حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
لولاک ذرّۂ زِ جہانِ محمد است
سبحانَ مَنْ یراہُ! چہ شانِ محمد است
سی پارۂ کلامِ الٰہی خدا گواہ
آں ہم عبارتے ز زبانِ محمد است
نازد بنامِ پاکِ محمّد کلامِ پاک
نازم بآں کلام کہ جانِ محمد است
توحید را کہ نقطۂ پرکارِ دینِ ماست
دانی؟ کہ نکتۂ ز بیانِ محمد است
سرِّ قضا و قدر ہمین است اے ندؔیم
پیکانِ امرِ حق ز کمانِ محمد است
شانِ ورود:
اس کے متعلّق خود فرمایا:
’’کادیان یا بٹالہ میں منعقد ہونے والے کسی جلسہ یا احرار کانفرنس کو (غالباً رمضان 1363ھ/جون 1944ء میں) جب مرزائیوں کے اشارہ سے حکومت نے ممنوع قرار دے دیا تو لاہور میں مجلس کی طرف سے احتجاجی جلسہ رکھا گیا۔ اس میں شرکت کے لیے میں شام کے بعد امرت سر سے سوار ہوا۔ اتّفاق سے لاری راستے میں فیل ہو گئی اور اسے چلاتے چلاتے بارہ ساڑھے بارہ بج گئے۔ دل کو صدمہ ہوا اور اسی وقت دھیان مدینہ منوّرہ کی طرف چلا گیا اور چلتی لاری میں نعت کے ابتدائی تین اشعار موزوں ہو گئے۔ میں بہت دیر سے لاہور پہنچا۔ جلسہ گاہ کے قریب آیا تو اس وقت مولانا بہاء الحق قاسمی احتجاجی ریزولیوشن کے آخری الفاظ کہہ رہے تھے۔ اجلاس قریب الاختتام تھا میں سٹیج پر پہنچ گیا، رات کے دو بج چکے تھے، میں نے اسی تأثّر میں کافی دیر تک تقریر بھی کی اور یہ اشعار مجمعِ عام میں تمام واقعہ دُہرا کر پڑھے۔ اور بقیہ دو شعر (مجھ سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے فرمایا) آپ کو معلوم ہی ہے، اسی سال رمضان المبارک کے ایّام میں گھر پر مکملّ ہوئے تھے۔ یہ ہے اس نعت کا شانِ ورود۔ واﷲ اعلم‘‘
ترجمہ:
(از صبیح ہمدانی)
حدیث قدسی ہے(لولاک لما خلقت الأفلاک: اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا کرنے کا فیصلہ نہ کرتا) یہ حدیثِ ’’لولاک‘‘ محمَّد صلی اﷲ علیہ وسلّم کے جہانِ (عزّت و عظمت) کا ایک ذرہ ہے۔ وہ ذات پاک ہے جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان کو جانتی ہے، کہ آپ کی شان کیا ہے۔
خدا گواہ ہے کہ کلامِ الٰہی کے تیسوں سپارے (ہمارے لیے تو) محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نطق اقدس سے ہی ظاہر ہونے والی عبارت ہیں۔
محمّد پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسم گرامی پر قرآن بھی فخر کرتا ہے، اور میں اس کلام پر فخر کرتا ہوں کہ جو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی جان ہے۔
توحید جو ہمارے دین کی پرکار کا مرکزی نقطہ ہے، تم جانتے ہو؟ کہ یہ محمَّد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیان کا ایک نکتہ ہے۔
اے ندیمؔ قضا و قدر کا بھید یہی ہے، کہ خدا کے حکم کا تیر محمَّد صلی اﷲ علیہ وسلم کی کمان سے جاری ہوتا ہے۔