احمد خلیل جازم
(پہلی قسط)
سرگودھا ڈویژن کے نواحی چک ایل ٹی دی اے 2میں قیام پاکستان سے قبل بنائی جانے والی مسجد یمامہ 1950ء کی دہائی سے لیکر 2010ء تک قادیانیوں کا بیت الذکر رہی اور اس میں قادیانیت کی تبلیغ و عبادت کا کام جاری رہا۔آخر کار ایک سید زادے اطہر شاہ گولڑوی نے اس مسجد کو قادیانیوں کے قبضے سے چھڑانے کا عزم کیا اور 2008ء سے لیکر 2016ء تک قانونی جنگ لڑنے کے بعد یہ ثابت کیا کہ مسجد یمامہ نہ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے بلکہ اس میں قائم قادیانیوں کا تبلیغی مرکز اور درس و تدریس کا کام غیر اسلامی ہے۔ مسجد یمامہ قادیانیوں اور مسلمانوں کے لیے ایک ایسا ٹیسٹ کیس تھا جس نے حال ہی میں قادیانیوں کے بلند ہوتے حوصلوں کو ایسی ضرب لگائی کہ ایک بار پھر وہ اپنی کمین گاہوں میں جا چھپے۔ سید اطہر شاہ نے یہ ثابت کیا کہ ایک اکیلا مسلمان جسے قادیانیوں نے اغوا کرنے کے بعد مردہ حالت میں جلانے کی کوشش کی وہ اپنی معذوری کے باوجود ایمانی حرارت سے مالا مال ہو تو ختم نبوت کے ماتھے کا جھومر ثابت ہوتا ہے۔ اسی مرد درویش سے ملاقات اور اس تاریخی مسجد کی زیارت کے لیے سرگودھا کے ان نواحی چکوک کا دورہ کیا گیا اور مسجد کی بازیابی کے تمام حالات سید اطہر شاہ سے معلوم کیے۔
ضلع خوشاب کے نواحی علاقہ مٹھہ ٹوانہ سے آدھی کوٹ روڈ پہ تقریبا 25 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے جائیں تو کامرہ پل سے دائیں طرف لنک روڈ مڑتا ہے تقریبا چھ کلومیٹر کا مزیدسفر طے کرنے کے بعد چک ایل ٹی ڈی اے 2 واقع ہے۔ اسی چک میں داخل ہوں تو گرلز سکول سے سو قدم آگے برلب سڑک یہ قدیم مسجد دکھائی دیتی ہے۔ یہ علاقہ جوہر آباد اور قائد آباد کے درمیان ہے اور تمام چکوک اس لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ یہ انتہائی حساس ترین علاقہ میں واقع ہیں، جس کی چشم کشا تفصیلی آگے بیان کی جائے گی۔ المیہ یہ ہے کہ اس علاقے کے تمام چکوک میں قادیانیت نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں جو روز بروز فزوں تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے سید اطہر شاہ سے تنویر الحسن اور ڈاکٹر عمر فاروق کے توسط سے رابطہ کیا، اور ان دونوں حضرات نے تلہ گنگ سے مٹھہ ٹوانہ تک رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا۔ چونکہ تنویر الحسن ان اولین لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے مسجد کی بازیابی کے بعد اسے غسل دیا اور قرآن کریم آکر رکھے، اس لیے وہ ان تمام واقعات کے بھی عینی شاہد ہیں جو 2010ء سے 2016ء تک پیش آئے۔ چک ایل ٹی ڈی اے 2 کا راستہ بارہا بھولنے کے بعد آخر کار ظہر کے وقت مسجد یمامہ کے سامنے جا پہنچے۔ سید اطہر شاہ نے مسجد سے متصل حجرے کے دروازے پر ہمارا استقبال کیا، اور کہا کہ ’’الحمد ﷲ یہ کام خدا نے مجھ ناچیز سے لینا تھا سو لے کر سرخرو کیا، اگرچہ اب تک قادیانی اس مسجد دے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہیں، اور آج بھی انہوں نے اس کے خلاف اپیلیں درج کر رکھی ہیں لیکن اب اس مسجد سے انہیں بے دخل کر دیا گیا ہے۔‘‘ سید اطہر شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ’’سرگودھا ڈویژن کا ضلع خوشاب ہمیشہ سے قادیانیوں کی آماج گاہ رہا ہے، کیوں کہ یہاں ڈسٹرک انتظامیہ پر ہمیشہ قادیانیوں کی اجارہ داری قائم رہی، جو آج تک کسی نہ کسی صورت میں قائم ہے۔ چونکہ یہاں کے عام مسلمانوں کو دین اسلام کے بارے اس قدر آگاہی حاصل نہیں رہی، اس لیے قادیانیوں نے ان میں رشتے لیے دیے ہوئے تھے، یہی وجہ ہے کہ اس اہم ترین چک کا نمبر دار شہباز جس کی پھوپھی قادیانیوں کے گھر بیاہی ہوئی ہے وہ آج بھی مسلمانوں کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ مسجد یمامہ کا کل رقبہ چار کنال پر واقع ہے اور مسجد سے تھوڑی دور پانچ ایکٹر زمین بھی مسجد کی ملکیت ہے جو اس وجہ سے مسجد کو دی گئی کہ یہاں جو امام صاحب خدمات سرانجام دے وہ اس زمین پر فصل اگا کر اپنی گزر بسر بھی کر سکے لیکن یہ زمین بھی شہباز نمبردار کے قبضے میں ہے اور اس کا کیس بھی چل رہا ہے۔‘‘ ہم نے سید اطہر شاہ سے پوچھا کہ آپ کو کب علم ہوا کہ یہ مسجد مسلمانوں کے لیے وقف کی گئی تھی اور اس پر قبضہ قادیانیوں کا تھا، کیا آپ کا تعلق اسی علاقے سے ہے تو اس پر انہوں نے تمام واقعات تفصیل سے بیان کیے اور کہا کہ ’’قیام پاکستان سے قبل اس مسجد کی بنیاد رکھی گئی اور اس وقت قادیانی بھی مسلمان کہلاتے تھے، اس لیے ملے جلے لوگوں نے اس مسجد کی بنیاد رکھی جب ستر کی دہائی میں انہیں اقلیت قرار دیا گیا تو اس وقت تک وہ یہاں عبادت کرتے رہے، ان کی مسلمانوں سے رشتہ داریاں قائم ہوچکی تھیں، 1952ء سے باقاعدہ یہاں قادیانی عبادت کرنے لگے کیوں کہ اس وقت جو امام مسجد تھا اس نے ان کی تبلیغ سے متاثر ہوکر قادیانی مذہب اختیار کرلیا۔ لیکن چونکہ قادیانی بھی اس وقت مسلمان کہلاتے تھے اس لیے کسی نے خاص توجہ نہ دی۔قادیانی اس علاقے میں تقسیم کے وقت ہجرت کرکے آباد ہوئے یہ تمام کے تمام رانا فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا ربوہ بہت آنا جانا تھا، لیکن عام آدمی کو اس کی آگاہی نہ تھی۔ یوں جب انہوں نے یہاں اپنے پنجے مضبوط کرلیے تو اس مسجد میں درس وتدریس کا کام شروع کر دیا۔ 2000ء میں تخت ہزارہ میں میری حکمت کی دکان تھی، تخت ہزارہ بھی قادیانیوں کا گڑھ ہے، میری ان سے اکثر محاذ آرائی رہتی تھی، وہاں وہ اپنی عبادت گاہوں کے اسپیکرز سے اعلانات کرتے تھے کہ’ دیکھنا ہو مدینہ تو آؤ ربوہ میں، مکہ اور مدینہ یہی ربوہ قادیان ہے‘۔ (نعوذ باﷲ) مجھے ان اعلانات سے تکلیف ہوتی اور آخر کار میں نے ان کے خلاف پرچہ کرادیا، اس وقت میرے تمام مسلمان علماء کے مکتبہ فکر سے روابط ہوئے، اور مولانا منظور احمد چینوٹی نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ اسی دوران قادیانیوں نے تخت ہزارے میں ایک عبادت خانہ قائم کیا جس کے مینار وغیرہ بنا کر اسے مسجد کی طرز دے ڈالی، میں نے اس پر ان کے خلاف رٹ دائر کر دی تھی کیوں کہ یہ لوگ قانونی طور پر اپنی عبادت گاہ کو مسجد کی شکل نہیں دے سکتے، اس کا انہیں بہت دکھ تھا، اور وہ میری بھر پور مخالفت کرتے تھے، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک بچہ تھا جو ختم نبوت زندہ باد کے بہت زیادہ نعرے لگاتا تھا، اس کا گھاس کاٹنے والی مشین میں ہاتھ آگیا، قادیانیوں نے یہ بات مشہور کردی کہ یہ ہمارے مزرا کی بددعا لگی ہے جس وجہ سے اس بچے کا ہاتھ کٹ گیا ہے، جو لڑکے ختم نبوت کے حوالے سے متحرک تھے وہ سب میرے پاس آگئے اور کہا کہ قادیانی یہ بات کرکے مسلمان بچوں کے حوصلے پست کر رہے ہیں اور وہ مایوس ہوکر ختم نبوت کے نعرے سے بددل ہو رہے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر مزرا سچا ہے اور اس کی بد دعا سے کچھ ہوتاہے تو میں سب سے آگے چل کر تمہارے ساتھ نعرہ لگاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کیا ہوتا ہے، ہم نے تخت ہزارہ بازار میں ختم نبوت کے نعرے لگائے تو قادیانیوں نے خوف زدہ ہوکر تھانے فون کردیا،اسی دوران ہم ان کی عبادت گاہ کے قریب پہنچ چکے تھے، اس وقت تمام قادیانی وہاں اکھٹے ہوگئے، لیکن انہوں نے عورتوں کو آگے کردیا۔ چنانچہ مجھے عورتوں سے پکڑوا کر اغوا کیا اور اپنے عبادت خانے میں بند کردیا، اندر لے جا کر قریباً چالیس قادیانیوں نے مجھ پر تشدد شروع کردیا اور کہا کہ مرزا زندہ باد کا نعرہ لگاؤ ورنہ آج قتل کردئیے جاؤ گے۔ باہر جو لڑکے میرے ساتھ تھے ان میں سے ایک نے بھاگ کرمساجد میں اعلان کرادیا کہ اطہر شاہ کو اغوا کرلیا گیا ہے اور قادیانی انہیں مار دیں گے۔ چنانچہ دور دور سے مسلمان باہر اکھٹے ہوگئے۔ اس دوران قادیانیوں نے مجھے انکار کی صورت میں شدید تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور میرے سر اور ٹانگوں پر کلہاڑیوں سے وار کیے، جب میں بیہوش ہوگیا اور انہوں نے سمجھا کہ مرگیا ہے تو مجھے ایک صف میں لپیٹ کر آگ لگانے کی کوشش کی۔ باہر مسلمان اکھٹے ہوچکے تھے انہوں نے دیوار یں پھاند کر اندر داخل ہوکر قادیانیوں سے لڑائی شروع کردی، اس لڑائی میں بہت سارے مسلمانوں زخمی ہوئے ، اور قادیانیوں کے پانچ لوگ جہنم واصل ہوئے چنانچہ وہ ڈرکر بھاگ گئے اور مجھے وہاں سے اٹھا کر فیصل آباد آلائیڈ ہاسپٹل پہنچایا گیا، جہاں میں دو ماہ کومہ میں رہا اور پھر مجھے ہوش آیا، دوسری طرف کراس مقدمے ہوچکے تھے، جس میں ہسپتال سے مجھے جیل کے ہسپتال میں شفٹ کیا گیا، میرے چھ ساتھیوں کو قتل کے مقدمے میں عمر قید سنائی گئی،اور مجھے ایک برس بعد باعزت بری کردیا گیا،اب یہ چھ جیل میں ہیں جن میں تین فیصل آباد، دو میانوالی اور ایک سرگودھا جیل میں قید ہے، میں بری ہوکر اپنے آبائی علاقے بھلوال آگیا، تو وہاں میرے خونی رشتوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا، میرے بھائیوں نے مجھے کہا کہ ہم مرزائیوں سے دشمنی مول نہیں لے سکتے۔ چنانچہ وہاں سے مجھے بیدخل کردیا گیا، اور میرے بچے لاہور اپنے ماموں کے پاس چلے گئے کیوں کہ وہ بہت چھوٹے تھے اور میرے پاس کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ میرا جیل کا ایک دوست ملک سکندر اتراء قائدآباد میں تھا، جو کچھ دن جیل میں میرے ساتھ رہا تھا، میں اس کے پاس جاپہنچا اور اسے اپنی بپتا سنائی۔ چنانچہ اس نے مجھے چھت فراہم کی اور مجھے کہا کہ یہاں آپ کو ہر قسم کا تحفظ ہوگا۔ اس علاقے میں قادیانیوں کی ایکٹیوٹیز دیکھ کر میں دنگ رہ گیا، میں نے علماء کو خطوط لکھے، خود جاکر ملا، تو علماء مجھے کہتے کہ شاہ جی آپ کو قادیانی فوبیا ہوگیا ہے یہاں قادیانی ہم پیدا ہی نہیں ہونے دیتے۔اسی دوران میری ڈاک چوری ہونے لگی، میری ایک بہن مجھے پیسے بھجواتی تھی ، اس نے ایک روز مجھے فون کیا کہ آپ جواب کیوں نہیں دیتے ،ڈاکخانے جاکر معلوم کیا تو انہوں نے مجھے دھتکار دیا، اسی ڈاک خانے کے ایک لڑکے نے مجھے بتایا کہ تمام عملہ قادیانی ہے اور وہی آپ کی ڈاک ہضم کرلیتا ہے، کیوں کہ پوسٹ آفس کے سامنے والا گھر قادیانی جماعت کے امیر کا ہے جس کا نام مبارک ہے ، جس کا بیٹا حیدر پوسٹ آفس میں ہے اور وہی ڈاک لے جاکر باپ کو دیتا ہے ۔ میں نے پھر علماء سے کہا کہ یہاں تو قادیانی موجود ہیں تو انہوں نے مجھے کہا کہ وہ سب ہمارے ہاتھ پر اسلام قبول کرچکے ہیں، آپکو غلط فہمی ہوئی ہے ۔ چنانچہ میں نے اسی ڈاک خانے والے لڑکے سے مدد لی، اور اس نے ایک روز تمام قادیانیوں کی ایک دن کی ڈاک مجھے لا کر دی جس میں قادیانیوں کا الفضل اخبار شامل تھا۔
(جاری ہے)