سراج منیر
پچھلے چند ہفتوں میں میں نے پابندی سے جو مغرب کے طرز فکر کے بارے میں پے بہ پے اپنے شکوک کا اظہار کیا تو بعض بزرگوں کو تشویش سی پیدا ہوئی ۔ کچھ لوگوں نے تو یہ جانتے ہوئے کہ جو بھی میری ٹوٹی پھوٹی تربیت ہوئی ہے وہ روایتی ڈھانچے میں نہیں بلکہ مغربی تعلیمی ڈھانچے میں ہوئی ہے یہ گمان کیا کہ میں مغرب کو یکسر مسترد کررہا ہوں ، درآں حالے کہ میری شدید خواہش کے باوجود میرے لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایک پورے معاشرتی عمل نے ایک نظام تعلیم و تربیت نے میری ذہنی ساخت ایسی کردی ہے کہ جس آدمی کو انگریزی نہ آتی ہو اسے میں جاہل جانتا ہوں اور جب تک اپنی بات کی سند میں دو چار انگریز اور فرانسیسی مصنفوں کے حوالے نہ فراہم کر لوں طبیعت میں ایک اضطراب سا رہتا ہے کہ پتہ نہیں لوگ اس بات کو تسلیم بھی کریں گے کہ نہیں۔ تو اس گہرے احساس کمتری کو جو کوٹ کوٹ کر مجھ میں قومی سطح سے جما دیا گیا ہے میں یک قلم مسترد نہیں کر سکتا، لیکن بہر حال اس کی موجودگی کا علم رکھنا بھی میرا ایک حق ہے۔ خیر بات صرف اتنی ہے کہ میرے لیے ایک نیا سوال پید اہوگیا ہے۔ مغرب جدید کے علم و فنون کی طرف میرا کیا رویہ ہے، کیوں ہے اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میری عمر کے ایک آدمی کے لیے جو مشرق سے تقریباً نابلد ہو، جب مغر ب جدید کی ترقی پر ایمان بالغیب میں رخنہ پڑجائے تو اس کی تقلید کیا ہوگی!
کچھ دن ہوئے ہیں کہ میں نے حلقے کے ایک اجلاس میں بے شرمی سے اعلان کردیا کہ مغربی علوم پر سے میرا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ اس سے دوسروں کی صحت پر کیا اثر پڑتا تھا میرا اعتبار اٹھتا ہے تو اٹھتا رہے؛ لیکن اب میں اپنے احساس کا نہایت سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ کسی اور کے لیے یہ کوئی مسئلہ ہو یا نہ ہو مگر میرے لیے تو پچھلے دس بارہ سال کے اس سرمایہ کا مسئلہ ہے جو میں نے چند مغربی مصنفوں کے فقرے، ان کے حوالے، کتابوں کے نام اچک کر جمع کیا ہے۔ ایک بات کا پتہ ہے کہ میرے اس احساس کی تہہ میں سلیم احمد کی رائے بھی ہے (جو کچھ غلط صحیح میں انھیں سمجھا ہوں) حسن عسکری صاحب مرحوم کا اثر بھی ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے رنگین خیالات بھی (جو ان کی پانچ کتابوں کے غیر ذمے دارانہ مطالعے سے میں نے اخذ کیے ہیں) تو احساس کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے مجھے اس کا سرا ڈھونڈنا ہوگا۔
مشرق بعید کے سلوک کے طریقوں میں ایک عقیدہ یہ پایا جاتا ہے کہ ہر آدمی اپنے ساتھ ایک معما لے کر پیدا ہوتا ہے۔اس کی زندگی کے بڑے بڑے سوال اسی معمے کا عکس ہوتے ہیں اور جس دن وہ معمہ حل ہوجائے تو اس آدمی کی زندگی کا جواز ختم ہوجاتا ہے۔ قدیم چینی سلوک میں اس معمے کو ’’کو آن‘‘ کہتے ہیں تو سب سے پہلے مجھے ان بڑے سوالوں کی تلاش کرنی چاہیے جن کا جواب دریافت کرنے کے لیے کسی نہ کسی سطح پر میں کوشاں رہا اس لیے کہ یہی وہ سرا ہے جس سے میں اپنے بنیادی مسئلے کو سمجھنے کی طرف ایک قدم بڑھا سکتا ہوں تو سب سے پہلے میں نے شعوری سطح پر خود سے پوچھا: یورپ کی ہر چیز اچھی کیوں ہوتی ہے؟ کپڑے، قلم، موزے، بستر، کتابیں، خیالات، ہر چیز جو یورپ سے آتی ہے ہمیں اچھی لگتی ہے۔ کپڑوں اور موزوں سے مجھے دل چسپی ذرا کم ہی رہی ہے۔ لہٰذا میرا مسئلہ شروع ہوتا ہے کتابوں اور خیالات سے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۹۶۰ء میں ہمارے چھوٹے سے شہر میں جب میں غالباً چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا تو میں نے پہلی بار ایک ماسٹر صاحب کے پاس آکسفورڈ ڈکشنری دیکھی تھی او ریہ وہ پہلی کتاب میری نظر سے گزری تھی جو نہ صرف شروع سے آخر تک انگریزی میں لکھی ہوئی تھی کہ اس کو پڑھنے کے لیے ڈھیروں علم کی ضرورت تھی۔ میں بہت مرعوب ہوا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں شروع ہی سے ایک دھانسو آدمی رہا ہوں گا لیکن میرا سوال ہے کیوں؟ خیر اس بات پر آگے چل کر بحث کریں گے۔
فی الحال جو صورت سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ میرے لیے شروع سے یورپ کی مادی ترقی ان کے افکار کی صحت بنی یعنی جس طرح سرسید مرحوم مرعوب تو کموڈ دیکھ کر ہوئے اور اس بنیاد پر انھوں نے ٹھونس ہم پر دیا کارلائل اور میکا لے کو۔ گویا سرسید کا ایمان بھی قطعاً بالغیب نہیں تھا بلکہ اس کی دلیل محکم کموڈ کی شکل میں ان کے پاس موجود تھی۔ چنانچہ مجھ پر ایک عرصہ اس شوق کا گزرا کہ یورپ کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوسکتا ہے معلوم کرلو۔ یورپ کی چھپی ہوئی کتابیں پڑھتے ہوئے میری توجہ عموماً دلائل سے زیادہ اس طرف رہتی تھی کہ مصنف کہتا کیا ہے۔ جب بات یوں ہی مان لینی ہے تو دلائل پڑھنے میں وقت ضائع کرنے سے فائدہ۔ اسی دوران ایک عجیب بات یہ معلوم ہوئی کہ ایک ہی معاملے پر دو مستند انگریز دو مختلف رائیں رکھتے تھے۔ اب یہاں آکر معاملہ کچھ پیچیدہ ہوگیا، دونوں یورپی اور دونوں کی رائیں متضاد،ان کی رائے قبول کرنے کی سند ہمارے پاس واحد یعنی ان کا یورپی ہونا۔ چنانچہ ایسی ہی ایک صورت حال میں مجھ پر یہ تکلیف دہ انکشاف ہوا کہ یورپ کے کسی مصنف کی بات میں غلطی کا احتمال بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یورپ کے علمی اور فکری انتشار کی صورت واضح ہوتی گئی اور اس منظر کو واضح کرنے میں ادب کا خاصہ حصہ رہا جہاں تکنیک کا تنوع ہی انسان کے بنیادی انتشار کو ظاہر کرتا تھا۔ اس کے علاوہ جو کیفیت شاعری یا ناول سے ظاہر ہوتی تھی وہ خوف زدہ کردینے والی تھی لیکن یہ بات عام نہیں ہے، اس لیے مغرب کا ادب مختلف زمانوں میں مختلف کہانیاں سناتا تھا۔ لہٰذا جب وہاں کے علوم کو ادب کے ساتھ ملا کر پڑھنے کی چاٹ پڑگئی تو اس بات کا بھی شوق ہوا کہ ان تبدیلیوں کی وجوہات بھی دریافت ہوں۔ لیکن اس سے پہلے ادب اور علوم کو ملا ملا کر پڑھنے کے مختصر سے تجربے کا میں تجزیہ کروں اور ذرا اس ادب کے مختلف زمانوں میں مختلف کہانیاں سنانے والی بات کو واضح کرتا جاؤں تو مناسب ہوگا۔ مثلاً یہ کہ فارسی اردو میں آپ شروع سے آخر تک پڑھتے چلے آئیے، ہستیوں کی تبدیلی اور زمانوں کے فرق کے باوجود آپ کا اور آپ کے مصنف کا ایک محکم رابطہ رہے گا اور کہیں آپ کو اپنی wave length تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں محسوس ہو گی۔ خلسان کے دور سے غالب تک کوئی ایسی کیفیت دکھائی نہ دے گی جہاں شاعری کا باطنی منظر یا جسے معنویت کے معنی کہتے ہیں تبدیل ہو جائیں اور آپ کو بدلے ہوئے معنی سے خود کو دوبارہ ہم آہنگ کرنے کی ضروریات پیش آئے گویا اس پوری روایت کی اپنی ایک شخصیت ہے لیکن مغربی ادب کو سمجھنے میں ایک بڑی مشکل یہ حائل ہے کہ ہر سو دو سو سال کے بعد منظر ایسا بدلتا ہے کہ پورا طرز احساس ہی باطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ سو دو سو سال کی بھی قید اٹھ گئی ہے۔ ہر تیسرے دن ایک نیا منظر سامنے آجاتا ہے۔ مطلب اس ساری گفتگو سے یہ ہے کہ جو چیز اولاً میں نے یورپ کے ادب کو پڑھتے ہوئے محسوس کی کہ وہ صرف اتنی تھی کہ ہر تھوڑی دیر کے بعد خود کو اس سے دوبارہ ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنی شخصیت اور اپنے ادب پڑھنے کے طریقے میں کتربیونت کرنی پڑتی ہے۔ اس بات کو یعنی یورپ میں طرز احساس کی تیز تر تبدیلیوں کو میں نے مغربی نفسیات کی کلید سمجھا اور اولاً مشرقی ادب پر اس کی برتری کی دلیل۔
خیریہ تو ادب کی بات ہے اور جسے میں آج بھی مغرب کے بارے میں اپنی ہر رائے پر ایک معتبر گواہ کی طرح پیش کرتا ہوں۔ تو بہر حال ادب کے حوالے سے میرے لیے بنیادی مسئلہ مغرب کی قومی نفسیات بنی اور یہ احساس ہوا کہ مغرب کے نفسیاتی پس منظر کو سمجھے بغیر علوم و فنون اور ادب کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گاکہ اگر اس کو سمجھے بغیر کوئی رائے قائم کی گئی و وہ یقینا غلط ہوگی، اس لیے کہ وہ علوم بھی جنھیں ہم معروضی علوم کہتے ہیں مغربی قوموں کی بنیادی نفسیات سے الگ نہیں ہیں۔ اسی مقدمے پر غور کرتے ہوئے میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ علوم انسانی کے بارے میں تو خیر یہ بات درست ثابت ہوسکتی ہے کہ قومی، نفسیات اور حتیٰ کہ سیاسی مفادات بھی ان علوم کی ساخت میں شامل ہیں؛ لیکن وہ علوم جنھیں ہم نیچرل سائنسز سے متعلق قرار دیتے ہیں ان کے بارے میں یہ رائے کس طرح قائم کی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب جلد ہی مل گیا۔ یہ تو خیر نہیں ہوتا کہ صریحاً کوئی ایسی بات کردی جائے جو حقائق کے خلاف جاتی ہو لیکن یہ ضرور ہے کہ سیاسی مفادات اور جذباتی مناسبات ان علوم کو ایک ایسی مخصوص سمت میں ترقی دیتے ہیں جو بقیہ سیاسی، معاشرتی اور جذباتی ڈھانچے سے ہم آہنگ ہو جیسے جیسے سیاسی مصلحتیں تبدیل ہوتی جاتی ہیں، علوم کا رنگ ڈھنگ بھی بدلتا چلاجاتا ہے۔
اس کی بھی ایک بنیادی وجہ ہے جس کو سمجھے بغیر مجھے مغرب کی علمی دنیا کا اصول سمجھ میں ہی نہیں آیا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ علوم و فنون کہیں خلا میں تو پیدا ہوتے نہیں بلکہ ان کے پیچھے گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں اور ان انسانوں پر پڑنے والا ہر اثر ان کے میدان علم میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس بات کو مان لینے کے لیے پہلی نظر میں مشرق و مغرب کے علوم کے پیچھے حرکی اصول مجھے واحد دکھائی دیا یعنی انسانی شخصیت اپنے جذبات اور خیالات کے ساتھ، اپنی پسند اور ناپسند سمیت۔ لیکن آنند کمار سوامی نے فوراً تنبیہ کی کہ ما بعدالطبیعیاتی اصول پر بنیاد رکھنے والے کسی بھی معاشرے میں کسی صورتحال کا ارتقا اٹکل پچو نہیں ہوتا بلکہ اس کے متعین اصول ہوتے ہیں جو اس صورتحال کے پس منظر میں کام کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ مشرق میں علوم کے حصول سے پہلے انسانی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ متعینہ کائناتی اصولوں سے مطابقت پیدا کرے۔ لیکن ایک عرصہ ہوا کہ مغرب سے مابعدالطبیعیات کا جھگڑا ہی فیصل ہوگیا ہے ہر علم کا اپنا الگ طریقہ ہے اور اس کے اپنے اصول جو وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ پھر ان اصولوں کی حرکت کے پیچھے بھی ایک تصور رہا۔ ذرا پہلے اسے سمجھنے کی داستان بیان کر لون پھر آگے بڑھوں گا۔
میرا اپنا یہ اصول رہا ہے کہ ہر روایت کے بارے میں رائے محکم اس روایت سے منسلک لوگوں کو سمجھا تا ہوں مثلاً میرا خیال یہ ہے کہ نکلسن اور آربری اپنے سارے علم کے باوجود اسلام کو اتنا نہیں سمجھتے جتنا میرے گھر کے پاس والی مسجد کے مولوی صاحب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مغرب کی جو صورت حال ہے اس کے لیے بھی دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی طرف سے عقلی گڈے بازی کرنے کی بجائے ان کے مستند نمائندوں کی رائے پر انحصار کیا جائے تو چلیے ایک زمانے تک مجھے ازراہِ فیشن و جودیت پرست بننے کا خبط بھی رہ چکا ہے لہٰذا اپنے سابق پیر سارتر سے گواہی طلب کرتا ہوں۔ سارتر کی گواہی عام طور پر لوگوں کے لیے اس لیے بھی قابل قبول ہوگی کہ حضرت رینے گینوں کی طرح وہ مغرب کو مسترد نہیں کرتا، سپنگلر کی طرح تہذیب مغربی کے زوال کا فیصلہ صادر نہیں کرتا، بہر حال سارتر کا کہنا ہے کہ مغرب میں سائنس کی دنیا اور عیسوی عالَم کے درمیان ایک صلح نامے پر دستخط ہوتے ہیں اور اس صلح نامے کا نام نیچر ہے۔ یہ لفظ بیک وقت عیسوی تصور عالَم کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے اور سائنسی تصور کو بھی بیان کرتا ہے۔ میں نے جان بوجھ کر اس لفظ کا ترجمہ فطرت نہیں کیا اس لیے کہ عسکری صاحب نے کہا ہے کہ نیچر ایک ایسا لفظ ہے جس کا مترادف مشرق کی کسی زبان میں موجود نہیں ہے۔ بقول سارتر نیچر ایک ایسی پناہ گاہ تھی جس میں عیسائی، خدا پرست، وحدت الوجودی، ملحد، دہریے، سب ہی پناہ گزیں تھے۔ چنانچہ ایک عرصہ تک مجھے یہ خیال رہا کہ اگر میں نیچر کے مغربی تصور کو اچھی طرح سمجھ لوں تو میں مغرب کی اس روح کو کم از کم کسی حد تک ضرور سمجھ سکتا ہوں جو انیسویں صدی کے اوائل تک وہاں موجود تھی۔ مجھے بعد میں اندازہ ہوا کہ میرا خیال کچھ اتنا غلط بھی نہ تھا۔ مغرب کے سارے جبلی فلسفوں کی بنیاد چاہے وہ سرمایہ دارانہ معاشیات ہو، ۱۸؍ویں صدی کا معاشرتی بیوہار ہو یا پھر ڈارون کا نظریہ ارتقا ہو…… نیچر کا تصور ہر صورت حال کے بطن میں کارفرما ہے۔ نیچر ہی کے تصور نے روسو کے عالی مرتبت وحشی کو جنم دیا تھا تو اب میری سمجھ میں آیا کہ کس طرح ایک واحد تصور مختلف علمی میدانوں کو یک جا کر سکتا ہے۔ چنانچہ انیسویں صدی تک نیچر کا وظیفہ سائنس اور فلسفہ بھی پڑھ رہے ہیں اور سماجیات اور اخلاقیات بھی۔ اس کی سیدھی سادی وجہ یہ ہے کہ اس اصطلاح کے کوئی بہت متعین معنی مغرب کی زبانوں میں بھی موجود نہیں ہیں، الہٰذا یہ اصطلاح متضاد رویوں کو ہضم کر لیتی ہے۔
خیر جو کچھ بھی ہو میں اس پر صحیح یا غلط ہونے کا فتویٰ لگانے کاحق نہیں رکھتا میں تو صرف اپنے رویوں کا تجزیہ کررہا ہوں، ان حوالوں کے ذریعے جن سے ان رویوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ تو نیچر کے معانی اور مراتب ہیں،اس تصور کی ایک سیاسی ضرورت ہے۔ اس کے پیچھے مٹا ہوا ایک Natura Naturata اور Natura Naturana کا فرق ہے جس سے قدیم مغربی فکر میں نیچر کے صحیح تصور اور اس کے مراتب وجود کو سمجھا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے سرسید ہیں جن کے پاس ایک اصطلاح ہے اور اس کے کچھ غیر واضح معنی جو انھوں نے سن سنا کر اور اپنے ناقص مطالعے سے جمع کیے ہیں اور وہ ہماری تہذیب کے پہلے نیچری مسلمان ہیں۔ ہمارے ہاں اس اصطلاح کی آمد کا مطلب ہی یہ تھاکہ ہم ایک فکری انتشار کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اﷲ نے بھی کہا ہے کہ کسی قوم میں فساد پھیلنے کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ وہ قوم غلط ارتفاق اختیارکرلیتی ہے۔ ہمارے ہاں اس اصطلاح کی آمد ایک غلط ارتفاق کا آغاز تھا۔
میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب میں نیچر کی گردان ختم ہو رہی تھی کہ ہمارے ہاں پہلا نیچری مسلمان پیدا ہوا۔ چنانچہ اب نیچر کے اس تصور کے ساتھ جو فکر پیدا ہوئی اس کو قبول کر لینے میں مجھے کوئی عار نہ تھا اور ایک عرصے تک اس پورے سرمائے کو میں نے قبول بھی کیے رکھا ہے۔ اس کے بارے میں کوئی خیال اور کوئی اعتراض میرے ذہن میں پیدا نہیں ہوا۔ اس تصور کائنات کی آگاہی نیوٹن کی فزکس میں، ڈارون کی حیاتیات میں اور ہیگل کے بعد کے سارے فلسفے میں ملتی ہے۔ سو میں مشرق کا ایک نیم خواندہ آدمی جسے ان علوم کی ہوا تک نہ لگی ہو، ان پر اعتراض کرنے کی جرأت کس طرح کرسکتا ہوں۔ لیکن میں نے ان علوم کے سماجی پس منظر پر کچھ غور بھی کیا ہے ان کے سیاسی اطلاقات دیکھنے کی کوشش بھی کی ہے لہٰذا علمی لحاظ سے یہ باتیں چاہے وقیع نہ ہوں لیکن بہر طور میرے تجربے کا حصہ ہیں انھیں تو دیکھ ہی لیجیے۔
نیچر کے تصور کے پیچھے ایک کہانی اور بھی ہے جس طرح یورپ کی زیر زمین سری تحریکیں اس تصور کو پھیلانے کے لیے کام کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، اس پر میں زیادہ گفتگو نہیں کرتا صرف یہ ہے کہ روزی کروشن تحریک نے جس طور یورپ میں پہلی مرتبہ استعماریت کو باقاعدہ ایک نظریے اور ایک مذہبی فریضے کی شکل دی ہے اس پر نظر رکھیے اور دو بہت اہم آدمیوں کے اس سے تعلق کا جائزہ لیجیے جو ایک طور سے جدید فلسفے اور جدید سائنس کے باوا آدم گنے جاتے ہیں۔ یہ دو آدمی ڈیکارٹ اور بیکن ہیں۔ فرانسیس ٹیس نے شواہد کے ساتھ ان دونوں کا تعلق روزی کروشن تحریک سے ثابت کیا ہے جو اپنی اصل میں ایک سیاسی مذہبی سری تحریک تھی۔ پھر یہاں یہ بھی نہ بھولیے کہ یورپ میں تجرباتی سائنس کے سب سے بڑے ادارے یعنی رائل کالج کی بنیاد ڈالنے والے بھی روزی کروشن تحریک کے ہی چیلے تھے۔ یہ کچھ سائنس دانوں اور فلسفیوں کی باتیں تھیں۔ ڈپلومیٹ اور سفیر بھی اس رو سے نہ بچے تھے۔ یعنی سر تھامس رو جو جہانگیر کے دربار میں سفیر بن کے آیا، وہ بھی جان ڈی کی وساطت سے روزی کروشن تحریک میں شامل تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ یورپ میں استعماریت اور تجرباتی استعماریت اور تجرباتی سائنس کا فلسفہ ایک ساتھ ہی بلند ہوا ہے اور یہ دونوں باتیں یکسر غیر متعلق نہیں ہیں۔ پھر دوسرے مرحلے پر جب استعماریت کے قدم جم چکے ہیں تو مغرب کے سارے علوم میں نیچر کا تصور پید اہوا ہے جس کا سیاسی اطلاق صرف یہ ہے کہ جو چیز جس حالت میں ہے ویسی ہی درست ہے اور ایک ابدی قانون اور کو نیاتی تدبیر کے مطابق ہے اور کسی صورت حال کے جواز کو چیلنج کرنا دراصل اس ابدی قانون کے خلاف سر اٹھانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس تصور کو حیاتیاتی سطح پر کمک Survival of the fittest کے نظریے سے پہچانی جاتی رہی۔ مغربی علوم اور فلسفیوں نے اس طرح استعماریت کی جواز جوئی کی ہے کہ پال نزان (Paul Nizan) نے انھیں ’’چوکی دار کتوں‘‘ کا خطاب دیا۔ یعنی پال نزان کی گواہی یہ ہے کہ مغربی علوم اور فلسفے استعماری مفادات کی کتوں کی طرح نگہبانی کرتے رہے ہیں۔
یہاں یہ نہ بھولیے کہ جبری فلسفے مغرب میں استعمار کے اس مرحلے کی پیداوار ہیں اور اس سلسلے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ جبری فلسفہ تاریخ نے سب سے زیادہ عروج اسی دور میں پایا ہے۔ یہاں میں اس بات کی طرف صرف اشارہ کیے دیتا ہوں اور تفصیلی گفتگو کو پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ بہر حال تو یہ مفادات تھے جو ان علوم و نظریات و مفروضات کے پیچھے کام کر رہے تھے اور انھیں ایک بار سمجھ لینے کے بعد میں مغرب سے درآمد تصورِ نیچر کا مخالف ہوگیا۔
اب اس سے ذرا آگے بڑھیے تو تیسرا مرحلہ سامنے آتا ہے یعنی وہ وقت ہے جب استعماریت کے قدم مشرقی زمینوں سے اکھڑنے شروع ہوتے ہیں، اب اگر وہی نیچر والا فلسفہ قائم رہتا تو مشرقی قوموں کا استدلال یہ ہوتا کہ یہ سب کچھ اسی ابدی قانون کے مطابق ہورہا ہے لہٰذا یکا یک مغرب کے روحانی اور علمی منظر نامے سے نیچر کا تصور غائب ہونے لگتا ہے اور کلچر کا تصور ابھرنے لگتا ہے گویا اب مشرقی قوموں پر برتری کا تصور جسمانی سطح سے اٹھ کر روحانی اور فکری سطح پر آگیا ہے۔ چنانچہ ادھر مغرب کے اس رخ کی بات سمجھ میں آئی اور میں نے اپنا قبلہ درست کر لیا۔ سرسید نیچری مسلمان تھے اورانتظار حسین کلچری مسلمان ہیں۔ میرے لیے یہ دونوں مغربی فکر کے دو مرحلوں کی نشاندہی کرتے ہیں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ خیر تو میں بھی کلچری مسلمان ہوا کرتا تھا۔ اب اس دور کا قصہ سن لیجیے۔ میرے کلچری مسلمان ہونے کے پیچھے مغرب کے ایک بزرگ کا یہ قول کام کررہا تھا کہ ’’انیسویں صدی‘‘ فلسفہ و تاریخ کی صدی تھی اور بیسویں صدی سماجیات تہذیب کی صدی ہے۔‘‘ اب میں بیسویں صدی کا ہی ایک آدمی رہنا چاہتا تھا چنانچہ بلا کسی تردد کے میں کلچر کے تصور پر ایمان لے آیا۔ کلچر کا مسئلہ یہ ہے کہ تمام علوم و فنون کلچر کے تابع رہے ہیں۔ مغرب کے سیاسی رحجانات نے جس طرح کلچر کے تصور کو اپنے مفادات کے مطابق ایک شکل دی وہ آپ سے کچھ پوشیدہ نہ ہوگی۔ اگرچہ کچھ عرصہ پہلے مجھ پر ظاہر نہ تھی خیر پھر کلچر کے ضمن میں اور بہت سے علوم پیدا ہوئے جس طرح دوسرے مرحلے میں علوم نیچر کے تصور کو قائم کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا رہے تھے ایسی ہی صورت حال کلچر کے ضمن میں ہوگئی اور نفسیات،سماجیات، معاشیات، انسانیات جیسے علوم نے کلچر کے مغربی تصور کو استحکام بخشنا شروع کردیا۔ میں کلچر کے تصور سے اپنے مرتد ہونے کی داستان اپنے ایک اور مضمون دین روایت اور تہذیب میں بیان کر چکا ہوں اس لیے اب اسے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ بہر کیف ایک مثال یہاں سارتر کے حوالے سے ہی پیش کرتاہوں تاکہ واضح ہوسکے کہ علوم کے پیچھے کیا کیا تصورات کام کررہے تھے۔
’’انھوں نے (مغربی ماہرین علوم) نے مروجہ نظریوں کو سائنسی قوانین کی شکل دی، استعماری دور میں نفسیات دانوں نے زبردست مطالعے کیے تاکہ افریقیوں کی کمتری کو ثابت کرسکیں، مثلاً اناٹومی اور فزیالوجی کی بنیاد پر جس کا تعلق ذہنوں کی ساخت سے تھا۔ اس طرح انھوں نے بورژوا انانیت کو قائم رکھنے میں مدد دی جس کا مطلب تھا کہ تمام انسان برابر ہیں سوائے محکوموں کے جو محض انسانوں کا سایہ ہیں۔‘‘
چنانچہ جناب کلچر کے تصور میں اس طرح مروجہ نظریات کو علمی قوانین کی حیثیت دی جارہی تھی۔ اس بات کو نظر میں رکھیے اور ذرا آگے بڑھیے ان علوم کی طرف جنھوں نے انیسویں صدی کے آخر یا بیسویں صدی کے شروع میں رواج پایا یعنی میری مراد خاص طور پر نفسیات اور انسانیات سے ہے۔ اس لیے کلچر کے تصور کو کمک پہنچانے میں ان دونوں علوم کا بہت بنیادی رول ہے۔
بعض مغربی ماہرین نفسیات کو مغربی فلسفے کی ناجائز اولاد بتاتے ہیں واضح رہے کہ یہ اصطلاح میری نہیں ہے بلکہ مغربی ماہرین ہی کی ہے۔ خیر نفسیات کے ابتدائی مرحلوں میں جس طرح لاشعور کے تصور کی ترویج کی گئی اس سے ہمارے ہاں لوگوں کو یہ گمان ہوا کہ گویا شعور لاشعور، لاذات، فوق الانا وغیرہ مفروضے نہیں بلکہ سائنسی حقیقتیں ہیں۔ مغرب میں بیسویں صدی کی ابتداء سے جو نفسیات کا غل مچا ہے تو اب تک تھمنے میں نہیں آتا اور ہمارے ہاں ان کے پیرو کار فوراً ہی پیدا ہو گئے ۔ خیر میرا گمان یہ ہے کہ یورپ میں یہودی عیسائی آویزش کا نفسیات کی ترویج میں بڑا دخل ہے بلکہ شہزاد احمد نے مجھے بتایا کہ نفسیات دانوں کی انجمن کا صدر جب سے یونگ بنا ہے تو یہودی نفسیات دانوں نے باقاعدہ طور پر اس کی مخالفت کی اور فرائڈ کی ذاتی دل چسپی کے بعد یہ ہنگامہ فرو ہوا۔ نفسیات کی موجودہ شکل سے مغربی انسان کے نفس باطن کے بارے میں بہت ساری باتوں کا استنباط کیا جاسکتا ہے مثلاً ایک تو لا شعوری نفسیات نے انسان کو جرائم کی ذمے داری سے نجات دلا کر اس احساسِ گناہ سے چھڑانے کی کوشش کی جو صدیوں کی استعماریت نے مغرب کے ذہن میں بٹھا دی تھی، پھر یہ ہوا کہ مغربی نفسیات کی بنیادی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی گئی۔ یعنی فرائڈ نے تصور انسانِ وہ لیا جو انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں مروج تھا اور جو کوئی بھی اس پر پورا نہ اترا ہے وہ ’’غیر معمولی‘‘ ٹھہرا ہے۔
خیر فرائڈ کا نقطۂ نظر اس حد تک نقصان دہ نہیں ہے جتنی یونگ کی اجتماعی نفسیات، اس نفسیات کے نہایت خطرناک اطلاقات میری سمجھ میں اس وقت آئے جب میں نے اس سے منسلک سیاسی نظریوں پر ایک نظر ڈالی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مغرب کے قدم جب ان زمینوں سے اکھڑنے لگے ہیں تو جو تحفہ وہ ہمیں دے کر گیا ہے وہ نسلی قومیت کا تحفہ ہے اس کی جہاں نسلی بنیاد موجود تھی وہ تو تھی ہی جہاں نہیں تھی وہاں علم آثاریات کے تحت فراہم کردی گئی ہے۔ سرجان مارشل، کرنل چرچ وارڈ اور مارٹیمر وہیلر وغیرہ کی سیاسی وابستگیوں کی بات اب کچھ اتنی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ خیر تو ادھر قدیم تہذیبوں کی دریافت شروع ہوئی ادھر سے یونگ صاحب نے نسلی باز یافت کی نفسیات کا تحفہ بھیجا اور مشرق دو پاٹن کے بیچ۔ لیکن خیر ایک بہت اچھی بات جو نفسیات کے دبستانوں کے ذریعے یورپ میں پیدا ہوئی، وہ خود شعوری کی کوشش ہے۔ ادب میں تو یہ بات بہت پہلے سے موجود ہے۔
یہاں میں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ یورپ کے علوم چاہے کچھ بھی کہتے رہیں۔یورپ کے ادیبوں کی اکثریت نے سچ بولا ہے۔ اصل میں مجھے جس چیز نے یورپ کے علوم کو بہ نگاہ شک دیکھنے پر اکسایا وہ ان کا ادب تھا اگر واقعی علم کی دنیا اسی طرح وسیع ہورہی ہے جیسا کہ مغرب کا سرکاری دعویٰ ہے تو وہاں ایک طمانیت کی صورت ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہے۔ جدید نفسیات دانوں کی تحریریں دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ مغرب میں انسان اپنے ایسے بحران سے گزر رہا ہے جس سے اس کا سابقہ اس سے پہلے کبھی نہیں پڑا تھا۔ خیر تو نفسیات پر جو میرے اعتراضات ہیں وہ صرف یہ کہ ایک تو نفسیات کے ہر دبستان نے مغرب کے موجودہ آدمی کو ہی انسان کا واحد نمائندہ فرض کر کے اپنے استخراجات کا عالمی اطلاق شروع کردیا دوسرے یہ کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں علمی اور نظری نفسیات کا جو عظیم ذخیرہ محفوظ تھا اس کی طرف کسی نفسیات داں نے توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہے۔ ہندومت میں اور پھر چینیوں کے ہاں انسانی نفسِ باطن کے بارے میں ایک پورا منضبط علم رہا ہے پھر مسلمان صوفیاء کے ہاں جو عملی نفسیات کا نظام ہے اس کی طرف ایک نظر ڈال لیجیے۔ ہمارے ہاں عسکری صاحب نے اور ڈاکٹر اجمل نے چند بنیادی نوعیت کے مضامین لکھے ہیں ان کا ایک سرسری مطالعہ بھی ہمیں صورت حال کے بارے میں ایک اندازہ قائم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ہر دور کے اپنے چند علوم ہوا کرتے ہیں۔ مثلاً اٹھارویں صدی تک مغرب میں فلسفہ بنیادی علم سمجھاجاتا تھا۔ انیسویں صدی میں طبیعیات کو یہی حیثیت حاصل تھی اور اب آکر یہ صورت حال نفسیات کے ساتھ ہے۔
ایک اور علم کا ذکر یہاں بہت ضروری ہے جس کی بنیاد ایک طرف نفسیات پر اور دوسری طرف آثاریات پر رہی ہے اور یہ علم ہے انسانیات کا۔ اگر آپ مغرب کی تاریخ فکر کو مرحلہ وار دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایک زمانہ تھا جب علوم کے ضمن میں انجیل کی کتاب پیدائش پر بڑا انحصار کیا جاتا تھا لیکن پھر بعد میں ایک طرح سے اس کا مضحکہ اڑایا جاتا رہا۔ اصل میں مغرب کے ذہن میں ایک بہت بڑا کانٹا موجود رہا ہے میں نے اسے جس طرح سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ مغرب جب تاریخ سے باہر نکلتا ہے تو اس کے سامنے دوراستے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو مقدس روایتوں کا راستہ ہے اور دوسرا صنمیات کا۔ مغرب کی روح میں ایک دوئی موجود ہے جو تمام علوم میں ظاہر ہوتی ہے یعنی ہیلنیت اور عیسائیت۔ اور یہ دراصل ایک ملبوس ہے جویونانیت نے اپنے جسم پر لپیٹ رکھا ہے۔ یہ بات بھی میں اپنی طرف سے نہیں ہانک رہا ہوں بلکہ اگر اس کا ثبوت چاہیے تو ذرا پیچھے جانا پڑے گا۔
۳۸۱ء میں یونان میں ہی تثلیث کا مسئلہ کھڑا ہوا اور یہودیوں سے اس مسئلے پر شدید اختلاف ہو اہے۔ اسی کے بعد سے یہودی قاتلان مسیح بھی قرار دیے گئے ہیں۔ بہر کیف چوتھی صدی کے لگ بھگ یونانی روح اپنے آپ کو عیسوی جسم میں تخلیق کر رہی تھی بالکل اسی طرح جس طرح چینیوں نے بدھ مت کی World Form لے کر اس میں اپنی قدیم چینی دانش کا احیاء کرلیا تھا۔ خیر تو یونانی روح نے اپنے عیسوی قالب پر جلد ہی غلبہ پالیا اور یہی وجہ ہے کہ مغرب جب ماورائے تاریخ کی طرف جاتا ہے تو اس کا رخ صنمیات کی طرف ہوتا ہے۔ خیر یونانی صنمیات کے بارے میں مغربی عالم جو چاہے طوطا مینا کی کہانی سناتے رہتے ہمیں کیوں اعتراض ہوتا لیکن اصل میں قضیہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتھروپالوجی کے لنگڑے لولے مفروضات کی بنیاد پر مذہب کی مظہریات کی تفسیر فرمانے لگتے ہیں۔ میں اس بات کا قائل ہی نہیں ہوں کہ مذہب کی مظہریت کو مادی نظریات سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ مغرب میں سوائے مذہبی وجودیوں کے اور جتنے لوگوں نے مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ان کا نقطۂ نظریا تو سماجیاتی ہے یا نفسیاتی اور نفسیاتی بھی لاشعور والی۔ الحاد جدید کی بنیاد مذہب کی صورت حال کو غلط طور سے سمجھنے کی کوشش پر ہے خیر مسلمانوں کا تو کچھ نہیں بگڑا البتہ ہندوؤں اور بدھسٹوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے اور مذہب کو ایک خالصتاً انسانی نظریہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ مغرب جدید کی روح عیسویت سے گریز کر کے یونانی صنمیت کی طرف رجوع کرتی ہے اور پھر مختلف اساطیر کی ایک خاص انداز میں تفسیر کرتی ہے۔ چنانچہ اس عمل سے دو کام لیے گئے ہیں اور ان کے پیچھے کیا کچھ تھا وہ دیکھیے۔ انتھر وپالوجی نے مختلف تہذیبوں کو خاص مغربی نقطۂ نظر کے مطابق سمجھنے کی کوشش میں تہذیبوں کی دم ایک دوسرے سے باندھ دی ہے اور بقول سلیم احمد جہاں دم نہیں ملی وہاں اپنی طرف سے رسی باندھ دی ہے۔ اس سارے عمل کے ذریعے مقصود یہ تھا کہ تاریخ کے عمل کو ایک یک رخا عمل ثابت کیا جائے اور ہر بعد میں آنے والی تہذیب کو اس سے پہلے موجود تہذیب کی بہتر شکل بتائی جائے۔
عالمی انسانی وحدت کا یہ شعور پاسکل سے پہلے مغربی فکر میں موجود نہیں ہے چلیے انسانی وحدت کا یہ شعور بھی اپنی جگہ بہت درست ہے لیکن ذرا اس کا سیاسی، معاشرتی اطلاق کر کے دیکیے تو آپ کو علم ہوگا کہ آخر مغرب کو اس تفسیر پر اتنا اعتقاد کیوں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسانیات کی اس تفسیر کے بغیر آپ کی ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پس ماندہ کی علامتی تقسیم بھی تو وجود نہیں رکھتی۔ اسپنگلر کا کہنا ہے کہ مغربی یورپ کی تہذیب وہ واحد تہذیب ہے جو قدیم، متوسط، جدید کی زمانی منطق میں سوچتی ہے اور ترقی یافتہ ترقی پذیر اور پسماندہ دراصل اسی زمانی منطق کا عملی اطلاق ہے اور اس کے پیچھے جذبہ یہ ہے کہ انسانیت کے عالمی سفر کا اگر کوئی حاصل ہے تو مغرب جدید کی تہذیب ہے۔ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں تھا لیکن ہم یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ یہ تہذیب جو انسانیت کے ثمر کا حاصل ہے آخر کیا؟ تو اس کی گواہی ہم لیتے ہیں اس تہذیب کے ادب سے۔ تو اس کا عالم یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس جہنم کا کوئی تصور نہیں ہے تو اسے قائم کرنے کے لیے جدید مغربی ادب کا مطالعہ کیجیے جہاں فرد کے پاس سوائے خود کشی کے اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ تو جب علمی نظریہ بازی اور ادب کے درمیان یہ بعد المشر قین نظر آتا ہے تو میں ادب کی گواہی پر یقین رکھتا ہو ں اس لیے کہ ادب کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
یہ علوم کے پیچھے کے سماجی اور سیاسی عمل کا ایک بہت ہلکا سا خاکہ تھا جو حسب توفیق میں نے پیش کردیا لیکن اس سے جڑے ہوئے دو مسائل اور ہیں ایک تو یہ کہ ہمارے دانشوروں نے ان علوم کو کس طرح قبول کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ کیا حدود ہیں جنھیں کسی بھی تہذیب سے تعلق رکھتے ہوئے ہمیں ملحوظ رکھنا چاہیے۔
ہم عموماً یہ کرتے ہیں کہ سماجیات یا انسانیات کے نظریوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے وہ دو جمع دو چار قسم کے حقائق ہوں۔ مثلاً ایک دن جو میں نے انتھروپولوجی کے بارے میں اعتراض اٹھایا تو ایک صاحب متوحش ہوتے ہوئے
بولے ارے یہ تو علم ہے اسے آپ کس طرح مسترد کرسکتے ہیں۔ تو آئیے دیکھیں علم مروجہ معنوں میں کن کن اشیاء کو محیط ہے۔ علم مرکب ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر منقولات اور معقولات سے۔ چونکہ ہم جدید تصور علم سے بحث کررہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان دونوں ، اصطلاحات کو بھی ایک نئے پس منظر میں سمجھتے چلیں۔ منقولات کے دائرے میں ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ جو نسلاً بعد نسل ہم تک منتقل ہوتی آئی ہیں، اب وہ معلومات بھی شامل کر لیجیے جو ہم معروضی دنیا سے حاصل کرتے ہیں اور معقولات کے تصور میں ان معلومات سے نتائج کا استخراج کرنے کی صلاحیت کے علاوہ معلومات کو آپس میں ایک نقطۂ نظر کے مطابق ایک ڈھانچہ فراہم کرنے کی مشق کا اضافہ بھی کر دیجیے۔ اب علم کی تشکیل کرنے والے یہ عناصر ہمارے سامنے آئے۔۱۔معلومات۲۔استخراج کرنے کی قوت۳۔وہ نقطۂ نظر جو معلومات کو مربوط کر کے ایک شکل دیتا ہے۔ اب جہاں تک معلومات کا تعلق ہے عموماً اس کی حیثیت غیر شخصی ہوتی ہے لیکن جہاں سے معلومات کی بنیاد پر مقدمات کی تشکیل کی جاتی ہے وہاں سے انسان کی شخصیت کا دخل شروع ہوجاتا ہے جس کے پیچھے اس کا پوا نقطہ نظر ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ علوم کے ڈھانچے کا مسئلہ افراد کی ذات کی سطح سے آگے کا ہے۔ اس مسئلے میں قومی نسلی اور نظریاتی سطح پر علوم کا پورا نظام، سیاسی اور معاشی مفادات گروہی اور نسلی تعصبات سب شامل ہو جاتے ہیں۔ معقولات اور منقولات کے تناسب کے فرق کے ساتھ ساتھ علوم کی قسمیں اور ان کی حیثیتیں بنتی چلی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں آرتھر کوئسلر نے علوم کا ایک گراف بنایا ہے جو اس کتاب Meaning of the creative act میں شامل ہے۔ لیکن اس عزیزنے علم کے سفر کو موضوعی اور معروضی کے درمیان تقسیم کیا ہے۔ پھربھی اس گراف کو جو غزلیہ شاعری سے شروع ہو کر فزکس او ریاضی پر اختتام پزیر ہوتا ہے، دیکھ لینا مغرب میں علوم کی تقسیم کے اصول کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔ خیر یہ گفتگو میں نے بیچ میں اس لیے ڈالی ہے تاکہ خلط مبحث پیدا ہونے کااندیشہ نہ رہے۔
اب یہ سوال اٹھا تا ہوں کہ ہمارے دانشوروں نے عموماً اور اردو کے نقادوں نے خصوصاً ان مغربی علوم سے کس طرح فائدہ اٹھایا ہے۔ پتہ نہیں یہ المیہ مغربی ہے یا ہمارا کہ مستغر بین ابتدا سے ہی مغربی علوم سے تقریباً کورے رہے ہیں۔ سب سے پہلے سر سید احمد خاں کی مثال لے لیجیے کہ مغربی علوم کی اس شدومد سے چار کرتے تھے لیکن مغربی علوم تک ان کی پہنچ جتنی تھی ہم آپ پر ظاہر ہے پھر مولانا حالی وغیرہ کا نمبر آتا ہے ان کے پاس بھی مغرب کے بارے میں پر خلوص جذبات کے علاوہ اور کیا ادھرا ہے اور جس نے مغرب کو صحیح معنوں میں سمجھا، اس نے تو ہمیں دوباتیں بتائیں۔ ایک تو یہ کہ:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
Kسرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
À اوریہ کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔ مجھے پتہ ہے کہ میرے اس اعلان کے ساتھ ہی بہت سے لوگوں کے ساتھ یہ ہورہا ہوگا جسے انگریزی میں ٹریگردی امیجی نیشن کا عمل کہتے ہیں اور وہ پھر ان تمام مغربی مصنفوں کے حوالے یاد کر رہے ہوں گے جن کا نام تنقید اقبال دہراتی رہی ہے لیکن خیر اگر اقبال کو پھر مغربی فکر کا مبلغ اعظم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تو میں ان کا جواب دے دوں گا اس لیے کہ میری نظر میں تو اقبال کی وہ شخصیت ہے جو پوری مغربی فکری روایت سے آنکھیں ملا کر کہتی ہے:
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
Sتو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے
¾ یہ درست ہے کہ یہاں اگر میری گفتگو میں خطابت کا رنگ پیدا ہوگیا ہے لیکن یہ ہے کہ اگر ہم مولوی چراغ علی کی حمایت بلند آواز سے نہیں کرسکتے تو اقبال کے بارے میں تو غیر محجوب اور غیر معذرت خواہانہ اسلوب میں گفتگو کر لینے دیجیے۔
خیر اب دو بارہ مغربی علوم کی اس گونج کی طرف آئیے جو ہمارے اردگرد موجود ہے۔ بات کو مختصر کرنے کے لیے میں صرف نقادوں کا ذکرکروں گا اور وہ بھی چند لمحوں میں۔ اردو کے نقاد چند مستثنیات کو چھوڑ کر اگر مغرب کو پڑھتے، ان کی معلومات اخذ کرتے اور اپنے علوم کے ساتھ انھیں رکھ کر دیکھتے، مغرب کے نسلی اور سیاسی تعصبات سے الگ کر کے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو میں سمجھتا کہ واقعی انھوں نے مغرب سے کچھ سیکھا ہے۔ مگر ایک طرف کلیم الدین احمد سے شروع کیجیے، مجنوں گورکھپوری سے ہوتے ہوئے احسن فاروقی کی ناول والی تنقید پر آجائیے پھر بس نام گنتے جائیے ۔ احتشام حسین سے عبادت بریلوی، محمد علی صدیقی تک ممتاز حسین اور جی چاہے تو ڈاکٹر محمد حسن کو بھی شامل کر لیجیے۔ فراق گورکھپوری مشرقی شاعری کا بڑا فہم رکھتے ہیں لیکن میرؔ کے بارے میں فرمایا کہ میرؔ سے دل و دماغ کا شاعر ایشیا تو کیا یورپ میں بھی پیدا نہ ہوا ہوگا۔ اب آپ اس جملہ میں ملاحظہ فرما لیجیے کہ ایشیاء تو کیا کے ایک ٹکڑے میں کون سی ذہنیت بول رہی ہے کیا یہ مغرب کی اس تحقیق کا شاخسانہ نہیں ہے کہ جس کا حوالہ میں پہلے دے چکا ہوں جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ مشرقیوں کے ذہن، مغربیوں سے چھوٹے ہوتے ہیں پھر ایک اور علماء کی لائن ہے۔ وزیر آغا سے شمس الرحمن فاروقی تک…… ان کے ارد گرد نو ترقی پسندی ہے، افتخار جالبؔ انیس ناگی کی شکل میں۔ اس قطار میں جیلانی کامران کو مستثنیٰ کر دیجیے اس لیے کہ ہزارہا اختلاف کے باوجود جیلانی کامران کے پاس کہنے کو کچھ ہے۔
میں جو باتیں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ نام گنائے بغیر بھی کرسکتا ہوں لیکن میں نے ان ناموں کاذکر اس لیے کردیا ہے تاکہ آپ کے سامنے پورا منظر آجائے۔ ہاں اہم ترین نام یعنی محمد حسن عسکری کا ذکر کرنا میں بھولا نہیں ہوں بلکہ پچاس صفحے کے ایک تفصیلی مضمون میں میں عسکری صاحب کے بارے اپنی عقیدت مندانہ رائے ظاہر کر چکا ہوں۔ سلیم احمد مغربی علوم کا جھگڑا زیادہ پالتے نہیں اور شاعری کے بارے میں نظریہ بازی کرنے کے بجائے اسے پڑھ کر صحیح معنوں میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیر تو یہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ ان نقادوں کی تحریروں کا تجزیہ نہیں ہے بلکہ ان کے بارے میں میری رائے ہے۔ اب ہم پھر اپنے اصل سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔
ان لوگوں نے مغرب سے کیا سیکھا ہے؟
ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنھیں مغربی علوم سے مغرب کے نقطۂ نظر کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ پھر ان میں سے اکثرکے ساتھ ایک عجیب لطیفہ ہے۔ ادھر مغرب میں نفسیات کے انسانیات کے یا کسی اور علم کے کسی دبستان کا غلغلہ بلند ہوتا ہے ادھر یہ اسے بنیاد بنا کر تنقید کا ایک وبستان قائم کر لیتے ہیں پھر ادھر مغرب میں تو کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوتا کہ وہ تھیوری ہی غلط تھی ادھر ان کی تنقید دھری کی دھری رہ جاتی ہے اردو ادب میں شاخ نازک کے ان آشیانوں کی داستان جتنی مضحکہ خیز ہے اتنی ہی عبرت انگیز بھی ہے۔یہاں ایک اور بات عرض کرتا چلوں۔ اردو کے نقادوں کے نزدیک مغربی ادب سے مراد انگریزی ادب ہے اس لیے کہ عسکری صاحب کو چھوڑ کر اور کسی کے ہاں آپ کو برطانیہ سے باہر کے حوالے کم ہی نظر آئیں گے گویا بیچاروں کی گرفت یورپ کے ادب پر بھی نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مغرب کے ادب کا جتنا اچھا مطالعہ میرا جی کا تھا (ثبوت کے لیے مشرق و مغرب کے نغمے دیکھیے) بعد کے لوگوں کو وہ بھی حاصل نہ ہوا۔ سوگنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟
ممکن ہے میری اس تقریر کو بعض لوگ جذباتی سمجھ کر ٹال دیں اور بعض بھنا اٹھیں لیکن آپ یہ نہ بھولییے کہ میں اردو تنقید پر کوئی مقالہ سپرد قلم نہیں کررہا ہوں بلکہ مغربی علوم سے اپنے حرکی تعلق کا جائزہ لے رہا ہوں۔ اور رہ گئیں جذباتی باتیں تو میں کوئی عالم آدمی تو ہوں نہیں کہ علم کے بل پر گفتگو کروں، لہٰذا لے دے کر میرے پاس جذبے ہیں اگر ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھوں تو مغربی نظریات کی جگالی کے علاوہ اور میرے پاس رہے گا کیا۔
اس ساری گفتگو سے یہ واضح ہوگیا کہ میں مغرب کو یکسر مسترد کرنے کے حق میں نہیں لیکن مغرب کی طرف جو نظریہ رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم مغرب کے نقطۂ نظر کو سمجھیں ان علوم کا آموختہ سنانے کے بجائے مغرب کے تعصبات کو منہا کریں اور پھر دیکھیں کہ ان علوم میں کیا کچھ بچ جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ رومن رسم الخط میں لکھی ہوئی ہر بات کو حقیقت مطلقہ سمجھنے کے بجائے مفروضے اور علم میں فرق کرنا سیکھیں۔ جب تک یہ نہیں ہوتا ہم پس ماندہ سے ترقی پذیر ہی بنتے رہا کریں گے۔
اب آخر میں د وتین باتوں کی صراحت کردوں جو مغرب کے اور ہمارے ادب کے تعلق کے سلسلے میں کافی اہم ہیں۔ میں نے عرض کی تھی کہ مغرب میں اٹھارہویں صدی تک وہ تصور جو سارے علوم کو وحدت دیتا تھا، نیچر کا تصور تھا، پھر کلچر کا تصور آیا یعنی نقطۂ نظر کائناتی قانون سے ہٹ کر معاشرتی روایت کی طرف آگیا اور اب جو دور ہے وہ ایک سہ حرفی مرکب یعنی ازم (ism) کا دور ہے۔ ازم اس وقت وجود میں آتے ہیں جب مجموعی طور پر اصول واحد ساقط ہوجائے اور الگ الگ خود مختار خانے بن جائیں۔ چنانچہ ازموں کی تعداد مغرب میں بڑھتی جارہی ہے اور وہاں سے آہستہ آہستہ ہمارے ہاں بھی پھیلتی جارہی ہے، میر ااعتبار نیچر سے، کلچر سے اور ازم سے اٹھ چکا ہے لیکن اس کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ حلقۂ ارباب ذوق کے اجلاس میں بحث و مباحثہ کی گرما گرمی کے دوران میں، پر سکون ہو کر مغرب کے نظریاتی بلوے سے بچ کر اقبالؔ کی، شاہ ولی اﷲ کی، مجدد الف ثانی کی، جامی اور رومی کی، ابن عربی کی اور سب سے بڑھ کر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پناہ میں آتا جارہا ہوں، اﷲ مجھے توفیق دے کہ:
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست