ساحر لدھیانوی مرحوم
مت سوچ کہ افضل نہیں اربابِ وطن میں
یہ دیکھ فضا شعلہ فشاں ہے کہ نہیں ہے
جو آگ سلگتی رہی اس شیر کے دل میں
اس آگ سے ہر روح تپاں ہے کہ نہیں ہے
بیزار غلامی سے ہیں روحیں کہ نہیں ہیں
سرکش سا ہر اک پیر و جواں ہے کہ نہیں ہے
بجلی سی ہر اک ذہن کے آئینے میں رقصاں
شعلہ سا ہر اک دل میں نہاں ہے کہ نہیں ہے
کچلے ہوئے طبقات کی بڑھتی ہوئی تنظیم
آزادی عالم کا نشاں ہے کہ نہیں ہے
جس دیس میں سانسوں پہ بھی تعزیر تھی اک دن
وہ شعلہ و صرصر کی زباں ہے کہ نہیں ہے
بیدار جوانوں کی نگاہوں کا تمکن
ناموسِ وطن کا نگراں ہے کہ نہیں ہے
پچکے ہوئے سینوں میں پر افشاں ہے بغاوت
سوکھے ہوئے جبڑوں میں زباں ہے کہ نہیں ہے
اِک سیلِ بلا خیز ہے گرداب کی زد میں
یہ کارگہِ شیشہ گراں ہے کہ نہیں ہے
٭انتقال: ۸؍ جنوری ۱۹۴۲ء