حبیب الرحمن بٹالوی
’’حضراتِ گرامی! میّت کے ورثا کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے مرحوم سے کوئی قرض وغیرہ لینا ہو تو وہ اُن سے رابطہ کر سکتا ہے۔ زندگی میں آدمی سے کمی، کوتاہی ہو جاتی ہے۔ اگر مرحوم کے بارے میں کسی رشتے دار یا غیر رشتے دار کے دل میں کوئی رنجش یا ناراضگی ہو تو درخواست ہے کہ وہ انھیں اﷲ کے واسطے معاف کر دے۔ مرحوم بہت اچھے آدمی تھے۔
ایک جنازہ جا رہا تھا۔ لوگ کہہ رہے تھے: ’’مرنے والا بہت نیک آدمی تھا۔ بہت اچھا آدمی تھا‘‘۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس پر جنت واجب ہو گئی‘‘۔ ایک اور جنازے پر ایک صحابی سے کسی نے پوچھا، یہ کس کا جناز ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ’’میرا‘‘۔ اور اگر تمھاری دل آزاری نہ ہو تو میرا اور تمھارا کہ کل کو لوگ اسی طرح میرا اور تمھارا جنازہ اٹھائے لیے جارہے ہوں گے۔ اور مساجد سے ہماری موت کا اعلان ہو رہا ہو گا۔
عزیزانِ محترم! جنازہ در حقیقت مرنے والے کے لیے ایک دعا ہے اور اکثر کو وہ دعا نہیں آتی۔ ہم مرحوم کے لواحقین کو یہ ظاہر کرنے کے لیے آ جاتے ہیں کہ ہم بھی جنازے پر آئے ہوئے ہیں۔ مگر جنازے کا جو اصل مقصد ہے وہ ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جنازے میں پڑھنے والی دعا نہیں آتی۔ جنازہ ایک فرض کفایہ ہے۔ اگر کچھ لوگ مرنے والے کا جنازہ پڑھ لیں گے تو سب کی طرف سے کافی ہو جائے گا مگر پانچ وقت کی نماز ہر ایک پر فرض ہے۔ افسوس! ہم اس کی فکر نہیں کرتے۔ ریاکاری، دکھاوے کے لیے جنازے پر آ جاتے ہیں مگر نماز نہیں پڑھتے۔ ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے‘‘۔
یہ ہیں وہ الفاظ جو ہمارے ایک دوست (شیخ ابوذر) کے والد محترم کا جنازہ پڑھانے سے پہلے، امام صاحب نے ادا کیے۔
قارئین! یہ دنیا فانی ہے۔ اس کے ہر مکان پر فنا کی تختی لگی ہوئی ہے۔ جو چیز بنی ہے، اس نے بگڑنا ہے۔ جو بھی یہاں آیا ہے اُس نے جانا ہے۔
کوئی بھی یہاں نہ ٹھہرا ہے
ہر جا موت کا پہرا ہے
یہ دنیا پلک بسیرا ہے
یہاں جوگیوں والا پھیرا ہے
ذرا قبرستان کی طرف گردن گھما کے دیکھو ، کیسے کیسے حسینوں کی مٹی خراب ہو رہی ہے۔
نہ دارا رہا نہ سکندر رہا!
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
نہیں پیٹ بھرتا بے صبری زمیں کا
ہضم کر گئی نوجواں کیسے کیسے
اور سب سے زیادہ تعجب کی بات یہی ہے کہ ہم روز دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر زندگی اس طرح بسر کرتے ہیں جیسے خود کبھی نہیں مریں گے۔ جب کہ موت ہر ایک کے سر پر منڈلا ہے پتا نہیں کب آ کے دبوچ لے۔
کلبۂ افلاس میں ، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں ، بحر میں ، گلشن میں ، ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
نے مجال شکوہ ہے نہ طاقتِ گفتار ہے
زندگانی کیا ہے؟ اک طوقِ گلو افشار ہے
ہمیں ہر آن اﷲ سے ڈرتے رہنا چاہیے، اُس سے آسانیاں مانگتے رہنا چاہیے، وہ ہر چیز پر قادر ہے کہ زندگی اگر مشکل ہے تو موت اُس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ یہ زندگی موت کی امانت ہے جس کی کوئی تیاری نہیں۔ بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ ہم عارضی دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ دنیا تو چند روز کا کھیل تماشا ہے۔ ایک بزرگ سے ایک راہگیر نے پوچھا کہ یہاں قریب کوئی آبادی ہے؟ اُس نے قبرستان کی طرف اشارہ کر کے کہا اس طرف مستقل آبادی ہے۔ ہمیں جس کا خیال نہیں۔ عمر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے، ہم اپنی قبر کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ اور:
یہ آدمی کا جسم کیا ہے؟ جس پہ شیدا ہے جہاں
ایک مٹی کی عمارت، ایک مٹی کا مکاں
خون کا گارا بنا اور اینٹ اس میں ہڈیاں
چند سانسوں پہ کھڑا ہے یہ خیالی آسماں
موت کی پُرزور آندھی جس گھڑی ٹکرائے گی
دیکھ لینا یہ عمارت خاک میں مل جائے گی