انتخاب: شاہد حمید
44 سال قبل 7 ۔ ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر لاہور ی وقادیانی
مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے فوراََ بعد قائد ایوان
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی تاریخی تقریر کا مکمل متن
جناب اسپیکر !
میں جب یہ کہتا ہوں کہ یہ فیصلہ پورے ایوان کا فیصلہ ہے تو اس سے میرا مقصد یہ نہیں کہ میں کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے اس بات پر زور دے رہا ہوں۔ ہم نے اس مسئلہ پر ایوان کے تمام ممبروں سے تفصیلی طور پر تبا دلۂ خیال کیاہے ، جن میں تمام پارٹیوں کے اور ہر طبقۂ خیال کے نمائندے موجود تھے۔ آج کے روز جو فیصلہ ہوا ہے ، یہ ایک قومی فیصلہ ہے ، یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے ، خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ فقط حکومت ہی اس فیصلہ کی تحسین کی مستحق قرار پائے ۔ اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی ایک فرد اس فیصلہ کی تعریف و تحسین کا حقدار بنے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ مشکل فیصلہ ، بلکہ میر ی ناچیز رائے میں کئی پہلوؤں سے بہت ہی مشکل فیصلہ ، جمہوری اداروں اور جمہوری حکومت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا۔
یہ ایک پرانا مسئلہ ہے۔ نوّے سال پرانا مسئلہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ اس سے ہمارے معاشرے میں تلخیاں اور تفرقے پیدا ہوئے لیکن آج کے دن تک اس مسئلہ کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ ماضـی میں بھی پیدا ہوا تھا۔ ایک بار نہیں ، بلکہ کئی بار ، ہمیں بتایا گیا کہ ماضی میں اس مسئلہ پر جس طرح قابو پایا گیا تھا۔ اسی طرح اب کی بار بھی ویسے ہی اقدامات سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کیا گیا، لیکن مجھے معلوم ہے کہ 1953ء میں کیا، کیا گیا تھا۔ 1953ء میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے وحشیانہ طور پر طاقت کا استعمال کیا گیا تھا جو اس مسئلہ کے حل کے لیے نہیں ، بلکہ اس مسئلہ کو دبا دینے کے لیے تھا کسی مسئلہ کو دبا دینے سے اس کا حل نہیں نکلتا ۔ اگر کچھ صاحبان عقل وفہم حکومت کو یہ مشورہ دیتے کہ عوام پر تشدد کر کے اس مسئلہ کو حل کیا جائے ، اور عوام کے جذبات اور ان کی خواہشات کو کچل دیا جائے ، تو شاید اس صورت میں ایک عارضی حل نکل آتا ، لیکن یہ مسئلہ کا صحیح اور درست حل نہ ہوتا ۔ مسئلہ دب تو جاتا ، اور پس منظر میں چلا جاتا ، لیکن یہ مسئلہ ختم نہ ہوتا ۔
ہماری موجودہ مساعی کا مقصد یہ رہا ہے کہ اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کیا جائے اور میں آپ کو یقین دلاسکتا ہوں کہ ہم نے صحیح اور درست حل تلاش کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، یہ درست ہے کہ لوگوں کے جذبات مشتعل ہوئے ، غیر معمولی احساسات ابھرے ، قانون اور امن کا مسئلہ بھی پیدا ہوا ، جائیداد اور جانوں کا اتلاف ہوا، پریشانی کے لمحات بھی آئے، تمام قوم گذشتہ تین ماہ سے تشویش کے عالم میں رہی اور اس کشمکش اور بیم ورجا کے عالم میں رہی، طرح طرح کی افواہیں کثرت سے پھیلائی گئیں، اور تقریریں کی گئیں، مسجدوں اور گلیوں میں بھی تقریروں کا سلسلہ جاری رہا۔ میں یہاں اس وقت یہ دہرانا نہیں چاہتا کہ 22اور 29مئی کو کیا ہوا تھا۔ میں موجودہ مسئلہ کی وجوہات کے بارے میں بھی کچھ نہیں سننا چاہتا کہ یہ مسئلہ کس طرح رونما ہوا اور کس طرح اس نے جنگل کی آگ کی طرح تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میرے لیے اس وقت یہ مناسب نہیں کہ میں موجوہ معاملات کی تہہ تک جاؤں، لیکن میں اجازت چاہتا ہوں کہ اس معزز ایوان کی توجہ اس تقریر کی طرف دلاؤں جو میں نے قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے 13جون کو کی تھی۔
اس تقریر میں، میں نے پاکستان کے عوام سے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یہ مسئلہ بنیادی اور اصولی طور پر مذہبی مسئلہ ہے۔ پاکستان کی بنیاد اسلام پر ہے۔ پاکستان مسلمانوں کے لیے وجود میں آیاتھا۔ اگر کوئی ایسا فیصلہ کرلیا جاتا، جسے اس ملک کے مسلمانوں کی اکثریت، اسلام کی تعلیمات اور اعتقادات کے خلاف سمجھتی تو اس سے پاکستان کی علت غائی اور اس کے تصور کو بھی ٹھیس لگنے کا اندیشہ تھا ۔ چونکہ یہ مسئلہ خالص مذہبی مسئلہ تھا اس لیے میری حکومت کے لیے یا ایک فرد کی حیثیت میں میرے لیے مناسب نہ تھا کہ اس پر 13جون کو کوئی فیصلہ دیا جاتا ۔
لاہور میں مجھے کئی ایک ایسے لوگ ملے جو اس مسئلہ کے باعث مشتعل تھے ۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ آپ آج ہی، ابھی ابھی اور یہیں وہ اعلان کیوں نہیں کر دیتے جو کہ پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت چاہتی ہے۔ ان لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ یہ اعلان کر دیں تو اس سے آپ کی حکومت کو بڑی داد وتحسین ملے گی اور آپ کو ایک فرد کے طور پر نہایت شاندار شہرت اور ناموری حاصل ہو گی، انھوں نے کہا کہ اگر آپ نے عوام کی خواہشات کو پورا کرنے کا یہ موقع گنوا دیا تو آپ اپنی زندگی کے ایک سنہری موقع سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ میں نے اپنے ان احباب سے کہا کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور بسیط مسئلہ ہے جس نے بر صغیر کے مسلمانوں کو نوّے سال سے پریشان کر رکھا ہے اور پاکستان بننے کے ساتھ ہی یہ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنا ہے۔ میرے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا اور کوئی فیصلہ کردیتا۔ میں نے ان اصحاب سے کہا کہ ہم نے پاکستان میں جمہوریت کو بحال اور قائم کیا ہے۔ پاکستان کی ایک قومی اسمبلی موجود ہے جو ملکی مسائل پر بحث کرنے کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ میری ناچیز رائے میں مسئلہ کو حل کرنے کے لیے قومی اسمبلی ہی مناسب جگہ ہے۔ اور اکثریتی پارٹی کے رہنما ہونے کی حیثیت میں مَیں قومی اسمبلی کے ممبروں پر کسی طرح کا دباؤ نہیں ڈالوں گا۔ میں اس مسئلہ میں حل کو قومی اسمبلی کے ممبروں کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں ، اور ان میں میری پارٹی کے ممبر بھی شامل ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر میری اس بات تصدیق کریں گے کہ جہاں میں نے کئی ایک مواقع پر انہیں بلا کر اپنی پارٹی کے مؤقف سے آگاہ کیا وہاں اس مسئلہ پر میں نے اپنی پارٹی کے ایک ممبر پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی ۔ سوائے ایک موقع کے جب کہ اس مسئلہ پر کھلی بحث ہوئی تھی ۔
جناب اسپیکر !
میں آپ کو یہ بتانا مناسب نہیں سمجھتا کہ اس مسئلہ کے باعث اکثر میں پریشان رہا اور راتوں کو مجھے نیند نہیں آئی ۔ اس مسئلہ پر جو فیصلہ ہوا ہے ، میں اس کے نتائج سے بخوبی واقف ہوں ۔ مجھے اس فیصلہ کے سیاسی اور معاشی رد عمل اور اس کی پیچید گیوں کا علم ہے ۔ جس کا اثر مملکت کے تحفظ پر ہو سکتا ہے ۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا ، پاکستان وہ ملک ہے جو بر صغیر کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت چاہتے تھے ۔ اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے ۔ میں اس فیصلہ کو جمہوری طریقہ سے نافذ کرنے میں اپنے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا اصول یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے ۔ اسلام کی خدمت ہماری پارٹی کے لیے اوّلین اہمیت رکھتی ہے۔ ہمار ا دوسرا اصول یہ ہے کہ جمہوریت ہماری پالیسی ہے چنانچہ ہمارے لیے فقط یہی درست راستہ تھا کہ ہم اس مسئلہ کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کرتے۔ اس کے ساتھ ہی میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم اپنی پارٹی کے اس اصول کی بھی پوری طرح سے پابندی کریں گے کہ پاکستان کی معیشت کی بنیاد سوشلز م پر ہو۔ ہم سوشلسٹ اصولوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ جو کیا گیا ہے، اس فیصلہ میں ہم نے اپنے کسی بھی اصول سے انحراف نہیں کیا۔ ہم اپنی پارٹی کے تین اصولوں پر مکمل طور سے پابند رہے ہیں۔ میں نے کئی بار کہا ہے کہ اسلام کے بنیادی اور اعلیٰ ترین اصول، سماجی انصاف کے خلاف نہیں اور سوشلز م کے ذریعہ معاشی استحصال کو ختم کرنے کے بھی خلاف نہیں ہیں۔
یہ فیصلہ مذہبی بھی ہے اور غیر مذہبی بھی۔ مذہبی اس لحاظ سے کہ یہ فیصلہ ان مسلمانوں کو متاثر کرتا ہے جو پاکستان میں اکثریت میں ہیں اور غیر مذہبی اس لحاظ سے کہ ہم دور جدید میں رہتے بستے ہیں، ہمارا آئین کسی مذہب و ملت کے خلاف نہیں بلکہ ہم نے پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے ہیں۔ ہر پاکستانی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ فخر و اعتماد سے بغیر کسی خوف کے اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کر سکے۔ پاکستان کے آئین میں پاکستانی شہریوں کو اس بات کی ضمانت دی گئی ہے۔ میری حکومت کے لیے یہ بات بہت اہم ہو گئی ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے، یہ نہایت ضروری ہے اور میں اس بات میں کوئی ابہام کی گنجائش نہیں رکھنا چاہتا۔ پاکستان کے شہریوں کے حقوق کی حفاظت ہمارا اخلاقی، اور مقدس فرض ہے۔
جناب اسپیکر !
میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں اور اس ایوان کے باہر کے ہر شخص کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ فرض پوری طرح اور مکمل طور پر ادا کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کسی شخص کے ذہن میں یہ شبہ نہیں رہنا چاہیے۔ ہم کسی قسم کی غارت گری اور تہذیب سوزی یا کسی پاکستانی طبقے یا شہری کی توہین اور بے عزتی برداشت نہیں کریں گے ۔
جناب اسپیکر !
گزشتہ تین مہینوں کے دوران اور اس بڑے بحران کے عرصے میں کچھ گرفتاریاں عمل میں آئیں، کئی لوگوں کو جیل بھیجا گیا اور چند اور اقدامات کیے گئے۔ یہ بھی ہمارا فرض تھا۔ ہم اس ملک پر بد نظمی کا اور نراجی عناصر کا غلبہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ جو ہمارے فرائض تھے ان کے تحت ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا۔ لیکن میں اس موقعے پر جب کہ تمام ایوان نے متفقہ طور سے ایک اہم فیصلہ کر لیا ہے، آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم ہر معاملے پر فوری اور جلد از جلد غور کریں گے اور جب کہ اس مسئلے کا باب بند ہو چکا ہے، ہمارے لیے یہ ممکن ہو گا کہ ان سے نرمی کا برتاؤ کریں۔ میں امید کرتا ہوں کہ مناسب وقت کے اندر اندر کچھ ایسے افراد سے نرمی برتی جائے گی اور انہیں رہا کر دیا جائے گا جنھوں نے اس عرصہ میں اشتعال انگیزی سے کام لیا یا کوئی مسئلہ پیدا کیا۔
جناب اسپیکر !
جیسا کہ میں نے کہا ہمیں امید کرنی چاہیے کہ ہم نے اس مسئلے کا باب بند کر دیا ہے۔ یہ میری کامیابی نہیں، یہ حکومت کی بھی کا میابی نہیں، یہ کامیابی پاکستان کے عوام کی کامیابی ہے جس میں ہم بھی شریک ہیں۔ میں سارے ایوان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ مجھے احساس ہے کہ یہ فیصلہ متفقہ طور پر نہ کیا جا سکتا تھا اگر تمام ایوان کی جانب سے اور اس میں تمام پارٹیوں کی جانب سے تعاون اور مفاہمت کا جذبہ نہ ہوتا ۔ آئین سازی کے موقع کے وقت بھی ہم میں تعاون اور سمجھوتے کا جذبہ موجود تھا۔ آئین ہمارے ملک کا بنیادی قانون ہے۔ اس آئین کے بنانے میں ستائیں (27) برس صرف ہوئے اور وہ وقت پاکستان کی تاریخ میں تاریخی اور یادگار وقت تھا جب اس آئین کو تمام پارٹیوں نے قبول کیا اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ اسی جذبہ کے تحت ہم نے یہ مشکل فیصلہ بھی کر لیا ہے۔
جناب اسپیکر!
کیا معلوم کہ مستقبل میں ہمیں زیادہ مشکل مسائل کا سامنا کرنا پڑ ے، لیکن میری ناچیز رائے میں جب سے پاکستان وجود میں آیا، یہ مسئلہ سب سے زیادہ مشکل مسئلہ تھا۔ کل کو اس سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل مسائل ہمارے سامنے آسکتے ہیں۔ جن کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے کے تاریخی پہلوؤں پر اچھی طرح غور کرتے ہوئے میں پھر کہوں گا کہ یہ سب سے زیادہ پیچیدہ مشکل مسئلہ تھا۔ گھر گھر میں اس کا اثر تھا، ہر دیہات میں اس کا اثر تھا اور ہر فرد پر اس کا اثر تھا۔ یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک خوفناک شکل اختیار کر گیا۔ ہمیں اس مسئلہ کو حل کرنا ہی تھا۔ ہمیں تلخ حقائق کا سامنا کرنا ہی تھا۔ ہم اس مسئلہ کو ہائیکورٹ یا اسلامی نظریاتی کونسل کے سپر د کر سکتے تھے یا اسلامی سکریٹریٹ کے سامنے پیش کیا جا سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ حکومت اور حتیٰ کہ افراد بھی مسائل کو ٹالنا جانتے ہیں اور انہیں جوں کا توں رکھ سکتے ہیں اور حاضرہ صورت حال سے نپٹنے کے لیے معمولی اقدامات کر سکتے ہیں ، لیکن ہم نے اس مسئلہ کو اس انداز سے نبٹانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کا جذبہ رکھتے تھے ۔ اس جذبہ کے تحت قومی اسمبلی ایک کمیٹی کی صورت میں خفیہ اجلاس کرتی رہی، خفیہ اجلاس کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں کئی وجوہات تھیں۔ اگر قومی اسمبلی خفیہ اجلاس نہ کرتی، تو جناب! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام سچی باتیں اور حقائق ہمارے سامنے آ سکتے؟ اور لوگ اس طرح آزادی اور بغیر کسی جھجک کے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے؟ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ یہاں اخبارات کے نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں ، اور لوگوں تک ان کی باتیں پہنچ رہی ہیں، اور ان کی تقاریر اور بیانات کو اخبارات کے ذریعہ شائع کر کے ان کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے تو اسمبلی کے ممبر اس اعتماد اور کھلے دل سے اپنے خیالات کا اظہار نہ کر سکتے، جیسا کہ انھوں نے خفیہ اجلاسوں میں کیا۔ہمیں ان خفیہ اجلاسوں کی کارروائی کا کافی عرصہ تک احترام کرنا چاہیے۔تاریخ بتاتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کوئی بات بھی خفیہ نہیں رہتی۔ لیکن ان باتوں کے اظہار کا ایک موزوں وقت ہے۔ چونکہ اسمبلی کی کاروائی خفیہ رہی ہے، اور ہم نے اسمبلی کے ہر ممبر کو، اور ان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی جو ہمارے سانے پیش ہوئے یہ یقین دلایا تھا کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کو سیاسی، یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے گا ۔ میرے خیال میں یہ ایوان کے لیے ضروری اور مناسب ہے کہ وہ ان خفیہ اجلاسوں کی کارروائی کو ایک خاص وقت تک ظاہر نہ کریں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے لیے ممکن ہو گا کہ ہم ان خفیہ اجلاسوں کی کارروائی کو آشکارہ کر دیں ، کیونکہ اس کے ریکارڈ کا ظاہر ہونا بھی ضروری ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان خفیہ اجلاسوں کے ریکارڈ کو دفن ہی کر دیا جائے ، ہرگز نہیں ۔ اگر میں یہ کہوں تو یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ بات ہوگی ۔ میں فقط یہ کہتا ہوں کہ اس مسئلہ کے باب کو ختم کر نے کے لیے اور ایک نیا باب کھولنے کے لیے نئی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے ، آگے بڑھنے کے لیے اور قومی مفاد کو محفوظ رکھنے کے لیے ، اور پاکستان کے حالات کو معمول پر رکھنے کے لیے اس مسئلہ کی بابت ہی نہیں بلکہ دوسرے مسائل کی بابت بھی ، ہمیں ان امور کو خفیہ رکھنا ہوگا ۔ میں ایوان پر یہ بات عیاں کر دینا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کے حل کو ، دوسرے کئی مسائل پر تبادلہ خیال اور بات چیت اور مفاہمت کے لیے نیک شگون سمجھنا چاہیے ۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ یہ حل ہمارے لیے خوشی کا باعث ہے ، اور اب ہم آگے بڑھیں گے اور تمام نئے قومی مسائل کو مفاہمت اور سمجھوتے کے جذبہ کے تحت طے کریں گے ۔
جناب اسپیکر !
میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا ۔ اس معاملہ کے بارے میں میرے جو احساسات تھے میں انہیں بیان کر چکا ہوں ۔ میں ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے ، یہ ایک فیصلہ ہے جو ہمارے عقائد سے متعلق ہے اور یہ فیصلہ پورے ایوان کا فیصلہ ہے اور پوری قوم کافیصلہ ہے ۔ یہ فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق ہے ۔ میرے خیال میں یہ انسانی طاقت سے باہر تھا کہ یہ ایوان اس سے بہتر کچھ فیصلہ کر سکتا ۔ اور میرے خیال میں یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ اس مسئلہ کو دوامی طور پر حل کرنے کے لیے موجودہ فیصلے سے کم کوئی اور فیصلہ ہو سکتا تھا ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو اس فیصلے سے خوش نہ ہوں ۔ ہم یہ توقع بھی نہیں کرسکتے کہ اس مسئلہ کے فیصلے سے تمام لوگ خوش ہو سکیں گے جو گذشتہ نوے سال سے حل نہیں ہو سکا ۔ اگر یہ مسئلہ آسان ہوتا اور ہر ایک کو خوش رکھنا ممکن ہوتا ،تو یہ مسئلہ بہت پہلے حل ہو گیا ہوتا ۔ لیکن یہ نہیں ہو سکا ۔ 1953ء میں بھی یہ ممکن نہیں ہو سکا ۔وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ 1953ء میں حل ہو چکا تھا ، وہ لوگ اصل صورت حال کا صحیح تجزیہ نہیں کر سکے ۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس فیصلے پر نہایت ناخوش ہوں گے ۔ اب میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کروں ۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ یہ ان لوگوں کے طویل المیعاد مفاد کے حق میں ہے کہ یہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے ۔ آج یہ لوگ ناخوش ہوں گے ان کو یہ فیصلہ پسند نہ ہو گا ، ان کو یہ فیصلہ ناگوار ہو گا، لیکن حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اور مفروضہ کے طور پر اپنے آپ کو ان لوگوں میں شمار کرتے ہوئے، میں یہ کہوں گا کہ ان کو بھی اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ اس فیصلے سے یہ مسئلہ حل ہوا اور ان کوآئینی حقوق کی ضمانت حاصل ہو گئی ، مجھے یاد ہے کہ جب حزب مخالف سے مولانا شاہ احمد نورانی نے یہ تحریک پیش کی تو انھوں نے ان لوگوں کو مکمل تحفظ دینے کا ذکر کیا تھا جو اس فیصلے سے متاثر ہوں گے، ایوان اس یقین دہانی پر قائم ہے۔ یہ ہر پارٹی کا فرض ہے، حزب مخالف کا فرض ہے اور ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کی یکساں طور پر حفاظت کریں۔ اسلام کی تعلیم رواداری ہے۔ مسلمان رواداری پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اسلام نے فقط رواداری کی تبلیغ ہی نہیں کی بلکہ تمام تاریخ میں اسلامی معاشرے نے رواداری سے کام لیا ہے ۔ اسلامی معاشرے نے اس تیرہ و تاریک زمانے میں یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا ، جب کہ عیسائیت ان پر یورپ میں ظلم کر رہی تھی اور یہودیوں نے سلطنت عثمانیہ میں آکر پناہ لی تھی ۔ اگر یہودی دوسرے حکمراں معاشرے سے بچ کر عربوں اور ترکوں کے اسلامی معاشرے میں پناہ لے سکتے تھے ، تو پھر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری مملکت اسلامی مملکت ہے ، ہم مسلمان ہیں ، ہم پاکستانی ہیں ، اور یہ ہمارا مقدس فرض ہے کہ ہم تمام فرقوں ، تمام لوگوں ، اور پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں طور پر تحفظ دیں ۔
جناب اسپیکر صاحب ! ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں ۔ آپ کا شکریہ !
’’احمدیہ مسئلہ ! یہ ایک مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا ۔ایک دفعہ کہنے لگے : رفیع ! یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہو دیوں کو امریکہ میں حاصل ہے ۔یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ایک بار انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے ۔اس میں میرا قصور ہے ؟ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع الدین ! کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میر ی موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کو ٹھری میں پڑا ہوں؟ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھٔی اگران کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہرا تے ہیں تو کوئی بات نہیں ۔پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گنا ہوں کی تلافی کر جائے اور اﷲ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے۔بھٹو صاحب کی باتوں سے میں اندازہ لگا یا کرتا تھا کہ شاید انہیں گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے بر عکس ہے ۔
(بھٹو کے آخری 323دن از کرنل رفیع الدین )