منصوراصغرراجہ (دوسری قسط )
صوفی مسعود لاثانی سرکار کی تصانیف پر گہری نگاہ رکھنے والے علمائے کرام کا دعویٰ ہے کہ یہ شخص اپنی کتاب ’’وارث فقر ‘‘میں متعدد مقامات پر توہین ذات باری تعالیٰ کا مرتکب ہوا ہے ۔اس نے مرزا قادیانی کی پیروی کرتے ہوئے خداتعالیٰ کی صفت ’’ کُن ‘‘کو اپنے ساتھ جوڑنے کی سعی کی ہے ۔اس سلسلے میں مفتی سید مبشر رضا قادری نے ’’امت‘‘کو بتایا کہ ’’اگر لاثانی سرکار کی کتاب ’’وارث فقر ‘‘کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے بے سروپا دعوے پڑھ کرانسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔اس شخص نے مذکورہ کتاب میں متعدد مقامات پر صریحاً توہین ذات باری تعالیٰ کا ارتکاب کیا ہے ۔اس کی چند مثالیں پیش ہیں۔وہ ’’وارث فقر ‘‘میں صفحہ 12پر لکھتا ہے کہ ’’میں اﷲ کے رنگ میں رنگا ہوا ہوں‘‘۔صفحہ 17پر لکھتا ہے کہ ’’میں اﷲ ہی ہوں‘‘۔صفحہ 40اور صفحہ 97پر اس نے یہ لکھا ہے کہ کسی بھی انسان کے اندر جب فقر مکمل ہو جائے تو وہ اﷲ بن جاتا ہے ۔اس کی عربی عبار ت کچھ یوں ہے کہ ’’ فاذا تم الفقر و ھو اﷲ ‘‘۔۔۔عربی زبان و ادب سے شناسائی رکھنے والے لوگ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اس ایک عربی عبارت کا اصل مطلب کیا ہے کہ لاثانی سرکار بات کو کس طرف لے کر جا رہا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے ’’وارث فقر ‘‘میں خود کو آخری سب سے بڑا فقیر قرار دیا ہے ۔صفحہ 205پر اس نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ’’میں آخری حبیب فقیر ہوں ۔‘‘پھر اسی کتاب میں پیر لاثانی سرکار نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ جو مرضی کرتا پھرے ،اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔’’وارث فقر ‘‘کے صفحہ 167پر وہ لکھتا ہے کہ اس پر اﷲ کا کلام نازل ہوا کہ اسے ہفتے میں سے دو دن جمعرات اور جمعہ دے دیئے گئے ہیں ۔ان میں وہ جو چاہے کرے،اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ یہ صفت تو خاص رب تعالیٰ کی ہے جو دونوں جہانوں کا خالق و مالک ہے ۔جب کچھ بھی نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب سب کچھ فنا ہو جائے گا تو صرف اسی کی ذات باقی رہے گی اور یہ اس ذات اقدس کی خاص صفت ہے کہ اس کے افعال کے بارے میں اسے کوئی پوچھ نہیں سکتا ۔جب مخلوق سے اس کے اعمال پر پوچھنے والی ذات خود باری تعالیٰ ہے ۔تو کیا پھر لاثانی سرکار ایسا دعویٰ کرکے خود کو باریٰ تعالیٰ سے ملانے کی جسارت کررہا ہے؟‘‘(نعوذ باﷲ )
مفتی مبشر مزید بتاتے ہیں کہ ’’پیر لاثانی سرکار نے ایک اور ڈرامہ شروع کررکھا ہے جو مرزا قادیانی کے اسی طرز کے ایک ڈرامے سے گہری مماثلت رکھتا ہے ۔ذات باریٰ تعالی کی ایک صفت ِ خاص ’’کن فیکون ‘‘بھی ہے کہ رب اللعالمین جب کسی کام کے کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو وہ لفظ ’’کُن ‘‘ارشاد فرماتے ہیں اور وہ کام ہو جاتا ہے ۔باری تعالیٰ کی اس صفت خاص کا قرآن مجید میں سورۃ بقرہ کی آیت 117،سورۃ آل عمران کی آیت 45سمیت کتاب اﷲ میں قریباً 9مقامات پر تذکرہ ہوا ہے ۔اسلامی تاریخ میں پہلی بار صفت ’’ کُن‘‘کو اَپنانے کا دعویٰ مرزا قادیانی نے کیا تھا ۔وہ اپنے مجموعۂ کتب ’’روحانی خزائن ‘‘ جلد 22صفحہ 714پر لکھتا ہے کہ ’’مجھ پر وحی نازل ہوئی کہ ’’انما اَمرک اذا اردتہ شیاً ان تقول لہُ کن فیکون‘‘ ترجمہ یہ ہے کہ تُو (یعنی مرزا قادیانی )جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرئے تو تُو کُن کہہ تو وہ کام ہو جائے گا ۔‘‘اہم بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی کے بعد اب صوفی مسعود لاثانی سرکار وہ دوسرا شخص ہے جو اپنی کتاب ’’وارث فقر ‘‘میں بالکل ایسا ہی دعویٰ کررہا ہے ۔اس نے ’’وارث فقر ‘‘میں صفحہ 29پر ایک عنوان دیا ہے ’’صاحب ِ امر ‘‘،اس عنوان کے تحت وہ لکھتا ہے کہ ’’ فقیر صاحب ِ امر ہوتا ہے ۔اسے صفت ِ کُن کی بادشاہت عطا ہوتی ہے ۔‘‘تھوڑا سا آگے جا کر پھر لکھتا ہے ’’جملہ اشیاء اس کے لفظ کُن سے متاثر ہونے لگتی ہیں۔‘‘پھر چند جملوں کے بعد لکھتا ہے کہ ’’وہ (یعنی فقیر )کونین کا حاکم ہوتا ہے ۔عالمین کا سلطان اور بادشاہ ہوتا ہے ۔‘‘چند جملوں کے پھر لکھتا ہے کہ ’’جب فقیر اپنی کامل حالت کو پہنچتا ہے تو فقیر سے اﷲ کی تجلی ظاہر ہوتی ہے ۔‘‘قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سے پہلے صفحہ 11پر لاثانی سرکار یہ لکھ چکا ہے کہ ’’جب فقر تمام ہوتا ہے تو پھر فقیر اﷲ کی ذاتی تجلی یا درجہ خداوندی سے نوازا جاتا ہے ۔‘‘جبکہ اس سے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ لاثانی سرکار نے اس کتاب میں خود کو آخری فقیر قرار دیا ہے ۔ اب اس طرح کے دعوے کرناکہ مجھے صفت ِ’’کن ‘‘عطا کی گئی ،یہ توہین باری تعالیٰ نہیں تو اور کیا ہے ۔باری تعالیٰ کی تجلی کا بوجھ تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام جیسے لاڈلے پیغمبر بھی نہیں اٹھا سکے تھے تو پھر یہ لاثانی سرکار کس کھیت کی مولی ہے ۔جبکہ باری تعالیٰ کی یہ صفات مسلمانوں کے بنیادی عقیدے کا حصہ ہیں۔ شرح اکبر ،شرح عقائد نصفیحہ اور النبراس جیسی معتبر کتب میں انہیں مسلمہ عقائد لکھا گیا ہے کہ یہ صفات صرف خاص رب تعالیٰ کی ہیں۔ہمیں تو ’’وارث فقر ‘‘کو پڑھ کر خوف آتا ہے کہ یہ شخص اپنے پیروکاروں کو کس گمراہی کی طرف لے کر جارہا ہے ۔علما ئے کرام کو بلاامتیاز مسلک اس فتنے کا فوری سد باب کرنا چاہئے ‘‘۔
اہم بات یہ ہے کہ ’’وارث فقر ‘‘نامی کتاب پڑھنے والے علما کرام لاثانی سرکار کے خلاف سخت تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں ۔جامعہ علمیہ اچھر ہ لاہور کے مہتمم ڈاکٹر مفتی کریم خان اہلسنت بریلوی مکتب فکر کے معروف عالم دین ہیں ۔پیر لاثانی سرکار کی کتاب ’’وارث فقر ‘‘ان کی نظر سے بھی گزر چکی ہے ۔انہوں نے اس سلسلے میں ’’امت‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’صوفی مسعود لاثانی سرکار نے اپنی کتاب ’’وارث فقر ‘‘میں جس طرح کے دعوے کئے ہیں اور ذات باری تعالیٰ کے بارے میں جو خرافا ت رقم کی ہیں ،وہ نہ صرف ذات باری تعالیٰ کی توہین ہیں،بلکہ فرشتوں اور انبیاء کرام کی بھی توہین ہیں ،کیونکہ اس کتاب میں اس نے ایسی بہت سی باتوں کو حبیب فقیر یعنی اپنی ذات کے ساتھ جوڑنے کی جسارت کی ہے جو خاص ذات باری تعالیٰ ، فرشتوں یا پھر انبیاء کرام کی صفات ہیں ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ صوفی مسعود لاثانی سرکار خود بھی ایک گمراہ شخص ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کر رہا ہے ۔ایسے آدمی کی شرعاً بیعت کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ ‘‘
صوفی مسعود لاثانی سرکار کے خلاف بولنے اور لکھنے والوں کو اس کے پیروکاروں کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اردو بازار لاہور میں مکتبہ شاہ نفیس کے مالکان کو لاثانی سرکار کے پیروکاروں کی دھمکیوں سے تنگ آکراپنا کاروبار بند کرنا پڑا ۔اس سلسلے میں ذمہ دار ذرائع نے ’’امت‘‘کو بتایا کہ قریباً تین سال پہلے کراچی کے معروف عالم مولانا رب نواز حنفی نے لاثانی سرکار کے حوالے سے’’فرقہ لاثانیہ ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی، جسے ادارہ نور سنت کراچی نے شائع کیا ۔کتاب کے شروع میں لاہور کے چار سٹاکسٹ اداروں کے نام و پتے بھی دیئے گئے جہاں سے مذکورہ کتاب خریدی جا سکتی تھی ۔ان چار سٹاکسٹ میں مکتبہ سید احمد شہید ،مکتبہ الحسن ، مکتبہ دارالایمان اور مکتبہ شاہ نفیس شامل تھے ۔ذرائع کے مطابق مذکورہ کتاب چھپتے ہی لاثانی سرکار کے مبینہ پیروکاروں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ۔اس سلسلے میں کچھ لوگوں نے سب سے پہلے تو اِن چاروں کتب فروشوں کے خلاف تھانہ نیو انار کلی میں مقدمہ درج کرانے کے لئے درخواست دی ۔ مقدمہ تو درج نہ ہوا ،البتہ پولیس نے ان کتب فروشوں کے پاس آنا جانا شروع کردیا ۔ذرائع کے مطابق پولیس اہلکاروں نے ان کتب فروشوں کو خاصا پریشان کئے رکھا۔پولیس اہلکار جب بھی ان کتب فروشوں کے پاس آتے تو ان سے کچھ نہ کچھ ’’چائے پانی ‘‘بھی لیتے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ ’’ہم مجبور ہیں۔ہمیں علم ہے کہ آپ لوگوں نے یہ کتاب چھاپی بھی نہیں ،لیکن ہم کیا کریں کہ ہم پر اُوپر سے پریشر بہت زیادہ ہے ‘‘۔ذرائع کے مطابق اسی دوران لاثانی سرکار کے کچھ مبینہ پیروکاروں نے مکتبہ شاہ نفیس کے مالکان کو قتل کی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔چار نامعلوم آدمی دو بار مکتبہ شاہ نفیس پر بھی آئے اور وہاں مالکان کو یہ دھمکی دے کر گئے کہ ’’اگر تم لوگوں نے ہمارے پیر صاحب کے خلاف کچھ لکھنے یا چھاپنے کی کوشش کی تو تمہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ ‘‘علاوہ ازیں نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکی آمیز فون کالز بھی آنے لگیں ۔اس ساری صورتحال سے تنگ آکر مکتبہ شاہ نفیس کے مالکان کو اپنا ادارہ بند کرنا پڑا ۔
متحدہ مجلس عمل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور اہلسنت بریلوی مکتب فکر کی نامور شخصیت صاحبزادہ شاہ اویس نورانی نے اس سلسلے میں ’’امت‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’صرف ایک لاثانی سرکار نہیں بلکہ یہاں تو ہر گلی محلے میں لاثانی سرکار بیٹھے ہوئے ہیں ۔مزارات اور درگاہوں کی اکثریت ایسے لوگوں کے قبضے میں ہے جن کا دین ،تصوف اور روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ۔ایسے لوگ صرف شعبدہ باز ہیں۔ایسے لوگوں کے زیر قبضہ درگاہوں پر ڈھول دھمال ،منشیات فروشی اور گندے تعویزوں کے دھندے چل رہے ہیں،لیکن افسوس یہ ہے کہ ان شعبدہ بازوں کا تعاقب کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ان کی نسبت بریلوی مسلک کے ساتھ جوڑ دی جاتی ہے حالانکہ ان کا کسی مسلک سے تعلق نہیں ہے ۔ایسے عناصر کے خلاف علما و مشائخ کو بلاامتیاز مسلک آواز اٹھانی چاہئے ،کیونکہ ان لوگوں کی وجہ سے بریلوی مسلک نہیں بلکہ دین اسلام بدنام ہو رہا ہے ۔اس لئے تمام مکاتب فکر کے علما کرام کو اپنی سوچ وسیع کرتے ہوئے لاثانی سرکار جیسے پیروں اور سجادہ نشینوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہئے ۔ایک سوال کے جواب میں صاحبزادہ اویس نورانی نے کہا کہ ’’اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اب اوقاف کے بہت سے مزارات پر این جی اوز کا عمل دخل بڑھ گیا ہے جو وہاں شراب ،چرس اور گانجے کا انتظام کرتی ہیں۔غلط حرکات کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔اب سیہون شریف کی مثال لے لیں۔جہاں عورتیں تک چرس پی رہی ہوتی ہیں۔پھر ایسی شعبدہ بازیوں کا نتیجہ سرگودھا میں جعلی پیر کے ہاتھوں ڈیڑھ درجن مریدوں کے قتل کی صورت میں نکلتا ہے ۔اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ان آستانو ں اور درگاہوں کے سلسلے میں بھی قانون سازی کرے اور یہاں ہونے والی غیر شرعی اور غیر اخلاقی حرکات پر پابندی عائد کرے۔‘‘ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’فیصل آباد کے لاثانی سرکار کی حرکات سخت قابل گرفت ہیں ۔اس کی اب تک جو ویڈیو ز اور کتابیں سامنے آ چکی ہیں، جن کی خرافات کے سوا کچھ بھی نہیں ،ان کی بنیاد پر اُس شخص کو قانون کی گرفت میں لانا چاہئے ۔ایسے لوگ اسلام یا مسلک کی ترجمانی نہیں کرتے بلکہ دین کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں ۔صوفی ازم اور تصوف ان خرافات کا نام نہیں ہے بلکہ تصوف تو قرب الٰہی اور ذکرالٰہی سے جڑا ہوا ہے ۔ ‘‘
رکن پنجاب اسمبلی اور ضلع منڈی بہاء الدین کے معروف دینی و روحانی مرکز آستانہ عالیہ بھکھی شریف کے سجادہ نشین پیر سید محفوظ مشہدی نے اس سلسلے میں ’’امت‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح پیر لاثانی سرکا ر اپنے پیروکاروں کو خواب سناتا ہے اور انبیاء و اولیاء کی زیارتیں کراتا ہے ،اس بارے میں صرف یہ کہوں گا کہ جو شخص شریعت ِ مصطفیٰ ؐ کے بارے میں اپنا علم ثابت کرنے کے لئے اشاروں ،خوابوں اور زیارتوں کا سہارا لے ،تو یہ اس کا علم نہیں بلکہ شیطانی مکرو فریب ہے ۔اگر کوئی شخص اپنے خواب کو بنیاد بنا کر شریعت کے خلاف کوئی حکم پیش کرتا ہے۔ خواہ اس کے لئے وہ کسی نبی اور پیغمبر کا ہی حوالہ کیوں نہ دے ،تواس میں بھی اُس کی قوت متخیلہ کا عمل دخل ہو گا ۔قوت متخیلہ بنیادی طور پر تصوف کی اصطلاح ہے ۔حضرت مجد د الف ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حقیقت میں بھی کوئی ایسی چیزدیکھے،جس سے وہ کوئی ایسا حکم اخذ کرلے جو ظاہری طور پر شریعت کے خلاف ہو تو اس میں اس شخص کی قوت متخیلہ کا دخل ہے اور اس کانظریہ باطل ہے ۔اس لئے عامۃ الناس کو لاثانی سرکار جیسے لوگوں کی بیعت سے گریز کرنا چاہئے ۔‘‘
اسی سلسلے میں جب جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم ڈاکٹر مفتی راغب نعیمی سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ’’صوفی مسعود لاثانی سرکار کی کوئی کتاب اب تک میری نظر سے نہیں گزری،اس لئے میں فی الحال اس موضوع پر کوئی مفصل رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں ۔البتہ انٹرنیٹ پر ان کی جو چند ویڈیوز دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ،وہ تو واقعی قابل گرفت ہیں ۔ہمارے جامعہ کا دارالافتا لاثانی سرکار کی تحریر و تقریر کو دیکھنے کے بعد ہی کوئی متفقہ اور ٹھوس رائے دے گا ‘‘۔