سیف اﷲ خالد
اک چراغ اور بجھ گیا ، شاندار ماضی سے جڑا ایک رشتہ اورختم ہوا ، خود داری، غیرت ، علم اور عمل کا ایک اور استعارہ زمیں کی پنہائیوں میں اتر گیا ،اہل دل اداس ہیں اور اہل علم پریشان ، مگر جس عہد میں اندھیروں کا راج ہو، جہاں تاریکیاں ہی سکہ رائج الوقت اور ظلمت ہی معتبر ہو ، روشنیاں ہی نہیں روشن ضمیربھی اٹھا لئے جاتے ہیں ،سید عطاالمؤمن بخاری ؒ بھی انہیں میں سے ایک تھے ، پورے وقار ، استقلال اورعلمی جاہ وجلال کے ساتھ اپنا وقت گزار کر چلے گئے ، انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
امیر شریعت سید عطا اﷲ شاہ بخاری ؒکے تیسرے فرزند ،جنہیں امیر شریعت ؒ کی غیرت و حمیت کا پرتو کہا جاتا تھا، ان لوگوں میں سے تھے جو کسی بھی معاشرہ کی شناخت کہے جاتے ہیں ،جن کا قول سند اور طرز زندگی دلیل کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے ۔ وہ اس عہد میں اجنبی ہوجانے والے نغمہ ہائے شوریدہ کے ایسے مغنی تھے کہ خود امیر شریعت ؒسے کسب فیض کیا اور عمر بھر اسی سرمایہ افتخار کی پہرا داری کرتے گزار دی ۔ اختلاف ہو سکتا ہے ،ان کی ذات سے ، ان کے موقف سے بھی ، بے شمار لوگوں کو ہوگا ،مگرامیر شریعت ؒ کے فرزندوں میں سے کسی ایک پر بھی بکنے ، جھکنے ، ڈرنے یہاں تک کہ کچے راستوں پر پھسلنے کیا لڑ کھڑانے کا بھی الزام تک نہیں لگایا جاسکتا ۔ انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ جس ملک میں لوگوں نے جھوٹ بول کر جاگیریں حاصل کیں ، آزادی کے سپاہی ہونے کی جھوٹی قسمیں کھاکر دولت کے انبار اکٹھے کرلئے ، باپ دادا کی قبریں بیچ کر سیاسی مناصب اور سیم وزر سمیٹے، وہاں یہ لوگ بھی ہیں کہ تمام تر نامساعدحالات کے باوجود ایک لمحے کو بھی ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی ۔ کسی نے تحریک آزادی کے جرنیل اپنے والد کے نام پر کوئی سرکاری مراعات حاصل کیں اور نہ ہی کسی غیر سرکاری ذریعہ سے کچھ قبول کیا ،ختم نبوت کی خدمت اس خاندان کا اثاثہ تھا ،ہے ، اور آثار بتاتے ہیں کہ رہے گا ۔انشا اﷲ۔ سید عطاالمؤمن شاہ بخاری ؒ بھی اس پر قائم رہے اور ڈنکے کی چوٹ پر اپنا موقف بیان کرتے رہے ، حالات کچھ بھی ہوں ، نتیجہ کوئی بھی نکلے ، کوئی ساتھ رہا یا چھوڑگیا انہوں نے اپنی حیات مستعار کے کسی ایک مرحلہ پر بھی سمجھوتہ کیانہ اظہار حق میں کمزوری دکھائی ۔ نہ صرف یہ کہ خود ثابت قدم رہے اور بھرپور سیاسی کردار ادا کرنے کے باوجود کبھی کسی مشکوک فیصلہ میں شریک نہیں ہوئے بلکہ دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرکے مفاد پرستوں کی دل شکستگی کا سبب بنتے رہے ۔ کوئی راضی رہے یا ناخوش سید زادے نے اصول عشق پر کبھی آنچ نہیں آنے دی ، 77برس کی عمر میں ہمیشہ عقل عیار ہر بھیس میں ان کے عشق بلا خیز سے مات کھاتی رہی مگر انہیں مصلحت اندیشی نہ سکھا سکی۔
برادرم عبدلطیف چیمہ بتا رہے تھے کہ 1984کی تحریک ختم نبوت کے موقع پر لاہور میں سید عطاالمؤمن ؒ اور چند احباب جمع تھے ، جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر مذہبی امور نے بات چھیڑی کہ ان کی وزارت علما کا وفدحج کے لیے بھیج رہی ہے ، فلاں فلاں علما کرام اپنے پاسپورٹ جمع کروا دیں ان میں ایک نام ان کا بھی تھا ، سنتے ہی بولے ’’میں فرض حج اپنے خرچ پر ادا کرچکا ہوں، آئندہ بھی جب رب نے فرصت دی اپنے خرچ پر ہی جاؤنگا، لہٰذا میری معذرت قبول فرمائیں‘‘۔اور وزیر محترم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ 77کی تحریک نظام مصطفےٰ ﷺمیں ان کے کردار سے نالاں بھٹو حکومت گولی مارنے کا حکم ایف ایس ایف کو دے چکی تھی، اطلاع ملنے کے باوجود میدان نہیں چھوڑا۔
علم کے میدان میں تحقیق ان کا مزاج تھا اور حق گوئی شعار۔بات کہنے میں کسی مقام ، شخصیت اور وقت کی کبھی پرواہ نہیں کی ۔ اردو ادب کے حوالہ سے انتہائی حساس طبیعت پائی،انکی موجودگی میں بڑے بڑے شعرا اور اساتذہ کو محتاط دیکھا ، کیونکہ غلط تلفظ اور غلط شعر وہ کوئی بھی کہے برداشت نہیں تھا موقع پر تصحیح اور گرفت کرتے ، ابولکلام ؒکے عاشق تھے ، غبار خاطر کو نشہ قرار دیتے ،مطالعہ کا اعلیٰ اور نفیس ذوق پایا ، حافظہ ایسا شاندار کہ برسوں قبل پڑھی سنی تحریر پوری صحت کے ساتھ ازبر ،سخن فہم ہم نشین دستیاب ہوں تو مجال ہے مجلس برخاست ہوجائے ۔ آخری برسوں میں علیل رہے ، سفر بھی کم کردیے ، پہلے کی سی قوت بھی نہ رہی مگر شعرو سخن کی محفلیں پھر بھی جم جاتیں توفجر کی اذان سنے بغیر ختم نہ ہوتیں ۔ آخری بار انہیں اسلام آباد کے ہوٹل میں دفاع پاکستان کے سربراہی اجلاس میں سننے کا اتفاق ہوا ، طبیعت موزوں تھی ، گفتگو کیا تھی ادب کا اک شہ پارہ تھی ، ایسی محفلوں میں اس پایہ کی گفتگو اس سے قبل سنی نہ اس کے بعد اتفاق ہوا۔
امیر شریعتؒ کی غیرت دینی ،عشق رسولﷺ ، جہاد ختم نبوتﷺ ، ادب عالی سے شناسائی ،فن خطابت اور جرات اظہار و کردار تو ان کا ورثہ تھا ، براہ راست اپنے گھر سے کسب فیض کیا۔، لیکن تعلیم کا سلسلہ بھی انتہائی مستحکم رہا ، ملتان میں قاسم العلوم اور خیرالمدارس میں مفتی محمود ؒاور اس دور کے دیگر نامور اساتذہ سے استفادہ کیا ، خانقاہ سراجیہ میں مولانا خان محمد کے شاگرد رہے ، گوجرانوالہ میں نصرت العلوم میں بھی پڑھا ، علامہ زاہد الراشدی کے ہم سبق بھی رہے ،مولانا سرفراز صفدر ان کے استاد تھے ۔ باقاعدہ فن قرات بھی سیکھا۔
برادرم سید کفیل بخاری ، برادرم عبدلطیف چیمہ یا ان کے فرزند عزیزی عطا اﷲ شاہ بخاری شاہ جی کی تحریریں اور تقاریر کتابی شکل میں لے آئیں تو اردو ادب کے طلبا کیلئے خزانے سے کم نہ ہوگا ، ان کی سوانح یا کم از کم ان کے حوالہ سے یادداشتیں ہی منظم کرلی جائیں تو یہ ہماری سیاسی تاریخ کا اثاثہ اور کاسہ لیسوں میں یرغمال بنی سیاست میں اہل علم کے کردار کی گواہی ہوگی۔)
گرد شہرت کو بھی دامن سے لپٹنے نہ دیا
کوئی احسان زمانے کا اٹھایا ہی نہیں
اﷲ کریم حضرت سید عطا المومن شاہ بخاریؒ کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے اور حضرت پیر جی سید عطا المہیمن شاہ بخاری ،ہمارے بھائی سید عطا اﷲ بخاری اور برادر مکرم حضرت سید کفیل شاہ بخاری کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔
جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی