اعضاء کی پیوند کاری قسط: ۶
علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
ایک مغالطہ اور اس کا جواب:
جن حضرات نے کچھ تعمیم اور توسیع سے کام لیا ہے انھیں دراصل دھوکہ یہاں سے لگا ہے کہ فی سبیل اﷲ کا لفظ اپنے لغوی معنی کے لحاظ سے نیکی کی تمام ممکنہ صورتوں کو شامل ہے حالانکہ ہر جگہ لغت کام نہیں دیتی۔ تمام کتب تفسیر اور صحیح بخاری (ج: ۲، ص: ۶۲۴۷) وغیرہ میں ایک واقعہ درج ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ‘‘ (یعنی تم اس وقت تک کھاتے رہو کہ سفید تاگہ، سیاہ تاگہ سے واضح ہو جائے) تو حضرات صحابہؓ میں سے کئی لوگوں نے اپنے پاؤں میں دو تاگے باندھ لیے تھے ایک سفید اور ایک سیاہ۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ عنہ نے بھی اپنے پاس دو دھاگے رکھ لیے۔ انھوں نے بارگاہِ نبوّت میں حاضر ہو کر عرض کیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ ان تاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے۔ اسی طرح دیکھا جائے تو ’’الصلوٰۃ ، الزکوٰۃ ، الصوم ، الحج وغیرہ تمام شرعی اصطلاحات کا یہی حال ہے کہ اپنے لغوی معنوں میں نہیں بلکہ اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ اگر آپ ہر جگہ لغت کو لے کر بیٹھیں گے تو کئی خرابیاں لازم آئیں گی مثلاً :
قرآن کو مخلوق ماننا پڑے گا، اس لیے کہ قرآن ایک شے ہے اور ادھر فرمایا گیا ہے: ’’ خَلَقَ کُلُّ شَیْءٍ ‘‘جب آپ ایک طرف پڑھیں گے: ’’یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ‘‘ اور دوسری طرف آپ پڑھیں گے: ’’کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ‘‘ تو اب آپ کی لغت دانی کیا کہے گی؟
ایک سوال اور اس کا جواب:
ممکن ہے، کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہو کہ فقہاء احناف میں سے ایک بلند پایہ عالم، ملک العلماء کاسانیؒ نے اپنی کتاب بدائع میں تعمیم اور توسیع سے کام لیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
وأمَّا قولہ تعالیٰ: ’’وفی سبیل اللّٰہ‘‘ عبارۃ عن جمیع القرب فیدخل فیہ کل من سعیٰ فی طاعۃ اللّٰہ و سبیل الخیرات اذا کان محتاجاً
(بدائع، ج: ۲، ص: ۴۵)
ترجمہ: فی سبیل اﷲ میں تمام نیکی کے کام شامل ہیں۔ اس لیے جو شخص بھی اﷲ کی اطاعت اور نیکی کے راستے میں کوشاں ہو، وہ اس میں آ جاتا ہے بشرطیکہ وہ محتاج ہو۔
کئی لوگوں کو اس عبارت سے دھوکہ لگا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ کاسانی نے آخر میں جو محتاج ہونے کی شرط لگا دی ہے، اس نے اس دھوکے کا بالکل ازالہ کر دیا ہے کیونکہ اس شرط کی وجہ سے اس شخص کے مستحق ہونے کا موجب پھر وہی فقیر اور مسکین ہونا ٹھہرا اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ زکوٰۃ کا مصرف وہ نادار آدمی ہے جو کسی کارِ خیر میں رقم کو خرچ کرتا ہے، نہ کہ کارِ خیر خود۔ لہٰذامسجد، مدرسہ، دار الاقامہ، مسافر خانہ، کوئی حفاظتی قلعہ یا پُل وغیرہ براہِ راست زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہو سکتے۔
ڈاکٹر صاحب کی غیر محتاط رائے:
اسلاف میں سے اگر کسی نے کچھ تعمیم کی بھی ہے تو پھر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دیں، مگر ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب نے تو حد کر دی ہے کہ وہ پوری سِول ایڈمنسٹریشن (ڈاکٹر صاحب سول ایڈمنسٹریشن کو العاملین کے تحت اور ملٹری ایڈمنسٹریشن کو فی سبیل اﷲ کے تحت زکوٰۃ کے مصرف قرار دیتے ہیں۔ دیگر تعمیری کاموں کو بھی اسی مؤخر الذکر میں شامل کرتے ہیں) ، ملٹری اور ملکی تعمیر و ترقی کے تمام اخراجات زکوٰۃ میں سے ادا کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں: ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے!
ہمیں حیرت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی، جو متعدد احادیث میں آیا ہے:
’’تُؤخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِہِمْ وَ تُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِہِمْ۔‘‘ (ابو داؤد، ج: ۱، ص: ۲۳۰)
ترجمہ: …… کہ زکوٰۃ مال داروں سے لے کر وہاں کے نادار اور محتاج لوگوں میں تقسیم کر دی جائے۔
اس کا کیا ہو گا؟ ہم صرف ایک درخواست کرتے ہیں:
اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہَذَا اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔(الاحقاف: ۴)
اگر آپ لوگ سچے ہیں تو اس سے پہلے کی کسی کتاب کا حوالہ یا اور کوئی علمی دلیل لے آئیں۔
ایک طالب علمانہ سوال اور اس کا جواب:
یہاں پر ایک طالب علمانہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ ہم مناسب خیال کرتے ہیں کہ اپنی گزراشات کو ختم کرنے سے پہلے وہ سوال مع جواب حوالہ قلم کر دیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر فی سبیل اﷲ کا مصداق مجاہدین ہیں اور مجاہدین بھی وہ جو محتاج اور ضرورت مند ہوں تو پھر فقراء کی مد میں وہ بھی آ گئے۔ علیحدہ مد نمبر ۷ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟
اس کا جواب عنایہ شرح ھدایہ سے نقل کرتے ہیں: ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’جواب یہ ہے کہ جو غازی (مجاہد) ضرورت مند ہے اور سفر خرچ یا سامان جہاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ رکا ہوا ہے، بے شک وہ بھی فقیر ہے، لیکن اس کی خاص نوعیت ہے، وہ اپنی بود و باش میں امداد کا محتاج نہیں ہے بلکہ ایک ملّی فریضہ کو سرانجام دینے کے لیے ضرورت مند ہے، اس لیے مصارف زکوٰۃ میں اسے ایک مستقل مد قرار دیا گیا ہے۔ گویا فقیر کو اس کی ذاتی ضروریات کی وجہ سے زکوٰۃ کا مستحق قرار دیا گیا اور غازی کو اجتماعی اور قومی ضرورت کی بنا پر۔‘‘
اعضاء کی پیوند کاری:
اسی خطبہ نمبر ۱۱ میں ایک سوال جو ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کیا تھا، مع جواب درج ذیل ہے:
’’سوال نمبر ۱۳: اسلامی نقطۂ نظر سے انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے بلکہ اس کی مالک اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے۔ کیا اسلامی نقطۂ نظر سے آنکھوں، خون اور دیگر اعضاءِ جسمانی کا عطیہ دینا جائز ہے یا نہیں۔ اسی طرح کسی دوسرے شخص کی آنکھ یا دل وغیرہ لگانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اس بارے میں آپ کو نہ قرآن میں کوئی ذکر ملے گا، نہ حدیث میں اور نہ ہی ہمارے فقہاء کی کتابوں میں……
یہ چیز علمِ طب کی جدید ترین ترقی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئی ہے۔ اس بارے میں کوئی اجماع ابھی تک نہیں ہوسکا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اور فقہاء کی کیا رائے ہے۔ میں اپنی ذاتی رائے عرض کر سکتا ہوں، ممکن ہے اوروں کو اس سے اتفاق ہو، ممکن ہے وہ اسے رد کر دیں۔ ایک زندہ کی جان بچانے کے لیے ایک مردہ کی ذات سے استفادہ کیا جائے تو اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ اس طرح ایک انسان کی فالتو چیزوں سے دوسرے انسان کا فائدہ ہوتا ہو، تو اس کی اجازت سے ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ ان حالات میں فرض کیجیے کہ ایک آدمی مرجاتا ہے اور فوراً ہی اس کی آنکھوں کو لے کر آج کل طبی طریقوں سے محفوظ کر لیتے ہیں اور ان کو کسی اندھے کے لیے استعمال کر کے اسے بینائی بخشتے ہیں۔
ہم بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے پیش نظر سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے قرآن پاک، حدیث شریف اور قدیم کتبِ فقہ کی طرف رجوع نہیں فرمایا، ورنہ تو خط کشیدہ جملے ان کی زبان پر نہ آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب مختصراً قرآن مجید میں، اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ حدیث شریف میں اور مزید شرح و بسط کے ساتھ فقہی کتابوں میں موجود ہے۔ تفصیل کی تو ان اوراق میں گنجائش نہیں ہے، تاہم ما لا یدرک کلہ ، لا یترک کلہ بقدر ضرورت ہم اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
قرآن کریم اور اعضاء کی پیوندکاری:
قرآن پاک میں شرک کی قباحت اور اس کے بارے میں وعید سناتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ مشرک لوگ تو دراصل شیطان کے بچاری ہیں۔ وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطَانًا مَّرِیْدًا۔(النساء، آیت: ۱۱۷) حالانکہ شیطان تو بنی آدم کا ازلی دشمن ہے اور وہ پہلے ہی کہہ چکا ہے:
(۱) اے اﷲ! میں تیرے بندوں سے اپنا حصہ لے کر رہوں گا۔
(۲) وَ لَاُضِلَّنَّہُمْ۔ میں انھیں (نظری اور فکری لحاظ سے) گمراہ کر کے رہوں گا۔
(۳) وَ لَأُمَنِّیَنَّہُمْ۔ میں انھیں ہوا و ہوس کے بندے بنا کر چھوڑوں گا۔
(۴) نتیجتاً وہ غیر اﷲ کے نام کی قربانیاں کریں گے اور نشانی کے طور پر جانوروں کے کان کاٹ کر چھوڑیں گے۔
(۵) وَ لَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ۔ میں انھیں حکم دوں گا تو وہ اﷲ کی بناوٹ کو بدل دیا کریں گے۔
یہ تغییر خلق اﷲ کیا ہے؟ اس بارے میں قدیم اور جدید مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ہم تفسیر بیضاوی کا ایک جملہ یہاں نقل کرتے ہیں:
’’و یندرج فیہ ما قیل من فقأ عین الحامی و خصاء العبید والوشم والوشر واللواط والسحق و نحو ذلک‘‘
ترجمہ: …… اس میں یہ صورتیں شامل ہیں (۱) یہ جو کہا جاتا ہے کہ حامی اونٹ کی آنکھ پھوڑ دیا کرتے تھے (حامی اس سانڈ اونٹ کو کہا جاتا ہے جو ان مشرکین کی مقررہ تعداد کے مطابق بچے جنوا دیتا۔ پھر وہ اس کی آنکھ پھوڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے، نہ کوئی اس پر سوار ہوتا، نہ اس کی اون وغیرہ اتاری جاتی)۔ (۲) غلاموں کو خصی کر کے مخنث بنا لینا۔ (۳) زیبائش کے لیے بدن کا گدوانا۔ (۴) عورتوں کا اپنے دانت باریک کروا لینا۔ (۵) مردوں اور عورتوں کی ہم جنس بازی …… وغیرہ وغیرہ۔
کم و بیش یہی تفسیر امام رازیؒ اور دیگر مفسرین حضرات نے کی ہے۔ دورِ حاضر کے مفسر مولانا عبدالماجد دریا آبادی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
’’جاہلیت جدیدہ کی ترقیوں نے ان سے کہیں بڑھ کر مثالیں نہ صرف ایجاد کر لیں ہیں، بلکہ انھیں پھیلا کر فیشن میں داخل کر دیا ہے۔ مثلاً مردوں کا چہرے کے بال بالکل صاف کر کے اور طرح طرح کی نزاکتیں اختیار کر کے زیادہ سے زیادہ حد تک عورت بن جانا۔ عورتوں کا سر کے بال کٹا کر اور مردانہ وضع و لباس اختیار کر کے زیادہ زیادہ حد تک مرد بن جانا، ایسے آپریشن کرانا جن سے جنس تبدیل ہو جائے‘‘ (تفسیر ماجدی، ص: ۲۱۶)
بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھائیے، قرآن پاک کی سب سے عمدہ تفسیر وہ ہے جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم خود فرما دیں۔ درج ذیل حدیث شریف پڑھیے اور اندازہ لگائیے کہ کیسی کیسی صورتیں تغییر خلق اﷲ میں آتی ہیں۔
مسند احمد، صحیح بخاری (ج:۲، ص: ۲۷۹) اور صحیح مسلم (ج: ۲، ص: ۲۰۵) سمیت تمام کتب حدیث میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ نے اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو:
اَلْوَاشِمَات۔ بدن کو گودنے والی ہوں۔
وَالمُسْتَوْشِمَات۔ بدن کو گدوانے والی ہوں۔
وَالمُتَنَمِّصَات۔ چہرے کے بال صاف کرانے والی ہوں۔
وَ المُتَفَلِّجَات۔ (خوبصورتی کے لیے ریتی وغیرہ کے ذریعے) دانتوں میں فاصلہ کرانے والی ہوں۔
الْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ۔ ایسی تمام عورتیں اﷲ کی بنائی ہوشکل کو تبدیل کرنے والی ہیں۔
وَشْم: کا مطلب یہ ہے کہ آدمی بازو یا ہتھیلی کی پشت پر یا اور کہیں سوئی سے بدن کو چھید کر اسے سرمہ وغیرہ سے بھر دے۔ ہمارے ہاں غیر مسلم اقوام میں اس کا رواج زیادہ ہے۔ دورِ جاہلیت میں عورتیں اس طرح بدن کو خوبصورتی کے لیے گدوالیتی تھیں۔
نَمْص: سے مراد یہ ہے کہ ماتھے یا کانوں کے قریب اگے ہوئے بالوں کو اکھڑوا دیا جائے یا بھووں کے بال جڑے ہوئے ہوں تو درمیان کے بال اکھیڑ کر فاصلہ پیدا کر لیا جائے۔
اس حدیث شریف کے مطابق جب یہ چھوٹی چھوٹی باتیں، اﷲ کی بناوٹ کو تبدیل کرنے کی مد میں آتی ہیں، تو پھر خیال فرمایے کہ آدمی کا اپنے جسم کا کوئی حصہ Donateکر دینا یا قیمتاً دے دینا کیونکر اس میں شامل نہ ہو گا؟
ایک شبہ اور اس کا جواب:
ایک شبہ یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ آدمی سر اور چہرہ کے بال درست کرواتا ہے، لبیں لیتا ہے، داڑھی کے بھی کچھ بال لیتا ہے، ختنہ کراتا ہے، بغلوں اور زیر ناف کے بال صاف کرتا ہے، ناخن کاٹتا ہے…… یہ تمام صورتیں بھی اﷲ کی بناوٹ کو بدل دینے کی ہیں، توپھر یہ بھی ناجائز ہونی چاہئیں۔ یہ کیونکر جائز ہو گئیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح کے کام خصالِ فطرت کے زمرہ میں شامل ہیں یعنی انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ آدمی یہ کام کرے، اسی لیے ہر دور میں تمام انبیاء علیہم السلام ان باتوں کی تعلیم دیتے آئے ہیں۔ گویا یہ خلق اﷲ کا حصہ ہیں۔ اس کے منافی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر بچہ پیدا ہوتا ہے، تو اس کے منہ میں دانت نہیں ہوتے، یہ اس کی شیر خوارگی کی عمر کے عین مطابق ہے۔ بڑا ہوتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ دانتوں سے بھر جاتا ہے۔ یہ اس عمر کا فطری تقاضا تھا، جس کا انتظام خالق نے فرما دیا۔
ایک اور شبہ:
اس جگہ قارئین کے دل میں ایک شبہ آ سکتا ہے کہ ان احادیث سے تو اس تغییر خلق اﷲ کی روکاوٹ معلوم ہوتی ہے جو محض زیب و زینت کے لیے ہو۔ اعضاء کی وہ پیوندکاری جو بیماری کے علاج کے طور پر کی جائے، اس کی روکاوٹ کا تو کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کا جواب آئندہ سطور میں آئے گا۔
قرآن کریم کی رو سے انسان کا مرتبہ اور اس کا تقاضا:
قرآن کریم کی روسے انسان کا مرتبہ و مقام، کائنات میں سب سے اونچا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا ہے:
وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ(الاسراء: ۷۰) ۔ ترجمہ: ہم نے اولادِ آدم کو برتری بخشی۔
یہ انسان ہی ہے جس کی عظمت اور برتری کا بیان اﷲ تعالیٰ نے ان دو جملوں میں فرمایا:
۱۔ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ۔ (سورۃ ص:۷۲)۔ ترجمہ: میں نے اس میں اپنی روح پھونکی۔
۲۔ خَلَقْتُ بِیَدَیَّ۔ (سورۃ ص: ۷۵) ۔ ترجمہ: میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔
حضرت انسان کے اسی بلند مرتبہ و مقام کی وجہ سے اسے مخدوم ٹھہرایااور باقی تمام کائنات کو اس خادم بنایا، چنانچہ فرمایا گیا:
خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعًا۔(البقرہ: ۲۹)
سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِیْ الْاَرْضِ۔(الحج: ۶۵)
سَخَّرَ لَکُمْ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ۔(ابراہیم:۳۳)
انسان کے اس اشرف المخلوقات ہونے کا نتیجہ ہے کہ اس کی زندگی میں بھی اس کا احترام ملحوظ رکھا جاتا ہے اور مرنے کے بعد بھی۔ اسی لیے حدیث شریف میں حکم دیا گیا: اکرموا اخاکم حیًّا و میتاً۔ اور اسی لیے انسان کے کسی جز کودوسرے جسم میں منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ اس کے بالوں، کھال اور ہڈیوں تک کو استعمال میں لانے کی شریعت نے رکاوٹ کر دی۔ چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں:
(۱) فقہ حنفی کی مشہور کتاب ھدایہ میں ہے: و حرمۃ الانتفاع بأجزاء الآدمی لکرامتہ۔ یعنی انسان کے محترم اور معزز ہونے کی وجہ سے اس کے اجزاء سے نفع اٹھانا حرام ہے۔
(۲) ھدایہ کی شرح عنایہ میں ہے: لئلا یتجاسر الناس علی من کرم اللّٰہ بإبذال أجزاۂ۔ یعنی اﷲ نے جس کو عظمت بخشی ہے، لوگ اس کے اعضاء کو بے وقار ٹھہرا کر اس کی ناقدری کے لیے دلیر نہ ہو جائیں۔
(۳) ملک العلماء امام کاسانیؒ جو فقہاءِ احناف میں بہت اونچا پایہ رکھتے ہیں، فرماتے ہیں: لا یجوز بیعہا و یحرم الانتفاع بہا احتراما للآدمی کما اذا طحن سن الادمی مع الحنطۃ او عظم لا یباح تناول الخبز من دقیقہا۔یعنی انسانی اجزاء کا بیچنا جائز نہیں اور ان سے نفع اٹھانا حرام ہے کیونکہ انسان واجب الاحترام ہے۔ مثلاً اگر آدمی کا کوئی دانت یا اس کی کوئی ہڈی گندم کے ساتھ پس جائے تو اس کے آٹے سے تیار شدہ روٹی کھانا درست نہیں ہے۔ (بدائع، ج:۱، ص: ۶۳)
(۴) علامہ ابن نُجیم مصری، جن کو ابو حنیفہ ثانی کہا جاتا ہے، فرماتے ہیں: لا یجوز الانتفاع بہ ولا دبغہ احتراما لہ و علیہ اجماع المسلمین کما نقلہ ابن حزم۔ یعنی آدمی کی کھال سے نہ تو نفع اٹھانا درست ہے اور نہ اس کو رنگنا وغیرہ جائز ہے کیونکہ اس کا احترام پیش نظر ہے۔ اسی پر مسلمانوں کا اتفاق ہو چکا ہے، جیسا کہ امام ابن حزم نے نقل کیا ہے۔ (البحر الرائق، ج: ۱، ص: ۱۰۱)
(۵) امام نوویؒ جو ساتویں صدی ہجری میں علماءِ شافعیہ میں ایک نہایت ہی بلند پایہ محدث اور فقیہ گزرے ہیں، اوپر نقل شدہ حدیث ’’لعن اللّٰہ الواصلۃ والمستوصلۃ‘‘ کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ان وصلت شعرھا بشعر ادمی فہو حرام بلا خلاف سواء کان شعر رجل او امرأۃ و سواء شعر المحرم والزوج و غیرہما بلا خلاف لعموم الاحادیث و لانہ یحرم الانتفاع بشعر الادمی و سائر أجزاۂ لکرامتہ بل یدفن شعرہ و ظفرہ و سائر اجزاۂ‘‘ یعنی اگر عورت اپنے بالوں میں کسی آدمی کے بال جوڑ لیتی ہے تو یہ حرام ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ خواہ وہ کسی مرد کے بال ہوں یا عورت کے، خواہ کسی محرم یا خاوند کے ہوں یا کسی اور کے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس لیے کہ احادیث عام ہیں…… اور اس لیے کہ آدمی کے بالوں اور دوسرے اعضاء سے نفع اٹھانا حرام ہے۔ بوجہ اس کے مستحق عزت ہونے کے۔ بلکہ اس کے بال، ناخن اور دوسرے اجزاء دفن کر دیے جائیں۔ (شرح مسلم للنووی، ج: ۱، ص: ۲۰۴)
یوں تو انھی حوالہ جات سے مسئلہ بہت حد تک واضح ہو چکا ہے، مگر ہم نے فقہی عبارتیں صرف اس لیے نقل کی ہیں کہ انسان کو جو اﷲ نے اشرف المخلوقات قرار دیا ہے، اس کا یہی مرتبہ اور مقام، تقاضا کرتا ہے کہ اس کے اجزاء اور اعضاء سے کسی طرح استعمال کر کے نفع حاصل کرنا اور ان کی خرید و فروخت ممنوع ہو۔ چنانچہ بالاتفاق علماءِ اُمّت کے نزدیک ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
حدیث شریف کی رو سے اعضاء کی پیوندکاری:
کسی مریض کے جسم میں کسی صحیح سالم عضو کا فٹ کرنا، ظاہر ہے کہ آپریشن کے ذریعے ہو گا، یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کی فٹنگ کا مرحلہ تو بعد میں آئے گا، اس سے پہلے تو کسی جسم سے تندرست عضو لینے کا مرحلہ ہو گا جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے۔ ایک نَومردہ بدن سے آنکھیں یا دل، یا پھیپھڑا یا جگر کی قطع برید ہونا لازمی امر ہے۔ آئیے ہم اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ تو سنیے:
مسند احمد، سنن ابی داؤد (ج:۲، ص: ۱۰۳)، مؤط امام مالک اور سنن ابن ماجہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ:
’’کسر عظیم المیت ککسرہ حیًا‘‘۔
ترجمہ: مردے کی ہڈی توڑنا اس طرح ہے جیسا کہ زندہ آدمی کی ہڈی توڑنا ہے۔
ابو داؤد کے شارح، محدث سہارنپوریؒ نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ:
’’ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی جنازے کے ہمراہ قبرستان تشریف لے گئے۔ وہاں گورکن ابھی اپنے کام سے فارغ نہیں ہوا تھا، حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم قبر کے ایک کنارے بیٹھ گئے، صحابہ بھی بیٹھ گئے۔ اتنے میں گورکن نے ایک ہڈی نکالی جو پنڈلی یا بازو کی معلوم ہوتی تھی، وہ اس کو توڑنے لگا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اسے نہ توڑ، مردہ کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسا کہ زندہ کی ہڈی کا۔ اس کو قبر میں کسی طرف دے دے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس فرمانِ گرامی کا سبب یہ واقعہ بنا۔‘‘ (بذل المجہود، ج: ۵، ص: ۲۰۹)
مؤطا شریف اور ابن ماجہ میں ایک لفظ کا اضافہ ہے: ’’فی الاثم‘‘۔ یعنی گنہگار ہونے کے لحاظ سے مردہ کی ہڈی توڑنا، زندہ آدمی کی ہڈی توڑنے کے برابر ہے۔
یہ روایت اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہما سے منقول ہے۔ مؤطا امام مالک کی شرح میں ابن ابی شیبہ کے حوالے سے حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے:
’’اذی المؤمن فی موتہ کاذاہ فی حیاتہ‘‘(اوجز المسالک)
ترجمہ: مسلمان کو مرجانے کے بعد تکلیف دینا ایسا ہی ے جیسا کہ زندگی میں اسے ایذا پہنچانا۔
ایسی ہی احادیث کی وجہ سے بلوغ المرام کے شارح نواب زادہ نور الحسن خاں لکھتے ہیں:
’’و فیہ دلالۃ علی وجوب احترام المیت کما یحترم الحیّ‘‘۔
ترجمہ: اس سے معلوم ہوا کہ مردے کا احترام بھی اسی طرح لازم ہے جس طرح کہ زندہ کا احترام ہوتا ہے۔ (فتح العلام، ج: ۱، ص: ۲۵۲)
خود میت کو براہِ راست ایذا پہنچانا تو دور کی بات ہے، ہمیں تو حدیث شریف یہ حکم دیتی ہے کہ آدمی قبر سے ٹیک لگا کر نہ بیٹھے۔ چنانچہ عمرو بن حزم نامی انصاری صحابیؓ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے قبر سے ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
’’لا تؤذ صاحب القبر‘‘۔ (اس قبر والے کو تکلیف نہ دے)
مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ایک رویت منقول ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لأن یجلس احدکم علی جمرۃ فتحرق ثیابہ فتخلص الی جلدہ خیر لہ من الجلوس علی قبر‘‘۔(مسلم شریف، ج: ۱، ص: ۳۱۲)
ترجمہ: ایک آدمی انگارے پر بیٹھ جائے اور وہ انگارہ اس کے کپڑوں کو جلا کر اس کی کھال تک پہنچ جائے، یہ اس کے لیے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔
قارئین کرام! ایک طرف شریعت مقدسہ کا یہ مزاج دیکھیے کہ وہ اپنے ماننے والوں سے مسلمان میت کے بارے میں کیا چاہتی ہے اور کیا حکم دیتی ہے۔ دوسری طرف روشن خیال اہلِ علم کی یہ فراخ دلی ملاحظہ ہو کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور توڑ پھوڑ کی اجازت دے رہے ہیں!
بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تا بکجا!
(جاری ہے)