نجم الحسن عارف
سیالکوٹ میں قادیانی گروہ نے علامہ اقبال میوزیم کے مقابل قادیانی فتنے کے بانی کی یادگار کے طور پر میوزیم بنانے کی تیاری کی، جس سے عوام میں سخت رد عمل پیدا ہوا۔ قادیانی گروہ نے اس جعلی یادگار کے لیے کارپوریشن سے منظور کردہ نقشے سے بھی تجاوز کیا۔ ایک منزلہ مکان اور اس پر ایک برساتی کی اجازت لی تھی لیکن تین منزلہ عمارت کھڑی کر دی گئی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق میوزیم کی منظوری نہیں لی گئی بلکہ ایک منزلہ عام رہائشی مکان کے نقشے کی منظوری لی گئی تھی۔ مسلمانوں کے احتجاج پر اس غیر قانونی تعمیر کے خلاف کارروائی کی گئی۔ تاہم انہدامی آپریشن کے دوران مقامی مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی وہاں پہنچ گئی اور انھوں نے قریب واقع قادیانیوں کی ایک متروک عبادت پر مسلمانوں کی علامت کے طور پر تعمیر کردہ گنبد اور مینار توڑ دیے۔
ذرائع کے مطابق جب ایک سال قبل اس ایک منزلہ مکان کی تعمیرات شروع ہوئیں تو اس وقت بھی عوامی سطح پر سخت رد عمل سامنے آیا تھا۔ تاہم پولیس نے صورتِ حال کو بگاڑ کی طرف نہیں جانے دیا تھا۔ ٹی ایم اے انسپکٹر ذکاء اﷲ نے اس سلسلے میں ’’اُمّت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسی وقت قادیانیوں کو ناجائز تعمیرات سے روک دیا گیا تھا۔ تاہم انھوں نے اندر کھاتے اپنا کام جاری رکھا اور عمارت کو نقشے کے مطابق ایک منزلہ رکھنے کے بجائے تین منزلوں تک وسعت دے دی۔ اس پر پھر مقامی مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ٹی ایم آفس نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ۹؍ مئی کو تعمیر کنندگان ممتاز بٹ ولد اسحاق بٹ اور عبدالستار ولد نامعلوم کو نوٹس بھی جاری کیا۔ تاہم تین دن میں نوٹس کا جواب دینے کی مدت ختم ہونے کے باوجود تعمیرات جاری رکھی گئیں اور نوٹس کا جواب نہ دیا گیا۔ جس کے بعد کارپوریشن حکام نے قواعد کے مطابق بلڈنگ کو سربمہر کر دیا۔ اس کے باوجود قادیانی گروہ ٹس سے مس نہ ہوا تو ۱۳؍ مئی کو مذکورہ بالا تعمیر کنندگان کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کرا دی گئی۔ بعد ازاں ممتاز بٹ اور عبدالستار وغیرہ نے گرفتاری سے بچنے کے لیے فوری طور پر عبوری ضمانت کرالی۔ جسے ایڈیشنل سیشن جج فرحان نے دو روز قبل پکی ضمانت میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد قادیانی گروہ اور شیر ہو گیا۔ جب کہ عوامی غم و غصہ بڑھتا ہوا دیکھ کر ٹی ایم اے نے جعلی یادگار کے ان حصوں کو گرانے کا فیصلہ کیا جو نقشے کے بغیر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔
’’اُمّت‘‘ کے ذرائع کے مطابق سیالکوٹ کے قادیانی گروہ نے علامہ اقبالؒ کی یادگار قرار دی گئی آبائی رہائش گاہ کے عقب میں محض پچاس گز کے فاصلے پر تقریباً چار مرلہ کے مکان کو اپنے ملعون بانی فتنہ کی جعلی یادگار کے طور پر میوزیم بنانے کے منصوبہ بندی کی تھی۔ اس سلسلے میں بیرون ملک سے قادیانی جماعت کو کافی اچھی فنڈنگ بھی ہوئی۔ تاہم ان ذرائع کا کہنا ہے کہ تقریباً سوا سال کے بعد اچانک قادیانی جماعت کو ایک نئی ترکیب سوجھی کہ بیرون ملک سے علامہ اقبال کی رہائش گاہ کا وزٹ کرنے کے لیے آنے والے مہمانوں کو مرزا غلام احمد کی یادگار تعمیر کر کے متوجہ کیا جا سکتا ہے۔ قادیانیوں کے اس سازشی منصوبے سے ایک مقامی قادیانی ظہیر احمد نے بھی خوب فائدہ اٹھایا، جس نے اپنے تقریباً چار مرلے کے مکان کو قادیانی جماعت کی مقامی قیادت کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ جیسے اس مکان کی قادیانیت میں غیر معمولی اہمیت ہو کہ مرزا غلام احمد قادیانی اس مکان والی جگہ پر آتا جاتا رہا اور کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کے دنوں میں مقیم بھی رہا۔ جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ کے ریٹائرڈ کلرک ظہیر احمد قادیانی نے مکان کی اس نوعیت کی ’’مارکیٹنگ‘‘ پر کئی سال کام کیا اور پھر مہنگے داموں اسے قادیانی جماعت کو فروخت کر دیا۔ اس کے بدلے میں اسے قریب ہی اس سے بڑا اور خوب صورت مکان بھی دیا گیا۔ جب کہ بیرون ملک موجود قادیانیوں نے اس جعلسازی سے تخلیق کی جانے والی جعلی نبی کی جعلی یادگار کے لیے وافر روپیہ فراہم کیا۔ ذرائع کے مطابق اس مقصد کے لیے بیرون ملک سے آنے والے خطیر رقم کو دو طرح استعمال کیا گیا، اوّلاً مکان کی خریداری پر ثانیاً سیکورٹی کے نکتۂ نظر سے غیر معمولی طور پر مضبوط تین منزلہ عمارت کی صورت میں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس امکانی یادگار کے حوالے سے منصوبہ یہ بھی تھا کہ اس کے ساتھ تقریباً جڑی ہوئی قادیانی عبادت گاہ جس میں ۱۹۷۴ء کے بعد باقاعدہ عبادت بھی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اس پر قادیانیوں کا قبضہ باقی تھا۔ البتہ قادیانی جماعت کے لوگ جب چاہتے اسے کھول لیتے جب چاہتے بند کر دیتے۔ اس کی تعمیر چونکہ لگ بھگ سو سال پہلے ہوئی تھی۔ اس لیے اس کا عمارتی تاثر ایک مسجد کا تھا۔ لیکن عملاً یہ قادیانیوں کے زیرِ تصرف ایک ایسی عبادت گاہ تھی جس میں باقاعدگی سے عبادت بھی نہیں کی جاتی تھی۔ البتہ بیرون ملک سے آنے والے مخیر قادیانیوں کو یادگاری منصوبے کے ساتھ اس عبادت گاہ کو جوڑ کر بتایا جاتا تھا۔
مقامی مسلمان اس قادیانی عبادت گاہ پر اسلامی علامات کے غیر قانونی اظہار پر سالہا سال سے شکایت کرتے رہے تھے۔ لیکن انتظامیہ نے کبھی نوٹس نہ لیا، بس یہ کہہ دیا جاتا کہ وہ اسے استعمال تو نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ اس سے تقریباً ڈیڑھ یا دو سو گز کے فاصلے پر عالمگیر روڈ پر قادیانی عبادت گاہ موجود ہے۔ قادیانی عبادت کے لیے اسے ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس کے باوجود مقامی قادیانی اپنی اس متروک عبادت گاہ کو امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت اسلامی علامات سے الگ کرنے کو تیار نہ تھے، جب کہ اب مزید یہ کر رہے تھے کہ اس کے سائے میں جعلی یادگار کی تعمیر کر رہے تھے۔ اس وجہ سے مقامی مسلمانوں کے احتجاج میں تیزی آتی رہی۔ ذرائع کے مطابق انتظامیہ نے کافی حد تک اس معاملے سے آنکھیں بند کیے رکھیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ قادیانیوں کو ایک منزلہ مکان کے نقشے کی منظوری کے باوجود اسے تین منزلوں تک تعمیر کرنے کا حوصلہ اور موقع مل گیا۔ اس کے خلاف سیالکوٹ میں ۹؍ مئی کو وکلا، علماء اور عام مسلمانوں کے علاوہ مذہبی تنظیموں کے کارکنوں نے احتجاج کیا۔ جس کے بعد مجبوراً کارپوریشن کی طرف سے غیر قانونی تعمیرات کے ذمہ دار ممتاز بٹ اور عبدالستار کو نوٹس جاری کیے گئے، لیکن تین دنوں کی مقررہ مدت میں انہوں نے نوٹس کا کوئی جواب نہ دیا۔ بعد ازاں ۱۲؍ مئی کو زیرِ تعمیر قادیانی یادگار کو سر بمہر کر دیا گیا۔ لیکن کارپوریشن کے انفورسمنٹ انسپکٹر کے بقول اندر کھاتے قادیانیوں نے تعمیرات جاری رکھیں۔ جس پر عوامی سطح پر بھی غم و غصہ بڑھتا رہا۔ صورت حال کو بھانپتے ہوئے ۱۳؍ مئی کو اسی انفورسمنٹ انسپکٹر ذکاء اﷲ کی طرف سے ایک ایف آئی آر مقامی تھانے ’’نیکا پور‘‘ میں درج کرائی گئی۔ ذرائع کے مطابق اس ایف آئی آر سے قبل کارپوریشن کے افسروں اور مقامی اے سی پر مشتمل افسروں کی چار رکنی ٹیم نے ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اعلیٰ حکام کو پیش کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ قادیانی جماعت کارپوریشن کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیرات کر رہی ہے۔ سرکاری زمین پر بھی تعمیرات کی ہیں، نیز نقشے کے بغیر بھی اور نقشے سے متجاوز بھی تعمیرات کی گئی ہیں۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر کارپوریشن نے پہلے ایف آئی آر درج کرائی۔ لیکن مقامی پولیس دس گیارہ دن گزرنے کے باوجود کچھ نہ کر سکی۔ اسی دوران ممتاز بٹ وغیرہ نے اپنی ضمانتیں کروا لیں۔ تب جا کر کارپوریشن کے عملے نے رات کو تراویح کے بعد غیر قانونی تعمیر شدہ حصوں کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے عملے کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں مقامی وکلا برادری نے بھی کلیدی کردار ادا کیا اور انتظامیہ کو مجبور کیا کہ قانون کی بالادستی کے تقاضے پورے کرے اور غیر قانونی تعمیرات کو ختم کرے۔ جب کارپوریشن کا عملہ ناجائز تعمیرات روکنے پہنچا تو عام لوگ بھی وہاں پہنچنا شروع ہو گئے، جنھوں نے سالہا سال سے قادیانی عبادت گاہ کو اسلامی شناخت دینے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ انھوں نے خود ہی متروک قادیانی عبادت گاہ کے مینار اور گنبد کو گرا دیا۔
(مطبوعہ: روزنامہ امت، 26 مئی 2018 ء)