تبصرہ کتب
مبصر: نعمان سنجرانی
نام :لبیک اﷲم (سفر نامۂ عمرہ)تحریر:آمنہ عبد الشکور ضخامت: ۱۲۴ صفحات
قیمت: ۵۰۰ روپے ملنے کا پتہ: محمد ہیلتھ کیئر جی ٹی روڈ، سنانواں تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ
دیارِ حرمین کی سرزمین کو دیکھنا اور اس مبارک ہوا میں سانس لینا ہر مسلمان کی سب سے بڑی خواہشوں میں سے ہے۔اس مبارک سرزمین کے احوال و آثار کو جاننا اور ان سے محبت کرنا ہمارے لیے شناخت اور پہچان کا مسئلہ اور ہماری جذباتی و ایمانی ضرورت ہے۔ اسی خاطر حج و عمرہ کے مبارک سفر سے واپس آنے والوں سے ان کے احوالِ سفر دریافت کرنے والوں کا ایک ہجوم آج بھی مشتاقانہ بے چینی کے ساتھ ان کا منتظر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تحریری کارناموں کی تاریخ میں سفرِ حج و عمرہ کی روداد لکھنے کی ایک مضبوط روایت مستحکم طور پر پائی جاتی ہے۔
زیرِ نظر کتاب بھی عمرے کے ایک سفر کا سفر نامہ ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے جناب ڈاکٹر عبد الشکور کی کم سِن بیٹی آمنہ عبد الشکور نے سپردِ قلم کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے خود بھی دیارِ حرمین کے اسفار کی روداد لکھ رکھی ہے اور رسالے کے ان صفحات میں اس پر تبصرہ بھی کیا جا چکا ہے۔ اب ان کی قابلِ تعریف بیٹی نے انھی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عمرے کے اس سفر کے احوال و واقعات کو زیبِ قرطاس کیا ہے۔ اس تحریر میں معصومانہ تاثرات اور بے ساختہ فطری اظہار کے ساتھ خوب صورت ایمانی احوال و جذبات بھی موجود ہیں۔ اگر چہ تحریر سے مصنفہ کی کم سنی اور غیر تجربہ کاری کا اظہار بھی ہوتا ہے مگر دیکھا جائے تو یہی ابتکار اور غیر پختہ کاری ایک طرح سے تحریر کا فطری حسن اور خوبی بھی ہے۔ عزیزہ مصنفہ اس کامیابی پر شاباش اور ان کے والدین مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اﷲ تعالی ان کی کوششوں کو قبول فرمائیں اور عزیزہ کو صحابیات ِ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم و رضی اﷲ عنہن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
کتاب عمدہ آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے، پروف خوانی اور طباعت کا معیار بھی قابلِ داد ہے۔
نام :ماہنامہ ’’المدینہ‘‘ خصوصی اشاعت: خدمت خلق اور کفالتِ عامہ تعلیمات نبوی کی روشنی میں
مدیرِ اعلیٰ: قاری حامد محمود ضخامت:۲۷۲ صفحات قیمت: ۳۰۰ روپے
ناشر: ماہنامہ ’’المدینہ‘‘، صائمہ ٹاورز، روم نمبر: A-205، سیکنڈ فلور، آئی آئی چندریگر روڈ۔ کراچی
محسن انسانیت خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم جو دین لے کر اس دنیا میں مبعوث ہوئے وہ انسانی بہبود کے کسی آدھے ادھورے تصور یا نظریے پر مشتمل نہیں تھابلکہ نوع انسانی کی کلّی فلاح و کامرانی کی ضمانت جناب سرورِ کائنات کی اس دعوت میں تھی۔
سہ ماہی ’’المدینہ‘‘ کی مجلس ادارت کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے تقریباً ہر شمارے کو حضرت سرور دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک سیرت کے مختلف پہلوؤں کے تذکرے سے منور کریں گے۔ زیرِ تبصرہ اشاعت حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات و تعلیمات میں خدمت خلق اورکفالتِ عامہ کے زاویے سے لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔
پہلا مضمون زکوٰۃ کی اہمیت کے حوالے سے معروف سیرت نگار ڈاکٹر حافظ محمد ثانی کا تحریر کردہ ہے۔ اس شمارے میں ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اور ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس جیسے مؤقر و محترم سیرت نگار حضرات کے سنجیدہ اور تحقیقی مقالے شاملِ اشاعت کی گئے ہیں۔
البتہ ایک بات ضرور قابلِ غور اور قابلِ ذکر ہے کہ اسلام کی کلّی اور عمومی دعوت کا نقطۂ آغاز عبادت و عبودیت الہی اور اجتناب از طاغوت سے ہوتا ہے اور اسلام نے جو کوئی فلاحی اور بہبودی تصور ات پیش کیے ہیں وہ اسی نقطے کے ماتحت اور ذیل میں آتے ہیں۔ اسلامی دعوت کی اس اساس کا انکار یا اس سے تغافل برت کر کے اسلام کے نام پر بھی اگر کوئی فلاحی اور بہبودی تصور پیش کیے جائیں گے ان کا تعلق اسلام سے ہر گز نہیں ہو گا۔ سرسید اور حالی کے زمانے سے ہمارے ہاں بطورِ خاص یہ چلن شروع ہوا ہے کہ اسلام کو ایک محض فلاحی بہبودی مذہب بنا کر دکھایا جائے اور اس سعیِ لا حاصل میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جائیں اور بے بات کی باتیں کی جائیں۔ (یہ کوششیں لا حاصل اس لیے ہیں کہ اﷲ کا بھیجا ہوا اور محمد پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین تو طے شدہ اور مکمل ہو چکا ہے ۔ جیسا ہے جتنا ہے اتنا ہی رہے گا، کسی کے بتانے سے یا تعبیر کرنے سے بدل تو سکتا نہیں)۔ ہو سکتا ہے کہ ان کوششوں کے بنیاد کاروں کے پیش نظر یہ مقصد ہو کہ اس طرح اسلام کو غیر مسلموں کے لیے قابلِ قبول بنایا جائے، مگر ساتھ میں یہ بھی تو ہوا کہ اسلام کے پیغام کی حد بندی ہوئی اور جو دین اﷲ نے جس طرح نازل کیا تھا بہر حال اس کی تصویر مسخ کی گئی۔
اسلامی مدر ٹریسائی کے اس زمانے میں جب بھی نیک دلی سے کی جانے والی اس طرح کی کوئی کوشش نظر آتی خاص طور پر اس وقت حسن عسکری کا ایک جملہ یاد آتا ہے۔ نعت کے تصوّرِ انسان پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہیں لکھا تھا کہ مولانا الطاف حسین حالیؔ کے نزدیک نعتِ رسولِ خدا میں قابلِ ذکر صرف یہ ٹھہرا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم یتیموں بے کسوں اور بیواؤں کی خبر گیری کرتے تھے اور اپنی قوم کی معاشرت بہتر بنانا چاہتے تھے، مگر یہ سب کام تو خود مولانا حالیؔ بھی کر ہی لیتے ہیں۔ذاتِ رسالت مآب کی خصوصیت کیا ہوئی؟
رسالے میں اشاعت اور طباعت کا معیار روز بروز بہتری کی طرف گامزن ہے۔ اس بار پروف کی اغلاط نسبتاً کم ہیں اور متن کی حد تک ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ حواشی اور حوالہ جات میں پروف خوانی کے حوالے سے بہت بہتری کی گنجائش ہے۔سر ورق بھی مناسب ہے اگر چہ کسی قدر مزید سنجیدگی ظاہر کی جا سکتی تھی۔