کوئی مالیاتی یا پانی کی تقسیم کا کوئی آئینی مسئلہ ہے، بلکہ اِس لئے کہ یہ لوگ خود کو مسلمان سمجھتے ہیں اور ہم مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور اس باب میں پاکستان کا آئین ان کے عقیدے کے خلاف ہے لہٰذا وہ کبھی کسی انتخاب میں حصہ نہیں لیتے۔ یہ ہے مدعی کا دعویٰ! جس کسی کو یقین نہ آئے وہ کسی احمدی سے جا کر تصدیق تکذیب کر لے۔ اور یہ بات ان کے خلیفہ نے 1974ء میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں برملا کہی تھی۔جس کسی نے بھی اس حالیہ قضیے میں اس ماہر معیشت کا نام اقتصادی کونسل کی رکنیت کے لئے ڈلوایا، دل کی گہرائی سے اس کا شکریہ! حالت یہ تھی کہ والدین اپنی ذمہ داریاں بھول کر اولاد کو بس انگریزی سکھانے میں لگے ہوئے تھے۔ اولاد کو نہ تاریخ پاکستان کا پتہ تھا اور نہ اکابر تحریک پاکستان کی خبر۔ مذہب تو بس صرف ’’شدت پسندوں‘‘ کا مسئلہ رہ گیا تھا۔ دِل اِس لئے خوش ہوا کہ ایک احمدی کا نام ایک معمولی سی جگہ پر آنے کی دیر تھی، سوئی ہوئی مخلوق بیدار ہو گئی۔ نئی نسل کے جس کسی کو اس ناسور کا علم نہیں تھا، ایک نئی بحث شروع ہو جانے پر اسے معلوم ہو گیا کہ یہ لوگ کون ہیں، ان کا عقیدہ کیا ہے اور پاکستان کے آئین کی بابت ان کا نقطۂ نظر کیا ہے۔جب مَیں نے اخبار میں لکھنا شروع کیا تھا تو اوّل دن سے مَیں نے اپنے لئے چند رہنما اصول طے کئے تھے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ اپنی بات مثبت انداز میں بس بیان کرناہے۔ کسی سے اُلجھنا یا اختلاف نہیں کرنا۔ ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ اپنا نقطۂ نظر بیان کرے۔ میں کسی کے نظریے پر کیوں حرف زنی کروں؟ آج مجھے اپنے اس اصول سے اِس لئے انحراف کرنا پڑ رہا ہے کہ بہت سے لکھنے والے آج کل ایک ایسے مسئلے پر بے تکان بولے یا لکھے جا رہے ہیں، جس پر انہیں نہیں بولنا چاہئے۔ جماعت احمدیہ کے یہ خود ساختہ وکیل آج کل احمدیوں کے حق میں کبھی انسانی حقوق کے نام پر تو کبھی اقلیتوں کے حوالے سے عجیب عجیب بے سرو پا باتیں لکھ یا بول رہے ہیں، جن سے کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ ان کے عقیدہ ختمِ نبوت پر زد پڑ رہی ہوتی ہے۔ ابھی آج ہی ایک صاحب نے واٹس ایپ پر جو کچھ بھیجا ہے، ملاحظہ ہو:
’’ٹیکہ لگوانے سے پہلے ڈاکٹر کا عقیدہ پوچھ لیجئے اگر وہ احمدی ہو تو اس سے ٹیکہ ہرگز نہ لگوائیں ورنہ ختمِ نبوت پر سے ایمان جاتا رہے گا‘‘۔
اس طرح جگتیں بنانے والے دو طرح کے لوگ ہیں: ایک تو وہ لوگ جن کا کچا پکا علم ہوتا ہے۔ اخبار میں رہ کر اخباری ضروریات کے مطابق اور بڑوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے باعث کچھ لکھنا سیکھ گئے ہیں۔ ان کی تحریریں عام اُردو پڑھنے والوں میں خاصی مقبول ہوتی ہیں۔ یہ لوگ لکھنے والوں کے اس طبقے سے ہیں جو پروین شاکر کے بقول: ’’بستی میں جتنے تھے آب گزیدہ وہ سب کے سب /دریا کا رُخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے‘‘ ابھی کل تک ایک کالم نگار صاحب پچھلی حکومت کے گیت گا رہے تھے۔ آج تحریک انصاف والے ان کی تحریریں چوم چوم کر پڑھ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کچھ بھی لکھوا لیں۔ ان کی کچھ قیمت ہے، بس وہ ادا کر دیں۔ نہ ادا کریں تو بھی یہ لوگ پھیری والوں کی طرح صدائیں لگاتے رہتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن گاہک آ ہی جاتا ہے۔ یہ لوگ میرے پیش نظر نہیں ہیں۔ محدود ذہن، محدود ترجیحات اور لامحدود خواہشات و ضروریات کے باعث یہ لوگ نہ کوئی بات جانتے سمجھتے ہیں اور نہ ان کی لامحدودخواہشات و ضروریات ان کو کچھ سمجھنے کے رخ پر جانے کی اجازت دیتی ہیں۔ محترمہ آپا نثار فاطمہ کا بیٹا بھی اگر میرٹ کے نام پر احمدیوں کا وکیل بن بیٹھا ہے تو کوئی تعجب نہیں ہوا۔ اسے پتہ ہے کہ اقتدار کی راہداری میں داخلے کا دروازہ عورتوں کے حقوق اورا قلیتوں کی جائز و ناجائز وکالت سے عبارت ہے۔یہ معجون مغربی دنیا کا دیا ہوا ہے۔دوسرے لکھنے بولنے والے وہ لوگ ہیں جو الہامی راہنمائی سے روشنی لینا تو درکنار اسے الہامی سمجھتے ہی نہیں۔ یہ طبقہ نہ صرف پڑھا لکھا اور ذہین ہے، بلکہ کہنے کی حد تک مکالمے کا داعی و مبلغ بھی کہلاتا ہے۔دن رات جمہوریت کے حق میں بولیں لکھیں گے، لیکن جمہور جس بات پر ایمان رکھیں، جس کے حق میں ووٹ دیں، اگر وہ بات ان کے نظریات سے متصادم ہو تو پھر کون سا مکالمہ اور کون سے جمہور؟ عجب تماشا ہے کہ مُلک کے تمام مکاتب فکر، تمام سیاسی جماعتیں بشمول مرحوم بھٹو جیسا مغرب زدہ یکسو ہو کر بیک زبان احمدیوں کو آئینی طور پر غیرمسلم قرار دیتے ہیں اور یہ سیکولر اور لبرل کہلانے والے اسے ’’آئینی جھول‘‘ قرار دیں۔ مجھے بتا تو سہی اورکا فری کیا ہے۔ضرورت پڑنے پر یہ لوگ جمہوریت کا نقاب لے لیتے ہیں۔ اس میں پہچان لئے جائیں تو انسانی حقوق کا چھاتا لے لیتے ہیں۔ جگر مرادآبادی سے لے کر پیچھے غالب تک کون سا نامی گرامی ادیب شاعر گز راہے جو بادہ خوار نہ رہا ہو، لیکن اُن لوگوں نے نشے کی حالت میں بھی کبھی شعائر اسلام کی تضحیک نہیں کی۔ ادھر ایک صاحب کوہر دوسرے تیسرے ماہ دورہ پڑتا ہے۔ کبھی وہ ثقافت کے نام پر کبھی آزادی رائے اور کبھی سیاحت کے پردے میں شراب کی کھلے عام خرید و فروخت کے وکیل بن کر آتے ہیں۔ یہ کام مری بروری کے غیرمسلم مالک نے بھی کبھی نہیں کیا، جس کا کام ہی شراب کی تیاری ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے ذرائع ابلاغ میں سیکولر یا سیکولرزم اور لبرل یا لبرلزم کے اُردو ترجمے پر کئی تحریریں پڑھنے کو ملتی رہی ہیں۔ان الفاظ کا ترجمہ ہر معاشرے اور ہر ملک کے لئے الگ ہوتا ہے۔ برطانیہ ایک سیکولر مُلک اور لبرل معاشرہ ہے۔ اس پس منظر میں وہ نہ صرف مساجد کے لئے کھلے دِل سے جگہ اور سہولت بہم پہنچاتے ہیں،بلکہ پتہ کر لیجئے دینی مدارس چلانے کے لئے وہاں کھلے دل سے سرکاری امداد بھی دی جاتی ہے۔ اب ان مذکورہ الفاظ کا ترجمہ پاکستان میں ہرگز نہیں چل سکتا۔ میری ذاتی رائے میں پاکستان کے تناظر میں مذکورہ بالا الفاظ کا صحیح ترین ترجمہ منافق یا منافقت ہے۔ ہندو کو اپنے ہندو ہونے کا پتہ ہے ہمیں بھی پتہ ہے۔ ہندو ہمارے قانون کے لئے اتنا ہی محترم اور قیمتی ہے جتنا کوئی دوسرا مسلمان شہری ہے۔ وہ کبھی کسی احمدی کی وکالت نہیں کرے گا، لیکن یہ منافق لوگ نہ ملکی آئین کو تسلیم کریں۔نہ عامۃ الناس کی خواہشات کا احترام کریں۔ نہ ان لوگوں کے خلاف بولیں،بلکہ ان کے حق میں بولیں جو آئین کے دشمن ہوں۔ قارئین کرام! کیا ایسے لوگوں کو سیکولر یا لبرل جیسا پاکیزہ، جی ہاں برطانیہ کے تناظر میں پاکیزہ، عنوان دینا کیا اس لفظ کی توہین نہیں ہے؟ اور اگر یہ لوگ منافق نہیں ہیں تو پھر منافق اور کون لوگ ہوتے ہیں؟میرے لئے جناب جسٹس اے۔ آر۔ کار نیلیئس ان منافق لوگوں کی نسبت لاکھوں درجے بہتر ہیں۔ اﷲ سے دعا ہے کہ وہ اے۔ آر۔کار نیلیئس اور جناب جسٹس رانا بھگوان داس صاحب کا حساب کرتے وقت انہیں کسی ایسے زمرے میں رکھے،جو احمدیوں کے ان لبرل اور سیکولر وکلا سے کوسوں دور اور مسلمانوں کے کیمپ سے قدرے قریب ہو، آمین۔ اسی سے ملتی جلتی دعا سید صلاح الدین مدیر تکبیر نے جناب جسٹس اے۔ آر۔ کار نیلیئس کی وفات پر کی تھی۔(مطبوعہ: روزنامہ پاکستان، 10 ستمبر 2018)