پروفیسر خالد شبیر احمد
جامعہ کراچی سے وابستہ معروف صاحب علم و دانش جناب خالد جامعی جن کے گراں قدر مضامین ملک کے معروف جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ اُن کا ایک تازہ مضمون میری نظر سے گزرا جو ہمارے ملک کے اندر ہونے والے حالات کے نظریاتی اور فلسفیانہ پس منظر اور اس کے بارے میں علماء و قائدینِ وطن کی نا واقفی کی نقاب کشائی کی ایک انتہائی اہم کوشش ہے۔ اُن کے اس مضمون کا عنوان: ’’ جدید ریاستوں میں مذہبی جماعتوں اور علماء کی کیا حیثیت ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید ریاست خواہ کہیں کی ہو، اور اس کے باشندے خواہ کوئی سا مذہب رکھـتے ہوں، اس ریاست میں مذہبی علوم کے حاملین کی صرف چار حیثیتیں ہیں……
۱۔ ریاستی آلہ کار کی حیثیت ۲۔ مذہب کو سیکولرائز کرنے کے عمل میں نا دانستہ حصہ دار
۳۔ پریشر گروپ ۴۔ مذہب کے نام پر مذہبی قوم پرستی کے بلا معاوضہ وکیل
اس ضمن میں وہ اپنے مضمون میں امریکہ کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا بلی گراہم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’بلی گراہم(امریکہ کے مشہور عیسائی مبلغ اور مذہبی رہنما) امریکی صدورپر براہ راست اثر انداز ہوئے۔ جمی کارٹر ان سے مذہبی روحانیت حاصل کرتے رہے۔وہ کارٹر کے مشیر اور دوست بھی تھے۔ نکسن ان کے مرید تھے۔ نکسن کے مقابلے میں جان ایف کینیڈی رومن کیتھولک تھے لہذا نکسن کو کامیاب کرانے کے لیے بلی گراہم نے اپنے مذہبی اثر و رسوخ کو استعمال کیا تاکہ ویٹی کن کے اثر کو ناکام کیا جائے۔
رونالڈ ریگن بلی گراہم کو اکثر مہمان کی حیثیت میں مدعو کرتے تھے، بش سینئر نے برکت کے لیے ان کو وائٹ ہاؤس میں آنے اور قیام کرنے کی دعوت دی۔ لیکن امریکن خدا دشمن سیکولر ریاست کو مذہبی بنانے میں بلی گراہم کوئی کردار ادا نہ کر سکے اور امریکی ریاست پر کوئی اثر نہ ڈال سکے۔ کیونکہ جدید ریاست تو اپنی ماہیت و فطرت میں صرف سیکولر اور مذہب دشمن ہوتی ہے۔ وہ صرف آزادی، مساوات اور ترقی کے عقیدوں کو مانتی ہے۔ وہ ہدایت یافتہ انسان تیار نہیں کرتی وہ صرف تعلیم یافتہ انسان تیار کرتی ہے۔ جدید ریاست کا پبلک لا کبھی بھی مذہبی نہیں ہوتا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ یورپین ہیومن رائٹس (URHA) نے اس اصول کو طے کر دیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے علماء ان مباحث سے واقف ہی نہیں ہیں‘‘۔
آگے ایک دوسرے عنوان کے تحت مزید تفصیل اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’جدید ریاست کا اصل مقصد تعلیم یافتہ، ترقی یافتہ انسان ہیں، ہدایت یافتہ نہیں۔ جدید قومی جمہوری ریاست میں مذہبی تعقل کو غلبہ نہیں مل سکتا، UCHRکا فیصلہ‘‘۔
اس وقت ہمارے ملک کے اندر بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ مذہب کو ایک ذاتی معاملہ قرار دے کر ہمارے ملک کے اکثر تبصرہ نگار الیکٹرانک میڈیا پر اسی فلسفے کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ صورتِ حال اس قدر سنگین ہو گئی ہے کہ کسی بھی خلافِ شرع بات یا عمل کو روکنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے اور آپ ہمارے ذاتی معاملات میں دخل نہیں دے سکتے۔ اگر کسی بے نمازی کو کہا جائے کہ تم نماز پڑھا کرو تو وہ یہ جواب دیتا ہے کہ میں نے کبھی آپ سے کہا ہے کہ تم نماز کیوں پڑھتے ہو۔ یہ اُسی فلسفے کا نتیجہ ہے جس کا ذکر مضمون نگار نے اوپر کیا۔ تعلیم، آزادی اور ہیومن رائٹس پر زور دیا جا رہا ہے مگر انھیں ان الفاظ کے معاصر مفاہیم کا کچھ ادراک نہیں ہے، کہ جب یہ لفظ بولے جاتے ہیں تو کیا کیا عقائد و نظریات ان میں مضمرات کی طرح پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اب ہمارے دین کے مطابق تو تعلیم یا علم وہ ہے جس کے پڑھنے یا جسے حاصل کرنے کے بعد انسان میں تقویٰ کی خوبی پیدا ہو۔ علامہ اقبال نے کہا ہے
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہو فقط دو کف جَو
اگر ہمارے ملک کے اندر سپریم کورٹ کو جو اہمیت و حیثیت حاصل ہے وہ شریعت کورٹ کی نہیں ہے تو یہ بھی اسی فلسفہ کی وجہ ہے کہ علماء اور دین ک