تحریر: عکرمہ نجمی (سابق نائب امام قادیانی ہیڈ کوارٹر لندن)
ترجمہ: صبیح ہمدانی
میں نے ایک بار خلیفہ صاحب سے کہا کہ آج کے زمانے میں جماعت احمدیہ کی حقیقی تعداد کو معلوم کرنا ہمارے لیے نہایت آسان ہے، وہ اس طرح کہ ہر ملک کی جماعت کے افراد کی تعداد اس کے امیر کے پاس موجود ہے، ہم اس کو یکجا کر کے بڑی سہولت سے اصل تعداد کو بالضبط معلوم بھی کر سکتے ہیں اور دنیا بھر میں اس کی اشاعت بھی کر سکتے ہیں۔ اور احمدیوں کی تعداد کے بارے میں جو متناقض اور متضاد قسم کے دعوے جماعت کی طرف سے سامنے لائے جاتے ہیں ان سے جماعت کی صداقت کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہم اس وقت ایک باقاعدہ آفیشل میٹنگ میں تھے کہ خلیفہ صاحب نے جواب میں کہا: ’’ سنہ ۲۰۰۳ء میں پوری دنیا میں احمدیوں کی تعداد تین لاکھ تھی‘‘۔
میں احمدیوں کی تعداد کے حوالے سے جماعتی سطح پر پائے جانے والی گو مگو کی کیفیت کا حل تجویز کرنے کی کوششیں کرتا رہتا تھا۔ اس لیے کہ سبھی جانتے تھے کہ جماعت میں شامل ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں جو اعلانات کیے جاتے ہیں ان کا صحیح ہونا سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ بطور خاص قادیانی جماعت کے چوتھے خلیفہ (مرزا طاہر۔مترجم) کے زمانے میں نئے بیعت ہونے والوں کی تعداد کے اعلانات، جو ایک برس تو آٹھ کروڑ دس لاکھ نئے بیعت کرنے والے افراد تک کہے گئے۔
چنانچہ میں نے تجویز پیش کی خلیفہ صاحب بذاتِ خود اس غلطی کا اعلان کریں اور پوری دنیا کے سامنے اس معاملے کی تصحیح کرنا بہت ضروری ہے، وگرنہ جماعت اپنی سچائی پر لوگوں کے اعتبار کو ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھے گی۔ اس پر انھوں نے ان بلند بانگ دعووں کی وجوہات و اسباب پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی اور مجھے کہا: ’’مجھے بذات خود بھی یہ علم ہوا کہ افریقہ میں موجود ایک بڑے اور معتبر احمدی مبلغ جھوٹ بولنے کے خوگر تھے اور جماعت احمدیہ میں نئے شامل ہونے والے افراد کی تعداد کے حوالے سے ان کی جانب سے بڑی حیرتناک قسم کی رپورٹیں مرکز میں پہنچا کرتی تھیں۔ میں نے ان کو سزا دے کر جماعتی نظم سے معزول کر دیا۔ ان کی ذمہ داری جس ملک میں لگائی گئی تھی اس ملک میں جماعت کے نو مبائعین کے بارے میں جھوٹی خبریں بھیجنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے میں نہیں سمجھ سکا‘‘۔
میں نے ان سے کہا کہ ہم ایک منظم جماعت ہیں، ہر مقامی جماعت میں باریک ترین اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے، اسی طرح ہر ملک میں بھی اس کے ارکانِ جماعت کا مکمل ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ وکالتِ مال کے دفتر کے ذریعے ہم احمدی احباب کی یقینی تعداد کو معلوم کر سکتے ہیں، کیونکہ جو احمدی چندہ نہ دے اس کو بانیٔ سلسلہ کے فرمان کی روشنی میں احمدی ہی نہیں سمجھا جاتا۔
اس پر وہ کہنے لگے: ’’میں نے یہی قدم اٹھایا تھا ، میں نے مرکزی وکالتِ مال سے مطالبہ کیا کہ وہ دنیا بھر میں تمام چندہ دینے والے احمدیوں کا ریکارڈ یکجا کر کے مجھے با خبر کریں۔ تو اس برس میں (۲۰۰۳ء میں) تین لاکھ احمدیوں نے چندہ دیا تھا‘‘۔(واضح طور پر اس تعداد سے مراد صرف قادیانی مرد حضرات ہی نہیں ہیں بلکہ عورتیں اور بچے بھی اس میں شامل ہیں)
انھوں نے بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ: ’’جب میں خلیفہ بنا تو میں نے سب (ملکوں کی) جماعتوں کے امرا کو اکٹھا کیا اور ان سے بصراحت کہا وہ نو مبائعین کہاں ہیں جن کی بیعتیں آپ کی جماعتوں میں ہوئیں اور آپ ان کے اعداد و شمار کی رپورٹیں سالانہ مرکز میں بھجواتے رہے ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب لوگ (مرکز کے ریکارڈ میں موجود۔مترجم) ان اعداد و شمار کو دیکھیں اور ان نو مبائعین سے نئے سرے سے رابطے استوار کریں اور ان کو نظام کے ساتھ جوڑیں، اس لیے کہ مجھے ان اعداد و شمار میں درستی نظر نہیں آ رہی‘‘۔
انھوں نے مزید کہا کہ: ’’لیکن جب خلافت کی گدی میرے پاس آئی تو میں نے جماعتوں کو چندوں اور نظام میں حصہ ڈالنے والوں کی تعداد میں اضافے کی ترغیب کا عمل شروع کیا، اور آج خدا تعالی کے فضل سے یہ تعداد دنیا بھر میں بارہ لاکھ افراد تک پہنچ چکی ہے‘‘۔
انھوں نے وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ: ’’یہی وجہ ہے کہ میں نے پچھلے کچھ برسوں سے سالانہ جلسوں کے اپنے خطابات میں جماعت احمدیہ کے کارناموں کے ضمن میں ہر ملک کے نو مبائعین کے تفصیلی ذکر کو چھوڑ رکھا ہے، بلکہ میں صرف جماعت میں شامل ہونے والوں کی مجموعی تعداد کا تذکرہ ہی کرتا ہوں‘‘۔
واضح رہے کہ پچھلے دو برسوں سے مرزا مسرور احمد نے قادیانی ٹی وی چینل MTA کی انتظامیہ کو حکم دے رکھا ہے کہ جلسہ سالانہ میں جماعت احمدیہ کے کارناموں اور نئے بیعت کرنے والے احمدیوں کی تعداد کے بارے میں جو تقریر کی جائے اس کو دوبارہ ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جائے گا۔ (ایسی تقریر عام طور پر ہر جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کی جاتی ہے)۔ یہاں تک کہ جماعت کے عربی دفتر نے اس تقریر کی مکمل اور تحریری عربی ترجمانی بالکل ترک کر رکھی ہے۔جیسا کہ وہ اپنے خلیفہ صاحب کے دیگر خطابات کی بھی صرف دوران تقریر ہی براہِ راست اور لائیو ترجمانی پر اکتفا کر نے لگے ہیں۔جب کہ کسی بھی ترجمان کے لیے نئے بیعت کرنے والوں کی تعداد جیسے اعداد و شمار کی تقریر کے دوران میں ہی براہِ راست ترجمانی کرتے ہوئے بالضبط تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اب مرزا مسرور کے اس حکم کو کیا نام دیا جائے؟ حقائق کو دنیا سے کیوں چھپایا جا رہا ہے؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ انھیں خود پر یقین نہیں ہے کہ وہ کہیں جھوٹ نہ بول رہے ہوں؟ یا پھر وہ جرم کے نشانات مٹانا چاہتے ہیں؟
یہ بات ملحوظ رہے کہ اس حکم سے پہلے خلیفہ صاحب کے خطبات کو باقاعدہ لکھ کر ترجمہ کیا جاتا تھا، اور پھر میں اس (عربی ترجمہ۔مترجم) کو اپنی آواز میں لکھ کر ریکارڈ کرواتا تھا اور پھر ان کو چینل پر باقاعدہ نشر کیا جاتا تھا۔ مگر اب یہ سلسلہ بحکم خلیفہ صاحب بند کیا جا چکا ہے کہ اب کسی پرانے جلسے کے ایسے خطبے کو دوبارہ ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جائے گا جس میں جماعت کے کارناموں اور نئے شامل ہونے والے احمدیوں کے اعداد و شمار بیان کیے گئے ہوں، خواہ پہلے اس کا مکمل ترجمہ کر کے اس کو صوتی طور پر ریکارڈ بھی کروایا جا چکا ہو۔
اس صورت حال میں احمدی دوستوں کو اگر حقیقت کی طلب ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ جلسہ سالانہ میں ہونے والے کارناموں کی رپورٹ والے خطاب کی نشر مکرّر کا مطالبہ کریں، انھیں بسہولت پتہ چل جائے گا کہ جھوٹ کا حجم ان کے خیال و وہم سے کہیں بڑھ کر ہے۔برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے دوسرے روز ہونے والا قادیانی خلیفہ کا یہ خطاب جلسے کا کلیدی خطبہ سمجھا جاتا ہے، میں قارئین سے درخواست کرتا ہوں اب سے وہ اس خطاب کو ریکارڈ کریں اور اس کی لائیو ترجمانی کو ہی سہی مگر ریکارڈ ضرور کریں تا کہ انھیں ان بے سر و پیر مبالغہ آرائیوں سے آگاہی ہو سکے جو نو مبائعین (نئے مرتد ہونے والے قادیانی۔مترجم) افراد کی تعداد کے بارے میں بولی جاتی ہیں۔
میں اپنے قارئین کو ابھی سے نئی بیعتوں کی تعداد کے بارے میں اطلاع دے سکتا ہوں (اور یہ جماعت میں رہتے ہوئے میرے تجربات کی روشنی میں ایک گمان ہی ہے)۔ مجھے توقع ہے کہ آئندہ ہفتے کے روز یعنی بتاریخ ۴؍اگست سنہ ۲۰۱۸ء کو جلسہ سالانہ میں پچھلے ایک برس میں جماعت احمدیہ میں نئے شامل ہونے والے افراد کی تعداد لگ بھگ ۶۲۹۰۰۰ بتائی جائے گی۔ (دل چسپ بات یہ ہے کہ عکرمہ نجمی کا تجزیہ بہت حد تک درست ثابت ہوا ہے اور مرزا مسرور کے خطاب میں یہ تعداد ۶۴۷۰۰۰ بتائی گئی ہے۔ یہ علیحدہ قصہ ہے کہ عکرمہ کی ہدایت کا سبب بننے والے سابق قادیانی مبلّغ ہانی طاہر نے فیس بک پر ایک صفحہ تشکیل دیا ہے جہاں وہ بار بار یہ چیلنج کر رہے ہیں کہ ان چھے لاکھ سینتالیس ہزار نو مبائعین میں سے کوئی ایک تو آ کر اپنا نام بتا دے، مگر تا حال انھیں اس کوشش میں کامیابی نہیں مل سکی۔مترجم)
یہ متوقع عدد جو میں نے ذکر کیا اس کو جاننا ہر اس شخص کے لیے آسان ہے جو جماعت کے ترجمان رسائل و جرائد میں ہر برس شائع ہونے والے اعداد و شمار پر نظر رکھتا ہو اور اس کے سامنے پچھلے چند برسوں کے اعداد دو شمار کا ریکارڈ موجود ہو۔مثلاً
سن
„عداد
سنہ ۲۰۱۷ء میں نو مبائعین کی تعداد:
۶۰۹۰۰
سنہ ۲۰۱۶ء میں
۵۸۴۰۰
سنہ ۲۰۱۵ء میں
۵۶۷۳۳
سنہ ۲۰۱۴ء میں
۵۵۰۲۳
سنہ ۲۰۱۳ء میں
۵۴۰۷۸
سنہ ۲۰۱۲ء میں
Ò۵۱۴۳۵
سنہ ۲۰۱۱ء میں
۴۸۰۸۲
سنہ ۲۰۱۰ء میں
۴۵۸۷۶
سنہ ۲۰۰۹ء میں
۴۱۶۰۱
سنہ ۲۰۰۸ء میں
۳۵۴۶۳
سنہ ۲۰۰۷ء میں
۲۶۴۹۶
سنہ ۲۰۰۶ء میں
۲۹۳۸۸
سنہ ۲۰۰۵ء میں
۲۰۹۷۹
سنہ ۲۰۰۴ء میں
۳۰۴۹۱
سنہ ۲۰۰۳ء میں
۸۹۲۴۰
سنہ ۲۰۰۲ء میں
۲۰۶۵۴۰۰۰
سنہ ۲۰۰۱ء میں
۸۱۰۰۶۷۲۱
سنہ ۲۰۰۰ء میں
۴۱۳۰۸۹۷۵
سنہ ۱۹۹۹ء میں
۱۱۸۲۰۲۲۶
سنہ ۱۹۹۸ء میں
۵۰۰۴۵۹۱
سنہ ۱۹۹۷ء میں
۳۰۰۴۵۸۵
سنہ ۱۹۹۶ء میں
۱۶۰۲۷۲۱
سنہ ۱۹۹۵ء میں
۸۴۷۷۲
سنہ ۱۹۹۴ء میں
۴۲۱۷۵
سنہ ۱۹۹۳ء میں
۲۰۴۳۰
‚ چنانچہ جماعت احمدیہ کے سرکاری ترجمان رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے ان اعداد و شمار کے مطابق سنہ ۱۹۹۳ء سے لے کر سنہ ۲۰۱۷ء تک بیعت کرنے والوں کی مجموعی تعداد: ۱۷۲۹۱۷۴۳۹ (یعنی سترہ کروڑ انتیس لاکھ سترہ ہزار چار سو انتالیس) بنتی ہے۔نوٹ: یہ سب اعداد و شمار الفضل کے مطبوعہ شماروں سے تقابل اور موازنہ کر کے لکھے جا رہے ہیں۔