مولانا مشتاق احمد چنیوٹی رحمۃ اﷲ علیہ
معیار نمبر ۱۹: انبیاءِ کرام متضاد باتیں نہیں کرتے:
حضرات انبیاء علیہم السلام کی یہ نشانی ہے کہ وہ متضاد گفتگو نہیں کرتے یعنی ایسا نہیں کہ وہ ایک وقت میں کچھ ہیں اور دوسرے وقت میں کچھ……اسی طرح ان کی وحی بھی تضادات سے پاک ہوتی ہے۔ اﷲ جل شانہٗ نے قرآن مجید کے منزل من اﷲ ہونے کی ایک یہ دلیل بیان کی ہے: وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافاً کَثْیْراً۔(النساء: ۸۲)
ترجمہ: ’’اگر یہ قرآن اﷲ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے‘‘۔
بعض افراد کو قرآن و حدیث میں جو تضاد نظر آتا ہے وہ حقیقی تضاد نہیں بلکہ لا علمی کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے۔ اگر قرآن مجید کی ان آیات کا شانِ نزول اور زمانۂ نزول اسی طرح احادیث مبارکہ کا شانِ ورود اور پس منظر معلوم ہو تو تضاد ختم ہو جاتا ہے۔
مرزا قادیانی کی گفتگو اور وحی و الہامات بے پناہ تضاد ہے صرف درج ذیل عنوانات سے اس کی تضاد بیانی کی وسعت کا اندازہ کیجیے۔
اﷲ تعالیٰ کی عظمت کا اقرار و توہین
انبیاء کرام کی عظمت کا اقرار و توہین
کتب سماوی کی عظمت کا اقرار و توہین
نبی کریم ﷺ کی عظمت کا اقرار و توہین
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کا اقرار و توہین
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول کا اقرار و انکار
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا اقرار و انکار
امام مہدی کے متعلق احادیث کا اقرار و انکار
مختلف شخصیات اور واقعات کے متعلق اقرار و انکار
ختمِ نبوّت کا اقرار و انکار وغیرہ
اس موضوع پر مولانا نور محمد سہارنپوری، محمد طاہر عبدالرزاق کے کتابچے اور احقر کی ایک مفصل کتاب شائع ہو چکی ہے جس کا نام ہے ’’قادیانیت کے دو چہرے‘‘، برطانیہ سے طبع ہوئی ہے۔ پاکستان سے چھپوانے کی کوشش جاری ہے۔ واﷲ المستعان۔
آمدم برسر مطلب! یہ تضاد بیانی مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کے خلاف بہت بڑی دلیل ہے۔
معیار نمبر ۲۰: انبیاءِ کرام کا کوئی وارث نہیں ہوتا:
حضرات انبیاءِ کرام دنیوی مال و جائیداد کے مالک نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کا کوئی وارث بھی نہیں ہوتا، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم انبیاء کی جماعت کا کوئی وارث نہیں ہوتا‘‘۔
عن عمر بن الخطاب قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا نورث ما ترکناہ صدقۃ
(صحیح بخاری، ج: ۲، ص: ۵۷۵، کتاب المغازی، باب: حدیث بنی النضیر و مخرج رسول اﷲﷺ)
حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
النبی لا یورث۔ (کنز العمال، ج: ۱۱، ص: ۴۷۴، رقم الحدیث: ۳۲۲۲۷)
مرزا قادیانی نے اپنے آباء واجداد سے کافی وسیع جائیداد پائی تھی جو کہ اس کے اپنے بقول ۱۸۸۰ء میں دس ہزار روپے مالیت کی تھی۔ (روحانی خزائن، ج: ۱، ص: ۲۸)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چندہ اور نذرانوں میں اضافہ کی وجہ سے اس جائیداد میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ ۱۹۰۷ء میں یہ کیفیت تھی کہ دو لاکھ سے زائد روپے آ چکے تھے۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۲۵۳)
مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد یہ جائیداد اور نقد روپیہ اس کی اولاد میں تقسیم ہوا حالانکہ ایسا ہونا شانِ نبوّت کے یکسر خلاف ہے۔
عبدالرحمن خادم گجراتی نے لا نرث و نورث کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (احمدیہ پاکٹ بک، ص: ۱۵۴، طبع جدید)
اگر یہ روایت درست مانی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاءِ کرام نہ خود کسی کے وارث ہوتے ہیں نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے۔
قادیانیوں کی اس تسلیم کردہ و تحریر کردہ روایت کی رو سے مرزا قادیانی کے نبی ہونے کی دوہری تردید ہوتی ہے، وہ اس طرح کہ مرزا قادیانی نے اپنے والد سے وراثت پائی اور اس کی اولاد نے اس سے، حالانکہ یہ دونوں امور شانِ نبوّت سے بعید ہیں۔
معیار نمبر ۲۱: انبیاءِ کرام سچائی کے پیکر ہوتے ہیں:
حضرات انبیاءِ کرام سچائی کے پیکر ہوتے ہیں، وہ نہ صرف خود سچ بولتے ہیں بلکہ اپنی امتوں کو بھی سچ کی تعلیم دیتے ہیں۔
مرزا قادیانی کا دعویٰ تھا کہ میں تمام انبیاء کا بروز ہوں اور اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء کے نام مجھے دیے ہیں۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۷۶حاشیہ )
اس کا دعویٰ ہے کہ ظلی طور پر محمداور احمد ہوں۔ (ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن، ج: ۱۸، ص: ۲۰۹)
لیکن حالت یہ تھی کہ جان بوجھ کر غلط بیانی کرتا تھا اور پھر ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے دو چار مزید جھوٹ بول لیتا تھا۔ ماہنامہ ’’نقیب ختمِ نبوّت‘‘ ملتان میں احقر کے پانچ مضامین شائع ہوئے ، ان میں احقر نے مختلف عنوانات کے تحت مرزا قادیانی کے چالیس جھوٹ جمع کیے ہیں، مولانا نور محمد سہارنپوریؒ ،مولانا عبدالواحد مخدومؒ نے مرزا کے جھوٹوں پر مستقل کتابیں لکھ دی ہیں۔ یہاں پر مرزا کے چند ایک شاہکار جھوٹ نقل کیے جاتے ہیں۔
جھوٹ نمبر ۱: ایسا ہی احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہو گا سو یہ تمام علامات بھی اس زمانہ میں پوری ہو گئیں۔ (روحانی خزائن، ج: ۲۱، ص: ۳۵۹)
جھوٹ نمبر ۲: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہدی کے ظہور کے لیے چودھویں صدی ہی قرار دی تھی۔
(روحانی خزائن، ج: ۱۷، ص: ۱۴۳)
جھوٹ نمبر ۳: مسیح موعود کی نسبت تو آثار میں لکھا ہے کہ علماء اس کو قبول نہیں کریں گے۔
(روحانی خزائن، ج: ۲۱، ص: ۳۵۷)
جھوٹ نمبر ۴: اے عزیزو تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تم کو نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کے لیے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی۔
(روحانی خزائن، ج: ۱۷، ص: ۴۴۲)
جھوٹ نمبر ۵: اب واضح رہے کہ احادیث نبویہ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جو عیسیٰ اور ابن مریم کہلائے گا اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔
(روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۴۰۶)
جھوٹ نمبر ۶: خدا نے قرآن شریف میں کہا کہ ۱۸۵۷ء میں میرا کلام آسمان پر اٹھایا جائے گا۔
(ازالہ اوہام روحانی خزائن، ج: ۳، ص: ۴۹۰ حاشیہ)
جھوٹ نمبر ۷: مجھے لوگوں نے ہر قسم کی گالی دی میں نے جواب نہیں دیا۔
(مواہب الرحمن روحانی خزائن، ج: ۱۹، ص: ۲۳۶)
جھوٹ نمبر ۸: تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے مکہ، مدینہ اور قادیان۔
(ازالہ اوہام روحانی خزائن، ج: ۳، ص: ۱۴۰)
جھوٹ نمبر ۹: عیسیٰ علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک یہودی استاد سے تمام تورات پڑھی تھی۔
(ایام الصلح روحانی خزائن، ج: ۱۴، ص: ۳۹۴)
جھوٹ نمبر ۱۰: اولیاء گزشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگا دی ہے کہ وہ (مسیح موعود) چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہو گا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہو گا۔
(اربعین نمبر ۲ روحانی خزائن، ج: ۷، ص: ۳۷۱)
قادیانیوں سے بارہا مطالبہ کیا گیا کہ وہ مرزا قادیانی کے ان جھوٹوں کو سچ ثابت کریں بصورتِ دیگر اسے سچا نبی ماننا چھوڑ دیں، اس لیے کہ جھوٹ بولنا نبی کا شیوہ نہیں ہوتا اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہو سکتا لیکن وہ اپنے دنیوی مفادات کی وجہ سے غور کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
معیار نمبر ۲۲: انبیاءِ کرام کی دنیا سے بے رغبتی مثالی ہوتی ہے:
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے : کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل۔دنیا میں اس طرح رہو جیسے تم اجنبی یا مسافرہو۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے دکھایا، دنیا کے ساز و سامان کا کیا ذکر کیا جائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دنیا سے بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات کئی کئی ماہ گھر میں آگ نہ جلتی تھی، کھجوروں پر گزر بسر ہوتی تھی۔
قرآن و حدیث میں دنیا اور جمع اموال کی مذمت میں اتنا کچھ بیان کیا گیا ہے کہ اس کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔ کمزور ایمان و ناقص توکل رکھنے والوں کو مال جمع کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن وہ بھی کئی شراط کے ساتھ مشروط ہے مثلاً حقوق العباد کا خیال رکھا جائے، حلال و حرام کی تمیز کی جائے، مال جمع کرنے کے لیے گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے وغیرہ۔ دین اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر طبقہ کی مقتدر شخصیات نے مال جمع کرنے کو اپنا مشن نہیں بنایا دین کی آڑ میں دنیا نہیں کمائی۔ مرزا قادیانی کا دعویٰ تھا ایک اہم مذہبی شخصیت ہونے کا یعنی وہ ملہم من اللّٰہ ، مجدد، مسیح ہونے کے دعوے کرتا تھا لیکن اسے دنیا سے بہت محبت تھی، اسے خواب بھی نذرانے ملنے کے لیے آتے تھے، خوب مال کمایا یقین نہ آئے تو درج ذیل حوالے سے ملاحظہ فرمائیں۔
نذرانے ملنے کے خواب:
یاد رہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مجھ سے یہ عادت ہے کہ اکثر جو نقد روپیہ آنے والا ہو یا اور چیزیں تحائف کے طور پر ہوں ان کی خبر قبل از وقت بذریعہ الہام یا خواب کے مجھ کو دے دیتا ہے اور اس قسم کے نشان پچاس ہزار سے کچھ زائد ہوں گے۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۳۴۶)
ذاتی جائیداد کی مالیت:
اگر میری تائید میں خدا کا فیصلہ نہ ہو تو میں اپنی کل املاک منقولہ وغیرہ جو دس ہزار روپیہ کی قیمت سے کم نہیں ہو گی عیسائیوں کو دے دوں گا۔ (اشتہاد مؤرخہ ۱۴؍ ستمبر ۱۸۹۶ء) (مجموعہ اشتہارات، ج: ۲، ص: ۲۵۱، مطبوعہ لندن)
مرزا قادیانی کا بیانِ حلفی:
انکم ٹیکس کے ایک مقدمہ میں مرزا قادیانی نے حلفاً بیان کیا کہ ذرائع آمدنی درج ذیل ہیں:
تعلقہ داری کی سالانہ آمدنی …… بیاسی روپے دس آنے
زمین کی سالانہ آمدنی…… تین سو روپے
باغ کی سالانہ آمدنی…… دو سو سے پانچ سو روپے تک
مریدوں کی طرف سے ہدیہ ملنے والے رقم…… پانچ ہزار دو سو روپے
جب کہ حکومت نے مرزا قادیانی کی ذاتی آمدنی سات ہزار دو سو روپے قرار دی اور اس پر ایک سو ستاسی روپے آٹھ آنے انکم ٹیکس لاگو کیا گیا۔ (ضرورۃ الامام مندرجہ روحانی خزائن، ج: ۱۳، ص: ۵۱۶)
ذاتی مکانات:
پہلے مرزا قادیانی کے پاس ایک مکان تھا بعد ازاں دو اور مکان حاصل کر کے مکان میں توسیع کی گئی۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۳۹۳)
زمین کی وراثت:
مرزا قادیانی کی ایک رشتہ دار عورت امام بی بی فوت ہوئی تو اس کی آدھی زمین مرزا کو اور بقیہ نصف دوسرے رشتہ داروں کو ملی۔ (نزول المسیح روحانی خزائن، ج: ۱۸، ص: ۵۹۱، ۵۹۲)
منی آرڈر کی آمدنی:
ایک ہزار سے زائد روپے…… (سیرت المھدی حصہ سوم، ص: ۱۰۲، روایت نمبر ۶۳۶)
ڈیڑھ صد روپے…… (مکتوبات احمد، ج: پنجم نمبر اوّل، ص: ۲)
پانچ صد روپے…… (مکتوبات احمد، ج: پنجم نمبر اوّل، ص: ۲)
ایک سو روپے…… (مکتوبات احمد، ج: پنجم نمبر اوّل، ص: ۲)
ایک سو روپے…… (مکتوبات احمد، ج: پنجم نمبر اوّل، ص: ۲)
ایک سو روپے…… (مکتوبات احمد، ج: پنجم نمبر اوّل، ص: ۲)
منی آرڈر کے ذریعہ آنے والی رقوم کا احاطہ دشوار ہے اس لیے نمونہ کے چند حوالوں پر اکتفا کیا گیا۔ (مؤلف)
رقم لانے والا فرشتہ:
مرزا قادیانی کے بقول ایک فرشتے نے اسے بہت سا روپیہ دیا جس کا نام ٹیچی ٹیچی تھا۔
(روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۳۴۵، ۳۴۶)
کئی لاکھ آمدنی:
اگر ہر روز آمدن اور خاص وقتں کے مجمعوں کا اندازہ لگایا جائے تو کئی لاکھ تک اس کی تعداد پہنچتی ہے۔
(روحانی خزائن، ج: ۲۱، ص: ۷۵، ۷۶)
اس وقت سے آج تک دو لاکھ سے بھی زیادہ روپیہ آیا۔ (روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۲۵۳)
مرزا قادیانی نے اس پیسہ کو کبھی دینی اغراض یا رفاہِ عامہ کے لیے استعمال نہیں کیا۔
معیار نمبر ۲۳: انبیاءِ کرام ایفائے عہد میں کامل ہوتے ہیں:
وعدہ کر کے اسے نبھانا ایک شریف آدمی کا شیوہ ہے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایفائے عہد کو مومن کی نشانی اور وعدہ خلافی کو منافق کی علامت قرار دیا ہے۔ ایک مومن شخص کی شان یہ ہے کہ جب وہ وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی شان تو بہت بلند ہے، وہ تو شریعت کا چلتا پھرتا پیکر ہوتے ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعریف اﷲ تعالیٰ نے اس طرح کی ہے: اِنَّہُ کَاْنَ صَادِقَ الْوَعْدِ وکَانَ رَسُوْلاً نَّبِیًّا۔(مریم: ۵۴)
اسی طرح ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا وعدہ کر کے اسے پورا کرنا مشہور و معروف ہے۔ اب مرزا قادیانی کو دیکھیں جس کا دعویٰ ہے کہ سابقہ انبیاء کرام کے متفرق کمالات اﷲ تعالیٰ نے مجھے عطا کیے ہیں۔
(ملفوظات، ج: سوم، ص: ۲۷۰ مطبوعہ لندن)
لیکن ان حضرات کی ایک صفت کا پرتو بھی اس میں نہ تھا۔ ان صفات حسنہ میں سے ایک اچھی صفت وعدہ کرنا کے متعلق مرزا قادیانی کے احوال معلوم کرتے ہیں۔
براہین احمدیہ کی تکمیل کے متعلق وعدہ خلافی:
مرزا قادیانی نے ایک کتاب براہین احمدیہ کے نام سے لکھنے کا ارادہ کیا تو اس کے متعلق اشتہاد دیا کہ میں ایک کتاب لکھوں گا جس کے پچاس حصے ہوں گے اور اس میں صداقتِ اسلام پر تین سو دلائل لکھے جائیں گے، چونکہ میرے پاس وسائل نہیں ہیں اس لیے مسلمان امراء خاص تعاون کریں اور پیشگی رقوم و عطیات بھیجیں۔ پہلے کتاب کی قیمت پانچ روپے مقرر کی۔ جب مطلوبہ قیمت اور عطیات کی صورت میں کافی رقوم جمع ہوئیں تو حرص نے جوش مارا ور قیمت دس روپے کر دی۔ اس پر بھی ہوس کی تسکین نہ ہوئی تو مزید اضافہ کر کے پچیس روپے سے سو روپے تک قیمت وصول کرنے لگا، مرزا قادیانی نے اس کتاب کے چار حصے ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۴ء کے دوران لکھے اور چھپوائے، ۱۸۸۴ء میں چوتھا حصہ لکھنے کے بعد کتاب کی اشاعت ملتوی کر دی اور رقوم ہضم کر لیں، پیشگی قیمت دینے والوں نے کتاب کی مکمل اشاعت بصورت دیگر پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے عذر ہائے لنگ کا انبار لگا دیا۔ آخر اکیس سال بعد ۱۹۰۵ء میں براہین احمدیہ کی پانچویں جلد شائع کی تو اس کے دیباچہ میں لکھا۔
مرز ا بشیر احمد ایم اے لکھتا ہے کہ براہین احمدیہ کی مطبوعہ جلدوں میں صرف ایک دلیل لکھی گئی ہے اور وہ بھی ادھوری۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے دو قسم کی عہد شکنی کی۔
۱۔ کتاب کی پچاس جلدیں لکھنے کا اعلان کیا اور صرف پانچ پر اکتفا کیا۔
۲۔ کتاب میں صداقتِ اسلام پر تین سو دلائل لکھنے کا وعدہ کیا لیکن صرف ایک دلیل لکھی اور وہ بھی ادھوری۔
دوسری عہد شکنی:
مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ’’سراج منیر‘‘ شائع کرنے کے لیے اپنے مریدوں سے خوب پیسہ اکٹھا کیا، گیارہ سال پیسہ جمع ہوتا رہا لیکن رسالہ نہ چھپا، مولانا بٹالوی نے اپنے رسالہ میں اس مسئلہ کو اٹھایا تو معترضین کے منہ بند کرنے کے لیے تقریباً بہتّر صفحات کا ایک مختصر کتابچہ شائع کر دیا، جان چھڑا لی۔ دوسرا دجل یہ کیا کہ وعدہ تھا اس رسالہ میں صداقتِ اسلام پر بحث کرنے کا لیکن اس میں اپنی پیش گوئیاں جمع کر دیں۔
تیسری عہد شکنی:
مرزا قادیانی نے اپنی کتاب شحنہ حق کے آخر میں اشتہار دیا کہ میں ایک رسالہ ’’قرآنی طاقتوں کا جلوہ گاہ‘‘ شائع کرنا چاہتا ہوں جو کہ ہر ماہ شائع ہوا کرے گا، اس رادہ کااظہار کئی خطوط میں بھی کیا مگر وہ رسالہ بالکل شائع نہ ہوا۔
چوتھی عہد شکنی:
مرزا قادیانی نے اپنی کتاب نشانِ آسمانی کے آخر میں اشتہار دیا کہ اب پختہ ارادہ ہے کہ اس کے بعد دافع الوساوس شائع کی جائے۔ لیکن اس نام کی کوئی ایک کتاب چھاپنے کی بجائے آئینہ کمالاتِ اسلام کا نام ہی دافع الوساوس رکھ دیا۔
پانچویں عہد شکنی:
مرزا قادیانی نے۲۳؍ جولائی ۱۹۰۰ء کو اعلان کیا کہ میں نے مخالفین و منکرین پر اتمام حجت کے لیے چالیس اشتہار نکالنے کا ارادہ کیا ہے، اس رسالہ کا نام اربعین ہو گا۔ (روحانی خزائن، ج: ۷، ص: ۳۴۳مع حاشیہ) لیکن اربعین نمبر ۴ کے آخر میں چار کو چالیس قرار دیتے ہوئے لکھا: ’’وہ امر پورا ہو چکا جس کا میں نے ارادہ کیا تھا اس لیے میں نے ان رسائل کو صرف چار نمبر تک ختم کر دیا اور آئندہ شائع نہیں ہو گا‘‘۔ (روحانی خزائن، ج: ۱۷، ص: ۴۴۲)
قارئین کرام! تفصیلات کے لیے مولانا ابو القاسم رفیق دلاوری کی کتاب رئیس قادیان کا باب نمبر ۳۲ ملاحظہ فرمائیں۔ (جاری ہے)