محمد قاسم چیمہ
(تحریک لبیک یارسول کے دھرنے کے دوران مولانا خادم حسین رضوی کی تقاریرمیں جس نامناسب اندازکو اِختیارکیاگیا،اُسے ہرطبقہ نے ناپسندکیا،مگر اُن کی غیرمحتاط زبان نے نہ صرف سیکولر طبقے،بلکہ قادیانیوں کو بھی کھل کھیلنے کا خوب موقع فراہم کیا۔ایک قادیانی لطف الاسلام نے اپنے خبث باطن کے اظہارکا موقع پاتے ہی سیکولروں کی ویب سائٹ ’’ہم سب‘‘ پر ایک مضمون میں مولانا خادم رضوی کی دشنام طرازی کو مجلس احرارکی خطابت کی شانداررَوایت سے جوڑنے کی ناکام سعی کی،اورزُعمائے احرارکے پاکیزہ کردارپر خاک اُڑانا چاہی،مگر نوجوان قلم کارمحمد قاسم چیمہ نے قادیانی لکھاری کاحسب ذیل جواب اُسی ویب سائٹ پر دے کر اَکابراحرارکے دفاع کا حق اداکیا،مضمون پڑھیے اورسردُھنیے (مدیر)
جناب لطف الاسلام کی تحریر “مولوی خادم رضوی کی گندہ گوئی اور خطابت کی احراری روایت” نظر سے گزری۔ گماں ہوتا ہے کہ یہ تحریر حب ِعلی نہیں بلکہ بغضِ معاویہ میں لکھی گئی ہے ۔ خادم رضوی کی کیا پالیسی ہے ؟ وہ کس مقصد کے لئے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں، اس سے ہزار اختلاف ہوسکتا ہے ۔ ہمیں بھی ہے ۔ لیکن خادم رضوی کاامیرشریعت سید عطا اﷲ شاہ بخاری اور آغا شورش کاشمیری جیسی عظیم شخصیات سے کیا موازنہ!
امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی خطابت پر اُردوزُبان ناز کرتی ہے۔اُن کی خطابت نے اپنی تمام ہم عصرسیاسی،دینی اوراَدبی شخصیات سے خراج تحسین پایا اوراُن کی خطابت تو ہماری ادبی روایت میں ضرب المثل کا درجہ اختیارکرچکی ہے۔لطف الاسلام صاحب کو چاہیے کہ وہ مرزاقادیانی کی کتب کامطالعہ کریں اورمرزاکی مسلمانوں کو دی گئیں گالیوں پر ایک نظر ڈالیں اورپھر امیرشریعت کی تقاریرکو دیکھیں تو انہیں بخوبی معلوم ہوجائے گاکہ گالی کیا ہوتی ہے اورخطابت کس چیزکا نام ہے۔
امیرشریعت بخاریؒ صرف خطیب ہی نہیں،بلکہ ایک عالم،مدبر، مفکر اور سیاستدان تھے۔ان کی خوبیوں کے تو مخالف بھی معترف ہیں۔ وائس آف جرمنی کو انٹرویو دیتے ہوئے ممتاز شاعر فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ بر صغیر پاک و ہند میں صوفیانہ طرز عمل کے حوالے سے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری سے بڑھ کر کوئی شخصیت نہیں۔ شاعر عوام حبیب جالب نے شاہ جی کی وفات پر کہا تھا کہ
ایک طرف توپوں کے دہانے ، ایک طرف تقریر ،ٹوٹ گئی زنجیر
شاہ ! تجھے کہتی تھی دنیا ، تُو تھا ایک فقیر ، ٹوٹ گئی زنجیر
شاہ جی کی شخصیت میں اگر مروجہ گندہ گوئی ہوتی تو سلمان تاثیر کے والد ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اپنے ہاتھ شاہ جی کے قدموں پر نہ رکھتے ۔ شاہ جی جب میانوالی جیل سے رہا ہوئے تو ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر انہیں لینے گئے اور شاہ جی دروازے سے باہر آنے لگے تو ڈاکٹرایم ڈی تاثیر نے یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھ زمین پر رکھ دیے کہ شاہ جی میرے ہاتھوں پر پاؤں رکھ کے باہر آئیں۔
امیر شریعت محبت کا پیکر تھے۔جب بیمار ہوئے تو نشتر ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ ’’ موسیٰ سے مارکس‘‘ تک کے معروف اشتراکی مصنف سبط حسن تشریف لائے اور شاہ جی سے لپٹ گئے۔رونے لگے اور کہا شاہ جی اٹھیے، چلیں،ابھی تو بہت سی تقریریں کرناباقی ہیں۔ ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی بھی شاہ جی کی مجلسوں میں بیٹھا کرتے تھے ۔
ممتازشاعرعبدالحمیدعدم کی بادہ نوشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،وہ حضرت امیرشریعت کی محفلوں میں شرکت کیاکرتے تھے۔ ایک بار عدم شراب پی کر شاہ جی کی محفل میں آکر بیٹھ گئے ۔ شاہ جی نے پوچھا، ہاں بھئی عدم! چائے پیو گے ؟ عدم نے ہاں میں سر ہلایا، شاہ جی نے خود چائے بنا کر دی، عدم نے چائے ختم کی تو شاہ جی نے عدم کے روکنے کے باوجودعدم ہی کی جھوٹی پیالی میں چائے ڈال کر پی لی، سب حیران تھے ۔ جب عدم چلے گئے تو لوگوں نے کہا کہ شاہ جی، عدم شرابی ہے اور شراب پی کر آیا تھا، امیر شریعت کو غصہ آگیا، کہنے لگے ، کیا تم نے اُسے شراب پیتے دیکھاہے ؟ تو لوگوں نے کہا کہ دیکھا تو نہیں، البتہ شراب کی بو آرہی تھی اس سے ۔ تو شاہ جی نے فرمایا کہ پھر بھی خاموش رہو۔ تم لوگوں کی تو عادت ہے کہ دوسروں کی غلطیوں کو عقاب کی نگاہ سے دیکھتے اور صبا کی رفتار سے پرکھتے ہو، کبھی کسی کی نیکیوں پر بھی نظر ڈال لیا کرو، اس سے تمہاری اپنی سیرتیں سنور جائیں گی۔
سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کو اﷲ پاک نے بے مثل خطابت کا ملکہ عطاء فرمایا تھا، آپ نے ساری زندگی انگریز کے خلاف جدوجہد میں بسر کی۔ آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آدھی زندگی ریل میں اور آدھی زندگی جیل میں گزار دی۔ ایک ایسا قابل فخرشخص کہ جس نے اپنی جان تک کی پروا نہ کی اور ہندوستان کو انگریز سامراج سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی ۔
جس دوسرے شخص(شورش کاشمیری)کا ذکر لطف الاسلام صاحب نے اپنی تحریر میں کیا، آج بہت یاد آرہی ہے ، مجاہد احرار آغا شورش کاشمیری کی، جو زندہ ہوتے تونہ صرف آپ کی اس تحریر کا جواب دیتے ،بلکہ آپ کے ذہنی شجرہ نسب اورنفسیاتی درماندگی کا بھی تعارف کراتے ۔ شورش کہ جن کے بارے میں شاہ جی نے کہا تھا کہ میں کوئی برگد کا درخت نہیں کہ جس کے نیچے دوسرا پودا نہیں اُگ سکتا ۔ شورش میری مراد ہے ۔ جن کے بارے میں سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہفت روزہ’’ چٹان‘‘ اور اُس کے ایڈیٹر کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، جرأت مند صحافت پر شورش کو سلام پیش کرتا ہوں۔ لطف الاسلام صاحب ! شورش ہی نے کہا تھا کہ اگر احرار بِکنے والے ہوتے تو خریدنے والے نسل در نسل بِک بِک کر ہمیں خریدتے ۔
محترم جناب لطف الاسلام صاحب نے جو کچھ لکھا ہے ، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک خاص گروہ کی روح کی تسکین چاہتے ہیں۔ اختلاف رائے کو قبول کرنا چاہیے لیکن اختلاف رائے کے نام پر جھوٹ کو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی جماعت مجلس احرار اسلام آج بھی اپنی بساط اور حیثیت کے مطابق اپنا کام کررہی ہے ۔ آپ کم از کم یہی دیکھ لیں کہ عنوانِ مدّعا کی یکسانی کے باوجود احرار اس وقت مولانا خادم حسین رضوی کے ساتھ نہ دینے کے اصولی فیصلے پر قائم ہیں۔ احرار نہ مذہب کا استحصال کرتے ہیں اور نہ اپنے نظریاتی و اصولی موقف کو گندہ گوئی کی پستیوں میں اتارتے ہیں۔ آپ نے تحریکِ پاکستان کا ذکر کر کے اپنے استدلال کے افلاس کا ثبوت دیا، یہی بتا دیں کہ کلمۂ اسلام کو سیاسی استحصال کی بھینٹ چڑھانے کا کام کم از کم احرار نے نہیں کیا۔ احرار دشمنی میں جسٹس منیر جیسے بدنام زمانہ، رسوائے عالم انصاف فروش سے دلیل لانا، اﷲ اﷲ کیا بے دست و پائی ہے ، ترس آتا ہے ، ہمارے زمانے کے شاعر نے کہا تھا
اپنی صورت سے ہی بے رحم سا خوف آتا ہے
اپنے حالات کی تصویر ڈرا دیتی ہے
زندگی بوجھ اٹھائے ہوئے ارمانوں کا
یاس کے تپتے ہوئے صحرا میں چلی جاتی ہے
لطف الاسلام صاحب !نہ تو شاہ جی کی شخصیت کسی تعریف کی محتاج ہے نہ ان کی جماعت۔ شاہ جی نے جو کیا اس کا صلہ اﷲ کے ہاں ضرور ملے گا۔ اگر آپ اپنا قبلہ درست نہیں کرسکتے تو کم ازکم غیر جانبدار ضرور رہیے ۔ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں، شاہ جی اور ان کی حریت پسند جماعت مجلس احرار کی سیاسی پالیسی سے اختلاف کریں لیکن اپنے دلائل کی کمزوری کو مولوی سے عمومی نفرت کے سہاروں سے مستحکم مت کریں۔ بات کریں گالی نہ دیں۔ فررت من المطر و قمت تحت المیزاب۔ (بارش سے بھاگے ہو اور پرنالے کے نیچے جا کھڑے ہوئے ہو!)
٭……٭……٭