سید محمد کفیل بخاری
موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے ، انصاف کی فراہمی اور بلا استثنا احتساب کے انتخابی منشور ، نعروں اور وعدوں کی بنیا د پر معرضِ وجود میں آئی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے انتخابی جلسوں میں تکرار کے ساتھ یہ بات فرمائی کہ:
’’اگر تحریک ِ انصاف کی حکومت قائم ہوگئی تو پہلے سو دنوں میں عوام کو واضح تبدیلی نظر آئے گی ۔ ہم اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے ‘‘۔
لیکن نوزائدہ حکومت کو قائم ہوئے ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجودکوئی واضح نتیجہ سامنے نہیں آیا ۔ نوبت بایں جارسید کہ وزیراعظم نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دوسال کی مدت مانگ لی ہے ۔
عمران خان ،’’یقینی طورپر ‘‘ الیکشن جیتنے والے امیدواروں کی جس ٹیم کے ساتھ فاتحانہ انداز میں ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئے ہیں وہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم میا ں نواز شریف کی حکومتوں میں بھی اقتدار کی انہی راہ داریوں میں گردش کرتے رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس ’’طائفہ مقتدرہ‘‘ کے مزاج ، سوچ اور زندگی کے مستقل طرزِ عمل کو سو دنوں میں تبدیل کرنا ایک مشکل کام ہے ۔علاوہ ازیں برسوں سے براجمان بیور وکریسی اس پر مستزاد ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ عمران خان اِن لوگوں کے ساتھ کب تک چل سکیں گے یایہ لوگ کب تک خان صاحب کے ساتھ چلتے ہیں ۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ خان صاحب جس طر ح سب کو لتاڑ چتھاڑ کر بلند بانگ دعووں کے ساتھ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے ہیں، اسی طرح قوم کو بھی ان سے غیر معمولی توقعات ہیں کہ و ہ اپنے وعدوں کو بہرحال پورا کریں گے، قوم کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں بندھی بھینسیں اور کھڑی گاڑیاں نیلام کردی گئی ہیں۔ عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ عمران خان نظام میں تبدیلی کا وعدہ جلد پورا کریں ۔ سابق حکمرانوں پر مقدمات ابھی تک زیر التوا ہیں، بلکہ سزامعطل ہونے کے بعد رہا ہوکر اپنے مری محل میں محوِ استراحت ہیں۔ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بم گرائے جارہے ہیں جبکہ پٹرول بم گرانے کی تیاری جاری ہے ان پر ٹیکسز میں اضافے اور ہوش ربا مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ حکومت:
َ وطن عزیز کو قرضوں سے نجات دلا کر ملکی معیشت کو مستحکم کرے۔
َ ڈیمزکی تعمیر جلد مکمل کرکے، توانائی کا بحران ختم کرے۔
َ ملک بھر میں کرپٹ لوگوں کا بلااستثنا احتساب تیز کر کے اور قومی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت اُن سے واپس لی جائے ۔
َ مضبوط خارجہ پالیسی تشکیل دے کر اپنے دوستوں اور دشمنوں کا واضح تعین کیا جائے۔
افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء، امن کا قیام اور سی پیک کی تکمیل پاکستان کی ترقی و استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے۔ افغانستان، امریکہ کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ حسبِ سابق افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان پر امریکی دباؤ بڑھ رہا ہے اور امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا مسٹر ایلس ویلز نے ایک بار پھر پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ نے جنوبی ایشیا کے حوالے سے چین اور روس کی پالیسیوں سے شدید اختلاف کرتے ہوئے اپنے تحفظات پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کا نئے سرے سے جائزہ لینے کا اظہار کیا ہے۔ اُدھر امریکی شہ پر بھارتی جنرل نے پاکستان کو جنگی دھمکی کا ویا کھیان دے کر ہماری امن کی کوشش و خواہش کا غلط مطلب لیا ہے۔ ملکی سلامتی و تحفظ کے حوالے سے افواج پاکستان اور حکومت پاکستان نے بھرپور ردِّ عمل کا اظہار کر کے پوری قوم کی صحیح ترجمانی کی ہے۔
الحمدﷲ! پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کی بلکہ دشمن کو عبرتناک شکست دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے حکومت امریکی دباؤ اور ’’ڈو مور‘‘ کے ماحول سے باہر نکلے، اپنی آزاد اور خود مختار پالیسیوں کے ساتھ وطن عزیز کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرے۔
حکومت کے لیے سو دن یا دو سال میں کرنے کے بہت کام ہیں، لیکن معلوم نہیں کہ متفقہ اور طے شدہ مسائل کو چھیڑنے کا سلسلہ کیوں شروع کر دیا گیا۔ پہلے اقتصادی کونسل میں ایک قادیانی میاں عاطف کی تقرری کی گئی لیکن عوام کے شدید احتجاج پر اسے برطرف کر دیا گیا۔ اب قانون توہینِ رسالت 295-Cکو غیر مؤثر اور سزا کو ناقابلِ عمل بنانے کے لیے سینیٹ میں ترمیمی بل پیش کر دیا گیا ہے۔ جس کے مطابق توہینِ رسالت کا مقدمہ درج کرانے والا شخص اگر جرم ثابت نہ کر سکے تو اُسے موت کی سزا دی جائے گی۔ یعنی کسی بھی اندرونی و بیرونی دباؤ کے تحت جرم کے شواہد کو ختم کر کے الٹا مدعی کو مجرم قرار دے کر سزا دی جائے گی، پھر اندراجِ مقدمہ کا طریقہ انتہائی پیچیدہ بنا کر، مقدمے کا اندراج تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح دینی مدارس اور دینی جماعتوں کے راستے مسدود کر کے انھیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ عیدالاضحی کے موقعے پر قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے کے جرم میں درجنوں دینی طلباء و اساتذہ کو قید و جرمانے کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب چیرٹی بل فروری 2018ء کے ذریعے کسی دینی مدرسے کو چلانا اور اس کے لیے عطیات وصول کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ مدارس اور سکولز میں یکساں نصابِ تعلیم رائج کرنے کی پالیسیاں وضع کی جا رہی ہیں، پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کی رجسٹریشن کی تجدید نہیں کی جار ہی اور نئی رجسٹریشن کا سوال ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ حکمرانوں سے ہماری گزارش ہے کہ ان طے شدہ متفقہ آئینی و تعلیمی اور دینی مسائل سے چھیڑ چھاڑ اور اُن میں تبدیلی آپ کا نہیں بلکہ مغرب کا ایجنڈہ ہے۔ اگر یہ کھیل جاری رہا تو ملک میں انتشار پیدا ہو گا۔
اوّل تو حکمرانوں کو کالجز اور یونیورسٹیز کے نصاب کی بہتری پر توجہ دینی چاہیے، جس کی خرابیاں اور نتائج اظہر من الشمس ہیں۔ لیکن اگر وہ دینی مدارس کے نصاب و نظامِ تعلیم کی بہتری اور مدارس کے طلباء کو مین سٹریم میں لانے کے خواہش مند ہیں تو اسے وفاق المدارس العربیہ کی قیادت سے مذاکرات کر کے، اعتماد میں لے کر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے اور وفاق المدارس کی قیادت کو بھی حکومت سے مذاکرات و مکالمے کا سلسلہ شروع کر کے ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پرحل کرنا چاہیے۔