مولانا مشتاق احمد چنیوٹی رحمۃ اﷲ علیہ
معیار نمبر ۳۱: انبیاء کرام سب سے زیادہ عبادت کرتے ہیں:
اﷲ تعالی کی عبادت کرنا مومنوں کا شیوہ ہے، جو شخص جتنی معرفت الہی رکھتا ہے اتنی ہی زیادہ عبادت کرتا ہے۔ حضرات انبیاء کرام ؑ چونکہ سب سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں اس لیے ان کی عبادت بھی مثالی نوعیت کی ہوتی ہے۔ قارئین کرام! مرزا قادیانی کے انبیاء کرامؑ خصوصا حضرت محمدﷺ کے ساتھ مماثلت کے دعو ے آپ نے ابتدا میں ملاحظہ فرما لیے ہیں، اب اس کا ذوق عبادت بھی دیکھیں۔
عورتوں کی امامت:
باہر مردوں میں نمازیں باجماعت ہونے کے علاوہ آخری سالوں میں حضرت مسیح موعود ایک بہت بڑے عرصہ تک اندر عورتوں میں خود پیش امام ہوکر مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک لمبے عرصہ تک جمع کراتے رہے۔
(ذکر حبیب ص165از صادق قادیانی)
نماز جمعہ چھوڑ دی:
مرزا مبارک احمد نے مرزا قادیانی کو اصرار کرکے اپنی چارپائی پر بیٹھا لیا تو مرزا قادیانی نے مریدوں کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ نماز جمعہ پڑھ لیں اور میر اانتظا نہ کریں۔(ذکرحبیب ص1772)
روزہ توڑ دیا:
مرزاقادیانی نے ایک دفعہ دل گھٹنے کے سبب غروب آفتاب سے محض پانچ منٹ پہلے روزہ توڑ دیا۔
(سیرت المھدی حصہ سوئم ص 131روایت697طبع قدیم)
حج، اعتکاف، زکوۃ سے دوری:
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے حج نہیں کیا، اعتکاف نہیں کیا اور نہ کبھی زکوۃ دی۔
(سیرت المھدی حصہ سوئم ص119روایت نمبر672طبع قدیم)
معیار نمبر ۳۲: حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا صبر وتحمل مثالی ہوتا ہے:
حضرات انبیاء کرام ؑ کے اخلاق اور صبر وتحمل مثالی ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت نوح ؑ، حضرت صالح ؑ، حضرت ہود ؑ، حضرت شعیب ؑ وغیرہ کے اپنی امتوں سے مکالمے مذکور ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ امتوں نے ان حضرات سے کیسی بد تمیزی کا رویہ اختیار کیا اوران عظیم ہستیوں نے کیسے باوقار طرز کے جوابات دئیے، آنحضرت کے ساتھ کفار بد سلوکی کی کتابوں میں بھی لکھا ہوا ہے۔
خود مرزا قادیانی لکھتا ہے ” قابل شرم بات ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رذیلہ میں گرفتار ہواور درشت بات کا ذرا بھی متحمل نہ ہوسکے اور جو امام زمان کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ ادنیٰ بات میں منہ میں جھاگ آتا ہے آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں وہ کس طرح امام زمان نہیں ہوسکتا لہذا اس پر آیت انک لعلی خلق عظیم کا پورے طور پر صدق آجانا ضروری ہے۔(روحانی خزائن جلد13ص478)
اسلامی تعلیمات اور اپنی نصیحت پر مرزا قادیانی نے کتنا عمل کیا؟ درج ذیل حوالہ جات سے خود اندازہ کر لیں۔
الفاظ………………حوالہ جات
اے بد قسمت، بد گمانو۔روحانی خزائن جلد 4ص341
اندھیرے کے کیڑو،اے اندھو۔جلد11ص310
اے خبیث،اے پلید دجال۔ ص3301
امام المتکبرین۔ ص241
ابولہب۔ جلد 9ص294
باطل پرست بطالوی۔ جلد11ص59
بدکارآدمی۔ جلد6ص380
جاہل۔ جلد14ص354
حرامی۔ جلد6ص380
خنزیر سے زیادہ پلید۔ جلد1ص305
ذلیل۔ جلد14ص166
دابۃ الارض۔ جلد3ص173
رئیس الدجالین۔ جلد11ص303
مرغ۔ جلد11ص302
سفیہوں کا نطفہ۔ جلد22ص445
عورتوں کی عار۔ جلد19ص196
گندی روحو۔ جلد11ص305
منحوس چہروں۔ جلد11ص337
‘ الفاظ………………حوالہ جات
اے مردار خور مولویو ۔ جلد11ص305
اے بدذات ۔ ص329
اے بدذات فرقہ۔ ص21
اُلّو۔ جلد21ص332
پلیدملاؤں۔ جلد4ص413
پاگل۔ جلد18ص442
بے ایمانو۔ مجموعہ اشتہارات جلد2ص69
جنگل کے وحشی۔ جلد6ص333
حرام زادہ۔ جلد9ص32
خالی گدھے۔ جلد11ص331
دنیاکے کیڑے۔ جلد12ص311
ذریت شیطان۔ جلد11ص308
رنڈیوں کی اولاد۔ جلد5ص546
شیاطین الانس۔ جلد11ص302
سانپوں۔ جلد8ص32
غزنویوں کی جماعت پر لعنت۔ جلد11ص342
گدھے۔ ص 331
قادیانی خود فیصلہ کر لیں کہ کیا نبی کی زبان ایسی ہوتی ہے؟
معیار نمبر ۳۳: انبیا ء کرام علیہم السلام بہادر ہوتے ہیں:
حضرات انبیاء کرام ؑ بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ مخلوق کی بجا ئے خالق سے ڈرتے ہیں، اسباب کی جگہ مسبب الاسباب پر نظر رکھتے ہیں۔ فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ، نمرود کے دربار میں حضرت ابراہیم ؑ کی حق گوئی قریش مکہ کے سامنے نبی کریم ﷺ کی دعوت حق و اعلان توحید اس کی واضح مثالیں ہیں۔
خود مرزاقادیانی اعتراف کرتا ہے”ہم خداکے مرسلین اور مامورین کبھی بزدل نہیں ہوا کرتے بلکہ سچے مومن بھی بزدل نہیں ہوتے، بزدلی ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے(ملفوظات جلد چہارم ص286طبع جدید)
اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اور ہم ایسے نہیں ہیں کہ کوئی موت ہمیں خدا کی راہ سے ہٹا دے اور اگرچہ خداکی راہ میں ہم مجروح ہوجائیں یا ذبح کیے جائیں۔(ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم روحانی خزائن جلد21ص321)
مرزا قادیانی کی بزدلی کی چند مثالیں:
پہلی مثال:
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب1905ء کا زلزلہ آیاتو میں بچہ تھا اور نواب محمد علی خان صاحب کے شہرومکان کے ساتھ ملحق حضرت صاحب کے مکان کا جو حصہ ہے، اس میں ہم دوسرے بچوں کے ساتھ چارپائیوں پر لیٹے ہوئے سورہے تھے، جب زلزلہ آیا تو ہم سب ڈر کر بے تحاشا اٹھے اور ہم کو کچھ خبر نہیں تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ صحن میں آئے تو اوپر سے کنکر روڑے برس رہے تھے ہم بھاگتے ہوئے مکان کی طرف آئے ،وہاں حضرت مسیح موعود اور والدہ صاحبہ کمرے سے نکل رہے تھے ہم نے جاتے ہی حضرت مسیح موعود کو پکڑ لیا اور آپ سے لپٹ گئے۔ آپ اس وقت گھبرائے ہوئے تھے اور بڑے صحن کی طرف جاتا چاہتے تھے مگر چاروں طرف بچے چمٹے ہوئے تھے اور والدہ صاحبہ بھی۔
(سیرت المھدی او ل ص24روایت32)
مرزا قادیانی اعتراف کرتا ہے کہ
اور جس آنے والے زلزلہ سے میں نے دوسروں کو ڈرایا، ان سے پہلے میں آپ اُس سے ڈرا اور اب تک قریبا ایک ماہ سے میرے خیمے باغ میں لگے ہوئے ہیں میں واپس قادیان نہیں گیا۔(مجموعہ اشتہارات جلد دوم ص649)
دوسری مثال:
مرزا قادیانی نے 24فروری 1899ء کو مسٹر جے، ایم ڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں مولانا محمد حسین بٹالوی کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کرائے گئے جس کا مضمون یہ تھا ” آئندہ کو ئی فریق اپنے کسی مخالف کی نسبت موت وغیرہ دل آزارمضمون کی پیش گوئی نہ کرے، کوئی کسی کوکافر اور دجال اور دجالاور مفتری اور کذاب نہ کہے، کوئی کسی کو مباہلہ کے لیے نہ بلائے۔(مجموعہ اشتہارات جلد دوم ص299طبع جدید)
اور ہم تو ایک عرصہ گزر گیا کہ اپنے طور پر یہ عہد شائع بھی کرچکے کہ آئندہ کسی مخالف کے حق میں موت وغیرہ کی پیش گوئی نہیں کریں گے۔ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم ص300طبع جدید)
قارئین کرام! آپ مرزا قادیانی کی بزدلی دیکھیں اور تقابل کے طور پر نبی کریم ﷺ کا اعلان حق بھی ملاحظہ فرمائیں ” کہہ دو اے کافرو میں تمھارے معبودوں کو عبادت نہیں کرتا اور نہ تم میرے معبود کی عبادت کرتے ہو۔ (ترجمہ سورۃ الکافرون)
تیسری مثال:
مرزا بشیر احمد ایم اے لکھتا ہے کہ مرزا قادیانی پر الہام ہوا کہ حکومت برطانیہ کا استحکام سات سال رہے گا اس کے بعد وہ زوال کا شکار ہوجائے گی۔(سیرت المھدی جلد اول ص68روایت96طبع جدید)
مولانا بٹالوی نے جب الہام کو اپنے رسالہ میں چھاپ دیا تو مرزا قادیانی حکومت برطانیہ کے زیر عتاب آنے سے ڈرا اور اپنی کتاب کشف الغطاء میں اس الہام کا انکار کردیا اور لکھا ”دوسرامرا جو اسی رسالہ میں محمد حسین نے لکھا ہے وہ یہ ہے کہ گویا میں نے کوئی الہام اس مضمون کا شائع کیا ہے کہ گورنمنٹ عالیہ کی آٹھ سال کے عرصہ میں تباہ ہوجائے گی میں اس بہتان کا جواب بجز اس کے کیا لکھوں کہ خدا جھوٹے کو تباہ کرے میں نے ایسا الہام ہر گز شائع نہیں کیا۔۔۔۔اس شخص اور اس کے ہم خیال لوگوں کی میرے ساتھ کچھ آمدورفت اور ملاقات نہیں کہ میں نے ان کو زبانی کہا ہو۔
(کشف الغطا مندرجہ روحانی خزائن جلد 4ص216)
اب قادیانی بتائیں کہ باپ سچا ہے کہ بیٹا؟
چوتھی مثال:
مرزا قادیانی نے پیر مہر علی شاہ مرحوم کے مقابلہ کے لیے لاہور آنے لاہور سے انکار کردیا اور لکھا کہ پشاور کے جاہل پٹھان انکے ساتھ ہیں۔لاہور ی لاہور کے گلی کوچوں میں مجھے گالیاں دیتے پھر رہے ہیں نیز مولوی مرے واجب القتل ہونے کی تقریریں کر رہے اس لیے میں لاہور نہیں گیا۔(مجموعہ اشتہارات جلد دوم ص461طبع جدید)
پانچویں مثال:
مرزا قادیانی نے مال دار ہونے کے باوجود حج نہ کیا اور لوگوں کے اعتراض کرنے پر کہا کہ اپنی جان کا خطرہ ہے، اس سلسلہ میں لکھا:
تمام مسلمان علماء اول ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہوجائیں گے اور ہمارے مرید ہوجائیں گے اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔(ملفوظات جلد 5ص249طبع جدید)
معیار نمبر ۳۴: انبیاء کرام اپنی امتوں سے زیادہ عقل مند ہوتے ہیں:
انبیاء کرام ؑ سب سے زیادہ عقل مند ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا دار لوگ نفس، شیطان اور دنیا کے اسیر ہوتے ہیں، انہوں نے آسمان ہدایت کی روشنی سے اپنے دل و دماغ کو منور نہیں کیا ہوتا۔ جب کہ انبیاء کرام براہ راست اﷲ تعالیٰ سے فیض پاتے ہیں، وہ مجسم ہدایت اور نفس امارہ، شیطان اور دنیا کی ملونی سے پاک ہوتے ہیں۔
نبی کریمﷺ کو ہی دیکھ لیجئے دنیا بڑے بڑے انقلابات کی زد میں آئی، لاکھوں افراد تہہ تیغ ہوئے، کشتوں کے پشتے لگے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے ……آنحضرتﷺ نے 23 سال کے مختصر عرصے میں انقلاب برپا کردیا۔قتل ہونے والے مخالفین کی کل تعداد 759ہے اور جو صحابہ شہید ہوئے ان کی تعداد 259ہے۔
مرزا قادیانی جو کہ انبیاء کرام کا ظل و بروز ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس کی ”عقل مندی” کے احوال اس کے بیٹے نے اس طرح قلمبند کیے ہیں۔
1۔ مرزا قادیانی ایک طویل عرصہ زمین کے مقدمات کی پیروی میں لگا رہا ایک فیصد کامیابی بھی نہ ملی۔
(روحانی خزائن جلد 13ص182)
2۔ایک چوزہ ذبح کرنا چاہا مگر چوزہ کی گردن کی بجائے اپنی انگلی پر چھری چلا دی اور اس سے بہت سا خون بہہ نکلا۔
(سیرت المھدی جلد دوم ص4روایت نمبر 307طبع قدیم)
3۔مرزا قادیانی نے اپنے بچپن میں چینی کی جگہ نمک پھانک لیا جس سے اس کا سانس رک گیا اور اسے بڑی تکلیف ہوئی۔
(سیرت المھدی جلد اول ص245،244روایت نمبر 244طبع قدیم)
4۔ مرزا قادیانی نے اپنے بچپن میں سالن کا بار بار اپنی والدہ سے مطالبہ کیا تو اس سے تنگ آکر کہا کہ جاؤ راکھ سے روٹی کھا لو، مرزا قادیانی نے واقعتا راکھ روٹی پر ڈال لی۔(سیرت المھدی جلد اول ص 245روایت 245طبع قدیم)
5۔ایک ہی جیب میں گڑ کے ڈھیلے اور مٹی کے ڈھیلے رکھنا کمال، عقل مندی، بھی ہے اور کمال حسن ذوق بھی۔
(مسیح موعود مختصر حالت ملحقہ براہین احمدیہ طبع قدیم ص65)
6۔مرزا قادیانی اور اس کے مریدوں نے ایک ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا کی جو کہ مسلسل ریح خارج ہونے کا مریض تھا، مرزا نے اسے کہا نماز پڑھاؤ، اگر آپ کی نماز ہوگئی تو ہماری بھی ہوجائے گی۔
(سیرت المھدی حصہ سوم ص111روایت نمبر 454)
7۔ مرزا بشیر الدین محمود جب بچہ تھا اس نے اپنے والد مرزا قادیانی کی واسکٹ کی جیب میں ایک اینٹ ڈال دی،جس سے اس کی پسلیاں دکھنے لگیں لیکن اس نے کئی دن تک اینٹ نہ نکالی۔(مسیح موعود مختصر حالات ص63)
8۔ مرزا قادیانی لباس اس طرح پہنتا تھا کہ جرابوں کی ایڑی پاؤں کے تلے کی بجائے اوپر کی طرف ہوجاتی تھی، گرگابی کا دایاں پاؤں بائیں میں اور بایاں پاؤں دائیں میں ڈال لیتا تھا، کھانا کھاتے وقت سالن کا پتہ نہ چلتا تھاکہ کیا کھا رہا ہوں۔
(سیرت المھدی جلد اول ص344روایت 37طبع جدید)
9۔ مرزا قادیانی قمیض کے بٹن درست نہ ڈالتا تھا، اکثر اوقات بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوئے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کاجوں میں لگائے دیکھے گئے۔(سیرت المھدی جلددوم ص418روایت 447)
10۔ رات کو سوتے وقت کوٹ، صدری، ٹوپی،عمامہ اتار کر تکیہ کے نیچے رکھ لیتا تھا۔ شب بھر وہ مسلے جاتے صبح کو ان کی وہ حالت ہوجاتی تھی کہ مرزا بشیر احمد ایم اے کے بقول اگر نفاست پسند لوگ دیکھ لیتے تو اپنا سر پیٹ لیتے۔
(سیرت المھدی جلد دوم ص418روایت447طبع جدید)
معیار نمبر: ۳۵: انبیاء کرام اﷲ تعالیٰ پر سب سے زیادہ توکل کرتے ہیں:
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں توکل کی اہمیت متعدد مقامات پر بیان فرمائی ہے جیسے
وعلی اﷲ فتوکلواان کنتم مومنین(المائدہ23)
وعلی اﷲ فلیتوکل المتوکلون(ابراہیم 12)
ومن یتوکل علی اﷲ فھو حسبہ(الطلاق3)
ان اﷲ یحب المتوکلین(آلعمران159)
امام غزالی فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے
الیس اﷲ بکاف عبدہ(الزمر36)
پس غیر اﷲ سے کفایت طلب کرنے والا توکل کو چھوڑنے والا ہے، نیزارشاد باری تعالیٰ ہے
ومن یتوکل علی اﷲ فان اﷲ عزیز حکیم(انفال49)
یعنی اﷲ تعالیٰ زبردست ہے وہ اپنے پر توکل کرنے والوں کو ذلیل نہیں کرتا۔
(احیاء العلوم جلد5ص116)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو داغ نہیں لگواتے، بدشگونی نہیں لیتے دم نہیں کراتے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں وہ بے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔(اوکمال قال علیہ السلام)
آئیے دیکھتے ہیں کہ مرزا قادیانی کا قرآن و حدیث کی ان نصوص پر کتنا عمل تھا۔
علماء کے ساتھ کام کرنے سے انکار:
ایسے مولویوں کے ساتھ سفر کرنا خطرناک ہے وہ کافر سمجھ کر قتل کردیں گے۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اول 373طبع جدید)
زلزلہ کی وجہ سے باغ میں قیام:
چونکہ اپ کی باربار زلزلوں کے متعلق الہامات ہورہے تھے اس لیے اپریل 1905ء کے زلزلہ کے معاًبعد اسی روز آپ نے حکم دیا کہ کچھ عرصہ کے لیے احباب بہشتی مقبرہ کے متصل جو حضور کا باغ تھا اس میں قیام کریں۔ چنانچہ حضور کے اس ارشاد کی فورا تعمیل کی گئی۔ اس باغ میں ایک چھوٹی سی بستی آباد ہوگئی۔۔۔۔اور متواتر تین ماہ تک آپ نے احباب سمیت اسی باغ میں قیام فرمایا۔(حیات طیبہ ص258 مصنف شیح عبدالقادر)
محافظ کتا:
ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے گھر کی حفاظت کے لیے ایک دفعہ ایک گدی کتا بھی رکھا تھا وہ دروازے پر بندھا رہتا تھااور اس کا نام شیرو تھا۔ اس کی نگرانی بچے کرتے تھے یا میاں قدرت اﷲ خان صاحب مرحوم کرتے تھے جو گھر کے دربان تھے۔(سیرت المھدی جلدسوم ص298روایت نمبر957)
حج نہ کرنا:
مرزا قادیانی نے مال دار ہونے کے باوجود حج نہیں کیا اور اس کے لیے راستہ پر امن نہ ہونے اور جان کے خطرہ کے عذر پیش کیے۔(سیرت المھدی حصہ سوم ص119روایت نمبر 276طبع قدیم)
عورتوں کا پہرہ:
مرزا قادیانی کا رات کا پہرہ اس کی مریدنیاں رسول بی بی اور مائی فجومنشیانی دیتی تھیں جو کہ تقویٰ اور غیرت دونوں کے خلاف تھا۔(سیرت المھدی حصہ سوم ص213روایت 843طبع قدیم)
پولیس کاپہرہ:
حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب شروع دعویٰ مسیحیت میں دہلی تشریف لے گئے اور مولوی نذیر حسین کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی اس وقت شہر میں مخالفت کا سخت شور تھا چنانچہ حضرت صاحب نے افسران پولیس کے ساتھ انتظام کر کے ایک پولیس مین کو اپنی طرف سے تنخواہ دے کر مکان کی ڈیورھی پر پہرہ کیلیے مقرر کرالیا تھا۔ یہ پولیس مین پنجابی تھا اس کے لیے علاوہ ویسے بھی مردانہ میں کافی احمدی حضرت صاحب ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔
(سیرت المھدی جلد دوم ص64روایت نمبر385)
متعدد طریقہ ہائے علاج کا بیک وقت استعمال:
ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ علاج کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود کا طریق تھا کہ کبھی ایک قسم کا علاج نہ کرتے تھے بلکہ ایک ہی بیماری میں انگریزی دوا میں دیتے رہتے تھے اور ساتھ ساتھ یونانی بھی دیتے جاتے تھے پھر جو شخص مفید بات کہہ دے اس پر بھی عمل فرماتے تھے اور اگر کسی کو خواب میں کچھ معلوم ہو تو اس پر بھی عمل فرماتے تھے پھر ساتھ ساتھ دیا بھی کرتے تھے اور ایک ہی وقت میں ڈاکٹروں اور حکیموں کے مشورے بھی لیتے تھے اور طب کی کتاب دیکھ کر بھی علاج میں مدد لیتے تھے غرض علاج کو ایک عجیب رنگ کا مرکب بنادیتے تھے اور دراصل بھروسہ آپ کا خدا پر ہوتا تھا۔(سیرت المھدی جلد سوم ص280 روایت نمبر 902طبع قدیم)
مذکورہ حوالہ کے آخری جملہ سے ہمیں ایک لطیفہ یاد آیا کسی شخص نے اپنے بھائی کو خط لکھا کہ والدہ بیمار ہے، والد کا بازو ٹوٹ گیا ہے۔ بھینس چوری ہوگئی، خالو کا آپریشن ہواہے، خالہ فوت ہوگئی ہے، بہن چھت سے گری ہے، چھوٹا بھائی امتحان میں فیل ہو گیا ہے باقی سب خیریت ہے۔ (جاری ہے)