عبداللطیف خالد چیمہ
پیغمبرامن ،مُحسن ِ انسانیت جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین وتکذیب وہی لوگ کررہے ہیں ،جو دنیا میں بدامنی اور دہشت گرد ی کا راج پورے شباب پر دیکھنا چاہتے ہیں ،کچھ عرصے سے اسلام وپاکستان دشمن گروہ اِس عمل ِبد کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں ،ماضی قریب میں اِس کا اِرتکاب سب سے پہلے قادیانیوں نے کیا ، 30 ۔ستمبر 2005 ء کو ڈینش اخبار نے جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے سے بارہ کارٹون شائع کیے جس کے پیچھے قادیانی لابی کاعمل دخل کارفرما تھا ،(روزنامہ ’’جنگ ‘‘لندن )۔
بعدازاں ستمبر2012 ء امریکہ میں توہین آمیز فلم ریلیز ہوئی تو قادیانی امریکہ کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور اب (ڈچ )ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش کااعلان ہُوا ہے ،جس کو روزنامہ ’’اُمت ‘‘کراچی ،راولپنڈی نے 21 ۔جون 2018 ء کوصفی علی اعظمی کی رپورٹ میں میگزین پیج پر یوں شائع کیا ہے ملاحظہ فرمائیں!
ہالینڈ کی اسلام دشمن جماعت فریڈم پارٹی کے سربراہ ملعون گیرٹ ولڈرز نے ایک بار پھر دنیا کا امن داؤ پر لگاتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اعلان کر دیا ہے۔ برطانوی جریدے ’’دی ویک‘‘ کا کہنا ہے کہ یہ اعلان گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا۔ لیکن ڈچ حکومت کی کاؤنٹر ٹیرر ازم ایجنسی این سی ٹی وی کی جانب سے اس کو کچھ دنوں کے لیے روکا گیا۔ بعد ازاں اسلام دشمن ڈچ سیاست دان گیرٹ ولڈرز نے اعلان کیا کہ اس بار گستاخانہ خاکوں کا نمائشی مقابلہ سیکورٹی نکتہ نظر سے ڈچ پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر منعقد کیا جائے گا۔ اس میں ڈچ شہریوں سمیت فریڈم پارٹی کے اراکین کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور آن لائن گستاخانہ خاکے بھی طلب کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈچ میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ اس مقابلے کو سماجی رابطوں کی سائٹس پر بھی براہِ راست دکھایا جائے گا اور شرکا کو مختلف کیٹگریز میں بھاری انعام دیے جائیں گے۔ اس حوالے سے ملعون گیرٹ ولڈرز نے دنیا بھر سے گستاخانہ خاکوں کو بذریعہ ای میل بھیجنے کے لیے ای میل اکاؤنٹ بھی فراہم کیا ہے۔ ملعون ڈچ رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈرز کا کہنا ہے کہ اس نے ملک میں شامی پناہ گزینوں کی آمد روکنے کے لیے یہ نمائشی مقابلہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ ڈچ عوام کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا جا سکے۔ مارچ ۲۰۱۷ء کے الیکشن میں دوسرے نمبر پر آنے والی فریڈم پارٹی نے الیکشن کے فوری بعد پارلیمنٹ میں ہالینڈ میں قرآن کی اشاعت، تقسیم اور نقل و حمل پر پابندی کا بل پیش کیا تھا۔ جبکہ اسی ملعون گیرٹ ولڈرز کے ایما پر ڈچ حکومت نے ملک بھر میں نقاب، برقع اور حجاب پر پابندی بھی عائد کی۔ ڈچ دار الحکومت میں اپنی پریس کانفرنس میں ملعون گیرٹ ولڈرز کا کہنا تھا کہ گستاخانہ خاکوں کے لیے اس نے سیکورٹی فراہم کرنے کا جو مطالبہ کیا تھا، اس پر حکومت نے مثبت ردِّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے پروگرام کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد کرنے کی اجازت دی ہے۔ ملعون گیرٹ ولڈرز نے اپنی پریس کانفرنس میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کی تاریخ کااعلان نہیں کیا اور کہا کہ اس کی تاریخ کا اعلان اگلے ہفتے کیا جائے گا۔ البتہ اس گستاخانہ مقابلے کے جج کے طور پر گیرٹ ولڈرز نے امریکہ سے تعلق رکھنے والے ملعون کارٹونسٹ بوش فاسٹن کے نام کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی کارٹونسٹ ملعون بوش فاسٹن نے ۲۰۱۵ء میں امریکن فریڈم ڈیفنس انسٹی ٹیوٹ کے تحت منعقدہ گستاخانہ مقابلے میں اوّل انعام حاصل کیا تھا، جس کی وجہ سے ملعون گیرٹ ولڈرز نے اس کو ڈچ پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والے مقابلہ کا منصف بنایا ہے۔ ادھر ڈچ مسلمانوں نے گیرٹ ولڈرز کی ناپاک جسارت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر سطح پر اس گستاخانہ مقابلہ کے انعقاد کے خلاف مظاہرے کریں گے اور تمام اسلامی حکومتوں سے بھی مکتوبات ارسال کر کے اپیل کریں گے کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور ڈچ حکومت کو مجبور کریں کہ دنیا کے امن کو داؤ پر مت لگائے اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو روکے۔ ادھر اسرائیلی جریدے ’’ہارٹز‘‘ نے لکھا ہے کہ گیرٹ ولڈرز کا ماضی، اسلام و قرآن کی دشمنی سے عبارت ہے اور وہ ماضی میں گستاخانہ فلمیں اور خاکے بنوا چکا ہے۔ حالیہ ایام میں اس کی اس مذموم حرکت سے خطے سمیت عالمی افق پر بدامنی کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔ واضح رہے کہ مسلسل گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے لیے بدنام زمانہ ملعون فرانسیسی جریدے ’’چارلی ایبڈو‘‘ کو سبق سکھانے کے لیے ۲۰۱۵ء میں منظم حملہ کیا گیا تھا، جس میں گستاخ فرانسیسی جریدے سے تعلق رکھنے والے ۱۲، اسٹاف ممبرز اور سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ حالیہ ایام میں اس نئے مقابلہ کے اعلان کے بعد بھی ایسے ہی حملوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ روسی جریدے ’’رشیا ٹو ڈے‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ اسلام مخالف ڈچ فریڈم پارٹی کے سربراہ گیرٹ ولڈرز نے ایک ماہ پہلے رمضان المبارک کے مہینے میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کرنا تھا۔ لیکن اس کو ڈچ حکومت نے سیکورٹی وجوہات کا بہانہ بنا کر اعلان سے روک دیا تھا۔ لیکن اب جبکہ فریڈم پارٹی کو گستاخانہ خاکوں کے مقابلہ کے مقام یعنی پارلیمنٹ ہاؤس میں محفوظ پروگرام کی اجازت اور سیکورٹی فراہم کر دی گئی تو اس معلون نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلہ کا اعلان کر دیا ہے۔ (روزنامہ ’’ اُمت ‘‘ کراچی ،21 ۔جون 2018 ء )۔
غیرمسلم ووٹروں کی تعداد اور قادیانی !
الیکشن 2018 ء سر پر ہے ، اﷲ کرے کہ الیکشن امن سے گزر جائے اور ملک امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے ، گزشتہ دنوں اقلیتی (غیر مسلم)ووٹروں کی تعداد بعض اخبارات میں شائع ہوئی ،ہم تحریک تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے عرصۂ دراز سے قادیانی گروہ کو آئین وقانون کے دائرے میں لاکر مروجہ ضابطے کا پابند بنانے کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں تاکہ قادیانیوں کی مردم شماری کرکے ان کی صحیح تعداد سامنے لائی جائے ۔دوم یہ کہ قادیانی بطور غیر مسلم ووٹر اپنے اندراج کو یقینی بنائیں تاکہ وہ خود بھی جان سکیں کہ ان کی مبالغے کے بغیر اصل آبادی کا تناسب کیا ہے ،سردست غیر مسلم اقلیتی ووٹروں کی تعداد روزنامہ ’’ اوصاف ‘‘لاہور (صفحہ اوّل )کی 22 ؍جون 2018 ء جمعتہ المبارک کی اشاعت کی دوکالم خبر یہاں نقل کی جا رہی ہے تاکہ صورتحال سمجھنے میں آسانی ہو۔
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)الیکشن کمیشن کے اعدادو شما ر کے مطابق 25 جولائی کے عام انتخابات کے لیے ملک کی سات بڑی غیر مسلم مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کی تعداد 36 لاکھ 30 ہزار سے زائد ہے ،جو گزشتہ انتخابات کی نسبت تیس فیصد زیادہ بنتی ہے ۔الیکشن کمیشن کی انتخابی فہرستوں کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ غیر مسلم ووٹروں کا تعلق ہندوبرادری سے ہے۔ان کی تعداد 17 لاکھ 77 ہزار سے زائد ہے ۔دوسری بڑی مذہبی اقلیت مسیحی ہے۔مسیحی ووٹروں کی تعداد 16 لاکھ 40 ہزار سے زیادہ ہے ۔تیسری سب سے بڑی برادری قادیانیوں کی ہے ۔ان کی تعداد ایک لاکھ 67501 ہے ۔ ان کے علاوہ 31500 سے زائد بہائی ،8852 سکھ ،4235 پارسی اور بدھ مت کے 1884 پیروکار بھی ووٹر لسٹوں میں شامل ہیں ۔2018 ء کی انتخابی فہرستوں میں ایک بھی یہودی ووٹر لسٹ میں شامل نہیں ہے جبکہ 2013 ء کے انتخابات کے لیے رجسٹرڈ یہودی ووٹر وں کی تعداد 809 تھی ،انتخابی فہرستوں کے مطابق ہندو رائے دہندگان کی اکثریت سندھ میں رہتی ہے ،جہاں 40 فیصد ووٹر صرف دو اضلاع عمر کوٹ اور تھرپارکر میں رہتے ہیں۔مسیحی رائے دہندگان میں سے 10 لاکھ پنجاب میں اور دولاکھ سے زیادہ سندھ میں رہائش پذیر ہیں ،قادیانی برادری کے رائے دہندگان پنجاب ،سندھ اور اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔اس کے برعکس سکھ ووٹروں کی بہت بڑی تعداد خیبر پختونخوااور فاٹا کے قبائلی علاقوں میں مقیم ہے ۔پارسی رائے دہندگان کی بڑی اکثریت سندھ میں ہے جبکہ ان کا ایک حصہ خیبر پختونخوا میں بھی آباد ہے۔
ملتان میں قادیانی آرپی او کی تعیناتی!
چند روز پیشتر ملتان میں (ملک)ابوبکر خدا بخش کو بطور آرپی او تعینات کیا گیا ہے ،جس پر دینی جماعتوں نے تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا ہے ،قادیانی افسران خصوصاََ اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں اورجہاں کہیں اُنہیں موقع ملتا ہے وہ قادیانی کو مقدم رکھ کر اقدامات کرتے ہیں، جن سے اکثر اوقات لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال جنم لیتی ہے ،یہی صورتحال ملک ابو بکر خدا بخش کی ہے کہ وہ ڈی پی او خوشاب تھا تو وہاں اُس نے قادیانیت بلکہ ربوہ برانڈ اِرتداد کو پرموٹ کیااور مختلف اوقات میں متعددمقدمات میں تحریک ختم نبوت کے کارکنوں کو اُلجھا یا اور پر یشان کیا، مسجد یمامہ چک 2TDA جوہر آباد جب طویل عدالتی کا رروائی کے بعد مسلمانوں کو دی گئی اور فیصلہ سید اطہر شاہ گولڑی کے حق میں ہُوا تو حیلے بہانے سے مختلف مسائل کھڑے کئے او اعلانیہ قادیانی گروہ کی طرف داری کرتا رھا پھر یہ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور تعینات ہُوا تو اس کا قریبی عزیز وقاص نتھوکہ اس سے بھی بڑھ کر وہی اقدامات کرتا رہا جو قادیانیت کی واضح جانبداری پر مشتمل تھے جبکہ مسلم لیگ (ن ) کی صوبائی حکومت ان پر مکمل اعتماد کرتی رہی اور انہیں کئی اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں اور اب کسی گہری پلاننگ کے تحت ملتان جیسے مذہبی شہر جہاں ختم نبوت کی جماعتوں کے ہیڈکوارٹر ز ہیں میں ابو بکر خدا بخش کے تعینات کئے جانے سے ہمیں بڑا خطرناک محسوس ہو رھاہے ،عالمی مجلس احرارا سلام اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اس پر احتجاج ریکارڈ کراچکی ہیں جبکہ ڈویژن بھر میں مختلف مکاتب فکر کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، اور اگر یہ تعیناتی واپس نہ لی گئی ، تو پیش آمدہ صورتحال خرابی کی طرف بھی جاسکتی ہے اس لیے پنجاب کی نگران حکمران اور مجازاتھارٹی سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ ٹھنڈے دل سے صورتحال کا جائزہ لیں اور ابو بکرخدا بخش جیسے سکہ بند قادیانی کو بلا تاخیر ملتان سے ہٹایا جائے اور قادیانیت نواز ی پر مبنی اقدامات جیسے الزامات کے حوالے سے اعلیٰ سطحی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں کیونکہ مذکورہ دونوں قادیانیوں نے ایٹمی تنصیبات کے حوالے سے ضلع خوشاب جیسے حساس علاقے میں اہم ترین اور حساس مقامات پر وسیع رقبے خریدے جو ملکی دفاع کے حوالے سے سوالیہ نشان ہے ،اس حوالے سے بھی مذکورہ دونوں قادیانی افسران نے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جو نا قابل ِ معافی ہیں کیونکہ یہ قادیانیوں کی مسلسل پشت پناہی کررہے تھے۔