حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ۔ مترجم: مولانا محمد احسان الحق
حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے کیا تھے؟ آپ نے فرمایا اُن صحیفوں میں صرف مثالیں اور نصیحتیں تھیں، (مثلاً اُن میں یہ مضمون بھی تھا) اے مسلط ہونے والے بادشاہ! جسے آزمائش میں ڈالا جا چکا ہے اور جو دھوکا میں پڑا ہوا ہے، میں نے تجھے اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تو جمع کر کے دنیا کے ڈھیر لگا لے۔ میں نے تو تجھے اس لیے بھیجا تھا کہ کسی مظلوم کی بد دعا کو میرے پاس آنے نہ دے کیونکہ جب کسی مظلوم کی بد دعا میرے پاس پہنچ جاتی ہے تو پھر میں اسے رد نہیں کرنا چاہتا، وہ مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو اور جب تک عقل مند آدمی کی عقل مغلوب نہ ہو جائے اس وقت تک اُسے چاہیے کہ وہ اپنے اوقات کی تقسیم کرے۔ کچھ وقت اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرنے کے لیے ہونا چاہیے، کچھ وقت اپنے نفس کے محاسبے کے لیے ہونا چاہیے، کچھ وقت اﷲ تعالیٰ کی کاری گری اور اس کی مخلوقات میں غور و فکر کرنے کے لیے ہونا چاہیے اور کچھ وقت کھانے پینے کی ضروریات کے لیے فارغ ہونا چاہیے۔اور عقل مند کو چاہیے کہ صرف تین کاموں کے لیے سفر کرے یا تو آخرت کا توشہ بنانے کے لیے یا اپنی معاش ٹھیک کرنے کے لیے یا کسی حلال لذت اور راحت کو حاصل کرنے کے لیے اور عقل مند کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانہ (کے حالات) پر نگاہ رکھے اور اپنی حالت کی طرف متوجہ رہے اور اپنی زبان کی حفاظت کرے اور جو بھی اپنی گفتگو کا اپنے عمل سے محاسبہ کرے گا وہ کوئی بے کار بات نہیں کرے گا بلکہ صرف مقصد کی بات کرے گا۔
میں نے عرض کیایا رسول اﷲ! (ﷺ) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صحیفے کیا تھے؟ آپ نے فرمایا ان میں سب عبرت کی باتیں تھیں (مثلاً اُن میں یہ مضمون بھی تھا کہ) مجھے اس آدمی پر تعجب ہے جسے موت کا یقین ہے اور پھر وہ خوش ہوتا ہے۔ مجھے اس آدمی پر تعجب ہے جسے جہنم کا یقین ہے اور پھر وہ ہنستا ہے۔ مجھے اس آدمی پر تعجب ہے جسے تقدیر کا یقین ہے اور پھر وہ اپنے آپ کو بلاضرورت تھکاتا ہے۔ مجھے اس آدمی پر تعجب ہے جس نے دنیا کو دیکھااور یہ بھی دیکھا کہ دنیا آنی جانی چیز ہے، ایک جگہ رہتی نہیں اور پھر مطمئن ہو کر اس سے دل لگاتا ہے۔ مجھے اس آدمی پر تعجب ہے جسے کل قیامت کے حساب کتاب کا یقین ہے اور پھر عمل نہیں کرتا۔
میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) آپ مجھے کچھ وصیت فرما دیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمھیں اﷲ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تمام کاموں کی جڑ ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) کچھ اور فرما دیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تلاوت قرآن اور اﷲ کے ذکر کی پابندی کرو کیونکہ یہ زمین پر تمہارے لیے نور ہے اور آسمان میں تمہارے لیے ذخیرہ ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کچھ اور فرمادیں آپ نے فرمایا زیادہ ہنسنے سے بچو! کیونکہ اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے اور چہرے کا نور جاتا رہتا ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) کچھ اور فرما دیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہاد کو لازم پکڑ لو کیونکہ یہی میری اُمّت کی رہبانیت ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) کچھ اور فرما دیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زیادہ دیر خاموش رہا کرو کیونکہ اس سے شیطان دفع ہو جاتا ہے اور اس سے تمھیں دین کے کاموں میں مدد ملے گی‘‘۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) مجھے کچھ اور فرما دیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسکینوں سے محبت رکھو اور اُن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھو‘‘۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) کچھ اور فرما دیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:(دنیاوی مال و دولت اور ساز و سامان میں) ’’ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھا کرو اوپر والے کو مت دیکھا کرو، کیونکہ اس طرح کرنے سے تم اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھو گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) کچھ اور فرما دیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حق بات کہو چاہے وہ کڑوی کیوں نہ ہو‘‘۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) کچھ اور فرما دیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمھیں اپنے عیب معلوم ہیں تو دوسروں (کے عیب دیکھنے) سے رک جاؤ اور جو برے کام تم خود کرتے ہو اُن کی وجہ سے دوسروں پر ناراض مت ہو۔ تمھیں عیب لگانے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ تم اپنے عیبوں کو تو جانتے نہیں اور دوسروں میں عیب تلاش کر رہے ہو اور جن حرکتوں کو خود کرتے ہو اُن کی وجہ سے دوسروں پر ناراض ہوتے ہو‘‘۔ پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا: اے ابوذر! حسنِ تدبیر کے برابر کوئی عقل مندی نہیں اور ناجائز، مشتبہ اور نامناسب کاموں سے رکنے کے برابر کوئی تقویٰ نہیں اور حُسنِ اخلاق جیسی کوئی خاندانی شرافت نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں ایک دن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ سے پوچھا تمھاری اور تمھارے اہل و عیال، مال اور عمل کی کیا مثل ہے؟ صحابہ (رضی اﷲ عنہم) نے عرض کیا اﷲ اور اس کے رسول(ﷺ) زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھاری اور تمھارے اہل و عیال، مال اور عمل کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس کے تین بھائی ہوں۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے بھائیوں کو بلا کر ایک بھائی سے کہا تم دیکھ رہے ہو میرے مرنے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ اب تم میرے کیا کام آ سکتے ہو؟ اس نے کہا میں تمھارے یہ کام کر سکتا ہوں کہ میں تمھاری تیمار داری کروں اور تمھاری خدمت سے اکتاؤں گا نہیں اور تمھارا ہر کام کروں گا۔ جب تم مر جاؤ گے تمھیں غسل دوں گا اور تمھیں کفن پہناؤں گا اور دوسروں کے ساتھ تمھارے جنازے کو اٹھاؤں گا، کبھی تمھیں اٹھاؤں گا اور کبھی راستہ کی تکلیف دہ چیز تم سے ہٹاؤں گا اور جب دفنا کر واپس آؤں گا تو پوچھنے والوں کے سامنے تمھاری خوبیاں بیان کر کے تمھاری تعریف کروں گا۔ اس کا یہ بھائی تو اس کے اہل و عیال اور رشتہ دار ہیں۔ اس بھائی کے بارے میں تم لوگوں کا خیال ہے؟ صحابہ (رضی اﷲ عنہم) نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) اس کے کوئی خاص فائدے کی بات تو ہم نے سنی نہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اس نے اپنے دوسرے بھائی سے کہا کیا تم دیکھ رہے ہو کہ موت کی مصیبت میرے سر پر آ گئی ہے تو اب تم میرے کیا کام آ سکتے ہو؟ اس نے کہا جب تک آپ زندہ ہیں میں تو اسی وقت تک آپ کے کام آ سکوں گا، جب آپ مر جائیں گے تو آپ کا راستہ الگ اور میرا راستہ الگ۔ یہ بھائی اس کا مال ہے۔ یہ تمھیں کیسا لگا؟ صحابہ (رضی اﷲ عنہم) نے کہا یا رسول اﷲ! (ﷺ) اس کے فائدے کی کوئی بات ہمارے سننے میں تو نہیں آئی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اس نے تیسرے بھائی سے کہا تم دیکھ رہے ہو موت میرے سر پر آ گئی ہے اور تم نے میرے اہل و عیال اور مال کا جواب بھی سن لیا ہے تو اب تم میرے کیا کام آ سکتے ہو؟ اس نے کہا میں قبر میں تمھارا ساتھی ہوں گا اور وحشت میں تمھارا جی بہلاؤں گا اور اعمال تُلنے کے دن ترازو میں بیٹھ کر اسے بھاری کر دوں گا۔ یہ بھائی اس کا عمل ہے۔ اس کے بارے میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے؟ صحابہ (رضی اﷲ عنہم) نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! یہ بہترین بھائی اور بہترین ساتھی ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا بات بھی اسی طرح ہے‘‘۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: حضرت عبداﷲ بن کرز رضی اﷲ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ میں اس مثال کے بارے میں کچھ اشعار کہوں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں اجازت ہے‘‘۔
حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ چلے گئے اور ایک ہی رات کے بعد اشعار تیار کر کے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ انھیں دیکھ کر لوگ بھی جمع ہو گئے، انھوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر یہ اشعار پڑھے:
فانی و اہلی والذی قدمت یدی کداع اللّٰہ صحبہ ثم قائل
لاخوتہ اذ ہم ثلاثۃ اخوۃ اعینوا علی امر بی الیوم نازل
ترجمہ: میں اور میرے اہل و عیال اور میرے وہ عمل جو میرے ہاتھوں نے آگے بھیج دیے ہیں، ان سب کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک آدمی کے تین بھائی تھے، اس نے ساتھیوں اور بھائیوں کو بلا کر ان سے کہا آج مجھ پر موت کی مصیبت آنے والی ہے اس بارے میں میری مدد کرو۔
فراق طویل غیر متثق بہ فما ذا لدیکم فی الذی ہو غائل
ترجمہ: بہت لمبی جدائی ہے جس کا کوئی بھروسہ نہیں، اب بتاؤ اس ہلاک کرنے والی موت کے بارے میں تم لوگ میری کیا مدد کرسکتے ہو؟
فقال امرؤ منہم انا الصاحب الذی اطیعک فیہا شئت قل التزایل
ترجمہ: ان تینوں میں سے ایک بولا کہ میں تمھارا ساتھی ہوں لیکن جدا ہونے سے پہلے تم جو کہو گے تمھاری وہ بات مانوں گا۔
فاما اذا جد الفراق فاننی لما بیننا من خلۃ غیر واصل
ترجمہ: اور جب جدائی ہو جائے گی تو پھر میں آپ کی دوستی کو باقی نہیں رکھ سکتا، اسے نہیں نباہ سکتا۔
فخذ ما اردت الان منی فاننی سیسلک بی فی مہیل من مہائل
ترجمہ: اب تو تم مجھ سے جو چاہو لے لو لیکن جدائی کے بعد مجھے کسی ہولناک راستہ پر چلا دیا جائے گا پھر کچھ نہیں لے سکو گے۔
فان تبقنی لا تبق فاستنفدننی و عجل صلاحا قبل حتف معاجل
ترجمہ: پھر اگر تم مجھے باقی رکھنا چاہو گے تو باقی نہیں رکھ سکو گے لہٰذا مجھے خرچ کر کے ختم کر دو اور جلد آنے والی موت سے پہلے جلدی اپنے عمل ٹھیک کر لو۔
و قال امرؤ قد کنت جدا احبہ واؤثرہ من بینہم فی التفاضل
ترجمہ: پھر وہ آدمی بولا جس سے مجھے بہت محبت تھی اور زیادہ دینے اور بڑھانے میں، میں اسے باقی تمام لوگوں پر ترجیح دیتا تھا۔
غنائی انی جاہد لک ناصح اذا جد جد الکرب غیر مقاتل
ترجمہ: اس نے کہا میں آپ کا اتنا کام کر سکتا ہوں کہ جب پریشان کن موت واقعی آ جائے گی تو آپ کو بچانے کی کوشش کروں گا، آپ کا بھلا چاہوں گا لیکن میں آپ کی طرف سے لڑ نہیں سکوں گا۔
و لکننی باک علیک و معول و مشن بخیر عند من ہو سائل
ترجمہ: البتہ آپ کے مرنے پر روؤں گا اور خوب اونچی آواز سے روؤں گا اور آپ کے بارے میں جو بھی پوچھے گا، میں اس کے سامنے آپ کی خوبیاں بیان کر کے آپ کی تعریف کروں گا۔
و متبع الماشین امشی مشیا اعین برفق عقبۃ کل حامل
ترجمہ: اور آپ کے جنازے کو لے کر جو لوگ چلیں گے میں بھی رخصت کرنے کے لیے ان کے پیچھے چلوں گا اور ہر اٹھانے والے کی باری میں نرمی سے اٹھا کر اس کی مدد کروں گا۔
الی بیت مثواک الذی انت مدخل ارجع مقرونا بما ہو شاغل
ترجمہ: میں جنازے کے ساتھ اس گھر تک جاؤں گا جہاں آپ کا ٹھکانہ ہے جس میں لوگ آپ کو داخل کر دیں گے پھر واپس آ کر میں ان کاموں میں لگ جاؤں گا جن میں مَیں مشغول تھا۔
کان لم یکن بینی و بینک خلۃ و لا حسن و دمرۃ فی التباذل
ترجمہ: اور چند ہی دنوں کے بعد ایسی حالت ہو جائے گی کہ گویا میرے اور آپ کے درمیان کوئی دوستی ہی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی عمدہ محبت تھی جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے پر خرچ کرتے تھے۔
فذلک اہل المرء ذاک غناء ہم و لیس و ان کانوا حراصا بطائل
ترجمہ: یہ مرنے والے کے اہل و عیال اور رشتہ دار ہیں یہ بس اتنا ہی کام آسکتے ہیں، اگرچہ انھیں مرنے والے کو فائدہ پہنچانے کا بہت تقاضا ہے لیکن یہ اس سے زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
و قال امرء منہم انا الاخ لا تری اخا لک مثلی عند کرب الزلازل
ترجمہ: ان میں سے تیسرے بھائی نے کہا میں آپ کا اصلی بھائی ہوں اور ہلا دینے والی پریشانی موت کے آنے پر آپ کو میرے جیسا کوئی بھائی نظر نہیں آئے گا۔
لدی القبر تلقانی ہنا لک قاعدا اجادل عنک القول رجع التجادل
ترجمہ: آپ مجھے قبر کے پاس ملیں گے میں وہاں بیٹھا ہوا ہوں گا اور باتوں میں آپ کی طرف سے جھگڑا کروں گا اور ہر سوال کا جواب دوں گا۔
واقعد یوم الوزن فی الکفۃ التی تکون علیہا جاہدا فی التثاقل
ترجمہ: اور اعمال تولے جانے کے دن یعنی قیامت کے دن میں اس پلڑے میں بیٹھوں گا جس کو بھاری کرنے کی آپ پوری کوشش کر رہے ہوں گے۔
فلا تنسنی واعلم مکانی فاننی علیک شفیق ناصح غیر خاذل
ترجمہ: لہٰذا آپ مجھے بھلا نہ دینا اور میرے مرتبہ کو جان لو کیونکہ میں آپ کا بڑا شفیق اور بہت خیر خواہ ہوں اور کبھی آپ کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑوں گا۔
فذلک ما قدمت من کل صالح تلاقیہ ان احسنت یوم التواصل
ترجمہ: یہ آپ کے وہ نیک اعمال ہیں جو آپ نے آگے بھیجے ہیں، اگر آپ ان کو اچھی طرح کریں گے تو ایک دوسرے سے ملاقات کے دن یعنی قیامت کے دن آپ کی ان اعمال سے ملاقات ہو جائے گی۔
یہ اشعار سن کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بھی رونے لگے اور سارے مسلمان بھی۔ اس کے بعد حضرت عبداﷲ بن کرز مسلمانوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے، وہ انھیں بلا کر ان سے ان اشعار کی فرمائش کرتے اور جب حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ انھیں یہ اشعارسناتے تو وہ سب رونے لگ جاتے۔ (ماخوذ: حیاۃ الصحابہ،اردو، جلد سوم)
٭……٭……٭