ختم نبوت ترمیمی بل اور عدالتی فیصلہ
عبداللطیف خالد چیمہ
گزشتہ برس انتخابی اصلاحات بل کی تیاری کی آڑ میں امیدواروں کے لیے عقیدۂ ختم نبوت پر غیر متزلزل یقین و ایمان والے حصے کو حذف کرنے کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 4؍ جولائی 2018ء بدھ کو 172 صفحات پر مشتمل جو تاریخی فیصلہ سنایا اس کو تحریکِ ختم نبوت کی تاریخ میں ہمیشہ یادرکھا جائے گا، اس فیصلے کے مطابق ختم نبوت کے خلاف ترمیم میں تحریک انصاف کے شفقت محمود، (ن) لیگ کی انوشہ رحمن کو بالخصوص اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جبکہ اس کے دیگر کردار بھی موجود ہیں اس خبر (فیصلے) کا خلاصہ پیش ِخدمت ہے۔
’’اسلام آباد (وقائع نگار‘آئی این پی‘ نوائے وقت نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ووٹ بنوانے کے لیے ختم نبوت کا بیان حلفی دینا ضروری قرار دیتے ہوئے راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیدیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ختم نبوت والے قانون کے معاملے کو ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت اہمیت دینے میں ناکام رہی ہے۔ بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ختم نبوت قانون میں ترمیم کے معاملے پر کیس کا تفصیلی فیصلہ سنا دیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا فیصلہ 172 صفحات پر مشتمل ہے جس کے صفحہ نمبر 163 پر راجہ ظفر الحق کمیٹی کے حوالے سے تفصیلات درج ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس شوکت نے اپنے فیصلے میں شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ووٹ بنوانے کے لیے ختم نبوت کا بیان حلفی دینا ضروری قرار دیا ہے۔ جسٹس شوکت نے اپنے فیصلے میں لکھا ختم نبوت والے معاملے پر ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت اس مسئلے کو اہمیت دینے میں ناکام رہی ہے۔ ارکان پارلیمان کی جانب سے ختم نبوت کے معاملے کو وہ اہمیت نہیں دی جتنی دی جانی چاہیے تھی۔ ارکان معاملے کی حساسیت سمجھنے میں ناکام رہے۔ آئین کیخلاف سازش کرنے والوں کو پارلیمنٹ بے نقاب نہ کرسکی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں حساس اداروں میں ملازمت کے لیے بھی بیان حلفی کو لازمی قرار دیا ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ختم نبوت کا معاملہ ہمارے دین کی اساس ہے، پارلیمنٹ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔ حساس اداروں میں ملازمت کے لیے بھی بیان حلفی لیا جائے۔ مردم شماری اور نادرا کوائف میں شناخت چھپانے والوں کی تعداد خوفناک ہے۔ تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھانے کے لیے مسلم ہونے کی شرط لازمی قرار دی جائے۔ شناخت کا نہ ہونا آئین پاکستان کی روح کے منافی ہے۔ ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کی واپسی احسن اقدام ہے۔ راجہ ظفر الحق کمیٹی نے انتہائی اعلیٰ رپورٹ مرتب کی۔ تفصیلی فیصلے میں راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کا بھی ذکر کیا گیا۔ راجہ ظفر الحق رپورٹ کے مطابق، انوشہ رحمن اور ایم این اے شفقت محمود نے بل کو ری ڈرافٹ کیا۔ انوشہ رحمن کو فارم کا مسودہ نظر ثانی کے لیے دیا گیا، کمیٹی کے اگلے اجلاس میں انوشہ رحمن نے نظر ثانی شدہ فارم پیش کیا۔ نظر ثانی شدہ فارم کو جانچ پڑتال کی ہدایت کے ساتھ منظور کیا گیا‘‘۔(روزنامہ ’’نوائے وقت ‘‘5؍ جولائی 2018ء ، صفحہ 1 )
اس فیصلے کی تفصیل تو آپ الگ سے پڑھ سکیں گے، تاہم گزشتہ نگران حکومت کو جو اس فیصلے سے تکلیف پہنچی وہ ملاحظہ فرمائیں:
’’اسلام آباد (آ ن لائن +مانیٹرنگ ڈیسک) ختم نبوت قانون کیس میں عدالتی فیصلے کو نگران حکومت نے چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سید علی ظفر نے کہا ہے کہ حکومت ملک کے تمام شہریوں کو برابر سمجھتی ہے اور مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر کسی طرح کے امتیازی سلوک کی آئین و قانون کی رو سے کوئی گنجائش نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عقائد اور مذہب کی آزادی کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کو چیلنج کرے گی کیونکہ ریاست کسی شخص کو پابند نہیں بنا سکتی کہ اس کا مذہب یا عقیدہ کیا ہونا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یورپی یونین کے اشتراک سے ’’اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی‘‘ کے زیر عنوان سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ مذہبی آزادی کا تحفظ اور تکثیریت کو فروغ دینا ہر ریاست اور حکومت کا بنیادی فریضہ ہے جس کے بغیر حکومت کو صرف جبر کا ایک نظام تصور کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس امر کو بھی یقینی بنائے کہ کوئی فرد کسی دوسرے پر اپنے نظریات مسلط نہ کر سکے‘‘۔ (روزنامہ ’’ جسارت ‘‘ کراچی ، 11 ؍جولائی 2018ء)
اس صورتحال پر متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی اور دیگر جماعتوں اور شخصیات کا جو رد عمل پریس میں آیا وہ اس طرح ہے:
کراچی/اسلام آباد (پ ر + نمائندہ جسارت) متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان نے ختم نبوت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے فیصلے کونگران حکومت کی جانب سے چیلنج کرنے کے اعلان کوامت کے اجماعی عقیدے (عقیدہ ختم نبوت)سے انحراف اور بدترین قادیانیت نوازی قراردیتے ہوئے اس کی شدیدالفاظ میں مذمت کی ہے۔ متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کے کنوینر عبداللطیف خالد چیمہ نے اپنے ردعمل میں کہاہے کہ نگران وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سید علی ظفر نے 2 روز قبل (10جولائی) اسلام آباد میں یورپی یونین کے اشترا ک سے ’’اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی‘‘ کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس صدیقی کے حالیہ فیصلے کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ دستور پاکستان سے انحراف بلکہ امت کے 1400برس کے عقیدے پرحملہ آور ہونے کی کوشش ہے، اسے بظاہر اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی کے نام پرکسی طور پرقبول نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ قادیانیوں نے آج تک 7ستمبر 1974ء کی قرارداد اقلیت کو تسلیم نہیں کیا، وہ اپنے غیر مسلم اقلیتی دائرے کو بھی تسلیم نہیں کرتے، قادیانی آئین پاکستان، دستور پاکستان اور ریاست کے باغی ہیں اور دستور و عدالتی فیصلوں کو اپنے رویے سے مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔ قادیانیوں نے جہاد کوحرام قرار دیا اور اکھنڈ بھارت ان کا مذہبی عقیدہ ہے، قادیانی پوری دنیا میں پاکستان کیخلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں ہمیں حیریت ہے کہ نگراں حکومت اس اہم ایشو پر قوم کی ترجمانی کرنے کے بجائے ریاست کے باغیوں کی طرف داری کررہی ہے جس کوہم مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی ومذہبی قیادت سے پر زور اپیل کی کہ وہ نگران وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سید علی ظفر کے بیان کا بروقت نوٹس لیں کیونکہ یہ عقیدے اور ملکی سلامتی کا مسئلہ بھی ہے۔ ادھر جمعیت علماپاکستان کراچی ڈویڑن کے ناظم اعلیٰ اور جنرل سیکرٹری متحدہ مجلس عمل کراچی محمد مستقیم نورانی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ نگران حکومت کے ترجمان کی جانب سے عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کے اعلان کی سخت الفاظ میں مذمت اور اس اعلان کو واپس لینے کا پرزور مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے سلسلے میں تفصیلی فیصلے میں جو مذہبی شناخت کے اظہار کے لیے جن قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے احکامات دیے ہیں انہیں پاکستان کے تمام غیرت مند مسلمانوں کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیرملکی ایما پرپاکستانی حکمرانوں کی اسی پالیسی کے باعث جہاں مسلم قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہیں وہیں ملک میں شدت پسندوں کو بھی مواقع میسر آتے ہیں۔ دوسری جانب وزارت کے ذمہ دار ذریعے نے بتایا ہے کہ نگراں حکومت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ناموس رسالت کیس کے فیصلے پر اپیل کا کوئی فیصلہ کر سکی اور نہ ہی وزارت میں ابھی اس حوالے سے کوئی مشاورت ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بقول اسلام آباد ہائی کورٹ کے ناموس رسالت کیس کے فیصلے کا مطالعہ کیا جارہا ہے اور اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے مناسب حکمت عملی مرتب کی جارہی ہے۔ ذریعے نے بتایا کہ یورپی یونین کے ایک وفد کے ساتھ نگراں وزیر قانون کی گفتگو کے حوالے سے یہ تاثر لیا جارہا ہے کہ وزارت اس فیصلے پر اپیل کے لیے سوچ بچار کر رہی ہے جب کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ جب ذریعے سے استفسار کیا گیا کہ وزیر قانون کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر پر کیا ردعمل ہے تو بتایا کہ وزارت قانون ہائی کورٹ کے فیصلے کو دیکھ رہی ہے اور اس پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین راجا محمد ظفر الحق نے بتایا کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے یہ فیصلہ بڑی وضاحت کے ساتھ دیا گیا ہے اگر اس بارے میں حکومت کسی اپیل میں جانے والی ہے تو انہیں اس بات کاکوئی علم نہیں ہے جہاں تک فیصلے کا تعلق ہے اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے ہماری خواہش ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد لازمی ہونا چاہیے۔ معروف قانون دان پنجاب بار کے سابق ممبر جناب قوسین فیصل مفتی ایڈوکیٹ نے اس حوالے سے جسارت کے استفسار پر بتایا کہ ہر بڑی عدالت میں چھوٹی عدالت کے کسی بھی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جاسکتی ہے لیکن ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کیس میں ہونے والے فیصلے پر اپیل کے بجائے عمل درآمد ہونا چاہیے اگر کوئی اس فیصلے پر اپیل کے سوچ رہا ہے تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ جہاں بھی رہتا ہو اس ریاست کے قانون کی پابندی کرے اور پاکستان میں رہنے والے تمام اقلیتی برادری کے شہری بھی اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ملکی قانون کی پابندی کریں اور ریاست پاکستان تمام شہریوں کے سیاسی اور بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھتی ہے تاہم شہریوں کو بھی اپنے مذہبی عقائد کے بارے میں کھل کر اظہار کرنا چاہیے تاکہ ریاست ان کے شہری اور بنیادی سوک اور سماجی حقوق کا تحفظ کرسکے سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق جوائنٹ سیکرٹری چوہدری محمد اکرام ایڈوکیٹ نے کہا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے اور ہر اسلامی ریاست اپنے ہر شہری کے ہر حقوق کا تحفظ کرتی ہے کسی مذہبی عقائد کی بنیاد پر حقوق دینے میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا انہوں نے کہا اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہونا چاہیے یہ بہت ہی مناسب اور اچھا فیصلہ ہے۔
(روزنامہ ’’ جسارت ‘‘ کراچی ، 12؍ جولائی 2018 ء)
اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی نئی حکومت جو پاکستان کو ’’اسلامی فلاحی ریاست‘‘ بنانے اور ’’ریاست ِ مدینہ ‘‘ کی طرز پر چلانے کے دعوں کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہوئی ہے یا کرائی گئی ہے، وہ تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے ملک گیر سطح پر کیا پالیسی اختیار کرتی ہے۔ لاہوری و قادیانی مرزائی جو اصلاًاسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی کی تعلیمات کی روشنی میں ارتداد کو اسلام کے نام پر پھیلا رہے ہیں، آئین اور ریاست کے باغی ہیں، ریاست کی رٹ کو مسلسل چیلنج کررہے ہیں، اس گروہ کے حوالے سے تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور ان کی مشینری کیا رُخ اختیار کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حکمرانوں اورسیاسی جماعتوں میں لادین عناصر اور قادیانی جرثوموں کی ریشو کیا ہے، ان سب مسائل پر نئی حکومت پر پوری نظر رکھی جائے گی اور قرآنی اصول کے مطابق اپنی اس پالیسی کو جاری رکھا جائے گا کہ ’’نیکی کے ہر کام میں تعاون کریں گے اور برای کے ہر کام میں رکاوٹ ڈالیں گے‘‘۔ اﷲ تعالیٰ نئے حکمرانوں کو اسلام اور وطن کی محبت سے سرشار کردے اور اسلام اور پاکستان کے دشمن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناکام ونامراد ہو جائیں، آمین یارب العالمین!