احمد خلیل جازم (پہلی قسط)
ڈاکٹرمحمد آصف ملتان میں پیدا ہوئے ،اور پیدائشی مسلمان ہیں ، بعد میں انہیں قادیانیوں نے اپنے نرغے میں لے کر قادیانی کرلیا،انہیں ربوہ سمیت قادیان(ہندوستان) لے کر گئے، ملتان میں قادیانیوں کی تنظیم نے انہیں بعض اہم ترین ذمہ داریاں تفویض کیں، انہوں نے آٹھ برس قادیانیت کو نہایت قریب سے دیکھا اور لوگوں کو قادیانیت کی دعوت دینا شروع کردی، جب مرزا غلام احمد کا مجموعہ کتب ’’روحانی خزائن‘‘ پڑھنا شروع کیا تو انہیں احساس ہوا کہ یہ شخص مسیح موعوداور امام زمانہ نہیں بلکہ نفسیاتی مریض تھا، جس نے احساس برتری کے زعم میں کبھی خود کو رسول ، کبھی نبی اور کبھی مسیح موعود کہنا شروع کردیا۔ ڈاکٹر آصف اس وقت ملتان میں ہیں اور پاکستان میں شاید واحد ختم نبوت کے داعی ہیں جو قادیانیوں کو دعوت اسلام دینے میں مصروف ہیں ،جہاں پانچ کے قریب قادیانیوں کے بیت الذکر ہیں، وہاں وہ تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ ہم ہی احیائے اسلام کاکام کررہے ہیں۔2011ء میں ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ کلمہ پڑھ کر ایمان کی تجدید کی اور اس وقت سے لے کر آج تک پندرہ کے قریب قادیانی علی الاعلان مسلمان کرچکے ہیں جب کہ لاتعداد قادیانی دل سے مسلمان ہوچکے ہیں لیکن خاندان کے خوف سے اعلان کرنے سے کترا رہے ہیں۔ڈاکٹر آصف کی زندگی میں لاتعداد اُتارچڑھاؤ آئے ، جن کے بارے میں انہوں نے خود بیان کیا۔ڈاکٹر آصف کی گفتگواتنی سادہ اور پر تاثیر ہے کہ جو بھی ان سے بات کرتا ہے ،وہ صرف انہیں سننے کا آرزو مند رہتا ہے ۔ان کی کہانی انہی کی زبانی پیش خدمت ہے :
’’ میرا تعلق ملتان سے ہے، میرا ددھیال زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے ،جب کہ میرا ننھال علماء دین پر مشتمل ہے،ان کے پاس دینی ذمہ داریاں ہیں۔میرے والد صاحب الیکٹریشن تھے جو کہ سعودی عرب میں مقیم تھے، بھائی بھی اسی شعبے سے وابستہ تھے،ہم چار بھائی ہیں اور میں سب سے چھوٹا ہوں۔میں نے ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی اور 1995ء میں میٹرک کرلیا،بعد ازاں میں نے ملتان سول لائنز کالج میں داخلہ لے لیا اور ایف اے کا امتحان دیا،اِسی دوران مجھے ہومیو پیتھک سے دلچسپی شروع ہوئی اور میں نے ہومیوکالج میں پڑھنا شروع کردیا،دوران تعلم اس کالج میں احسن نامی ایک قادیانی نوجوان سے ملاقات ہوئی۔اس سے سرسری انداز میں قادیانیت کے بارے معلوم ہوا، لیکن تفصیل سے قادیانیوں کے بارے میں ایک اور شخص جو کہ شعبہ تعمیرات کا انجینئر تھا ، اس سے معلوم ہوا،اس وقت تک میرا قادیانیوں کے بارے میں اتنا ہی علم تھا، جتنا ایک عام مسلمان کاہوتاہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺکی ذات گرامی کے بعد ایک اور نبی بنا لیا ہے۔ اس وجہ سے یہ دین اسلام سے خارج ہیں۔میرے ایک دوست کا گھر بن رہا تھا، وہاں وہ اس کی دیکھ بھال کررہا تھا، ہم اس انجینئر سے تعمیرات کے حوالے سے معلومات لیتے تھے کہ میٹریل کہاں، کہاں اورکتنا استعمال ہوتا ہے ؟اسی دوران مذہب کے حوالے سے بات چلی تو اس نے جھجکتے ہوئے کہا کہ وہ احمدی ہے۔ مجھے اُس وقت تک احمدیوں کے بارے میں معلوم نہ تھا ، اس نے بتایا کہ جسے آپ لوگ قادیانی یا مرزائی بھی کہتے ہیں، لیکن ہم مسلمان ہیں۔اسلام کے ارکان ادا کرتے ہیں،ہم نماز ، روزہ حج اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے علماء نے ہمیں ویسے ہی کافر قرار دے رکھا ہے۔ ہم تو باقاعدہ مسلمان ہیں،مجھے اس کی باتوں پر یقین نہ آیا ، اس نے بارہا یہ توجہ دلائی کہ ہم مسلمان ہیں،مجھے بڑا عجیب محسوس ہوا کہ یہ تو کافر ہیں۔ پھر کس طرح ارکان اسلام کے پابند ہیں۔اس نے ایک دن کہا کہ قریب ہی ہمارا بیت الذکرہے ، وہاں ہمارے مربی صاحب ہیں ، انہیں زیادہ علم ہے، وہ آپ کو حوالہ جات کے ساتھ تما م سوالات کا جواب دے سکتے ہیں،پہلے تو میں جھجکا، پھر سوچا کہ چلو انکا موقف سن لینے میں کیا حرج ہے ، وہاں جو مربی تھا، وہ کافی عمر رسیدہ تھا، اور وہ تازہ تازہ یہاں آیاتھا، پہلے کسی افریقی ملک میں تھا اور اب ملتان میں تعینات ہوا تھا، اس سے بات چیت ہوئی، اس نے کہا کہ ہم وہی کلمہ پڑھتے ہیں،جو آپ پڑھتے ہیں، نماز بھی مسلمانوں والی پڑھتے ہیں، سارے اعمال مسلمانوں والے ہیں ، بس ہم مسجد کے مینار نہیں بنا سکتے ،ہم پر پابندیاں عاید کردی گئی ہیں، ہم نبی کریمﷺکو بھی مانتے ہیں،اس نے قادیانیوں کی مظلومیت کی خوب نقشہ گری کی۔اس کا کہنا تھا کہ ہم تو پاکستان بننے کے کئی برس بعدتک مسلمان کہلاتے رہے۔ یہ ظلم تو ہم پر ستّر کی دہائی میں علماء کی وجہ سے ہوا۔قومی اسمبلی سے ہم مسلمانوں کو کافر قرار دیا گیا، اور 1984ء میں آرڈیننس کے تحت ہمارے کلمہ پڑھنے ،نماز پڑھنے اور مسجد بنانے پرپابندی عاید کی گئی ۔
میں نے ان سے سوالا ت کیے کہ ہم نے تو سناہے آپ جسے امام زمانہ اور مسیح موعود کہتے ہیں ۔وہ توبہت بری موت مرے ہیں ،سنا ہے بیت الخلا میں مرے تھے، تو اس نے کہا کہ دیکھیں یہ تو ہمارے گھر کا مسئلہ ہے نا، اس کے متعلق تو ہمیں بتانا چاہیے،کسی اور کو کیا پتہ ،ایسا نہیں ہے ،حضرت صاحب کو بار بار پیچش آرہے تھے، بیت الخلا تو جا ہی نہیں سکتے تھے، البتہ ان کی فراغت کے لیے ساتھ ہی جگہ بنا دی گئی تھی، اور شام کواُن کا انتقال ہوگیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ نے ربوہ میں جنت بنائی ہوئی ہے تو اس نے وضاحت کی کہ ایسا نہیں ہے۔ بس وہاں ایک بہشتی مقبرہ ہے،قبرستان ہے ، اس کا نام ہمارے مرزا صاحب نے بہشتی مقبرہ رکھاہے، اس پر ہمار ا تصور بھی ویسے ہی ہے کہ جیسے جنت البقیع میں دفن ہونے والا بہشتی ہوگا، یعنی ہمارا بھی یہی تصور ہے کہ ربوہ میں دفن ہونے والے والے کے لیے آگے آسانیاں ہوں گی، اور وہ جنتی ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے مجھے حضرت عیسیٰ کی وفات کے بارے قرآن سے آیات بھی پیش کیں۔کہ ایک مردہ شخصیت کو زندہ ثابت کرکے اتنی بڑی غلط فہمی امت مسلمہ میں پڑگئی ہے، اور امت ان کے انتظار میں ہے ، کچھ آیات کے بعد ان آیات کی تائید میں کچھ احادیث بھی پیش کیں،چنانچہ اس نے ثابت کیا کہ ان آیات اور احادیث کی رُو سے وہ وصال فرما گئے ہیں۔میں نے وہ آیات اور احادیث نوٹ کرلیں اور کہا کہ میں عالم نہیں ہوں یہ تمام باتیں نوٹ کرکے میں کسی عالم دین سے بات کروں گا۔تین گھنٹے ملاقات رہی ، اس وقت میری عمر 22برس کے قریب تھی ، اور مجھے دین کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا، اس نے مجھے کہاکہ تحقیق ضرور کیجیے ،لیکن ایک بات کا خیال کریں کہ آپ جس عالم دین سے بات کریں گے وہ آپ کو قادیانی سمجھے گا۔میں نے کہاکہ میں مسلمان ہوں اور دین سمجھنا میرا حق ہے۔ یہ بات مجھے علماء ہی سمجھا سکتے ہیں اور کس کے پاس جاؤں گا،بہرحال اس نے احتیاط کا مشورہ دیا اور میرا فون نمبرلے کر کہا کہ ایسا ہی ہوگا جو سلوک ہمارے ساتھ ہورہاہے ہمارے بارے میں تحقیق کرنے والے کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتاہے۔
میں نے واپس آکر ایک عالم دین سے بات کی ، تو اس نے کوئی خاص توجہ نہ دی اور کہا کہ نہیں وہ بدبخت ہیں، لعنتی اور کمینے ہیں، لیکن میرے سوالات کے جواب نہ دئیے۔میں نے کہا کہ میں نے ان کے بیت الذکر جاکر دیکھا ہے ۔وہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور میرے سامنے نماز عصر بھی ادا کی ، ان عالم دین نے مجھے کہا کہ تم قادیانی بدبختوں کے پاس گئے تھے ، وہ تو ختم نبوت کے ڈاکو ہیں ، تم قادیانی ہوگئے ہو،ا ن سے ملنا حرام ہے۔میں نے کہا وہ تو خودکو مسلمان کہتے ہیں۔بعد میں اندازہ ہوا کہ اصل وجہ یہ تھی کہ ان عالم دین کو بھی اتنا علم نہ تھا، لیکن انہوں نے مجھے متنازعہ بنادیا،میں نے جس عالم دین سے پوچھنے کی کوشش کی۔ اس نے میرے سوالات کے جوابات دینے کے بجائے مجھے لعن طعن شروع کردی۔ میں بہت پریشان ہوا کہ اب تحقیق کیسے ہو، یہاں تو جس سے بات کی جائے وہ گلے پڑ رہاہے ۔چند روز بعد اُس قادیانی مربی کا فون آیا اورپوچھا کہ آپکی تحقیق کہاں تک پہنچی ، اب میرے ساتھ وہی سلوک ہورہا تھا جو اس نے بتایا تھا،مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ یہ [قادیانی]بیچارے تو واقعی بڑے مظلوم ہیں کہ میں صرف ان کے بارے کسی سے پوچھتاہوں تو مجھے لعن طعن کی جاتی ہے۔مجھے اس پر یقین آنا شروع ہوگیا، میں نے اسے کہا کہ میں تحقیق کررہاہوں۔ میں ایک اور مفتی صاحب سے ملا اور اسے اپنا نہ بتایا بلکہ ایک دوست کا حوالہ دیاکہ وہ یہ سوالات مجھ سے پوچھتا ہے، میں نے جو سوال کیے تو انہوں نے ان کے جواب دئیے تو اس پر مزید میں نے سوال اٹھائے کہ وہ آگے سے ان کے جواب میں یہ کہتاہے، تو انہوں نے مجھے کہا کہ یہ کام ختم نبوت والوں کاہے، بہتر ہے آپ ختم نبوت کے فلاں دفتر جاکر ان سے معلومات لیں۔میں ان مفتیان اور علماء دین کا نام بوجوہ نہیں لے رہا، نہ ان کی تضحیک مقصود ہے، صرف یہ بتانا ہے کہ وہ اپنے علم کو اس سطح پر لائیں کہ اگرکوئی مسلمان ان سے سوال کرے تو وہ اس کا تسلی بخش جواب دے سکیں۔ختم نبوت والوں سے جاکر پوچھا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں، تو میں نے کہا کہ میرے والد صاحب سعودی عرب سے پاکستان آکر الیکڑیشن کا کام شروع کرچکے ہیں اور میں ان کاہاتھ بٹاتا ہوں تو انہوں نے کہا کہ آپ کا یہ شعبہ نہیں ہے آپ وہی کام کریں جو کررہے ہیں،میں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں اور اگر کسی قادیانی نے مجھے اپنے دین کی تبلیغ کی ہے تومجھے بتائیں کہ ان آیات کا اس نے ترجمہ غلط کیاہے یا احادیث غلط پیش کی ہیں تاکہ وضاحت ہوسکے۔ان عالم دین نے میری باتوں کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے قادیانیوں پر لعن طعن کرناشروع کردی ، انہوں نے رسمی باتیں کرکے مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کی اور میں وہاں سے اٹھ آیا۔میں جو بات پوچھتا اس کی وضاحت کوئی عالم دین نہ کرتا ، بلکہ اس کے جواب میں لمبی چوڑی تقریر کردیتا، میرا مسئلہ حضرت عیسیٰ ؑکی وفات کے بارے آیات پر سوالات تھے، اور احادیث تھیں جن کا جواب کوئی نہیں دے پارہا تھا، دوسرے ان کے ارکان اسلام کی پابندی تھی۔ اسی دوران اس مربی کا فون آیا اور مجھے اس نے کہا کہ وقت نکالیں ربوہ سے ہمارے ایک مبلغ آرہے ہیں آپ انہیں سن لیں۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ قادیانی جو تبلیغ کاکام کررہے ہیں وہ ایسے علاقوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں دین کا علم بہت کم لوگ جانتے ہیں ۔جب کہ وہ خود بہت تیاری کے ساتھ تبلیغ کرتے ہیں،جس وجہ سے عام مسلمان قادیانی ہورہے ہیں۔چنانچہ ایک گھر میں ان کا مذاکرہ تھا، اور مجھے بھی بلوایا گیا،اتفاق سے اس روز مجھے فرصت تھی، اور میں وہاں چلا گیا، قریباً ساٹھ ستر کے قریب لوگ تھے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، قادیانی مذاکرہ کے حوالے سے بتاؤں کہ اس میں مرکزی مبلغ آتاہے اور جس قادیانی کے زیر تبلیغ کوئی ہوتاہے اسے سوال جواب کے لیے بلایا جاتاہے ، اس لیے وہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی جو اُن کے زیر تبلیغ تھے،اب میرے لیے اہم ترین فیصلے کی گھڑی آرہی تھی۔(جاری ہے)