حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اﷲ علیہ
(تحقیق : ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی،ترجمہ:مولانا محمد سعید الرحمن علویؒ)
سیرت و مغازیِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تفصیلات کو محفوظ کرنے اور انھیں ضبطِ تحریر میں لانے کا سلسلہ پہلی صدی ھجری یعنی عہدِ صحابہ کرامؓ ہی میں شروع گیا تھا۔ اس سلسلے کی موجود کتب میں حضرت عُروہؒ بن زبیرؓ کی کتاب ’’مغازی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ کو اوّلیت کا شرف حاصل ہے۔ حضرت عُروہؒ بن زبیرؓ اپنے عہد کے بہت بڑے عالم، محدث اور فقیہ تھے۔ انھوں نے مدینہ منورہ میں بہت سے جلیل القدر صحابہؓ اور تابعینؒ سے علم کی تحصیل کی۔ امام ابن کثیر کے بقول، وہ فقیہ، عالم، حافظِ حدیث اور مغازیِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ثقہ اور مستند عالم تھے۔ آپ ؒپہلے شخص تھے جنھوں نے سیرت و مغازی سے متعلق کتاب لکھی۔ اُن کا شمار چند سرکردہ فقہاء میں ہوتا تھا اور صحابہؓ اُن سے دینی مسائل پوچھتے تھے۔ ذیل میں جو مضمون شائع کیا جا رہا ہے وہ’’مغازیِ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم از حضرت عُروہ بن زبیر رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ سے ماخوذ ہے، اس کتاب کو ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی نے مرتب کیا اور مقدمہ و حواشی تحریر کیے۔ اردو ترجمہ مولانا سعید الرحمن علوی رحمہ اﷲ نے کیا۔ (ادارہ)
حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ رسولِ محترم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خواب دیکھا اور فرمایا: کہ میری تلوار (ذوالفقار) (ابو جہل کی تلوار جو بدر میں غنیمت کے طور پر ملی اور رسولِ محترم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس رہی) اپنی نیام سمیت ٹوٹ گئی ہے اور یہ کہ میں نے دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی جا رہی ہے۔ اس سے آگے حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ:
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم احد کے موقعے پر مدینہ میں ہی قیام کر کے مقابلہ کرنے کے حق میں تھے۔ لیکن بہت سے حضرات باہر جا کر مقابلہ چاہتے تھے۔ اگر لوگ حضور اکرم کے ارشاد و حکم کے مطابق رہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا لیکن ان پر تقدیر غالب آ چکی تھی۔ باہر جا کر مقابلے کے سلسلے میں سب سے زیادہ ان کی خواہش تھی جو بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اور اہلِ بدرکے سلسلے میں جو فضیلت ان کے کان میں پڑی، اُس نے اُس شوق کو بڑھا دیا تھا۔
حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز پڑھائی، خطبے میں لوگوں کو نصیحت سے نوازا، اُنھیں جہد و سعی کی تلقین کی۔ خطبہ و نماز سے فراغت پر جنگی لباس پہن کر لوگوں کو چلنے کا حکم دیا۔ اس کیفیت کو اصحاب رائے حضرات نے دیکھا تو کہنے لگے کہ آپ نے ہمیں مدینہ میں ہی رکنے کا فرمایا تھا۔ اگر یہاں دشمن حملہ آور ہو تو اس کا یہیں رہ کر مقابلہ ہو۔ رسولِ محترم (صلی اﷲ علیہ وسلم) اﷲ تعالیٰ کے منشا کو زیادہ بہتر جاننے والے ہیں۔ آپ کے پاس آسمان سے وحی بھی آتی ہے، ہم نے آپ کو اس طرح باہر جانے پر توجہ دلائی۔اس لیے انھوں نے عرض کیا کہ آپ کے حکم کے مطابق مدینے میں قیام نہ کر لیں؟
آپ نے ارشاد فرمایا کہ نبی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ جب جنگی لباس پہن لے اور لوگوں کو دشمن کی طرف نکلنے کا حکم دے دے تو وہ قتال کیے بغیر لوٹے۔ میں نے تمھیں ایک بات کہی، تم نے نکلنے ہی کا تقاضہ کیا۔ اب تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ دشمن سے تمھاری ملاقات ہو اور آمنا سامنا ہو تو تقویٰ اور صبر سے کام لینا اور یاد رکھو کہ جس بات کا تمھیں حکم دوں اس پر عمل کرو۔ یہ فرما کر آپ مسلمانوں کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔
رئیس المنافقین عبداﷲ بن اُبیّ کی واپسی:
حضرت عروہ رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جناب رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لے گئے حتیٰ کہ آپ اُحد پہنچ گئے تو عبداﷲ بن اُبیّ تین سو آدمیوں سمیت واپس آ گیا، اب آپ کے ساتھ سات سو حضرات باقی رہے۔
حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ کی کمال درجہ استقامت:
حضرت عروہ بن زبیر سلام اﷲ تعالیٰ علیہما و رضوانہ فرماتے ہیں کہ اس دن حضرت طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انتہائی کمال درجے استقامت اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا۔ مالک بن زہیر نے رسولِ محترم صلی اﷲ علیہ وسلم پر تیر اندازی کی۔ حضرت طلحہ رضی اﷲ علیہ و رضوانہٗ نے اپنے ہاتھ کو رسولِ محترم علیہ السلام کے لیے ڈھال بنا لیتا۔ تیر آپ کی چھنگلی کو لگا جس سے وہ شل ہو گئی۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا اُبیّ بن خلف کو قتل کرنا:
حضرت عروہ بن زبیر سلام اﷲ تعالیٰ علیہما و رضوانہ فرماتے ہیں، ابی بن خلف نے مکہ میں قسم کھائی تھی کہ وہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ضرور قتل کرے گا۔ اس کے حلف کا رسولِ محترم صلی اﷲ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’اﷲ نے چاہا تو میں اسے قتل کروں گا‘‘۔ وہ سب کے سامنے لوہے میں غرق آیا اور کہنے لگا کہ: ’’اگر آج محمد بچ گئے تو میری خیر نہیں‘‘۔
وہ مسلسل حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر حملہ آور ہو کر قتل کرنے کی تدبیریں کر رہا تھا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ (بنو عبدالدار کے عزیز) حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے ڈھال بنے ہوئے تھے۔ ان سے اس کا سامنا ہوا، وہ شہید ہوئے تو حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُبیّ بن خلف کی زرہ اور فولادی ٹوپی کے مضبوط لوہے کے لباس میں ٹھوڑی کے نیچے کی ہڈی ننگی دیکھی تو اپنے چھوٹے نیزے کو وہاں تاک کر مارا، باوجود یکہ کسی قسم کا خون نہ نکلا تھا لیکن وہ اپنے گھوڑے سے اُتر پڑا، اپنے رفقا کے پاس لڑھکتا ہوا آیا۔ انھوں نے اسے سہارا دیا۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ بیل کی طرح آوازیں نکال رہا تھا۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ آخر تو اس قدر جزع فزع کیوں کر رہا ہے، یہ تو برائے نام خراش ہے۔ اس نے انھیں بتلایا کہ محمد (ﷺ) نے مجھے قتل کرنے کا کہا تھا۔ اس کے بعد کہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میرے ساتھ ذوالمجاز کے سبھی لوگ ہوتے تو وہ بھی مر جاتے (گویا اسے رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات پر اتنا یقین تھا لیکن وائے محرومی کہ اسلام قبول نہ کیا) پس وہ اسی حالت میں مر گیا۔ (ہلاکت و بربادی ہے دوزخیوں کے لیے)
سید الشہداء( اسد اﷲ و اسد رسولہ)حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر رونا:
موسیٰ بن عقبہ فرماتے ہیں کہ رسولِ محترم صلی اﷲ علیہ وسلم حدود مدینہ میں داخل ہوئے تو ہر گھر میں نوحہ و بکا کی آوازیں آ رہی تھیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ انصار کی عورتیں ہیں جو اپنے شہداء پر رو رہی ہیں۔ آپ کی زبانِ مبارک سے نکلا: ’’میرے چچا حمزہ، تو ان پر کوئی رونے والا نہیں‘‘۔ ساتھ ہی اُن کے لیے دعاءِ مغفرت فرمائی۔ یہ دردناک صدا حضرت سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل اور عبداﷲ بن رواحہ (رضی اﷲ عنہم) نے سنی تو اپنے گھروں میں گئے اور تمام رونے والیاں جو مدینے میں تھیں اُنھیں جمع کر کے کہا: ’’واﷲ! انصار کے شہدا کو اس وقت تک مت رؤو جب تک رسولِ محترم کے چچا پر نہ رو لو، کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ اُن کے چچا پر مدینے میں کوئی رونے والی نہیں‘‘۔ خیال یہ ہے کہ رونے والی عورتیں حضرت عبداﷲ بن رواحہ لے کر آئے۔ حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو سنا تو پوچھا یہ کیا ہے؟آپ کو بتلایا گیا کہ انصار نے اپنی خواتین کو یہ نصیحت کی ہے۔ آپ نے ان سب کے لیے دعاءِ مغفرت فرمائی اور ان کے حق میں کلماتِ خیر فرمائے اور ارشاد فرمایا:
’’میرا مقصد یہ نہ تھا اور نہ ہی مجھے رونا پسند ہے۔ اس کے بعد اس سے مستقلاً منع کر دیا‘‘۔
حضرت عروہ بن زبیر سے بھی بالکل اسی طرح کی روایت ہے۔
اُحد کے بعض شہداء کے اسماءِ گرامی : ۲
حضرت عروہ رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اُحد کے شہداء میں سے ایسے حضرات کا ذکر کیا ہے جو بدر میں بھی شریک تھے۔ ان کا ذکر یہاں ہو گا۔
۱۔ اوس بن المنذر الانصاری النجاری
۲۔ ایاس بن اوس الانصاری (بنو معاویہ بن عمرو)
۳۔ ثعلبہ بن سعد بن مالک بن خالد بن ثعلبہ بن حارثہ الانصاری (بنو سعادہ)
۴۔ سیّدالشہداء، اسد اﷲ و اسد رسولہ، حمزہ بن عبدالمطلب الہاشمی۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا، رضاعی بھائی، اُنھیں وحشی بن حرب نے شہید کیا( وہ بعد میں مسلمان ہو کر شرفِ صحابیت سے بہرہ ور ہوئے اور مُسیلمہ کذاب کو قتل کر کے گویا اس کا ازالہ کیا)۔
۵۔ الحارث بن اوس بن رافع الانصاری (بنو عمرو بن عوف)
۶۔ ذکوان بن عبد قیس الانصاری (بنو زریق)
۷۔ رفاعہ بن اوس بن زعورا بن عبدالاشہل الانصاری
۸۔ ربیعہ بن الفضل بن حبیب بن یزید بن تمیم الانصاری (بنو معاویہ بن عوف)
۹۔ ربیعہ بن اکثم القرشی۔ حلیف بنو اسد بن عبد شمس (بنو اسد)
۱۰۔ سعد بن الربیع الانصاری
۱۱۔ سلیط بن ثابت بن وقش الانصاری (بنو النبیت)
۱۲۔ عبد اﷲ بن جحش الاموی (بنو عبد شمس)
۱۳۔ عبداﷲ بن عمرو بن حرام بن ثعلبہ الانصاری (بنو سلمہ)
۱۴۔ طبرانی کے بقول، حضرت مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف بن عبدالداربن قصی۔ یہ مہاجرین اوّلین سے تعلق رکھنے والے صحابی ہیں۔ (بدر و اُحد میں اﷲ تعالیٰ کے نبی نے اُنھیں مسلمانوں کا جھنڈا تھمایا۔ یہ جھنڈا حضرت اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اﷲ تعالیٰ علیہا و رضوانہ کی اوڑھنی کا تھا…… گویا اُنھیں رسولِ محترم صلی اﷲ علیہ وسلم کا پہلا ’’علم دار‘‘ ہونے کا شرف حاصل ہے۔
٭……٭……٭
۱ تفصیل: ابن ہشام، ج: ۳، ص: ۷۶۰۔ ابن حزم، ص: ۱۵۶۔ الواقدی: ۱۹۹۔ ۲۰۰۔ ابن سید الناس، ج: ۲، ص: ۲۔ البخاری، باب المغازی۔ مسلم، باب الجہاد۔ الطبری، ج: ۲، صء ۴۹۹۔ ابن اسحاق کے بقول اس کی تاریخ شوال ۳ ھ ہے۔ (ج:، ص: ۶۰) حافظ ابن حجر عسقلانی کے بقول بدر کے بعد قریش نے اس ہزیمت کے بدلے کے لیے عرب بھر سے حتی الامکان لشکر فراہم کر کے سردارِ قریش ابو سفیان کی قیادت میں چڑھائی کا اہتمام کیا۔ فتح الباری، ج: ۷، ص: ۷۶۔۳۷۷)
۲ تفصیل:ابن ہشام، ج: ۳، ص: ۲۲۔ ۱۲۷۔ الواقدی، ص: ۳۰۰، ۳۰۷۔ ابن سید الناس، ص: ۶۱تا ۱۶۵۔