عبداللطیف خالد چیمہ
چوالیس سال قبل وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں طویل بحث و تمحیص کے بعد ایک قرار دادا قلیت منظور کرکے لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ،اِس متفقہ قرار داد کے بعد پاکستان کے آئین و قانون میں ،مرزا غلام احمد قادیانی کو ماننے والے دائرہ اسلام سے خارج قرار پائے ،قادیانی اسلامی شناخت کرواتے رہے اور اپنے کفر کو اسلام بتاتے رہے تا آنکہ 26 ؍ اپریل 1984 ء کو صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ کے تحت لاہوری و قادیانی مرزائیوں کے لیے اسلامی شعائر و اصطلاحات کا استعمال قانوناََ جرم قرار دیا اور یہ قانون تعزیرات پاکستان کا حصہ بنا ، قادیانیوں نے ان دونوں آئینی و قانونی فیصلوں کو ماننے کی بجائے اِن کے خلاف مہم جوئی کا راستہ اختیار کیا اور اب تک وہ بین الاقوامی طاقتوں کے مہرے بن کر اسلام اور پاکستان کے خلاف صف آراء ہیں ۔
سابق حکمرانوں کے دور میں قادیانیوں کو خوب نوازا گیا ۔پہلے تو نواز شریف نے قادیانیوں کو بھائی قرار دیا ،پھر شہباز شریف نے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو نوجوانوں کے لیے آئیڈیل کہا پھر ممتاز قادری کو پھانسی پر لٹکا یا پھر قائد اعظم یونیورسٹی کے سینٹر فار فزکس کو قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کیااور پھرانتخابی اصلاحات کی آڑ میں عقیدۂ ختم نبوت والا حلف نامہ نکالنے کی کوشش کی ۔
آج کے حکمران قانون توہین رسالت اور عقیدۂ ختم نبوت پر عالمی استعمار کے وار کو روکنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ فواد چودھری مغربی کلچر کو پروان چڑھانے کی باتیں کررہے ہیں ،وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری سانحۂ فیصل آباد کے حوالے سے قادیانیوں کو مسلم فرقہ تصور کرتی دکھائی دے رہی ہیں،شفقت محمود تحریک انصاف میں قادیانیوں کے وکیل محسوس ہوتے ہیں،انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ختم نبوت والے حلف نامے کو حذف کرنے میں شفقت محمود کا کردار ریکارڈ کا حصہ ہے،ایسے میں 7 ۔ ستمبر کو ’’یوم تحفظ ختم نبوت ‘‘اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے،
اِن شاء اﷲ تعالیٰ 7؍ ستمبر کو ملک بھر میں نہیں دنیا بھر میں یہ دن تزک و احتشام کے ساتھ منایا جائے گااور تمام مکاتب فکر حتیٰ کہ بعض سیاسی رہنما بھی اِس دن ہونے والے اجتماعات میں شریک ہوں گے۔6؍ ستمبر 2018ء جمعرات کو احرار کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اہم اجلاس لاہور دفتر میں ہوگا جبکہ 7؍ ستمبر کو خُطبات جمعتہ المبارک ’’یوم ختم نبوت ‘‘کے مقدس عنوان سے معنون ہوں گے اور 7 ؍ ستمبر کو ہی بعد نماز مغرب مرکزی دفتر احرار لاہور میں مرکزی اجتماع ہوگا جس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ رہنما شرکت و خطاب کریں گے ، اِن شاء اﷲ تعالیٰ ۔
احرار کی تمام ماتحت شاخوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ حسب سابق اِس دِن کی اہمیت کے پیش ِ نظر اس کو شایان ِ شان طریقے سے منانے کا اہتمام کریں ۔
نوٹ : پرچہ پریس میں جانے والا ہے کہ سینٹ آف پاکستان نے توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے گستاخانہ خاکوں کے خلاف قرار داد منظور کی ہے جو تحریکِ انصاف کے سنیٹر شبلی فراز نے پیش کی۔ وزیر اعظم عمران خان نے 27اگست کو سینیٹ میں اپنے خطاب میں جو کچھ کہا ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہنا چاہیں گے کہ اس حوالے سے اُمت مسلمہ کے ایمان و عقیدے کا خیال رکھا جائے اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ مزید برآں پرویز مشرف کی باقیات پر اعتماد نہ کیا جائے۔
سانحۂ فیصل آباد اور قادیانی دہشت گردی !
عید الاضحی کے دوسرے روز 23 ۔ اگست ،جمعرات کی شام فیصل آباد کے قریب گھسیٹ پور ہ گاؤں میں قادیانیوں نے فائرنگ کرکے 17 مسلمانوں کو زخمی کردیا اور پولیس تھانہ بلوچنی نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے مسلمانوں کی جانب سے مقدمہ کے اندراج کی کوشش ناکام بنادی ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘کے مترادف پولیس نے 13 ایسے مسلمانوں کو بھی ایف آئی آر میں درج کرلیا جو خود قادیانیوں کی فائرنگ سے زخمی ہوئے ،ہم روزنامہ ’’اُمت ‘‘ کراچی کی درج ذیل خبریں نقل کررہے ہیں تاکہ صورتحال کے تمام پہلو نظر آ سکیں۔
’’فیصل آباد (نمائندہ امت) قادیانیوں نے اپنی سرگرمیوں میں رکاوٹ بننے والے مسلمانوں پر عید کے دوسرے روز فائرنگ کر کے 17 مسلمانوں کو زخمی کردیا۔ پولیس تھانہ بلوچنی نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے مسلمانوں کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج کی کوششیں ناکام بنادی ہیں۔ پولیس ایف آئی آر میں نامزد 13 زخمی مسلمانوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ مسلمانوں کی جوابی کارروائی میں چند قادیانی زخمی ہوگئے اور ان کی عبادت گاہ میں توڑ پھوڑ ہوئی۔ قادیانیوں کے حامی میڈیا میں قادیانی ٹولے کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں ان کے 5افراد کے زخمی ہونے کا معاملہ نمایاں کر کے قادیانی موقف ہی پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ 17مسلم زخمیوں کا سرسری انداز میں تذکرہ جاری ہے۔ ڈپٹی کمشنر فیصل آباد کے جاری کردہ پریس نوٹ میں قادیانیوں کے صرف 4افراد کے زخمی ہونے کا ذکر کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے معاملے کی سنگینی کم کرنے کی کوشش جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق عیدالاضحیٰ کے دوسرے روز فیصل آباد سے 32 کلو میٹر دور کھرڑیانوالہ شیخوپورہ روڈ پر واقع گاؤں 69ر.ب گھسیٹ پورہ میں قادیانیوں کی فائرنگ سے 17مسلمان شدید زخمی ہوگئے۔ مسلمانوں کی جوابی کارروائی میں قادیانیوں کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچا، جبکہ پتھراؤسے 5قادیانی زخمی بھی ہوئے۔ زخمیوں کو فیصل آباد کے ہسپتالوں الائیڈ، ڈی ایچ کیو و ٹی ایچ کیو کھرڑیانوالہ منتقل کردیا گیا ہے۔ پولیس نے مظلوم مسلمانوں کو مقدمہ درج کرانے کا موقع دیے بغیر ہی سرکار کی مدعیت میں دونوں اطراف کے سرکردہ افراد سمیت 70سے 80 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے، مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ چک69ر. ب گھسیٹ پورہ تھانہ بلوچنی کی حدود میں واقع ہے اور اس کی 20 سے 25فیصد آبادی قادیانی ہے اور وہ اکثر شعائر اسلام کا کھلے عام استعمال کرتے رہتے ہیں۔ چند برس قبل علاقے میں ایک مسلم خاندان کے مرتد ہونے پر حالات کشیدہ ہوئے تھے۔ علاقے میں ایک عبادت گاہ ہونے کے باوجود وہ غیر قانونی طور پر ایک اور عبادت گاہ کی تعمیر کرا رہے تھے، تاہم اہل علاقہ کی درخواست پر یہ تعمیر رک گئی۔ قادیانیوں نے 15روز قبل 2 گھرانوں کے افراد کو مرتد کیا تھا، تاہم تبلیغ پر دونوں گھرانے تائب ہوگئے، جس کا قادیانیوں کو شدید غصہ تھا اور وہ حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کو تنگ کر رہے تھے۔ عید کے دوسرے روز قادیانیوں نے اپنی مرغی امام مسجد کے بھائی کی موٹر سائیکل کے نیچے آنے سے بچ جانے کے باوجود مسلمانوں کو پیٹنا شروع کردیا۔ مسلمان انہیں چھڑانے پہنچے تو ان پر فائرنگ کردی جس سے 17 شدید زخمی ہوگئے۔ فائرنگ کی اطلاع پر مزید مسلمان جمع ہوئے تو قادیانیوں نے خود کو اپنی عبادت گاہ میں بند کر لیا اور اس کی چھت پر بنے مورچوں سے فائرنگ شروع کر دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قادیانیوں نے اپنی عبادت گاہ کو آگ بھی خود لگائی۔ مسلمانوں پر قادیانی عبادت گاہ اور قادیانیوں کے گھروں پر حملے کا دعویٰ کرنے والے قادیانیوں نے پولیس کو مطالبے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج فراہم نہیں کی۔ یہ فوٹیج قصداً ضائع کئے جانے کا امکان ہے۔ پولیس نے مسلمانوں پر قادیانی گھرانوں کو آگ لگانے کے الزام بھی جھٹلا دیے ہیں، تاہم مسلمانوں کی حقائق پر مبنی ایف آئی آر کے اندراج سے قبل خود ہی مقدمہ درج کرلیا، جس پر مسلمانوں نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دوسری ایف آئی آر کا اندراج کرانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے واقعے کے بعد فیصل آباد پولیس کے اعلیٰ افسران موقع پر پہنچ گئے۔ مسلمانوں پر قادیانی عبادت گاہ پر حملے کے دعوے پر پولیس افسران نے ان سے سی سی ٹی فوٹیج طلب کی تو وہ نہیں دی گئی۔ پولیس ذرائع کے مطابق افسران جب قادیانی عبادت گاہ پہنچے تو وہاں لگے سی سی ٹی وی کیمرے درست کام کر رہے تھے۔ مسلمانوں کی جانب سے قادیانی عبادت گاہ پر حملے کے شواہد سامنے نہیں آئے۔ البتہ قادیانیوں کے مورچوں کے پاس گولیوں کے خالی خول مسلمانوں پر فائرنگ کی چغلی کھا رہے تھے۔ تھانہ بلوچنی پولیس کی جانب سے اپنی مدعیت میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ عیدالاضحیٰ کے دوسرے روز مقامی امام مسجد کا بھائی مدثر ولد رفیق ایک بھائی عاصم کے ہمراہ موٹرسائیکل پر جا رہا تھا کہ راستے میں قادیانی گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی مرغی اس کی موٹر سائیکل کے آگے آ گئی۔ مرغی بچ جانے کے باوجود تنازع پھیل گیا اور قادیانی مسلح ہوکر آگئے اور مسلمانوں پر فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ سے وقاص ولد نیامت، نبیل ولد برکت، اویس ولد گلزار، امجد علی ولد اشرف، ناصر علی ولد باغ علی، محمد طیب ولد اشرف، شان علی ولد جماعت علی، عبدالرحمن ولد اسماعیل، ساجد سلیم ولد احمد علی، مبین ولد لیاقت، الیاس ولد مبارک علی، محمد مرتضیٰ ولد یعقوب اور شہباز ولد اشرف نامی مسلمان زخمی ہوگئے۔ ایف آئی آر کے مطابق فائرنگ کی اطلاع پر مسلمانوں نے قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی اور وہاں رکھے ہوئے سامان کو آگ لگا دی۔ اس کے نتیجے میں سرفراز ولد راشد، طاہر ولد عالم، عامر ولد داؤد، وقاص ولد اعجاز اور شوکت ولد یوسف نامی قادیانی زخمی ہوگئے۔ پولیس نے موقع سے گولیوں کے خول و جلا ہوا سامان قبضے میں لے لیا۔ مقدمے میں70سے80 مسلمانوں کو نامزد کیا گیا ہے جن میں مدثر ولد رفیق، عاصم ولد رفیق، شہباز ولد یعقوب، اصغر ولد جماعت علی، شہزاد ولد یعقوب، ہمایوں ولد مشتاق، غلام نبی ولد غلام علی، محمد وسیم ولد صدیق شامل ہیں، جبکہ باقی کو نامعلوم قرار دیا گیا ہے۔ قادیانیوں کی طرف سے راشد، شکیل ولد انور، شاہین، امین ولد عبدالجبار، طلحہ ولد نعیم، بلال ولد جمیل، بلال ولد اعجاز، زین ولد بشارت سمیت 70سے80 نامعلوم ملزمان نامزد ہیں۔ ایس ایچ او تھانہ بلوچنی زاہد عباس کے مطابق مسلمانوں نے معمولی تنازع کے بعد اپنے گھروں پر حملے کی وجہ سے قادیانی عبادت گاہ پر پتھراؤکیا اور نعرے لگائے، جس پر قادیانیوں نے اندر سے فائرنگ شروع کردی، جس سے مسلمان زخمی ہوگئے۔ پولیس موقع پر نہ پہنچتی تو حالات مزید خراب ہو جاتے۔انہوں نے قادیانی گھروں کو آگ لگانے کی تردید کرتے ہوئے اس کو جھوٹ قرار دیا۔ واقعے کے بعد قادیانیوں اور ان کے حامی میڈیا نے حسب سابق واقعے کی بنیاد پر پروپیگنڈا مہم شروع کر دی ہے۔ عالمی مجلس ختم نبوت کے ترجمان مولانا عزیز الرحمن نے‘‘امت’’سے گفتگو میں کہا ہے کہ ہم نے مسلمانوں کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ قادیانیوں کیخلاف کارروائی نہ کی گئی تو ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا۔ قادیانی فیصل آباد اور شیخوپورہ میں شرارتیں کر رہے ہیں۔ ان کا نوٹس لیا جا رہا ہے اور نہ ہماری درخواست پر ایف آئی آر درج کر کے تفتیش کی جا رہی ہے۔ ختم نبوت کے مبلغ مولانا عبدالرشید نے کہا کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں تو پتہ چل جائے گا کہ قادیانیوں نے اپنی عبادت گاہ کے مخصوص حصوں کو خود آگ لگائی۔ مسلمانوں نے فائرنگ کے جواب میں صرف پتھراؤ کیا۔
مجلس احرار اسلام کے سیکریٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قادیانیوں کی اشتعال انگیزی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ زخمی مسلمانوں کیخلاف ہی مقدمہ درج کیا گیا۔ حکومت قادیانیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے جو پوری دنیا میں پاکستان کیخلاف سازشوں پر عمل پیرا ہیں اور اس کا سدباب ضروری ہے۔
تحریک لبیک پاکستان فیصل آباد کے امیر میاں اکمل حسن نے کہا کہ گھسیٹ پورہ کی 20فیصد آبادی قادیانی ہے۔ یہ مسلسل مسلمانوں کے مالی کمزور ہونے کا فائدہ اٹھانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ قادیانیوں کی کھلے عام تبلیغ کے باوجود کارروائی نہ ہونے پر مسائل نے جنم لیا۔ ادھر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کابینہ اجلاس کے بعد اپنی بریفنگ میں دعویٰ کیا کہ فیصل آباد کا واقعہ مذہبی منافرت نہیں مرغے لڑانے کے پرانے جھگڑے پر ہوا۔ علاقے میں 2گروپوں کے درمیان پہلے سے کشیدگی چلی آرہی تھی۔ وفاقی وزیر کے اس موقف پر قادیانیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے اور وہ مسلمانوں کی جانب سے اپنے دفاع میں کی گئی جوابی کارروائی کو دہشت گردی قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں‘‘۔(روزنامہ ’’اُمت ‘‘کراچی25 ۔ اگست 2018 ء )
’’فیصل آباد (خبرنگارخصوصی)فیصل آباد میں فائرنگ کر کے 13 مسلمانوں کو زخمی کرنے کے واقعہ میں ملوث قادیانی دندناتے پھر رہے ہیں، جبکہ اس سانحہ کی تحقیقات کیلئے قادیانی نواز پولیس افسرتعینات کردیاگیا ہے۔اے آئی جی ابوبکر خدابخش کے دورے کے بعد پولیس اور ضلعی انتظامیہ کھلم کھلا قادیانی دہشت گردوں کی حمایت کر رہی ہے، جس کے باعث علاقے میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے جو مزید کسی حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب فیصل آباد کے سول ہسپتال میں زیر علاج مسلمان زخمیوں کو پولیس نے حراست میں لے کر ملاقات پر پابندی لگادی ہے اور مسلمانوں کی گرفتاری کیلئے مزید چھاپے مارے جارہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق فیصل آبادکے علاقے گھسیٹ پورہ واقعہ کی حساسیت کے باوجود انتظامیہ اور پولیس درج شدہ مقدمہ میں نامزد افراد کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں، جبکہ فائرنگ کر کے 13مسلمانوں کو زخمی کرنے والے قادیانی تاحال مفرور ہیں۔ دوسری جانب اس سانحہ کی تحقیقات قادیانی نواز پولیس افسر اے آئی جی ابوبکر خدابخش کے سپر د کردی گئی ہیں۔یاد رہے ابوبکر خدابخش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود قادیانی ہے۔ قصور واقعے کی تحقیقاتی کمیٹی میں شامل کیے جانے پر معصوم زینب کے والد نے ابو بکر خدابخش کو قادیانی قرار دے کر تحقیقاتی کمیٹی کو ہی نامنظور کر دیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قادیانی نواز افسر کی جانب سے علاقے کے دورے سے مسلمانوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے جب کہ مقامی پولیس کا مسلمانوں سے رویہ تبدیل ہو گیا ہے۔ مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی رہنماؤں کو علاقے میں جانے پر مقدمات درج کرنے اور گرفتار کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔یاد رہے وقوعہ کے فوری بعد پولیس نے اپنی مدعیت میں مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کر دیا، تاہم مسلمانوں کی جانب سے جوابی مقدمہ درج نہیں کیا جا رہا۔ دوسری جانب فیصل آباد کے سول ہسپتال میں زیر علاج مسلمان زخمیوں کو پولیس حراست میں رکھا گیا ہے اور کسی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، جبکہ میڈیا نمائندوں کو بھی زخمیوں تک رسائی نہیں دی جا رہی۔دریں اثنا فیصل آباد پولیس کے اعلیٰ حکام نے قادیانیوں کی فائرنگ میں زخمی ہونے والے مسلمانوں کی اندراج مقدمہ کی درخواستیں نظر انداز کرتے ہوئے انہیں صبر کی تلقین کر کے گھر بھیج دیا۔ تحریک لبیک فیصل آباد کے صدر میاں اکمل نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے اعلیٰ پولیس افسران کو اندراج مقدمہ کی درخواستیں دی ہیں، تاہم ان پر تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ میاں اکمل نے بتایا کہ انہوں نے آر پی او فیصل آباد غلام محمود ڈوگر، سی پی او اشفاق احمد خان اور ایس پی انویسٹی گیشن سید ندیم عباس سے الگ الگ ملاقاتیں کر کے انہیں مسلمانوں کے زخمی ہونے کی ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی، لیکن انہیں طفل تسلیوں پر ہی ٹرخا دیا گیا اور کسی بھی اعلیٰ افسر نے عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ مذکورہ درخواست، جس کے ہمراہ زخمی مسلمانوں کی میڈیکو لیگل رپورٹس بھی لف تھیں، میں کہا گیا ہے کہ جس گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا، وہاں قادیانیوں کی اکثریت ہے۔ درخواست کے مطابق 23 اگست شام 4 بجے قادیانیوں نے مقامی شہری محمد مدثر کے گھر پر حملہ کیا، جس کی بروقت پولیس کو اطلاع دی گئی اور پولیس کی ٹیم نے دورہ کر کے موقع ملاحظہ بھی کیا۔ اسی روز مغرب کے وقت جب مسلمان مسجد کی جانب جا رہے تھے کہ راستے میں قادیانیوں کی عباد گاہ کی چھت پر جمع بڑی تعداد میں قادیانیوں نے ان پر پتھر برسانے شروع کر دیے اور ساتھ ہی قادیانیوں کے قریبی گھروں سے مسلمانوں پر فائرنگ شروع کر دی گئی۔ پتھر اور گولیاں لگنے سے ایک درجن سے زائدمسلمان زخمی ہوئے ہیں۔ درخواست میں حملہ آوروں کی تعداد تقریباً 86 بتائی گئی ہے جن میں 66 نامزد، جبکہ 15 سے 20 نامعلوم افراد شامل ہیں۔ درخواست کے مطابق مسلح قادیانی نے مقامی مسلمان ناصر ولد باغ علی کو اغوا کرکے اپنی عبادت گاہ میں لے گئے اور اسے کلہاڑیوں اور ڈنڈوں کے وار سے زخمی کیا اور سر میں گولی بھی ماری گئی، تاہم خوش قسمتی سے گولی اس کی آنکھ کو چھوتے ہوئے گزر گئی۔ درخواست کے مطابق مسلح قادیانی پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں پر فائرنگ کرتے رہے اور پولیس نے ہی فائرنگ رکوائی۔ دوسری جانب مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے اور واقعے کو نئی حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر زخمی مسلمانوں کو انصاف نہ ملا تو تحریک لبیک یا رسول اﷲ ملک میں ایک اور ختم نبوت تحریک کا آغاز کر دے گی۔ تحریک لبیک یا رسول اﷲ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان نے ہفتہ کے روز جاری الگ الگ بیانات میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نہ صرف زخمی مسلمانوں کا مقدمہ فوری طور پر درج کیا جائے، بلکہ دہشت گرد قادیانیوں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ تحریک لبیک کے رہنما ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی کا کہنا تھا کہ فیصل آباد میں بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاریاں جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہیں۔ختم نبوت کے پروانے ختم نبوت کے غداروں اور ان کے پشت پناہوں کا آخری سانس تک مقابلہ کریں گے۔قادیانیوں کے بارے میں آئین میں موجود پابندیوں کے عدمِ نفاذکی وجہ سے پاکستان اور اسلام کے غدار قادیانی حد درجے کی شر انگزیوں میں مصروف ہیں۔ مسلمان ہی مظلوم ہیں اور ایف آئی آر بھی مسلمانوں ہی کے خلاف کاٹ دی گئی ہے، حکومت ہوش کے نا خن لے۔انہوں نے کہا کہ سانحہ فیصل آباد حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر مسلمانوں کو انصاف نہ ملا تو ملک میں ایک اور تحریک ختم نبوت چلائیں گے۔
متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان کے کنونیرعبداللطیف خالد چیمہ نے مطالبہ کیاہے کہ اس سانحہ کی اعلیٰ سطح پرغیرجانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے،تصادم کے اصل عوامل ومحرکات کا جائزہ لیاجائے اورذمہ داران کوقانون کے کٹہرے میں لاکرعبرت کانشان بنایاجائے۔انہوں نے الزام عائد کیاکہ بیوروکریسی میں گھسے ہوئے بعض افسران اس سانحہ پراثرانداز ہورہے ہیں۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر،نائب امرا مولانا عزیزاحمد،مولانا پیرحافظ ناصر الدین خاکوانی نے قادیانیوں کی جانب زخمی ہونے والے مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور دہشتگرد قادیانیوں کو ریلیف دینے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے آئین کے غداروں سے سختی سے نمٹنے کا مطالبہ کیا ہے‘‘۔(روزنامہ ’’اُمت ‘‘کراچی 26؍ اگست 2018ء )
اندریں حالات ہم نئی حکومت سے درخواست کرنا چاہیں گے کہ وہ مسلم، قادیانی کشیدگی کے اصل عوامل و محرکات اوروجوہات پر نظر رکھے اور اس کھیل کے تمام کرداروں کو کنٹرول کرے، بصورت دیگر یہ مسئلہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔