ترجمہ: مولوی محمد نعمان سنجرانی
٭ حمّاد بن سَلَمہ سے روایت ہے، کہتے ہیں ہمیں علی بن زید نے حضرت سعید بن المُسیِّب رحمہ اﷲ سے روایت کی کہ انھوں نے فرمایا: حضرت صہیب رضی اﷲ عنہ جب ہجرت کے لیے مدینہ کی طرف چلے تو کفار کی ایک جماعت آپ کا پیچھا کرنے لگی۔ آپ اپنی سواری سے اُترے، اپنے ترکش کے سب تیروں کو بکھیر دیا اور فرمانے لگے: تم جانتے ہو کہ میں
تمھارا بہترین تیر انداز ہوں۔ اﷲ کی قسم! تم اُس وقت تک مجھے نہیں پکڑ سکتے جب تک میں اپنے سارے تیر چلا نہ لوں اور اُس کے بعد اپنی تلوار کے ساتھ تمھارا مقابلہ کروں گا۔ لیکن اگر تم چاہو تو میرا راستہ چھوڑ دو اور اس کے معاوضے میں اپنا مال مَیں تمھارے حوالے کر دوں؟ وہ کہنے لگے: ہم یہ بات مانتے ہیں۔ جب وہ نبی پاک ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابو یحیٰ کی بیع بہت منافع والی ہے۔ اور قرآنِ مجید کی آیت نازل ہوئی: وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ (لوگوں میں ایک شخص ایسا ہے جو اپنی جان کو اﷲ کی رضا کی تلاش میں بیچتا ہے)۔(۱)
٭ واقدی سے روایت ہے،کہتے ہیں کہ ہمیں عبداﷲ بن نافع نے اپنے والد نافع سے اور انھوں نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت عمّار رضی اﷲ عنہ کو جنگِ یمامہ کے دن ایک چٹان پر دیکھا، وہ جنگ میں کھل کر سامنے آ گئے تھے اور پکار کر کہتے تھے: اے مسلمانوں کی جماعت! کیا جنت سے بھاگو گے؟ میں عمّار بن یاسر ہوں، میری طرف آؤ۔ اور میں اُن کے کٹے ہوئے کان کی طرف دیکھ رہا تھا، جو پھڑپھڑا رہا تھا اور وہ انتہائی شدت کے ساتھ قتال فرما رہے تھے۔ (۲)
٭ ابن الجوزی حضرت سعد بن خَیثمہ رضی اﷲ عنہ کے حالاتِ زندگی میں لکھتے ہیں، ان کی کنیت ابو عبداﷲ ہے، انصار کے بارہ نقیبوں میں سے ایک ہیں۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں ستر انصاری صحابہ رضی اﷲ عنہم کے ساتھ شریک ہوئے۔ جب رسول اﷲ ﷺ نے لوگوں کو غزوۂ بدر کی دعوت دی تو اِن کے والد حضرت خَیثمہ رضی اﷲ عنہ کہنے لگے: ہم دونوں میں سے کسی ایک کا گھر رکنا ضروری ہے، تم ایثار کرو، مجھے جہاد میں شریک ہونے دو اور خود اپنے گھر کی عورتوں کے پاس ٹھہرو۔ حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے انکار کیا اور فرمایا: اگر جنت کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوتا تو میں خود کو چھوڑ کر آپ کو ترجیح دیتا، لیکن مجھے اس سفر میں شہادت کی اُمید ہے۔ دونوں نے قرعہ ڈالا تو حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کے نام کا قرعہ نکلا۔ آپ رضی اﷲ عنہ نکلے اور بدر میں شہید ہو گئے۔ ہمیں اس بات کی خبر ابو بکر بن ابی طاہر نے دی، وہ کہتے تھے ہمیں جوہری نے بتایا، وہ کہتے تھے ہمیں ابن حیْوَۃ نے بتایا، وہ کہتے تھے ہمیں ابنِ معروف نے بتایا، وہ کہتے تھے ہمیں ابن الفہم نے بتایا اور انھوں نے کہا: ہمیں محمد بن سعد رحمہ اﷲ و رضی عنہ نے بتایا۔ اﷲ ہمارا حشر ان کے اور ان کے ساتھیوں کے زمرے میں فرمائے۔ (۳)
٭ ثابت البُنانی ابن ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ ابن امّ مکتوم رضی اﷲ عنہ نے دعا کی۔ اے رب! میرے معذور ہونے کے بارے میں آیت نازل فرمائیے۔ چنانچہ غیرُ اولی الضرر (وہ لوگ جو عذر والے ہوں اُن کے لیے جہاد بیٹھا رہنا گناہ نہیں) کے الفاظ نازل ہوئے۔ بعد میں حضرت جہاد میں شرکت فرماتے تھے اور کہتے تھے: جھنڈا میرے حوالے کر دو، میں نابینا ہوں فرار ہو ہی نہیں سکتا اور مجھے دونوں صفوں کے درمیان کھڑا کر دو۔ (۴)
٭ حمّاد بن سلَمہ کہتے ہیں، ہمیں ثابت نے بتایاکہ حضرت صِلہ اپنے ایک بیٹے کے ساتھ محاذِ جنگ پر تھے۔ اُسے فرمانے لگے: آگے نکل کر حملہ کر، میں تجھے آزمانا چاہتا ہوں۔ اُن کے بیٹے نے حملہ کیا اور شہید ہونے تک جنگ کرتا رہا۔ پھر حضرت صِلہ آگے بڑھے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ عورتیں اُن کی بیوی حضرت معاذہ کے پاس اکٹھی ہوئیں تو انھوں نے فرمایا: اگر تم مبارک باد دینے کے لیے آئی ہو تو مرحبا اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کام کے لیے آئی ہو تو واپس چلی جاؤ۔(۵)
٭ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ عنہماسے روایت ہے، کہتی ہیں: جب نبی کریم ﷺ مکہ سے رخصت ہوئے تو حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ اپنے ساتھ اپنا سارا مال لے گئے،جو پانچ یا چھے ہزار تھا۔ میرے پاس میرے دادا حضرت ابو قُحافہ آئے، وہ نابینا ہو چکے تھے(ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا)۔ کہنے لگے: اس شخص نے تمھیں اپنا بھی دکھ دیا ہے اور اپنے مال کا بھی۔ میں نے کہا: ایسا تو بالکل نہیں، بلکہ وہ ہمارے لیے بہت زیادہ بھلائی چھوڑ کر گئے ہیں۔ میں نے کچھ کنکریاں اکٹھی کیں، اُنھیں گھر کے ایک طاقچے میں رکھ کر ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ پھر اُن کا ہاتھ پکڑکر اُس کپڑے پر رکھا اور کہا: وہ ہمارے لیے یہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ کہنے لگے: اگر وہ تمھارے پاس یہ چھوڑ کر گیا ہے تو پھر کچھ مضائقہ نہیں۔ (۶)
٭ عاصم بن بہدلہ ابو وائل سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: جب حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کا آخری وقت آیا تو فرمانے لگے: میں نے شہادت کو اُس کے سب ممکنہ ٹھکانوں پر ڈھونڈا لیکن میرا مقدر یہی تھا کہ میں بستر پر مروں۔ توحید کے بعد اپنے سب اعمال میں مجھے صرف اُس رات سے اُمید ہے جس میں مَیں ڈھال لگائے ہوئے کھلے آسمان تلے ہوں اور ہم کفار پر حملہ آور ہونے کے لیے صبح کا انتظار کر رہے ہو۔ پھر فرمانے لگے: اگر میں مر جاؤں تو میرے اسلحے اور گھوڑے کو اﷲ کے راستے کا سامان بنانا(یعنی جہاد کے استعمال ہی میں لانا)۔ جب آپ کا انتقال ہو گیا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ آپ کے جنازے میں شامل ہوئے۔ اُس موقع پر یہ ارشاد فرمایا: آلِ ولید خالد کی موت پر جتنے بھی آنسو بہائیں اُن کو حق پہنچتا ہے البتہ اونچی آواز اور گریبان چاک نہ کریں۔( ۷)
٭ حضرت ابن عُیینہ سے روایت ہے کہ ابن ابی خالد آلِ خالد بن ولید کے ایک غلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ایسی رات جس میں مجھے ایسی دلہن دی جائے جس سے مجھے محبت ہو، میں اُس پر ایسی رات کو ترجیح دوں گا، جس میں سخت سردی ہو، بہت پالا پڑتا ہو، ہم ایک لشکر میں ہوں اور میں صبح سویرے دشمن پر جا پڑوں۔(۸)
٭ حماد بن سَلَمہ سے روایت ہے کہ ثابت نے حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت کی کہ غزوۂ حُنین والے دن حضرت اُمِّ سُلَیم رضی اﷲ عنہا نے ایک خنجر پکڑ رکھا تھا۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲﷺ! یہ اُمّ سُلَیم ہیں جنھوں نے خنجر اٹھا رکھا ہے؟ حضرت اُمّ سُلَیم کہنے لگیں: یا رسول اﷲ ﷺ اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اس کے ساتھ اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔(۹)
٭ خارجہ بن زید بن ثابت اپنے والد حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: اُحد کے دن مجھے نبی کریم ﷺ نے سعد بن ربیع رضی اﷲ عنہ کو ڈھونڈنے کے لیے بھیجا اور مجھے فرمایا کہ اگر تم اُنھیں دیکھو تو میری طرف سے سلام پہنچانا اور کہنا کہ رسول اﷲ ﷺ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیسا محسوس کرتے ہو؟ کہتے ہیں میں شہیدوں کی لاشوں کے درمیان گھوما، میں نے اُنھیں اِس حال میں پایا کہ اُن کی آخری سانسیں تھیں اور اُن کے جسم پر ستر کے قریب زخموں کے نشان تھے، میں نے اُنھیں پیغام دیا۔ فرمانے لگے: رسول اﷲ ﷺ اور تم پر بھی سلام ہو! اُن سے کہنا، یا رسول اﷲﷺ! میں جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں اور میری قوم کے انصار سے کہنا، اگر تم میں ایک آنکھ جھپکنے کی طاقت رکھتی ہو اور کفار رسول اﷲ ﷺ تک پہنچ جائیں تو اﷲ کے ہاں تمھارا کوئی عذر نہیں سنا جائے گا۔ زید کہتے ہیں: یہ کہہ کر اُن کی روح پرواز کر گئی۔ اﷲ اُن سے راضی ہو۔ (۱۰)
٭ ابو رافع سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے روم کی طرف ایک لشکر بھیجا۔ رومیوں نے حضرت عبداﷲ بن حُذافہ رضی اﷲ عنہ کو گرفتار کر لیا اور اُنھیں اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے۔ اُسے بتایا کہ یہ محمد ﷺ کے صحابہ میں سے ہے۔ بادشاہ کہنے لگا: اگر میں تمھیں اپنا آدھا ملک دے دوں تو کیا تم عیسائی ہو جاؤ گے؟ حضرت نے فرمایا: اگر تم مجھے اپنا سارا ملک، اپنی ملکیت کا سارا مال اور عرب کا پورا ملک بھی دے دو، تو بھی میں پلک جھپکنے کی مقدار کے لیے محمد ﷺ کے دین سے نہیں ہٹوں گا۔ اُس نے کہا: پھر میں تمھیں قتل کر دوں گا۔ فرمایا: کر دو۔ اُس نے حکم دیا انھیں صلیب پر چڑھا دیا گیا، اُس نے تیراندازوں سے کہا کہ اِن کے بدن کے پاس پاس نشانہ لے کر تیر مارو۔ اس حال میں وہ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کو عیسائی ہونے کی پیشکش کرتا جاتا تھا اور آپ رضی اﷲ عنہ انکار فرماتے تھے۔ پھر اُس نے آپ کو صلیب سے اتارنے کا حکم دیا اور ایک دیگ منگوائی، اُس میں پانی اُبالا یہاں تک کہ وہ کھولنے لگا۔ پھر دو مسلمان قیدی طلب کیے اور ایک کو اُس میں ڈالنے کا حکم دیا، اس حال میں وہ حضرت پر عیسائیت پیش کرتا جاتا تھا اور حضرت انکار فرماتے تھے۔ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ رونے لگے: بادشاہ سے کہا گیا کہ وہ رو رہے ہیں۔ وہ سمجھا کہ ڈر گئے ہیں۔ کہنے لگا: اُنھیں واپس لاؤ، (ان سے پوچھا کہ) تم کیوں روتے ہو؟ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ فرمایا: میں سوچتا ہوں کہ یہ تو صرف ایک جان ہے جس کو اس دیگ میں ڈالا جائے گا، تو ایک لمحے میں نکل جائے گی۔ میری تو خواہش تھی کہ میرے سر کے بالوں کے برابر زندگیاں ہوتیں اور وہ اﷲ کی خاطر آگ میں ڈال دی جاتیں۔ وہ طاغوت اِن سے کہنے لگا: اگر میں تمھیں جانے کی اجازت دے دوں تو کیا تم میرے سر کو بوسہ دو گے؟ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ نے فرمایا: میرے ساتھ باقی سب مسلمان قیدیوں کو رہا کرو گے؟ اُس نے کہا: ہاں۔ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے اُس کے سر کو بوسہ دیا اور سب مسلمان قیدیوں کو لے کر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس تشریف لے آئے۔ جب اُنھیں اپنا قصہ سنایا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرمانے لگے: ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ابنِ حُذافہ کا سر چومے اور پہل میں کرتا ہوں، پھر اُن کے سر پر بوسہ دیا۔ (۱۱)
٭ حماد بن سَلَمہ سے روایت ہے، وہ ثابت اور علی بن زید سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ عنہ نے قرآنِ مجید کی آیت اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا (چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل اﷲ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلو۔سورۂ توبہ، آیت: ۴۱) پڑھی۔ فرمانے لگے: اﷲ نے ہمیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا، یہ حکم ہم سب کو بوڑھوں اور جوانوں کو دیا گیا ہے۔ لہٰذا میرا سامانِ سفر تیار کرو، اُن کے بیٹے کہنے لگے: اﷲ آپ پر رحم فرمائے! آپ نے رسول اﷲ ﷺ اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما کے زمانے میں خوب جہاد کیا، اب ہم آپ کی طرف سے جہاد کرتے ہیں۔ لیکن حضرت انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں: حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ عنہ نے بحری سفر کیا اور دورانِ سفر فوت ہو گئے۔ سات دن تک اُن کی تدفین کے لیے کوئی خشکی نہ ملی۔پھر جب اُن کو دفن کیا گیا، اُس وقت(جسم مبارک) تک اُن کی حالت نہ بدلی تھی۔(۱۲)
٭ حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: مسلمانوں کا ایک لشکر جہاد کے لیے نکلا، جس کی امارت میرے پاس تھی۔ یہاں تک کہ اسکندریہ جا پہنچے، وہاں کا بادشاہ کہنے لگا: میرے پاس ایک آدمی بھیجو، میں اُس سے بات چیت کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے سوچا: مجھے ہی جانا چاہیے۔ سو میں اپنا ترجمان لے کر گیا اور اُس کے پاس بھی ایک ترجمان تھا۔ ہمارے لیے دو منبر بچھائے گئے۔ اُس نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: ہم کیکر کے کانٹوں اور پتوں پر گزارا کرنے والے عرب لوگ ہیں، ہم بیت اﷲ والے لوگ ہیں، ہم سب لوگوں سے تنگ زمین پر سب سے بری زندگی گزارا کرتے تھے، مردار اور خون کھاتے تھے اور ایک دوسرے پر حملے کرتے رہتے تھے۔ غرضیکہ ہم انسانوں میں سے بدترین زندگی گزار رہے تھے۔ یہاں تک ہم میں ایک آدمی نکلے جو اُس دن ہمیں دنیوی اعتبارسے سب زیادہ قوی یا سب سے زیادہ مال والے نہ تھے۔ انھوں نے کہا: میں تمھاری طرف اﷲ کا پیغمبر ہوں۔ وہ ہمیں ایسی باتوں کا حکم کرتے تھے جن کو ہم نہیں جانتے تھے اور جو ہماری زندگی کے معمولات تھے اُن سے منع فرماتے تھے۔ ہم نے اُن سے نفرت کی، اُن کو جھٹلایا، اُن کی دعوت کو قبول نہ کیا، یہاں تک اُن کے پاس ہمارے سوا ایک قوم کے لوگ آئے اور کہا: ہم آپ کی تصدیق کرتے ہیں اور جو آپ سے جنگ کرے گا ہم اُس سے جنگ کریں گے، تو یہ اُن کے پاس چلے گئے۔ اِس پر ہم اُن پر حملہ آور ہوئے لیکن وہ ہم پر غالب آ گئے، پھر اُن کے ارد گرد کے عربوں سے اُن کی جنگیں ہوئیں تو یہ اُن سب پر بھی غالب آ گئے۔ میں جن عربوں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آیا ہوں اگر اُنھیں تمھارے اچھے حالات کا پتہ چلے تو ہر ایک تم پر حملہ آور ہو جائے(یعنی یہ آخری جملہ ڈرانے کے لیے کہا)۔ اس پر وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا: تمھارے رسول ﷺ نے سچ کہا۔ ہمارے پاس بھی اسی طرح اﷲ کے رسول آئے تھے، ایک زمانہ تھا کہ ہم رسولوں کی تعلیمات پر قائم تھے۔ پھر ہم میں ایسے بادشاہوں کا غلبہ ہونے لگا جنھوں نے اپنی خواہشوں کو رواج دیا اور انبیاء علیہم السلام کی سنت کو چھوڑ دیا۔ پس اگر تم اپنے نبی کی سنت سے جڑو رہو گے تو تم سے جنگ کرنے والا ہر دشمن شکست کھائے گا اور اگر تم بھی ہماری طرح اپنے نبی ﷺکی سنت کو چھوڑ دو گے تو تم تو تعداد میں بھی ہم سے زیادہ نہیں، قوت میں بھی ہم سے بڑھ کر نہیں۔ (۱۳)
٭ حضرت ابو عقیل بن عبدالرحمٰن بن ثعلبہ رضی اﷲ عنہ بدری صحابی ہیں،جنھوں نے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ سب غزوات میں شرکت کی۔ اُن کے حالاتِ زندگی میں امام ابن جوزی جعفر بن عبداﷲ بن اسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جنگِ یمامہ کے دن، جب دونوں لشکر صف آرا ہوئے تو سب سے پہلے زخمی ہونے والے شخص یہی حضرت ابو عقیل رضی اﷲ عنہ تھے۔ جنھیں ایک تیر دونوں کندھوں اور دل کے مابین آ کر لگا تھا، البتہ یہ زخم مہلک نہ تھا۔ چنانچہ تیر نکالا گیا مگر زخم کے اثر سے دن کے شروع میں ہی اُن کا بایاں پہلو کمزور ہو گیا اور اُنھیں اُٹھا کر پڑاؤ میں پہنچا دیا گیا۔ جب جنگ بھڑک اُٹھی اور ایک بار مسلمانوں کے قدم اُکھڑے اور وہ اپنے پڑاؤ سے بھی پیچھے جانے لگے۔ حضرت ابو عقیل رضی اﷲ عنہ اُس وقت اپنے زخم کی وجہ سے کمزوری محسوس کر رہے تھے کہ ایسے میں حضرت معن بن عدی رضی اﷲ عنہ چلا کرپکارے: یا للأنصار! اﷲ اﷲ!! دشمن کی طرف پلٹو۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں: یہ سن کر حضرت عقیل رضی اﷲ عنہ اُٹھ کر اپنی قوم کی طرف جانے لگے۔ میں نے اُن سے عرض کیا: انھوں نے انصار کو پکارا ہے، ظاہر ہے اِس میں زخمی شامل نہیں۔ فرمانے لگے: میں انصاری ہوں، میں اُن کی اِس پکار پر جاؤں گا چاہے گھسٹتا ہوا ہی کیوں نہ جاؤں۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں: حضرت ابو عقیل رضی اﷲ عنہ نے پیٹی باندھی اور دائیں ہاتھ میں تلوار لے کر اعلان کرنے لگے: اے انصار کی قوم! حُنین کے دن کی طرح پلٹ کر حملہ کرو۔ اکٹھے ہو جاؤ !اﷲ تم سب پر رحم فرمائیں گے۔ آگے بڑھو کہ مسلمان دشمن تک نہیں پہنچ پا رہے۔ اس پر انصار نے ایسا جم کر حملہ کیا کہ دشمن پسپا ہو کر ایک (اونچی دیواروں والے) باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ کہتے ہیں: وہاں دونوں لشکروں میں قریبی ٹکراؤ ہوا اور ہمارے اور اُن کے درمیان تلواریں پھڑپھڑانے لگیں۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں: اﷲ کے دشمن مسیلمہ کے قتل کے بعد میں نے حضرت ابو عقیل رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ اُن کا زخمی ہاتھ کندھے سے کٹ کر زمین پر گرا ہوا تھا اور اُن کے مبارک جسم پر چودہ زخم تھے، جن میں سے ہر ایک مہلک تھا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں: میں اُن کے پاس کھڑا ہوا اور وہ پڑے ہوئے آخری سانسیں لے رہے تھے۔ میں نے کہا: اے ابو عقیل! ٹوٹتے لفظوں میں فرمانے لگے: لبیک،کس کی فتح ہوئی؟ میں نے کہا: خوشخبری ہے اﷲ کا دشمن مارا گیا۔ انھوں نے اپنی انگلی آسمان کی طرف بلند کی، اﷲ کی حمد بیان کی اور فوت ہو گئے۔ اﷲ اُن پر رحمت فرمائے۔ ابن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں: جب میں واپس آیا تو میں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو اُن کا پورا قصہ سنایا۔ فرمانے لگے: اﷲ اُن پر رحم فرمائیں، وہ ہمیشہ سے شہادت کے طالب اور اُس کے لیے کوشش کرنے والے تھے اور میرے علم کے مطابق وہ بلا شبہ ہمارے نبی ﷺ کے بہترین ساتھیوں اور پرانے اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ اﷲ اُن سے راضی ہو۔(۱۴)
٭ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اﷲ عنہ کے حالاتِ زندگی میں محمد بن سعد سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ واثلہ رسول اﷲ ﷺ کے پاس آئے اور اُن کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ نبی پاک ﷺ جب نماز سے فارغ ہو جاتے تھے تو اپنے ساتھیوں کے حالات میں غور فرماتے تھے۔ جب آپ ﷺ واثلہ رضی اﷲ عنہ کے قریب ہوئے، فرمایا: تم کون ہو؟ انھوں نے بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیسے آئے ہو؟ کہنے لگے: بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: (ہر بات مانو گے؟) چاہے پسند ہو یا ناپسند۔ کہنے لگے: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جہاں تک طاقت ہو گی؟ (یعنی پوری طاقت کے ساتھ اطاعت کی کوشش کرو گے؟) واثلہ رضی اﷲ عنہ نے کہا: جی ہاں۔ پھر اسلام قبول کر لیا اور بیعت کر لی۔ (۱۵) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: طبقاتِ کبریٰ ابن سعد، ج: ۱، ص: ۲۳۲۔ اُس روز رسول اﷲ ﷺ غزوۂ تبوک کی تیاری فرما رہے تھے، حضرت واثلہ رضی اﷲ اپنے گھر گئے اور اپنے والد اسقع سے ملے، جب انھوں اِن کا حال دیکھا تو کہنے لگے: کر آئے ہو؟ اِنھوں نے کہا: جی ہاں۔ ان کے والد نے کہا: واﷲ! میں تم سے کبھی بات نہ کروں گا۔ یہ اپنے چچا کے پاس گئے اور انھیں سلام کیا، انھوں نے پوچھا کہ اسلام قبول کر لیا؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے باپ سے کم ڈانٹا اور کہنے لگے: ہم سے پہلے جلدی کرنا تمھارے لیے مناسب نہ تھا۔ حضرت واثلہ رضی اﷲ عنہ کی بہن نے جب یہ بات سنی تو آ کر انھیں مسلمانوں والا سلام کیا۔ واثلہ رضی اﷲ عنہ کہنے لگے: چھوٹی بہن یہ تم کہاں سے بولتی ہو؟ وہ کہنے لگیں: میں نے تمھاری اور چچا کی باتیں سنیں تو میں نے اسلام قبول کر لیا۔ حضرت واثلہ رضی اﷲ عنہ نے کہا: اپنے بھائی کو ایک مجاہد کا سامانِ سفر تیار کر دو، اس لیے کہ رسول اﷲ ﷺ کُوچ کرنے ہی والے ہیں۔ جب انھوں نے سامان تیار کر لیا تو رسول اﷲ ﷺ تبوک کے لیے روانہ ہو چکے تھے اور مدینہ طیبہ میں کچھ ہی لوگ پیچھے رہ گئے تھے۔ اُن میں سے بھی اکثر جانے ہی والے تھے۔ حضرت واثلہ رضی اﷲ عنہ بنی قَینُقاع کے بازار میں منادی کرنے لگے کہ مجھے کون شخص اپنے ساتھ سوار کرتا ہے کہ میں اُسے اپنا حصۂ غنیمت دوں گا۔ کہتے ہیں: میں پیادہ تھا سواری نہیں رکھتا تھا۔ کہتے ہیں مجھے کعب بن عُجرۃ رضی اﷲ عنہ نے بلایا، فرمانے لگے: آدھے دن اور آدھی رات میری سوار ی پر تم بیٹھنا اور خرچ ہم دونوں کا برابر ہو گا اور تمھارا حصہ میرا ہو گا۔ واثلہ رضی اﷲ عنہ نے کہا ٹھیک ہے۔ کہتے ہیں: اﷲ اُنھیں جزائے خیر عطا فرمائے، وہ خود سے زیادہ مجھے سوار رکھتے تھے، میرا سامان بھی اٹھاتے تھے اور میں اُن کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ یہاں تک کہ رسول اﷲ ﷺ کو خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کو دَومۃ الجُنْدُل کے حکمران اُکیدر بن عبدالملک کی طرف ایک چھوٹا لشکر دے کر بھیجا، میں بھی اُس لشکر میں تھا۔ جنگ کی نوبت نہ آئی اور ہمیں خاصا مالِ غنیمت حاصل ہوا، جسے حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے ہمارے درمیان تقسیم کر دیا اور میرے حصے میں چھے جوان اونٹنیاں آئیں۔ میں اُنھیں ہانکتا ہوا حضرت کعب بن عُجرۃ رضی اﷲ عنہ کے خیمے پر آیا اور کہا: اﷲ آپ پر رحم فرمائے۔ باہر نکلیے اور اپنی اونٹنیاں دیکھ کر قبضہ کر لیجیے۔ وہ مسکراتے ہوئے باہر نکلے اور فرمانے لگے: اﷲ تمھیں اس میں برکت دے، میں نے تمھیں اپنی سواری پر اس لیے نہیں بٹھایا تھا کہ میں تم سے کچھ لینا چاہتا تھا۔ (۱۶)
٭ عبداﷲ بن قیس سے روایت ہے کہ حضرت ابو اُمیّہ غِفاری نے فرمایا کہ ہم ایک جنگ میں تھے کہ دشمن کی آمد کا شور پڑا۔ لوگ ایک دوسرے کو پکار پکار کے محاذ کے خطِ اوّل کی طرف جانے لگے، میرے سامنے ایک آدمی تھاکہ میرے گھوڑے کا سر اُس کے گھوڑے کی سُرین کے پاس تھا۔ وہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا: اے نفس! فلاں جہاد کے موقع پر میں جانا چاہتا تھا، تونے کہا اپنے اہل و عیال کا خیال کر، میں نے تیری بات مانی اور واپس ہو گیا۔ اسی طرح فلاں فلاں موقع پر میں نے تیری بات مانی اور واپس ہو گیا، لیکن اﷲ کی قسم! آج میں تجھے اﷲ کے سامنے پیش کروں گا، چاہے تو مانے یا نہ مانے۔ ابو اُمیّہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا آج میں اِسے دیکھتا رہوں گا۔ میں نے اُسے دیکھا کہ جب مسلمانوں نے دشمن پر حملہ کیا تو وہ صفِ اوّل میں تھا، پھر دشمن مسلمانوں پر چڑھ دوڑا، مسلمان پیچھے ہٹنے لگے تو وہ اُن کے عقب سے لڑتے ہوئے اُن کی حفاظت کر رہا تھا۔ پھر مسلمانوں نے حملہ کیا تو وہ صفِ اوّل میں تھا، پھر دشمن نے حملہ کیا، مسلمان ہٹنے لگے تو وہ اُن کو بچانے والوں میں تھا۔ اﷲ کی قسم! سارا دن وہ یہی کچھ کرتا رہا، یہاں تک کہ میں نے اُسے گرے ہوئے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ اُس کے بدن اور سواری پر ساٹھ یا اِس سے بھی زیادہ نیزے کے زخم تھے۔ (۱۷)
﴿ حواشی ﴾
(۱)سیر اعلام النبلاء ، ج: ۲، ص: ۲۳، سورۂ بقرہ، آیت: ۲۰۷۔ یہ حدیث مستدرک حاکم، ج: ۳، ص: ۳۹۷، طبقات ابن سعد، ج: ۳، ص: ۱۷۱، معجم طبرانی، ج: ۸، ص: ۴۳، حلیۃ الاولیاء، ج:۱، ص: ۱۵۱۔۱۵۲ پر بھی موجود ہے۔ (۲) سیر اعلام النبلاء، ج: ۱، ص: ۴۲۲۔ (۳) صفۃ الصفوۃ، ج: ۱، ص: ۴۲۸۔ (۴)سیر اعلام النبلاء، ج: ۱، ص: ۳۶۴۔ (۵) سیر اعلام النبلاء، ج: ۳، ص: ۴۹۸۔ (۶) سیر اعلام النبلاء، ج: ۲، ص: ۲۹۰۔ ( ۷) سیر اعلام النبلاء، ج: ۱، ص: ۳۸۱۔ (۸) سیر اعلام النبلاء، ج: ۱، ص: ۳۷۵۔ (۹) سیر اعلام النبلاء، ج: ۲، ص: ۳۰۴۔ (۱۰) سیر اعلام النبلا، ج: ۱، ص: ۳۱۹۔ (۱۱) سیر اعلام النبلاء، ج: ۲، ص: ۱۴۔ (۱۲) سیر اعلام النبلاء، ج: ۲، ص: ۳۴۔ (۱۳) سیر اعلام النبلاء، ج: ۳، ص: ۷۰۔۷۱۔ (۱۴) صفۃ الصفوۃ، ج: ۱، ص: ۴۶۶۔ ۴۶۷۔(۱۵) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: طبقاتِ کبریٰ ابن سعد، ج: ۱، ص: ۲۳۲۔(۱۶) صفۃ الصفوۃ، ج: ۱، ص: ۶۷۴۔ ۶۷۶۔(۱۷)