مبصر : صبیح ہمدانی
نام :تلخیص فضل الباری تحریر: شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی تلخیص: حضرت مولانا ولی محمد رحمہ اﷲ
ضخامت:۱۸۴ صفحات قیمت: ۵۰۰ روپے ناشر: احمد گروپ آف پبلی کیشنز۔ 03138432147
امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت امام ابو عبد اﷲ محمد بن اسماعیل بخاری قدس سرّہٗ کی تصنیف لطیف الجامع الصحیح ذخیرۂ حدیث کی معروف ترین اور متداول ترین کتاب ہے۔ ہر زمانے میں امّت کے عالی ترین اہلِ علم نے اس کتاب کے درس و تدریس اور شرح و تفسیر کو اپنا مشغلہ بنایا ہے ، جو اس کتاب کی عظمت اور رفعت کا ایک مستقل ثبوت ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی دار العلوم دیوبند کے قابل فخر سپوت اور کبار علماء میں سے تھے۔ حضرت مولانا کی حیات طیبہ کا اکثر حصہ علومِ نبوّت کی خدمت گزاری میں صرف ہوا۔ آپ سے کثیر تعداد میں طالبانِ علومِ دینیہ نے استفادہ کیا اور آپ کی تصنیفاتِ لطیفہ سے تو ایک عالم آج بھی مستفیض ہو رہا ہے۔بخاری شریف پر آپ کی درسی تقریر کو آپ کے ایک تلمیذِ رشید حضرت مولانا قاضی عبد الرحمن رحمہ اﷲ نے دو جلدوں میں لکھ کر شائع کیا تھا، یہ شرح بخاری شریف کے ابتدائی ابواب پر مشتمل اور کتاب الطہارہ تک ہی محیط ہے۔
ہماری علمی سرگرمیوں کی روایت میں بڑی کتابوں اور اہم تصنیفات کو ملخّص اور سہل انداز میں از سرِ نو مرتّب کرنے کا چلن خاصا شائع رہا ہے۔ خود درسِ نظامی میں ہی شامل (مثلا ہدایہ اور تلخیص المفتاح) متعدّد کتابیں دوسری کتابوں کی ملخّصات ہیں۔ زیرِ تبصرہ کتاب بھی حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کے مذکورہ بالا امالی بعنوان فضل الباری کی تلخیص ہے جسے شیخ الحدیث حضرت مولانا ولی محمد رحمہ اﷲ نے سپردِ قلم کیا ہے۔ تلخیص کا کام ہمارے زمانے میں کم کم ہوتا ہے۔ کیونکہ تصنیفی سرگرمیوں کی فہرست میں یہ ایک ایسا کام ہے جس میں شہرت اور فضیلت کا چرچا تو اصل صاحبِ تصنیف کا ہوتا ہے اور تلخیص کرنے والے کے ہاتھ میں دنیوی اعتبار سے کم ہی کچھ یافت ہوتی ہے۔ اور اس زمانے میں جب عبادتیں بھی فروخت کی جارہی ہیں کون ایسا زاہد ہو گا جو تصنیف بھی کرے اور شہرت بھی نہ چاہے۔
حضرت مولانا ولی محمد مرحوم و مغفور اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے ان عبادِ مخلصین میں شمار ہوتے ہیں (نحسبہ کذلک واﷲ حسیبہ) جنھوں نے ساری عمراﷲ کے پاک دین کی خدمت میں گزار دی اور حصول ِ شہرت و جاہ کے لیے کچھ بھاگ دوڑ نہ کی۔ آپ حضرت اقدس مولانا احمد علی لاہوری قدّس سرّہٗ کے مجازِ بیعت اور محدّثِ کبیر حضرت مولانا نصیر الدین غور غشتوی رحمہ اﷲ جیسے کبار اہلِ علم کے تلمیذِ رشید تھے۔ تمام عمر درس و تدریس اور افادۂ علومِ ظاہری و باطنی میں صرف کی ، ہزاروں تلامذہ و مسترشدین کو اﷲ کا پاک نام سکھایا اور علومِ دینیہ کا درس دیا۔ اسی دوران میں تحریری صورت میں بھی بہت سی علمی خدمات چپکے چپکے سر انجام دیتے رہے، جن کو شائع کرانے کی کبھی کوشش تک نہیں کی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثا نے جائزہ لیا تو ایک بہت بڑا سرمایہ حضرت کی تالیفات کا برآمد ہوا جو اب اشاعت کا منتظر ہے۔ کتاب کے پس سرورق پر ۲۸ ایسی تالیفات کی فہرست دی گئی ہے جنھیں حضرت مولانا ولی محمد مرحوم و مغفور نے اپنے قلم سے مکمل کیا اور اب وہ ان کے ورثا کے اشاعتی منصوبے میں شامل ہیں۔ حضرت مولانا کے حالاتِ زندگی کو کتاب میں شامل ضرور کرنا چاہیے تھا۔
حقّا کہ یہی وہ لوگ ہیں دینِ متین کی آبرو جن کی مساعی سے دمکتی ہے ۔ ہم جیسے دنیا کے طالب ریاکاروں کے عروج کے اس زمانے میں جب اس قسم کے معدومی کے خطرے سے دوچار بزرگوں کی دینی خدمات سے واقفیت ہوتی ہے تو اپنی بے مائیگی اور بے عملی پر حسرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس حسر ت کو عمل کی توفیق میں متبدّل فرمائیں۔
نام : سیرت سیدنا عثمان ذو النورین رضی اﷲ عنہ تالیف: مولانا ثناء اﷲ سعد شجاع آبادی
ضخامت:۷۲۰ صفحات قیمت: درج نہیں تقسیم کار: الہادی للنشر والتوزیع۔ 034573820201
’’صبر کے قلعے کے سب سے اونچے برج، حیا کے خیام کی سب سے پکی سہار، سخا کے آسمان کے سب روشن ستارے‘‘ اور مظلومی کی کائنات کے جوہر امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفّان رضی اﷲ عنہ کی ذات گرامی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاکیزہ محنت کے مقدس ثمرات میں بھی امتیازی ترین شانِ رفیع کی حامل ہے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کے وجود ِ مطہّر کو کچھ ایسے مکارمِ عالیہ اور مدارجِ رفیعہ بھی نصیب ہوئے جو کائنات میں کسی کو میسر نہیں ہوئے۔ آپ قیامت تک کے لیے آنے والے مؤمنین صابرین کے لیے ایسا بلند معیار قائم کر گئے ہیں کہ اس تک پہنچنے کا سوچنے سے بھی دانتوں پر پسینا آ جاتا ہے۔
زیرِ نظر کتاب آپ رضی اﷲ عنہ کی حیاتِ پاک ، اوصاف عالیہ، محاسنِ کریمہ اور مظلومانہ شہادت کے حوالے سے ایک جامع تر مجموعہ ہے، جسے فاضل مؤرخ اور مؤلّف جناب مولانا ابو محمد ثناء اﷲ سعد شجاع آبادی نے ترتیب دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔ مولانا ثناء اﷲ شجاع آبادی ہمارے زمانے کے موفّق اہلِ قلم میں سے ہیں کہ انھیں بہت لکھنے کا موقع ملا ہے، اور جو انھوں نے لکھا ہے اس کا غالب حصہ حضرت سرورِ دو عالم ختمی مرتبت سیدنا و مولانا محمد رسول اﷲ ، آپ کے اصحاب گرامی علیہم الرضوان اور مقدّسین امّت کے مبارک احوال و مناقب کے متوازن اور قابلِ اعتماد تذکرے پر مشتمل ہے۔ اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے۔
کتاب کی ترتیب بارہ ابواب پر مشتمل ہے، جن میں صاحبِ سیرت حضرت غنی ِ اکرم رضی اﷲ عنہ کی سیرت طیبہ کے مختلف ادوار اور مختلف پہلوؤں پر معلومات جمع کی گئی ہیں۔ مثلا ان ابواب میں سیدنا عثمان عہدِ رسالت میں، سیدنا عثمان استحقاقِ خلافت اور انتخابِ خلافت، عہدِ خلافت میں سیادت اور قیادت کے قرینے، فتوحاتِ عثمانیہ اور اہم دینی کارنامے، سیدنا عثمان کے سیّدنا علی المرتضیٰ اور دیگر اکابر صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے تعلقات، سیدنا عثمان ذو النورین کے حکامِ سلطنت اور صحابہ کرام کے بارے میں مطاعن کی تحقیق اور ذاتی اوصاف و فضائل کے ابواب مفصّل اور مرتّب انداز میں باندھے گئے ہیں۔
امامِ ثالثِ راشدو عادلِ بر حق رضی اﷲ عنہ کی مظلومانہ شہادت تاریخ اسلام کا وہ اندوہناک واقعہ ہے جس کے بعد سے دنیا نبوی زمانے کی امن و امان کی برکات سے محروم ہوئی اور آج تک اُس پاکیزہ دور جیسے سکون کی نعمت سے نا آشنا ہے۔ گویا آپ کی ذاتِ عالی وہ حدِّ فاصل ہے جو دورِ نبوّت اور عام انسانی زمانوں کی حاکمیت کے درمیان جوہری فرق ہے۔ اس طرح آپ کی حیاتِ طیّبہ کا مطالعہ ایک طرح سے خود ذاتِ رسالت مآب صلّی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیّبہ کے تسلسل کا ہی مطالعہ ہے۔ قرآن مجید میں پچھلی امّتوں کے جرائم میں انبیاء کو قتل کرنے کے مذموم ترین حرکت کا بیان ملتا ہے۔ سیّدنا ومولانا عثمان بن عفّان رضی اﷲ عنہ کی حیات ِ کریمہ اور پھر مظلومانہ شہادت کا تذکرہ پڑھنے سے کسی قدر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کوئی انسان اتنا کوڑھی اور مریض کیسے ہو سکتا ہے کہ اوصاف نبوّت کے نور سے ایسا عناد پیدا کر لے کہ معاذ اﷲ قتل کے بد ترین جرم کا ارتکاب کر گزرے۔ زیرِ نظر کتاب میں سیّدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے پس منظر اور واقعات کے حوالے سے دو ابواب میں تفصیلی بحث (ص:۳۸۱ سے ص:۶۴۹ تک) کی گئی ہے جو اس حادثۂ فاجعہ کی ہولناکی کو سمجھنے میں کسی قدر مدد گار ہے۔
کتاب کے آخر میں اشاریہ اور مصادر و مراجع کی فہرست کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ اکثر اوقات حوالہ دیتے ہوئے مصادر کا پورا تعارف درج نہیں کی گیا، چنانچہ آخر میں کتابیات کا اضافہ ضرور ہونا چاہیے تھا، جو غالباً طوالت کے ڈر سے نہیں کیا گیا۔ پروف کی غلطیوں کی اوسط اندازے کے مطابق ہر تیسرے صفحے پر ایک غلطی کی حد تک ہے۔ جس میں بہت بہتری کی گنجائش ہے۔
نام :مولانا عبید اﷲ سندھی اور دیگر مشاہیر تحریر:مولانا غلام مصطفی قاسمی رحمہ اﷲ مرتّب: محمد شاہد حنیف
ضخامت:۳۰۲ صفحات قیمت: ۴۰۰ روپے ناشر: علامہ غلام مصطفی قاسمی چیئر، سندھ یونیورسٹی، جام شورو
مولانا غلام مصطفی قاسمی مرحوم و مغفور ماضی قریب کے معروف محقق اور اہلِ قلم عالمِ دین تھے۔ انھیں امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اﷲ سندھی قدس سرّہ سے استفادہ کرنے کی سعادت حاصل تھی، اور حضرت مولانا سندھی کے اکثر تلامذہ کی طرح وہ بھی اپنے جلیل القدر استاد کے افکار و علوم کے والہ و شیدا اور ان کے محاسن کے تذکرہ خواں رہتے تھے۔ ان کی ساری عمر شاہ ولی اﷲ اکیڈمی حیدر آباد سندھ کے نام سے حضرت مولانا سندھی کے معارف طیبہ کی تفہیم و تشریح اور ترتیب و اشاعت میں گذری۔ شاہ ولی اﷲ اکیڈمی سے ’’الولی‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ نام کے دو مؤقر جرائد کی اشاعت بھی ان کی ادارت میں ہوتی رہی، جن میں وقیع علمی و فکری مقالات شائع ہو کر اہلِ علم و دانش میں مطبوعِ خاطر اور مقبولِ عام ہوتے رہے۔
زیرِ نظر کتاب حضرت مولانا غلام مصطفی قاسمی کے مختلف شذرات اور مضامین کا مجموعہ ہے جو انھی دونوں رسائل (’’الولی‘‘ اور ’’الرحیم‘‘) میں مختلف اوقات میں شائع ہوتے رہے۔ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ امام سندھی قدس سرّہٗ کے بارے میں مولانا غلام مصطفی قاسمی کے مضامین پر مشتمل ہے، جن میں حضرت سندھی کے بعض شخصی و علمی محاسن کی صورت گری کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں انھی رسائل میں شائع ہونے والے مختلف مشاہیر و اعلام کے تعارفی طرز کے شذرات ہیں۔ ان مشاہیر و اعلام کی غالب اکثریت حضرت مولانا سندھی یا پھر استخلاصِ وطن اور ہندستان کی تحریک آزادی سے ہی کسی نہ کسی حد تک انتساب رکھتی ہے۔ان شذرات میں سے اکثر کی نوعیت تعزیتی اور اطلاعاتی ہے، لہذا ان میں بہت سی اہم تاریخی معلومات یکجا ہو گئی ہیں۔کتاب کا تیسرا حصہ صاحب ِ کتاب مولانا غلام مصطفی قاسمی مرحوم و مغفور کی اپنی سوانحِ حیات اور کچھ علمی اسفار کی روداد پر مشتمل ہے۔ گویا بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو یہ کتاب تحریکِ آزادیٔ ہند کے اس حلقے کے رجالِ کار کے تعارف پر مشتمل ہے جو حضرت امام سندھی قدس سرّہٗ کی رہنمائی میں آزادیٔ وطن اور غلبۂ دین کی جدّ و جہد میں مشغول تھا۔
کتاب کے آخر میں استفادے کو سہل بنانے کے لیے اشاریہ بھی شامل کیا گیا ہے، جسے خود مرتّب کتاب جناب محمد حنیف شاہد نے ہی تیار کیا ہے۔ اس کتاب کے مضامین ’’الولی‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ کے پرانے فائلوں میں روپوش اور قارئین کی نظروں سے اوجھل تھے، محترم مرتّب تحریکِ ولی اللّٰہی کے مؤرخین اور دلچسپی رکھنے والے قارئین کی جانب سے شکریے کے مستحق ہیں کہ اس اہم تاریخی ذخیرے سے زمانے کی گرد جھاڑ پھونک کر اسے منظر عام پر لائے۔
کتاب کی اشاعت مناسب اور طباعت صاف ستھری ہے، البتہ پروف کی صحت (خصوصاً عربی فارسی عبارات کی تصحیح) پر مزید توجہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔