مسعود ابدالی
افغان صوبے قندوز کے شہر دشتِ آرشی میں پیر ۲؍ اپریل کو ہنے والے وحشیانہ حملے نے سارے افغانستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قندوز جسے پشتون اور فارسی زبان ’’کندز‘‘ پکارتے ہیں افغانستان اور تاجکستان کی سرحد پر واقع ہے۔ قندوز کو افغانستان کا لسانی گلدستہ کہا جاتا ہے کہ یہاں پشتون، ازبک، تاجک، ترکمن، ہزارہ، بلوچ، نورستانی، حتیٰ کہ عرب اور آریائی نسل کے پشہ ای (Pashiy)بھی موجود ہیں اور سارے صوبے میں یہ قومیتیں مل جل کر رہ رہی ہیں۔ یہاں کئی جگہوں پر سنیوں کی مساجد اور شیعہ امام بارگاہ ہیں اس طرح تعمیر کی گئی ہیں کہ ان کے درمیان ایک دیوار مشترک ہے۔قندوز ۱۷۴۷ء میں احمد شاہ ابدالی کی درانی سلطنت کا حصہ بنا اور ابتدا ہی سے اسلامی و شرعی علوم کے مدارس اس کی شناخت ہیں۔ قندوزیوں کی اسلامی اخوت سارے افغانستان میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کمیونسٹ انقلاب کے نام پر روسی فوج نے ازبکستان اور تاجکستان پر قبضہ کیا تو وہاں سے لاکھوں مسلمان دریائے آمو عبور کر کے آرچی اور امام صاحب کے علاقوں میں آباد ہو گئے اور مقامی لوگوں نے کھلی بانہوں سے اپنے بھائیوں کا استقبال کیا۔
۱۹۷۹ء کے روسی حملے کا قندوز، تخار، سمنگان اور بلخ کے لوگوں نے بہادری سے مقابلہ کیا۔ بلخ میں پنج شیر کی بے مثال مزاحمت کو خود روسیوں نے دوسری جنگِ عظیم کے اسٹالن گراڈ سے تشبیہ دی۔ محافظ پنج شیر احمد شاہ مسعود کی جرأت و شجاعت کے قصے آج بھی روسی چھاؤنیوں میں سنائے جاتے ہیں۔ تاہم بدنصیبی کہ روسی شکست مجاہدین کی شکست و ریخت کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی اور سارا افغانستان مجاہدین کے لہو سے سرخ ہو گیا۔ ’’مگر مجھے بد دعا بھی مشکل کہ میرا بھائی ہے میرا قاتل‘‘…… یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس خونریزی کا ذمے دار کون تھا۔ یہ افغان تاریخ کا ایک تاریک ترین باب ہے جس کی نحوست سے افغان ملّت اب تک باہر نہیں نکل پائی۔
اکتوبر ۲۰۰۱ء کے امریکی حملے کی قندوزیوں نے شدید مزاحمت کی۔ اس کے مشرق میں تخار بھی طالبان کا مضبوط گڑھ تھا لیکن روسی حملے کے مقابلے میں اس بار افغان جنگجوؤں کا ایک گروہ غیر ملکی حملہ آوروں کے ساتھ تھا۔ سانحہ نائن الیون سے دو دن پہلے احمد شاہ مسعود ایک دہشت گرد حملے میں شہید ہو گئے اور اُن کے حامیوں کا خیال تھا کہ احمد شاہ مسعود کو طالبان نے قتل کروایا ہے۔ نتیجے کے طور پر ان کی پارٹی کے سربراہ پروفیسر برہان الدین ربانی اور جنرل عبدالرشید دوستم کے ایران نواز شمالی اتحاد نے امریکیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور تخار میں شکست کے بعد طالبان قندوز میں محصور ہو گئے۔ اتحادیوں کی بمباری سے سارا صوبہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ عبدالرشید دستم نے طالبان کے ازبک کمانڈروں کو یقین دلایا کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو انھیں امان دے دی جائے گی۔ طالبان نے شہری نقصان سے بچنے کے لیے ہتھیار ڈال دیے، لیکن شہر میں داخل ہوتے ہیں دستم کی جنبش ملّی اور گلم جم ملیشیا نے عام لوگوں کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ القاعدہ کے عرب چھاپہ ماروں کو قطار میں کھڑا کر کے گولی مار دی گئی۔ دو ہزار سے زیادہ پشتون طالبان کو کنٹینروں میں ٹھونس کر شبرغان کی طرف روانہ کر دیا گیا جہاں عبدالرشید دوستم نے ذاتی قید خانہ قائم کر رکھا تھا۔ زیادہ تر قیدی بھوک پیاس اور دم گھٹنے سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی دن کے سفر کے بعد شبرغن کے قریب دشتِ لیلیٰ میں ٹرکوں کو روک کر زندہ بچ جانے والے قیدیوں کو گولی مار دی گئی او روہیں گڑھے کھود کر ان کی لاشوں کو دفن کر دیا گیا۔ طالبان نے بعد میں دشتِ لیلیٰ کی اس پہاڑی پر جہاں ان لوگوں کو دفن کیا گیا تھا، علامتی قبریں بنا دیں۔ مارے جانے والے زیادہ تر افراد کم سن طالب علم تھے، لہٰذا یہاں آنے والے زائرین ان قبروں پر سفید چادریں پھیلا کر ان کی دستار بندی کرتے ہیں۔ مزار شریف سے شبرغن جاتے ہوے یہ قبریں اور ان پر پھیلائی سفید چادریں بہت دور سے نظر آتی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ (HRW) اور انسانی حقوق کے اداروں نے اس قتلِ عام کی تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن صدر بش اور امریکی حکومت کی مداخلت پر معاملہ دبا دیا گیا۔ اس ظلمِ عظیم پر نیویارک ٹائمز اور ہفتہ وار نیوز ویک نے تفصیلی مقالے شائع کیے۔ مشہور فلم ساز جیمی ڈوران (Jamie Doran) نے اس پورے واقعے پر The Convoy Of Desth Afghan Masscreکے عنوان سے ۵۰ منٹ کی ایک دستاویزی فلم بھی بنائی۔ ۲۰۰۹ء میں اقتدار سنبھالنے پر صدر بارک اوباما نے قومی سلامتی کے اہل کاروں کو اس مبینہ قتل عام کی تحقیق کا حکم دیا لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔
سقوطِ قندوز اور بہیمانہ قتلِ عام سے ایسا لگا کہ گویا شمالی افغانستان سے طالبان کا صفایا ہو گیا ہے، لیکن انھوں نے جلد ہی نئے سرے سے صف بندی شروع کر دی اور ۲۰۱۳ء سے بدخشاں، تخار، فاریاب اور قندوز میں سرکاری فوجوں پر جان لیوا حملوں کا آغاز ہوا۔ ستمبر ۲۰۱۵ء میں قندوز پر طالبان نے دوبارہ قبضہ کر لیا اور اس وقت سے صوبے پر ان کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔ انھوں نے قندوز میں اپنی انتظامیہ قائم کر رکھی ہے، جبکہ ان کی مشہور شرعی عدالتیں المعروف ’’مولوی عدالت‘‘ تمام دیہی علاقوں میں کام کر رہی ہے جہاں تخار اور سمنگان سے بھی لوگ اپنے تنازعات نمٹانے آتے ہیں۔
کابل انتظامیہ کا خیال ہے کہ ضلع آرچی میں طالبان نے اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے جہاں ان کا عسکری تربیتی مرکز بھی ہے۔ آرچی قندوز اور تخار کی سرحد پر واقع ہے اور یہاں سے طالبان چھاپہ مار تخاری کے صوبائی دار الحکومت طالقان پر بھی حملے کرتے ہیں۔ نیٹو افواج قندوز سے طالبان کا قبضہ چھڑانے کے لیے ایک عرصے سے بمباری کر رہی ہیں جس میں ۲۱؍ اگست ۲۰۱۷ء کو صدر ٹرمپ کی جانب سے نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد سے شدت آ گئی ہے اور قندوز کے علاوہ سارا دیہی افغانستان شدید بمباری کی لپیٹ میں ہے۔ اتحادی فوج دیو پیکر B-52بمبار استعمال کر رہی ہے۔ دوہفتے قبل ہلمند کے دیہی علاقوں میں ۹۶ گھنٹے تک مسلسل بمباری کی گئی۔ قندوز کے حوالے سے امریکی عسکری حلقے الزام لگا رہے ہیں کہ دشتِ آرچی کے راستے ہی روسی اسلحہ طالبان کو پہنچ رہا ہے۔ دشتِ آرچی کے علاوہ حضرت امام اور قلعہ ذال کے اضلاع کی سرحدیں بھی تاجکستان سے ملتی ہیں اور ان تمام اضلاع کی سرحدیں بھی تاجکستان سے ملتی ہیں اور ان تمام اضلاع پر طالبان کی گرفت مضبوط ہے۔ تاہم تاجک حکومت نے طالبان کو اسلحہ فراہمی کی سختی سے تردید کی ہے۔ روس بھی اس الزام کو برابر مسترد کر رہا ہے۔
شدید ترین بمباری کے باوجود قندوز پر طالبان کی گرفت کمزور ہوتی نظر نہیں آتی۔ قندوز نسبتاً ایک متمول صوبہ ہے اور دریائے قندوز سارے صوبے کو سیراب کرتا افغان تاجک سرحد پر دریائے آمو میں گرتا ہے۔ دریاؤں اور نہروں کے ساتھ قندوز کی زمین بھی خاصی زرخیز ہے۔ سبزی اور خوش ذائقہ پھلوں کے علاوہ ہر جگہ پھیلی ہریالی کی بنا پر یہاں مویشی پالنا آسان اور نفع بخش ہے۔ یہاں پر اگائی جانے والی سبزیاں افغانستان کے علاوہ تاجکستان بھی بھیجی جاتی ہیں۔ قندوز اور تاجکستان کی سرحد پر شاہ بندر کے نام سے قائم ہونے والا صنعتی مرکز سرکاری محصولات کا بڑا ذریعہ ہے جو مبینہ طور پر سارے کا سارا طالبان وصول کر رہے ہیں۔ طالبان نے ۲۰۱۵ء میں قندوز پر قبضے کے ساتھ ہی یہاں افیم کی کاشت پر پابندی لگا دی تھی اور یہ افغانستان کے اُن کے چند صوبوں میں شامل ہے جسے افیم، چرس اور دوسری منشیات سے پاک سمجھا جاتا ہے۔
قندوز کا ضلع آرچی کئی دہائیوں سے درس و تدریس کا مرکز ہے جہاں ۶۰ کے قریب مدارس و مساجد ہیں۔ یہاں عام اسکول اور مدارس میں کوئی فرق نہیں، کہ روایتی مدارس اور اسکولوں میں ایک ہی نصاب نافذ ہے اور بچوں کو ریاضی فارسی، تاریخ اور دوسرے عصری علوم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ بعض مدارس حفظ اور علومِ شرعیہ کے لیے مخصوص ہیں۔ ۲؍ اپریل کو دشت آرچی پر حملے کی خبر سب سے پہلے افغانستان کی وزارتِ اطلاعات نے جاری کی جس میں دہشت گردوں پر کامیاب حملے کی افغان قوم کو مبارکباد دی گئی۔ اعلامیے میں انتہائی فخر سے کہا گیا کہ یہ کارروائی افغان فضائیہ نے کی ہے جس میں اعلیٰ پائے کے کئی کمانڈروں سمیت ایک سو طالبان مارے گئے۔ ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ نے اس ’’عظیم کارنامے‘‘ پر افغان فوج کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان خبروں میں بہت سے پاکستانی دہشت گردوں کی ہلاکت کا ذکر بھی کیا گیا اور نام نہ بتانے کی شرط پر ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ ہلاک ہونے والے پاکستانی ’’فوجیوں‘‘ کی تصاویر اور تفصیلات پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پیش کی جائیں گی جو چند روز بعد کابل کا دور کرنے والے تھے۔ ۱۰۰ طالبان کی ہلاکت کی خبر پاکستانی اخبارات نے بھی من و عن شائع کر دی۔ یورپی میڈیا نے اسے نیٹو کا کارنامہ قرار دیا۔ لیکن اُسی روز رات سے سوشل میڈیا پر متضاد خبریں آنا شروع ہو گئی۔ قبرستاں سے بچوں کی تدفین کی ویڈیو براہِ راست پوسٹ ہوئی۔ شروع میں کابل انتظامیہ نے کہا کہ طالبان پر حملوں میں چند معصوم شہری بھی ہلاک ہوئے جس پر حکومت کو سخت افسو س ہے، لیکن اس کا الزام بھی طالبان پر عائد کیا گیا کہ ان دہشت گردوں نے مساجد اور شہری علاقوں میں پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں اس لیے حملے میں عام شہری بھی متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے ان ’’معصوموں‘‘ کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دے دیا جس کی ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ نے حمایت کی، لیکن سوشل میڈیا پر خبروں کا طوفان امڈ آیا۔ بچوں کی تصویریں، اُن کے والدین کے انٹرویوز اور جائے وقوع کی دل گداز ویڈیوز نے اس بھیانک قتلِ عام کا پردہ چاک کر دیا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ اکتوبر ۲۰۰۶ء میں باجوڑ کے علاقے ڈمہ ڈولا کے ایک مدرسے پر بمباری سے ۸۲ کم سن حفاظ شہید ہوئے تھے جن میں اکثریت عمر ۱۶ سال سے کم تھی۔ اس خبر کا اعلان جنرل پرویز مشرف نے خود کیا اور فخر سے کہا کہ پاکستانی فوج کی کارروائی میں ایک مدرسے میں چھپے ایک سو سے زیادہ دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے۔ تاہم معاملہ چھپا نہ رہا سکا اور عینی شاہدین نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ حملہ امریکی ڈرون نے کیا تھا۔ اس واقعے پر جناب سراج الحق نے احتجاج کے طور پر صوبائی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اُس وقت سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) میں ایم ایم اے کی حکومت تھی اور سراج الحق خزانے کے وزیر تھے۔ ڈمہ ڈولا کے مقابلے میں آرچی کے واقعے کی تشہیر اور ردعمل بہت شدید ہوا کہ ۲۰۰۶ء میں سوشل میڈیا اتنا زیادہ مؤثر نہ تھا۔
آرچی کے گاؤں دفتالی میں قائم دار العلوم ہاشمیہ عمریہ قندوز کی ایک قدیم ترین درس گاہ ہے جسے سارے افغانستان میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس مدرسے کا شعبہ حفظ القرآن بہت زیادہ مؤثر سمجھا جاتا ہے اور پورے ملک بلکہ تاجکستان اور ازبکستان کے طلبہ بھی حفظ کرنے یہاں آتے ہیں۔ اُس دن بھی تقریب میں پکتیا، پکتیکا، سمنگان، بلخ اور افغانستان کے علاوہ تاجک اور ازبک حفاظ بھی موجود تھے۔
غیر جانب دار ذرائع سے قندوز کے واقعے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اُن کے مطابق یہاں حفظِ قرآن مکمل کرنے والے طلبہ میں تقسیم اسناد کی تقریب یا دستار بندی کی کئی ہفتوں سے تیاری کی جا رہی تھی۔ گاؤں میں جگہ جگہ پشتو اور فارسی میں پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ ممکنہ تصادم سے بچنے کے لیے طالبان نے اپنے مسلح جوانوں کو گاؤں سے ہٹا لیا تھا، حتیٰ کہ وہاں پہرے پر تعینات طالبان بھی غیر مسلح تھے۔ حملے کے بعد صحافیوں کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے ایک عینی شاہد نے کہا کہ یہ علاقہ سات سال سے طالبان کے کنٹرول میں ہے لیکن تقریب کے وقت وہاں ایک ایک بھی طالبان نہ تھا اور سارا انتظام علماء اور علاقے کے مشران (بزرگوں) نے سنبھالا ہوا تھا۔
تقریب کے لیے مدرسے سے متصل میدان میں ایک بہت بڑا شامیانہ لگا کر پنڈال بنایا گیا تھا جہاں حملے کے وقت دو ہزار سے زیادہ افراد بیٹھے تھے۔ تقریب میں شرکت کے لیے بغلان، سمنگان اور کابل سے بھی کچھ جید علماء اور شیوخ القرآن ہو ئے تھے۔ پچھلی نشستوں پر دستار بندی کے منتظر طلبہ بیٹھے تھے جو باری باری اسٹیج پر جا کر اپنی سند وصول کر رہے تھے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دستار بندی کی تقریب جاری تھی کہ اچانک دو ہیلی کاپٹر نمودار ہوئے۔ یہ اتنی نیچی پرواز کر رہے تھے کہ شامیانے ہوا سے اڑنے لگے۔ مزید نیچے آ کر ان ہیلی کاپٹروں نے ۴ میزائل داغے۔ ایک میزائل پنڈال کے عقبی حصے میں گرا جہاں حفاظ بچے بیٹھے تھے، دوسرا میزائل مدرسے پر داغا گیا، تیسرے میزائل سے پنڈال سے متصل ایک مکان کو نشانہ بنایا گیا، جب کہ چوتھا میزائل بھی ایک گھر پر گرا جو تقریب سے ۱۰۰ میٹر دور تھا۔
میزائل پھینکنے کے بعد ہیلی کاپٹروں سے گولیاں بھی چلائی گئیں اور فائرنگ دس منٹ تک جاری رہی۔ میزائل حملے میں بچ جانے والے لوگ ہیلی کاپٹر کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔ ایک شاہد کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹروں نے براہِ راست نشانہ لے کر پنڈال پر حملہ کیا اور وہ فضا میں ساکت تھے یعنی منڈلا نہیں رہے تھے۔ اس مہارت اور اعتماد سے لوگوں کو شک ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر نیٹو اہلکار اڑا رہے تھے۔ تاہم امریکہ اور نیٹو کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔
حملے میں ننھے حفاظ سمیت ۱۰۰ شہری جاں بحق اور ڈیڑھ سے سے زیادہ افراد شدید زخمی ہیں۔ اس درندگی پر سارے افغانستان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ واقعے کے خلاف کابل، قندوز شہر، مزار شریف اور ہرات سمیت تمام بڑے شہروں میں مظاہرے ہوئے جہاں کابل کے ڈاکٹر صاحبان اور امریکہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ اب تک کسی غیر جانب دار ذریعے سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ حملہ نیٹو کے ہیلی کاپٹروں نے کیا یا یہ افغان فضائیہ کی کارروائی ہے۔ نیٹو، امریکی فوج اور واشنگٹن میں امریکی وزارتِ دفاع نے بہت ہی غیر مبہم انداز میں اس واقعے سے برأت کا اظہار کیا ہے۔ کابل میں امریکی فوج کے ترجمان نے کہا کہ آرچی پر حملے میں امریکی فوج کا کوئی جہاز، ڈرون یا ہیلی کاپٹر استعمال نہیں ہوا اور نہ امریکیوں نے کسی قسم کی تکنیکی مدد فراہم کی۔ امریکی حکومت نے اقوام متحدہ کے افغان مشن UNAMAکی جانب سے اس واقعے کی تحقیق کا خیر مقدم کیا ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حملہ عام لوگوں کو طالبان کی حمایت سے باز رکھنے اور مذاکرتا کے لیے طالبان پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش تھی۔ طالبان امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ وہ براہِ راست امریکہ سے بات چیت کریں گے۔ طالبان رہنما کابل انتظامیہ کو امریکہ کی کٹھ پتلی اور بے اختیار سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں کابل کے ڈاکٹر صاحبان سے مذاکرات اُن کی حکومت تسلیم کرنے کے برابر ہے، جو قبول نہیں۔ لیکن کابل انتظامیہ کی توقعات کے برخلاف دار العلوم ہاشمیہ عمریہ پر حملہ خوف و ہراس سے زیادہ عام لوگوں میں اشتعال کا سبب بنا ہے اور جلسوں میں ’’انتقام انتقام‘‘ اور ’’ہم سب طالبان‘‘ کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ علاقے کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ صوبائی دار الحکومت میں ہر جگہ طالبان کے کلمہ طیبہ والے پرچم لہرا رہے ہیں اور شہید ہونے والے بچوں کے گھروں پر بھی طالبان کے پرچم ہیں۔
پھول دیکھے تھے جنازوں پہ ہمیشہ لیکن
ہم نے قندوز میں پھولوں کے جنازے دیکھے
(مطبوعہ: فرائیڈے اسپیشل، ۱۳تا ۱۹ اپریل، ۲۰۱۸)