طالب الہاشمی
بَرِّ کوچک پاک و ہند میں سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتیؒ کا شمار انیسویں صدی عیسوی کی نادرۂ روزگار شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ وہ زمرۂ صوفیہ کے ایک باکمال، ذہین و فطین، زندہ دل، خوش مذاق، آزاد منش، جہاں گشت اور صاحبِ نظر بزرگ تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ سیر و سیاحت میں گزارا۔ اثنائے سیاحت میں ہر نوع اور ہر طبقے کے افراد سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کو عجیب و غریب تجربات حاصل ہوئے۔ عمر کے آخری اٹھارہ سال انھوں نے پانی پت (بھارت) میں گزارے۔ ان کے اخلاقِ حسنہ اور روحانی کمالات نے انھیں تھوڑے ہی عرصہ میں بے شمار لوگوں کا مرجعِ عقیدت بنا دیا اور ان کے مریدانِ با صفا کا ایک وسیع حلقہ قائم ہو گیا مگر ان کو ملک گیر شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب ان کی وفات کے بعد ان کے اقوال و ارشادات اور حالاتِ زندگی پر مشتمل ایک کتاب ’’تذکرۂ غوثیہ‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آئی۔ اپنی بعض خصوصیات کی بدولت اس کتاب کو نہ صرف بے پناہ مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی بلکہ اردو ادب میں بھی اسے ایک نمایاں مقام حاصل ہو گیا ہے۔ ’’تلامذۂ غالب‘‘ کے فاضل مؤلّف آنجہانی مالک رام کی رائے میں اس کتاب کی دلکشی کی کما حقہ تعریف نہیں ہو سکتی۔ زبان کے لحاظ سے ایسی پرخلوص کتابیں اردو میں بہت کم تصنیف ہوئی ہیں۔ (تلامذۂ غالب)
اسی طرح صاحبِ ’’حیاتِ غالب‘‘ شیخ محمد اکرم مرحوم کی یہ رائے بھی بالکل درست ہے کہ ’’ہندوستانی صوفیہ کے تذکروں میں شاید ہی کوئی کتاب ’’تذکرۂ غوثیہ‘‘ سے زیادہ دلچسپ ہو گی۔ (حیاتِ غالب)
’’تذکرۂ غوثیہ‘‘ پر سب سے جامع تبصرہ اس کی طبع ہفتم کے آغاز میں مولانا محمد رضی عثمانی (بن حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اﷲ) نے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تذکرۂ غوثیہ ایک مشہور و مقبول کتاب ہے جس میں حضرت مولانا غوث علی شاہ قلندری قادری کے حالات و بابرکات اور ملفوظات و مقالاتِ طیبات کو ایسے دلنشین انداز میں لکھا گیا ہے کہ کتاب شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر ہاتھ سے رکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ حضرت کے سفر نامے، بزرگوں، علماء و مشائخ، مجاذیب، اولیاء اﷲ کی دلچسپ حکایتیں اور مقالاتِ حکمت، اپنے زمانے کے مشاہیر سے ملاقاتوں اور تصوف و اخلاق کی چاشنی کے علاوہ لطفِ زبان و ندرتِ بیان، زبان کی سادگی اور حکایت کی دلفریبی نے ایک ایسا ادبی گلدستہ تیار کیا ہے جس سے پڑھنے والا دوگونہ لطف اندوز ہوتا ہے اور بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان میں اس شان کی اور کوئی کتاب نہیں لکھی گئی اور یہ کتاب اردو زبان کے ادبِ عالیہ میں شمار ہونے کے لائق ہے۔‘‘
اس تذکرہ کے مطابق شاہ صاحبؒ موصوف مونگیر ضلع بہار کے قصبہ استھاواں میں بروز جمعہ ۴؍ رمضان المبارک ۱۲۱۹ھ مطابق ۷؍ دسمبر ۱۸۰۴ء کو سادات کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ جدِّ امجد نے خورشید علی نام رکھا۔ والدِ بزرگوار نے ابوالحسن اور والدہ نے غوث علی۔ سلسلۂ نسب ۱۷ واسطوں سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تک پہنچتا ہے۔ ان کے اجداد میں سب سے پہلے مخدوم سید محمد غوث الحسنی الجیلانی ہندوستان میں وارد ہوئے۔ وہ روم سے براہِ خراسان ملتان آئے وہاں سے اوچہ (اُچّ) تشریف لے گئے اور وہیں وفات پائی۔
شاہ صاحب موصوف دس برس تک گھر پر تعلیم پاتے رہے۔ اس دوران میں انھوں نے نصف قرآن شریف حفظ کر لیا اور نصف ناظرہ پڑھا۔ فارسی کی تعلیم سکندر نامہ تک اپنی سوتیلی والدہ سے اور عربی صرف و نحو کی تعلیم اپنے سوتیلے نانا مولوی محمد حیات سے حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہندی اور سنسکرت کی تعلیم بھی اپنے رضاعی والد پنڈت رام سیہنی سے حاصل کرتے رہے، غرض چھوٹی عمر ہی میں انھیں عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت پر خاصا عبور حاصل ہو گیا۔ اس کے بعد ان کے والدِ بزرگوار نے انھیں اپنے پاس دہلی بلا لیا جہاں وہ بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ ان دنوں شہر دہلی شاہ عبدالعزیز محدثؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، شاہ اسحاق اور مولانا فضلِ امام خیر آبادیؒ جیسے سر آمدِ روزگار بزرگوں کے انوارِ فیوض سے جگمگا رہا تھا۔ ایسے اکابر علماء کی محض آنکھیں دیکھنا ہی بہت بڑی سعادت تھی لیکن شاہ غوث علی کی خوش بختی کہ انھیں ان بزرگوں کا حلقۂ درس میسر آ گیا چنانچہ انھوں نے علم حدیث شاہ عبدالعزیزؒ اور شاہ اسحاق سے حاصل کیا۔ ایک سبق کافیہ کا شاہ اسماعیلؒ سے پڑھا اور دوسرے علوم کی کتابیں مولانا فضلِ امام سے پڑھیں۔ ان کے صاحبزادے مولانا فضلِ حق خیر آبادی شاہ صاحب موصوف کے ہم سبق تھے۔ مولانا فضلِ امام، شاہ غوث علیؒ کے حال پر نہایت شفقت فرماتے تھے اس تعلق خاطر کا اندازہ شاہ صاحب کے اس بیان سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
’’یہ مبرور و مغفور (یعنی مولانا فضلِ امام) ہمارے حال پر نہایت شفقت فرماتے تھے اور ان کی اہلیہ کو بھی مثال مادرِ مشفقہ کے محبت تھی۔ حتیٰ کہ بغیر ہمارے کھانا تناول نہ فرمایا کرتی تھیں۔ ہم ان کے ساتھ پٹیالہ بھی گئے اور ضروری کتبِ دینیہ و منطق پڑھتے رہے، جب وہ عالَمِ قُدس کو رحلت فرما ہوئے تو ہم کو نہایت رنج و الم ہوا۔ اس دن سے کتابیں بالائے طاق رکھ دیں کہ اس شفقت سے کوئی پڑھائے گا نہ ہم پڑھیں گے۔
اسی زمانے میں شاہ صاحبؒ نے دہلی کے مشہور خوش نویس میر پنجہ کش دہلوی سے فنِ خوشنویسی بھی سیکھا۔ تحصیل و تکمیلِ علوم کے بعد شاہ صاحب نے اپنے خاندان کے رواج کے مطابق اپنے والدِ بزرگوار کی بیعت کی اور ان سے علومِ باطنی حاصل کیے۔ کچھ عرصہ بعد ان کے والد انھیں بابری لے گئے اور وہاں ایک قادری بزرگ میر اعظم علی شاہ سے بیعت کرایا۔ شاہ صاحبؒ مدتوں ان کا فیضِ صحبت اٹھاتے رہے پھر انھی کے ارشاد کے مطابق میرٹھ گئے اور وہاں کے ایک نامور بزرگ مولوی حبیب اﷲ شاہ صاحب سے سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور ایک برس ان کی خدمت میں رہ کر راہِ سلوک طے کرتے رہے۔ ظاہری و باطنی علوم کی تحصیل کے بعد انھوں نے سیر و سیاحت اختیار کی اور سالہا سال تک برِّ کوچک پاک و ہند کے ایک ایک شہر اور گاؤں میں قلندرانہ شان سے خاک چھانتے رہے۔ اسی دوران میں دوبار حج بیت اﷲ سے بھی مشرف ہوئے۔ ساٹھ برس کی عمر میں پانی پت آ کر مستقل قیام فرمایا اور یہیں شبِ دو شنبہ ۲۶ ربیع الاوّل ۱۲۹۷ھ مطابق مارچ ۱۸۸۰ء کو عالَمِ جاوداں کے راہروہوئے۔ کُل ۷۸ سال چھے مہینے اور کچھ دن عمر پائی۔ اس میں سے ۱۸ سال سات مہینے اور چھے دن بلدۂ پانی پت میں گزارے۔ چونکہ ساری عمر متابلانہ زندگی کی بندشوں سے آزاد رہے اس لیے صُلبی اولاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ اولادِ معنوی انھوں نے ہزاروں مریدوں اور عقیدت مندوں کی صورت میں اپنی یاد گار چھوڑی۔
شاہ غوث علیؒ کی وفات کے بعد ان کے مریدِ خاص سید گل حسن شاہ نے اپنے مرشد کے حالاتِ زندگی اور افکار و اقوال کو بڑی محنت اور سلیقے سے ’’تذکرۂ غوثیہ‘‘ کی صورت میں مرتب کیا۔
تذکرۂ غوثیہ میں جگہ جگہ بہت ہی دلچسپ حکایات اور علمی و ادبی لطائف ملتے ہیں۔ ان میں اُس دور کی کئی مشہور شخصیتوں کا ذکر بھی آتا ہے اور کئی فقیروں اور ہندو جوگیوں کے خرقِ عادات کے عجیب و غریب واقعات بھی پڑھنے میں آتے ہیں۔ ان لطائف اور حکایات کو تین حصوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ جو شاہ غوث علیؒ نے بطور واقعہ بیان کی ہیں دوسرے وہ جو انھوں نے دوسروں کی زبان سے سن کر نقل کی ہیں، تیسرے عام روایتیں جن کا نمونہ مثنوی مولانا رومؒ، گلستانِ سعدی، انوار سہیلی وغیرہ میں ملتا ہے۔ ان میں سے چند روایات ایسی ہیں جو پایۂ ثقاہت سے گری ہوئی ہیں اور تہذیب ان کے نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر تذکرۂ غوثیہ مرتب کرتے وقت انھیں ترک کر دیا جاتا تو کتاب کی علمی حیثیت اور افادیت میں اضافہ ہو جاتا۔ اسی طرح کچھ ایسے واقعات جو شاہ غوث علیؒ نے بطور آپ بیتی بیان کیے ہیں یا خود کو ان کا عینی شاہد بتایا ہے بعض اہلِ علم کے نزدیک سندی لحاظ سے مشکوک ہیں لیکن یہ اپنے عقیدہ کی بات ہے۔ عقیدت مندوں کے نزدیک ان کا ایک ایک حرف سچ ہے۔
یہاں اس کتاب کی چند دلچسپ روایات اور لطائف کا تذکرہ لطف سے خالی نہ ہو گا۔
ان کے راوی شاہ غوث علیؒ ہیں اور مؤلف نے ان کے شروع میں اپنی طرف سے محض ’’ایک روز ارشاد ہوا‘‘ یا ’’ایک روز فرمایا‘‘ کے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ’’شاہ غوث علیؒ نے عموماً ہر جگہ اپنے لیے صیغہ جمع متکلم ’’ہم‘‘ استعمال کیا ہے۔
۱۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ جب ہم دوبارہ رام پور میں گئے تو سرائے میں ٹھہرے۔ اتفاقاً مولوی فضلِ حق سے ملاقات ہوئی نہایت محبت اور عنایت سے پیش آئے۔اپنے نوکر سے کہا کہ جاؤ آپ کا اسباب اٹھا لاؤ، میں نے کہا کہ حضرت برائے خدا مجھے وہیں رہنے دیجیے کہ بہت آرام سے ہوں۔ کہا اچھا جہاں آپ خوش رہیں لیکن بھٹیاری کو کہلا بھیجا کہ ان کے خرچ کا حساب ہمارے ذمہ ہے۔ اگر پانچ روپیہ روز بھی اٹھیں تو کچھ مضائقہ نہیں ہم دیں گے لیکن یہ شرط ہے کہ میاں صاحب بلااجازت ہمارے کہیں چلے نہ جائیں۔ ایک روز پچھلی باتوں کا ذکر آ گیا۔ اپنے والدِ بزرگوار کو یاد کر کے روتے رہے ہم نے کہا کہ مولوی صاحب آپ کو وہ دن بھی یاد ہے کہ مولوی صاحب نے تھپڑ مارا تھا اور آپ کی دستارِ فضیلت دور جا پڑی تھی۔ ہنسنے لگے اور فرمایا کہ خوب یاد ہے کہ وہ عجب زمانہ تھا اور وہ قصہ اس طرح تھا کہ مولوی فضل امام صاحب نے ایک طالب علم کو فرمایا کہ جاؤ فضل حق سے سبق پڑھ لو۔ وہ آیا غریب آدمی، بدصورت، عمر زیادہ، علم کم، ذہن کند، یہ نازک طبع ناز پروردہ جمالِ صورت و معنی سے آراستہ چودہ برس کا سن و سال، نئی فضیلت ذہن میں جودت بھلا میل ملے تو کیسے ملے اور صحبت راس آئے تو کیونکر آئے۔ تھوڑا سبق پڑھایا تھا کہ بگڑ گئے۔ جھٹ اس کی کتاب پھینک دی اور برا بھلا کہہ کر نکال دیا وہ روتا ہوا مولانا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا حال بیان کیا۔ فرمایا کہ بلاؤ اس خبیث کو۔ مولوی فضل حق آئے اور دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ مولانا صاحب نے ایک تھپڑ مار دیا ایسے زور سے کہ ان کی دستارِ فضیلت دور جا پڑی اور فرمانے لگے کہ ’’تُوتمام عمر بسم اﷲ کے گنبد میں رہا، ناز و نعمت میں پرورش پائی، جس کے سامنے کتاب رکھی اس نے خاطر داری سے پڑھایا، طالب علموں کی قدر و منزلت تو کیا جانے، اگر مسافرت کرتا بھیک مانگتا اور طالب علم بنتا تو حقیقت معلوم ہوتی، ارے طالب علم کی قدر ہم سے پوچھ۔
درازیِٔ شب از مژگانِ من پرس
کہ یکدم خواب در چشم نگشت است
خبردار تم جانو گے اگر آئندہ ہمارے طالب علموں کو کچھ کہا۔‘‘ یہ چپ کھڑے روتے رہے کچھ دم نہ مارا۔ خیر قصہ رفع دفع ہوا لیکن پھر کبھی کسی طالب علم کو کچھ نہیں کہا۔
۲۔ ایک روز ارشاد ہوا: میرٹھ میں حافظ جلال الدین صاحب گیارھویں کیا کرتے تھے۔ ایک بار ہم پانچ آدمیوں کی دعوت کی۔ جب فاتحہ شروع کی تو گھنٹہ بھر تک بزرگوں کے نام پڑھتے رہے بر روحِ پاکِ فلاں فلاں آخر ہم نے تھک کر ان سے عرض کیا کہ حضرت سب کے نام تو شمار ہو گئے، ان پانچ صورت کے نام کبھی پکار دیجیے جو اصل کھانے والے ہیں، بزرگوں کو ثواب جب پہنچے گا جب اِن کا شکم سیر ہو گا۔ اس بات پر بعض لوگ تو ہنس پڑے اور بعض ناراض ہوئے لیکن عبارت فاتحہ جلد ختم ہو گئی۔
۳۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ بیت اﷲ شریف میں ہمارے والد ماجد کا ایک مرید شب برات کے دن تھوڑا سا حلوہ پکا کر لایا اور کہا کہ بزرگوں کی فاتحہ دے دیجیے۔ ہم نے کہا بھلے مانس دیکھ تو کیسی مصیبت اٹھا کر ہم یہاں پہنچے ہیں۔ بھلا اس ذرا سے حلوے کے لیے کیوں بزرگوں کو تکلیف دیتا ہے، اتنی دور دراز مسافت بیچ میں سمندر حائل اور بالفرض وہ آ بھی گئے تو اتنے سے حلوے میں کیا بھلا ہو گا، کیا تم ان کو آپس میں لڑانا چاہتے ہو؟ ہنس کر کہنے لگے میاں صاحب آپ کو تو ہمیشہ ہنسی کی بات سوجھتی ہے اپنے بزرگوں سے بھی نہیں چوکتے۔
۴۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ جب ہم کوٹ پوتلی سے چلے تو راستہ میں ایک مندر ملا وہاں ایک سادھو نہایت دلآویز الحان سے بھجن گا رہا تھا۔ ہم بھی اس کے پاس جا بیٹھے۔ بھجن سنتے رہے پھر ان سے باتیں ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ نماز کا وقت آیا ہم نے مصلیٰ بچھا کر نماز پڑھ لی۔ بعد نماز وہ سادھو جی مخاطب ہوئے کہ میاں صاحب آپ کی طبیعت میں تو بڑی آزادی معلوم ہوتی ہے پھر یہ علّت کیوں لگا رکھی ہے۔ ہم نے کہا کہ بابا جی علّت سے تو نہ تم خالی نہ ہم خالی، تم کو اس پتھر کے پوجنے کی علّت لگی ہوئی ہے، ہم کو نماز کی، تم گھنٹہ بجاتے ہو، ہم تسبیح ہلاتے ہیں، بس بے قید ہے تو خدا کی ذات ورنہ سب اپنی اپنی قید میں مبتلا ہیں۔
۵۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ بابری میں ایک شخص آیا جو اپنے تئیں خدا کہتا تھا۔ ان دنوں جناب قبلہ میر اعظم علی شاہ صاحب بھی وہیں تھے۔ وہ یہ بات سن کر خفا ہونے لگے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت میں ان کو سمجھا دوں گا جب ان سے ملاقات ہوئی، حال پوچھا، کہا کہ میں خدا ہوں، ہم نے کہا واہ حضرت ہم تو مدت سے آپ کی تلاش میں تھے، گھر چھوڑا، وطن چھوڑا، آپ ہی کی جستجو میں جا بجا پھرتے رہے، آپ خود ہی تشریف لے آئے، بڑی مہربانی اور احسان فرمایا۔ پھر ہم نے ان کے لیے کھانا منگایا، اتفاقاً اس روز روکھی روٹیاں چنے کی تھیں۔ ان سے اچھی طرح نہ کھائی گئیں لقمہ گلے سے اترنا دشوار تھا کچھ ناراض سے ہونے لگے ہم نے کہا کہ ناراضی کی کیا وجہ ہے خود ہی انصاف کیجیے کہ خدا تو آپ ٹھہرے جیسا ہم کو آپ نے دیا وہ سامنے لا رکھا، اگر آپ پلاؤ دیتے تو وہی نذر کیا جاتا۔ بعد اس کے ہم نے قرآن کی ایک آیت پڑھی اور ان سے معنی دریافت کیے۔ کہا کہ میں تو ناخواندہ ہوں۔ ہم نے کہا سبحان اﷲ! آپ بھی عجیب خدا ہیں کہ خود ہی قرآن نازل کیا، اس کے معنی نہیں سمجھتے۔ تب وہ نادم ہوئے اور اپنے اس قول سے توبہ کی۔
۶۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ ایک فقیر رِند مشرب مولانا شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ مولوی بابا ہم کو شراب پلوا۔ شاہ صاحبؒ نے ایک روپیہ اس کی نذر کیا اور فرمایا کہ جو چاہو سو کھاؤ پیو تم کو اختیار ہے، وہ بولا کہ ہم نے تو آپ کا بڑا نام سنا تھا لیکن آپ تو قید میں ہیں۔ شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ کیا شاہ صاحب آپ قید میں نہیں ہیں۔ کہا نہیں، آپ نے فرمایا کہ اگر کسی روش کے مقید نہیں ہو تو آج غسل کرو اور جبہ و عمامہ باندھ کر مسجدمیں چلو اور نماز پڑھو ورنہ جیسے تم رندی کی قید میں مبتلا ہو اسی طرح ہم شریعتِ غرّاء کی قید میں پابند ہیں، تمھاری آزادی ایک خیال خام ہے۔ یہ بات سن کر نہایت چپ ہوا اور شاہ صاحب کے قدم پکڑے کہ درحقیقت ہمارا خیال غلط تھا جو ہم آزادی کا دم بھرتے تھے۔
۷۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ کسی نے اپنے گھر کے جھگڑے قصے بیان کرنے کے بعد انفصال و درستی معاملات میں ہم سے رائے طلب کی۔ ہم نے کہا کہ ہم کو ایک نقل یاد آئی ہے، کسی زمانہ میں ایک شخص نے دعویٰ پیغمبری کا کیا تھا۔ بادشاہِ وقت کو خبر ہوئی اس کو بلایا اور کہا کہ اگر تیرا دعویٰ سچا ہے اور تو پیغمبر برحق ہے تو اس قفل کو کھول دے۔
اس شخص نے جواب دیا کہ: دعویٰ پیغمبری کردہ ام نہ آہنگری یعنی میں نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے نہ کہ لوہار ہونے کا، سو ہمارے تو نہ جورو نہ بچے، ان معاملات کے نشیب و فراز کی ہم کو کیا خبر ہے وہ جانیں اور ان کا کام۔
۸۔ ایک روز کسی شخص نے کشائشِ رزق کے لیے وظیفہ پوچھا۔ اس وقت سے ارشاد ہوا کہ اگر درود و وظائف پر روزی موقوف ہوتی تو دنیا میں ملانوں کے برابر کوئی دولت مند نہ ہوتا بلکہ وظیفہ تو اس معاملہ میں اور الٹا اثر کرتا ہے کیونکہ دنیا ایک میل کچیل ہے اور نامِ خدا صابون، بھلا صابون سے میل کیونکر بڑھ سکتا ہے تم نے کسی وظیفہ خوان کے گھر ہاتھی گھوڑے بندھے نہ دیکھے ہوں گے…… خدا کا نام تو صرف اس لیے ہے کہ اس کی برکت سے دنیا کی محبت دل سے دور ہو جائے نہ اس لیے کہ آدمی دنیا میں زیادہ آلود ہو۔
۹۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے نواسوں شاہ اسحاق اور شاہ یعقوبؒ کا شمار تیرھویں صدی ہجری کے سربر آوردہ علمائے ہند میں ہوتا ہے۔ یہ دونوں بھائی ۱۲۵۶ھ میں ترک وطن کر کے حجاز میں جا بسے تھے۔ شاہ غوث علیؒ حج کے لیے مکہ معظمہ گئے تو ان دونوں بزرگوں سے خوب صحبتیں رہیں۔ شاہ اسحاقؒحدیث میں شاہ غوث علیؒ کے استاد تھے اس لیے شاہ صاحب موصوف فرطِ ادب سے ان کے سامنے زیادہ گفتگو نہیں کرتے تھے البتہ شاہ یعقوبؒ سے بے تکلفی تھی، ان سے اپنی ملاقاتوں کا حال اس طرح بیان کیا ہے۔ ایک دن ہم نے مولوی محمد یعقوب صاحب سے دریافت کیا کہ ذاتِ باری کا ظہور کیا عرب و ہندوستان میں کچھ جدا جدا ہے؟ کہا: ’’نہیں‘‘۔ ہم نے کہا کہ پھر آپ ہندوستان سے کیوں بھاگے؟ فرمایا: ’’کہ بھائی ہم محمدی بھی تو ہیں‘‘۔
۱۰۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ جس زمانہ میں مولوی فضلِ حق سررشتہ دار تھے تو ہر جمعہ کو خضاب کیا کرتے تھے۔ مولوی نور الحسن کاندھلوی نے، جو مولوی صاحب سے پڑھتے تھے، عرض کیا جناب یہ خضاب کرنا آپ کو زیبا نہیں کیونکہ آپ عالم ہیں۔ مولوی صاحب سن کر چپ ہو رہے، جب مولوی نور الحسن صاحب کئی مرتبہ زبان پر لائے تو ایک دن مولوی صاحب نے جواب دیا کہ سنو صاحب کسی نے وعظ کہہ کر دنیا کمائی، کسی نے درس و تدریس کر کے، کسی نے تعویذ گنڈا کر کے، کسی نے پیری مریدی کی آڑ میں، ہم نے منہ کالا کر کے دنیا حاصل کی، غرض سب کی دنیا ہے اس سے نجات تو جب ممکن ہے کہ ایسا مردِ خدا مل جائے جو ایک نظر میں بیڑا پار کر دے۔
۱۱۔ ایک روز ایک نواب کا معتمد جناب و قبلہ (شاہ غوث علی) کی خدمت میں حاضر ہوا اور نواب کی طرف سے عرض کیا کہ اس عاجز کے لیے وقتِ خاص میں دعا فرمایے تاکہ اپنے مقصد کو پہنچوں۔ حضرت نے اس کے جواب میں ایک نقل بیان فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ خان صاحب کسی فقیر کی تلاش کیجیے شاید کوئی خدا کا بندہ ایسا بھی نکل آوے اور ہمارے نزدیک تو خاص وقت میں اگر نواب صاحب یاد آئیں تو اس خاص وقت پر بھی تین حرف ہیں۔
۱۲۔ ایک روز غلامی شاہ (خادم) نے چائے تیار کر کے پیش کی۔ حضرت نے تو کسی سبب سے نہ پی مگر اور لوگوں نے پی تو دست آنے لگے۔ دوسرے دن یہ حال معلوم ہوا تو آپ نے غلامی شاہ سے پوچھا کہ چائے کا نسخہ تو خوب ایجاد کیا، بھلا اس میں کیا کیا چیزیں ڈالیں۔ شاہ جی نے خوش ہو کر عرض کیا کہ حضرت اس میں کچھ سونف، کچھ گاؤ زبان اور کچھ سناء اور اڑھائی پتی نیم کی تھی۔ آپ نے فرمایا: سبحان اﷲ نسخہ تو بہت عمدہ ہے البتہ جمال گوٹہ کی کسر باقی رہ گئی۔ پھر آپ نے سب لوگوں کو منع فرمایا کہ خبردار ان کی بنائی ہوئی چائے کوئی نہ پینا۔
۱۳۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ زینت المساجد میں ایک روز کمبل پوش (شاہ صاحب کے ایک صاحب طریقت رفیق) سے مولوی محبوب علی صاحب کی گفتگو ہونے لگی۔ اس آیت کے معنی میں فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہَذا الْبَیْت‘‘ مولوی صاحب تو کہتے تھے کہ بیت سے مراد کعبہ اور کمبل پوش کا قول تھا کہ بیت سے عبارت قلب انسانی ہے، یہاں تک بحث ہوئی کہ نوبت بجدال پہنچی، اتنے میں مولوی فضل حق صاحب تشریف لائے۔ دونوں صاحبوں کی تقریر سنی اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ آپ خاموش بیٹھے سنتے ہیں فیصلہ کیوں نہیں کر دیتے۔ میں نے کہا کہ مولوی صاحب مجھ کو ایک نقل یاد آئی ہے، میرٹھ میں لالہ بانکے رائے (میرٹھ کے ایک وکیل جو فقرا سے عقیدت رکھتے تھے) کے مکان میں مقیم تھا، جہاں ایک چھوٹا سا پیپل کا درخت لگا ہوا تھا۔ اتفاقاً ایک روز گائے نے اس درخت پر منہ ڈالا میں نے کہا کہ اسے ہٹا کیوں نہیں دیتے تو لالہ بانکے رائے بولے کہ میاں چپکے رہو، یہ دونوں ہمارے دیوتا ہیں آپس میں خود ہی سمجھ لیں گے۔ دونوں کے درمیان ہم کیوں دخل دیں۔ سو جناب عالی یہ دونوں صاحب ہمارے دیوتا ہیں اور ان کا معاملہ خضر و موسی علیہ السلام کا ہے۔ شریعت و طریقت کی جنگ ہے۔ ابھی ہذا فراق بینی و بینک کہہ اٹھیں گے بھلا میں ان کو کیا سمجھاؤں
من ز قرآں مغز را برداشتم
استخواں پیش سگاں انداختم
(ترجمہ: میں نے قرآن سے مغز اٹھا لیا ہے اور ہڈیوں کو کتوں کے سامنے ڈال دیا ہے۔ )
آپ تشریف رکھیے اور ان دونوں صاحبوں کو لڑنے دیجیے۔ یہ بات سن کر دونوں صاحب ہنس پڑے اور کہا کہ واہ صاحب آپ نے ہم دونوں کو کتا بنا دیا۔
۱۴۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ ’’جب ہم دوبارہ پیرانِ کلیر میں گئے تو وہاں ایک بزرگ میاں غلام فرید صاحب جو بابا فرید گنج شکر کی اولاد میں سے تھے، مع چند مریدوں کے تشریف لائے ان کے ہر ایک مرید کو ایک ایک خدمت سپرد تھی۔ اتفاق سے جس مرید کو گھوڑے کی گھاس لانے کا کام تھا، اس کو بخار اس شدت سے آیا کہ بیچارہ گھاس نہ لا سکا اس پر پیر جی کا غضب نازل ہوا، فرمایا کہ جا ہم نے تجھے مردود کیا اور چودہ خانوادوں سے باہر نکال دیا۔ یہ سن کر اس بیچارہ کا دم نکل گیا، بہت رویا پیٹا، توبہ استغفار کی مگر پیر جی نے ایک نہ مانی، آخر وہ روتا ہوا ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت آج بڑا غضب ہوا، میرا کہیں ٹھکانا نہیں رہا، دونوں جہاں سے راندہ گیا۔ ہم نے کہا کہ ابھی اس جہان میں تو موجود معلوم ہوتا ہے، بات تو کہہ۔ اس نے رو رو کر اپنا تمام قصہ بیان کیا، ہم نے کہا کہ ارے بے وقوف روتا کیوں ہے تیرے پیر جی کو صرف چودہ خاندان یاد تھے ہم کو چھتیس یاد ہیں، آ تجھ کو پندرھویں خانوادے میں بھرتی کر لیں، تو گھبرا مت لیکن تو جا اور اپنے پیر جی سے پہلے یہ بات دریافت فرما کہ حضرت جب آپ نے مجھ کو چودہ خانوادوں میں داخل کیا تھا تو میں کہاں کا بادشاہ یا وزیر یا ولی کامل ہو گیا تھا، اب جو آپ نے نکال دیا تو میرے پاس سے کیا چھن گیا میں تو جیسا جب تھا ویسا ہی اب ہوں البتہ آپ کے نکالنے سے ایک فائدہ ہوا کہ گھاس کے بوجھ سے سبکدوش ہو گیا۔ اگر تجھ سے پوچھیں کہ یہ بات تجھ کو کہاں سے سوجھی تو کہنا، میں پندرھویں خانوادے میں داخل ہو گیا ہوں، یہ اس کی بسم اﷲ ہے۔ غرض اس نے جا کر اسی طرح بیان کیا یہ سن کر ان کے مریدوں کے کان کھڑے ہوئے اور پیر جی سے کہنے لگے کہ حضرت یہ خاندان بہت ہی اچھا معلوم ہوتا ہے، اوّل تو گھوڑے کی گھاس سے چھوٹا دوسرے ہم سے ایک خاندان آگے بڑھ گیا، اگر آپ کو آگے کے خاندان میں دسترس ہوتی تو ہم بھی پندرھویں خاندان میں داخل ہو جاتے۔ پھر تو پیر جی کے چھکے چھُٹے اور گھبرا کر بولے کہ یہ کہیں میاں غوث علی شاہ کے پاس تو نہیں جا پہنچا، یہ سارا فساد ان کا ہی معلوم ہوتا ہے ورنہ اور کسی کو یہ باتیں کیا سوجھیں، الحاصل وہ ہمارے پاس دوڑے آئے اور گلہ کرنے لگے کہ واہ صاحب تم نے ہمارے سارے مرید فرنٹ کر دیے۔ میں نے کہا کہ میاں صاحب ذرا غور کرو وہ بیچارے گھر بار چھوڑ کر آ پ کے پاس خدا کا نام سیکھنے آئے ہیں یا گھوڑے کی گھاس کھودنے۔ اگر تم کو نامِ خدا آتا ہو تو بتلا کر رخصت کر دو ورنہ جواب صاف دے دو، بیچارے تو تمھاری خدمت گزاری کریں اور تم کسی طرح ان پر شفقت نہ کرو یہ کیا آدمیت ہے‘‘۔
۱۵۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ جب ہم کرت پور میں گئے تو دیکھا کہ صبحدم آ کر سجادہ نشین صاحب نے حضرت احمد شاہ کے مزار کا طواف و سجدہ کیا، ہم نے کہا کہ صاحب طواف و سجدہ تو یہاں ادا ہوا اگر غوث الاعظم کے مزار پر آپ ہوں تو وہاں کیا کیجیے گا اور حضرت رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے کیا باقی رکھا اور خدا سے تو کچھ مطلب ہی نہیں جس کے لیے کچھ ادب و تعظیم درکار ہو۔ وہ خفا ہو گئے اور بولے کہ میاں طالب علم حجتی ہوتے ہیں اسی واسطے ان کو فیض نہیں ہوتا، ہم نے کہا کہ صاحب ایسے فیض کو ہمارا سلام ہے کہ جس کے لیے خدا کو چھوڑ کر دوسرے کے سامنے سر جھکائیں اور توحید سے نکل کر شرک میں مبتلا ہوں۔
۱۶۔ ایک روز کسی شخص کا خط آیا جس میں قدم بوسی کا اشتیاق، ارادت کا اظہار اور بیعت کی درخواست تھی۔ اس کے جواب میں ارشاد ہوا کہ ان کو لکھ دو کہ پہلے ہم کو اپنے گھر کے کاروبار کی ایک فہرست بنا کر بھیج دیں یعنی بعد مرید ہونے کے جو جو کام ہم سے لینے ہوں ابھی سے ان کے لیے تیار ہو رہیں کیونکہ دنیا داروں کے پیر تو اسی مصرف کے ہوتے ہیں کہ ان کی نوکری چاکری کے لیے بال بچوں کے لیے صحت و تندرستی کے لیے دعا کریں۔
۱۷۔ ایک روز ارشاد ہوا کہ ایک دن ایک مولوی صاحب اپنے بیٹے کو مارتے ہوئے ہمارے پاس لائے اور کہنے لگے کہ حضرت اس اُلُّو کے پٹھے کو آپ سمجھائیں، یہ پڑھتا نہیں۔ ہم نے کہا مولوی صاحب آپ تشریف رکھیں، الو، پٹھے دونوں کو ہم سمجھائے دیتے ہیں۔ حاضرین ہنسنے لگے مگر مولوی صاحب غصہ کی حالت میں کچھ نہ سمجھے۔
اوپر کے اقتباسات سے شاہ غوث علیؒ کے رجحان طبع، شگفتہ مزاجی اور ذہانت کا کسی قدر اندازہ کیا جا سکتا ہے لیکن اردو ادب میں تذکرۂ غوثیہ کا صحیح مقام متعین کرنے کے لیے اصل کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ شاہ غوث علی کے افکار و نظریات سے کسی کو لاکھ اختلاف ہو، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ انیسویں صدی عیسوی کے ہندوستان کی ایک نہایت دلچسپ اور قد آور شخصیت تھے اور تذکرۂ غوثیہ میں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور خیالات کی بڑی بے ساختگی سے عکاسی کی گئی ہے۔
شاہ صاحبؒ کی خدمت میں غریب، امیر، عالم، جاہل ہر طبقے کے لوگ حاضر ہوتے رہتے۔ کوئی زیارت اور ملاقات کے لیے، کوئی حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کے لیے، کوئی دعا کی خاطر یا تعویذ لینے کے لیے، کوئی وظیفہ پوچھنے کے لیے، غرض ہر قسم کے غرض مندوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ شاہ صاحب کسی کو مایوس نہیں لوٹاتے تھے۔ بہت کم ایسے لوگ ایسے ہوتے تھے جو ان کی مجلس سے مطمئن ہو کر نہ اٹھتے ہوں اگر کوئی پریشان حال شخص کسی سبب سے اپنی کیفیت یا اپنا حالِ دل بیان نہ کر سکتا تو اس کو بھی کوئی ایسا عمل بتا دیتے جس پر عمل کرنے سے اﷲ کے فضل و کرم سے اس کی مصیبت دور ہونے کی صورت پیدا ہو سکتی تھی۔ ایک دفعہ ایک مصیبت زدہ شخص شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ شاہ صاحبؒ نے اس سے پوچھا: ’’بھائی کیا بات ہے، آپ کچھ پریشان نظر آتے ہیں؟ ‘‘
اس نے کہا: ’’جی ہاں! میں بہت پریشان ہوں مگر افسوس کہ اس کا سبب بتا نہیں سکتا۔‘‘
شاہ صاحبؒ نے فرمایا: ’’اچھا یہ بتائیے کہ میں آپ کے حق میں کیا دعا کروں؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’جناب میں اسے بھی بیا ن نہیں کر سکتا‘‘۔
شاہ صاحبؒ کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا:
’’میں آپ کو ایک عمل بتاتا ہوں۔ یہ عمل کیجیے اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوا تو آپ کی ہر مصیبت دور ہو جائے گی۔ آپ ہر روز عشاء کی نماز کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھیں۔ اس کے بعد اکیاون بار یہ آیت پڑھیں۔ لَاْ اِلٰہَ اِلَّاْ اَنْتَ سُبْحانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔
اس کے بعد گیارہ مرتبہ پھر درود شریف پڑھیں اور جس مصیبت میں آپ مبتلا ہیں، اس سے نجات حاصل کرنے کی دعا مانگیں، اس عمل کو چند دن جاری رکھیں، اﷲ نے چاہا تو آپ کی مصیبت دور ہو جائے گی۔ وہ شخص چلا گیا۔ چند دن کے بعد وہ خوش خوش دوبارہ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتایا کہ آپ نے جو کچھ فرمایا تھا، میں نے اسی کے مطابق عمل کیا، اس کی برکت سے اﷲ تعالیٰ نے میری مصیبت دور کر دی اور میری پریشانی جاتی رہی۔