ابن ا میر شریعت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
۲۶؍ اکتوبر ۱۹۸۴ء کو جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے استاذ قاری بشیر احمد حبیب (صدر مجلس احرارِ اسلام، ساہیوال) اور پولی ٹیکنیکل کالج ساہیوال کے طالب علم اظہر رفیق کو قادیانیوں نے مشن چوک ساہیوال کے قریب شہید کر دیا، فوجی عدالت نمبر ۲ ملتان میں کیس کی سماعت ہوئی، قادیانی ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے بعد ازاں قادیانی ملزمان کو رہا کر دیا جو بیرون ممالک فرار ہو گئے یا کرا دیے گئے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ میں ہم نے اپیل دائر کی، مذکورہ شہادتوں کے تناظر میں حضرت قائد احرار سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے جامعہ رشیدیہ کے عنوان سے جو ’’ترانہ‘‘ لکھا وہ قاری سعید ابن شہید ناظم جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے تاکہ ریکارڈ میں محفوظ بھی ہو جائے اور واضح بھی رہے کہ کس نے کس موقع پر یہ اشعار قلم بند کیے تھے۔ (عبداللطیف خالد چیمہ)
دیں کی آبشار ہے یہ جامعہ رشیدیہ وفا کا کوہسار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
تلاوتِ کلام پاک و معنیٔ کلام کا بحرِ بے کنار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
یہ باغ پر بہار بھی روح کا نکھار بھی عظیم و باوقار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
نفرتوں عداوتوں کی آندھیوں میں گھر کے بھی بہار ہی بہار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
لطفِ فقر و عبدیت، حبیب کا جہاں ہے یہ جہانِ تابدار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
ثقافت و سیاستِ فرنگ کے ہجوم میں فرشتۂ احرار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
جو میرزا کی ذریت خباثتوں پہ آگئی تو عزم ہے پکار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
بشیر کی بشارتوں رفیق کی رفاقتوں کی اعلیٰ یادگار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ‘‘ اسی کا رازدار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
ہزار ہے بہار ہے کنارِ جوئبار ہے صفات کا حصار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
جہاں پہ لفظ بول اٹھیں معانی ایک رنگ دیں وہ شہر زر نگار ہے یہ جامعہ رشیدیہ
تو آ دیار علم میں عطاؔ سے پوچھ راستہ تو یونہی بے قرار ہے یہ جامعہ رشیدیہ