مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اﷲ
یہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی صاحبزادی تھیں، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی اولاد میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی تنہا یہی حقیقی بہن تھیں، ان کی والدہ زینب بنت مظعون رضی اﷲ عنہا تھیں جو مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون کی بہن تھیں اور خود بھی صحابیہ تھیں۔ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کی ولادت بعثت نبوی سے ۵ سال پہلے ہوئی تھی، اس لحاظ سے یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے قریباً ۳۵ سال چھوٹی تھیں۔
ہجرت سے پہلے ان کا نکاح حضرت خنیسؓ بن حذافہ سہمی نامی ایک صحابی سے ہوا تھا اور ان ہی کے ساتھ انھوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی تھیں۔ حضرت خنیسؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے اور راجح قول کے مطابق بدر ہی میں ان کے کاری زخم آئے جن سے وہ جانبر نہیں ہوسکے تھے۔ اور کچھ ہی عرصہ کے بعد انہی زخموں کی وجہ سے شہادت پائی۔ حضرت خنیسؓ کے انتقال کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو اپنی بیٹی فکر ہوئی۔ یہ غزوۂ بدر کے بعد کا زمانہ ہے۔ اسی موقع پر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے حضرت حفصہؓ کے نکاح کی پیشکش کی۔ انھوں نے غور کرنے کے لیے کچھ وقت مانگا۔ اور چند دن کے بعد معذرت کر دی۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے یہی پیش کش کی، مگر انھوں نے خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے ان کی خاموشی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے زیادہ ناگوارگزری، اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ کے لیے پیام دیا اور جب یہ نکاح ہو گیا تب حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ سے ملے اور کہا کہ میرا خیال ہے کہ جب تم نے مجھ سے حفصہ سے نکاح کی خواہش کی تھی اور میں خاموش رہا تھا تو تم اس سے رنجیدہ ہوئے تھے۔ اصل میں قصہ یہ تھا کہ مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارادہ حفصہ کو اپنے نکاح میں لینے کا ہے۔ اور اسی وجہ سے میں نے تمھاری پیشکش کا کوئی جواب نہیں دیا تھا، میں یہ بھی مناسب نہیں سمجھتا تھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو بات ابھی راز میں رکھی تھی، میں اس کو ظاہر کر دوں۔ اور اگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارادہ میرے علم میں نہ ہوتا تو میں ضرور تمھاری پیش کش قبول کر لیتا۔ یہ ساری تفصیلات صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت حفصہؓ کے بھائی عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما ہی کی روایت سے موجود ہیں۔ حدیث کی ایک اور کتاب مسند ابو یعلیٰ میں اتنی بات کا اور اضافہ ہے کہ جب حضرت عثمانؓ نے حضرت عمرؓ کی پیش کش قبول کرنے سے معذرت ظاہر کر دی تو حضرت عمرؓ نے اس کا شکوہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کیا۔ جس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ حفصہ کو عثمانؓ سے بہتر شوہر دے گا اور عثمان کو تمھاری بیٹی حفصہ سے بہتر بیوی۔ چنانچہ کچھ ہی دنوں کے بعد حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا نکاح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی دوسری صاحبزادی حضرت اُمّ کلثوم رضی اﷲ عنہا سے ہوا اور حضرت حفصہ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف ملا۔
حضرت حفصہ کے مناقب میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے مشورہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے عہدِ خلافت میں قرآن حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں قرآن مجید کا جو نسخہ مکمل شکل میں مرتّب و مدوّن کیا گیا تھا، وہ نسخہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا ہی کی تحویل میں رہا اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے عہدِ خلافت میں جب ضرورت پڑی کہ قرآن مجید کے یکساں نسخے مرکز خلافت ہی سے مدون و مرتب کرا کے عالَم اسلام میں بھیجے جائیں تو حضرت حفصہ ؓ کے پاس محفوظ نسخہ کو بنیاد مانا گیا تھا۔ عہدِ فاروقی کے بعد اس نسخہ کی حفاظت کا شرف حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے حصہ میں آنا یقینا ان کی قابل ذکر فضیلت ہے۔ اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہکے عہدِخلافت میں ۴۵ھ میں انتقال فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر قریباً ۶۳ سال تھی۔ ان تعارفی و تمہیدی کلمات کے بعد وہ حدیث پڑھیے جس میں اﷲ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل کی زبانی حضرت حفصہ کے بارے میں ایک شہادت نقل ہوئی ہے اور اسی کی وجہ سے واقعہ یہ ہے کہ حضرت حفصہؓ کے فضائل میں تنہا یہی حدیث بالکل کافی ہے۔
عنْ قَیْسِ ابْنِ زَیْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ طَلَّقَہَا تَطْلِیْقَۃً ثُمَّ اِرْتَجَعَھَا وَ ذَالِکَ اَنَّ جِبْرَائِیْلَ قَالَ لَہٗ اِرْجِعْ حَفْصَۃً فَاَنِّہَا صَوَّامَۃٌ قَوَّامَۃٌ وَ اِنَّہَا زَوْجَتُکَ فِیْ الْجَنَّۃِ۔
ترجمہ: قیس ابن زید سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کو ایک مرتبہ طلاق دی پھر رجوع فرما لیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حفصہ رجعت کر لیں اور اس لیے کہ وہ بہت روزہ رکھنے والی اور بہت نماز پڑھنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ ہوں گی۔
اﷲ تعالیٰ کی یہاں حضرت حفصہؓ کی قدر و منزلت اور مقبولیت و محبوبیت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ حدیث بالکل کافی ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب کسی وجہ سے ان کو طلاق دے دی تو اﷲ نے نہ صرف حضرت جبرائیل کے ذریعے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو رجعت کرنے کا حکم بھیجا بلکہ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کی سیرت و کردار کے بارے میں یہ سند اور یہ شہادت بھی عطا فرمائی کہ یہ دن کوکثرت سے روزہ رکھتی ہیں اور رات کو اﷲ کی بارگار میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتی ہیں اور یہی نہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ خوشخبری بھی سنائی کہ جنت میں بھی ان کے لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف مقدر ہو چکا ہے۔
یہ بات تحقیقی طور پر نہیں معلوم ہو سکی کہ طلاق کے اس واقعہ کا اصل سبب کیا تھا۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ طلاق اور رجعت ان دونوں کے سلسلہ کا یہ واقعہ جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں پیش آیا اسی سے اُمّت کو طلاق اور رجعت کا صحیح اور مسنون طریقہ عملی طور پر معلوم ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کے پیش آنے کی ایک حکمت اسی طریقہ کی تعلیم ہو…… اس کے علاوہ یہ بھی اسی واقعہ کی برکت ہے کہ اس کی بدولت اﷲ تعالیٰ کی نگاہ میں حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کی بلندی مقام اور ان کے وہ خاص اوصاف جو اس کا سبب بنے اور پھر ان کا جنتی ہونا، یہ سب معلوم ہو گیا۔ رضی اﷲ عنہا وارضاہا۔
٭……٭……٭
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات میں سے کنہیں نےکس سبب سے طلاق مانگیں تھی اور کیا وہ طلاق ہوئی تھی?